This article has been translated from its original English version by SAV staff. To read the original version, click here
ساڑھے تین سال کے التوا کے بعد افغانستان کے پارلیمانی اور ضلعی کونسل کے انتخابات امسال ۲۰ اکتوبر کو منعقد ہوں گے۔ اگرچہ انتخابی عمل میں شفافیت کےلئے افغان پارلیمان کی مدت میں جون ۲۰۱۵ میں توسیع کی گئی تھی لیکن سوائے انتخابی سینٹرز کے جائزوں ، نئے انتخابی قوانین ، ووٹ دہندگان کی رجسٹریشن کے ریکارڈ کے علاوہ کوئی قابل ذکر اصلاحات نہیں کی گئی ہیں اور یہ سارا عمل بھی تنازعات سے بھرپور تھا۔ تاہم حکومت اب بھی انتخابات کرانے میں پر عزم ہے۔ صدر اشرف غنی نے ایک حکم نامہ جاری کرتے ہوئے تمام حکومتی ملازمین کو اپنی فیملیوں سمیت انتخابات میں رجسٹر ہونے کا کہا ہے۔ نیشنل یونٹی گورنمنٹ (این-یو-جی) نے کتابچوں کی تقسیم کرتے ہوئے عوام، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کو اس عمل میں حصہ لینے کا کہا ہے تاکہ آزادانہ الیکشن کمیشن (آئی-ای-سی) اپنا کام مناسب انداز میں ادا کر سکے۔
بظاہر حکومتی سنجیدگی کے باوجود ۱۴ ملین اہل ووٹرز میں سے ۱ ملین ووٹرز نے اپنا ووٹ رجسٹر کروایا۔ لوگوں کی اس قلیل مقدار میں رجسٹری کروانا داراصل عوامی جوش میں کمی، بڑی انتخابی تبدیلیوں کا نہ ہونا اور سکیورٹی مسائل کی وجہ سے تھی اور پھر اسی وجہ سے اکتوبر انتخابات میں ٹرن آؤٹ بھی کم رہنے کی توقع ہے۔ پارلیمانی اور ضلعی کونسل کے انتخابات میں فراڈ اور کم ٹرن آؤٹ افغانستان کی جمہوریت کےلئے اور ۲۰۱۹ کے صدارتی انتخابات کے لئے باعثِ نقصان ہو گا۔
ناکافی انتخابی اصلاحات اور ان میں تاخیر:
نیا انتخابی بل
۲۰۱۴ کے صدارتی انتخابات میں فراڈ نے ملک کو خانہ جنگی کی نہج پر پہنچا دیا اور بحران امریکی مداخلت سے پہلے ایک سال تک جاری رہا۔ بحران اس قدر شدید تھا کہ دونوں امیدوار یعنی اشرف غنی (بطور صدر) اور عبداللہ عبداللہ (نئے تشکیل دئے گئے عہدے پر بطورِ چیف ایگزیکٹو آفیسر) نے این-یو-جی میں اختیارات کو تقسیم کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اس رضامندی کے بعد این-یو-جی نے ٹھوس انتخابی اصلاحات کرنے کا اعادہ کیا تاکہ اس عمل پر لوگوں کا اعتماد بحال ہو سکے۔
نتیجتاً صدر کے حکم پر ۲۰۱۵ میں ایک انتخابی اصلاحاتی کمیشن قائم کیا گیا۔ کمیشن کو فوری طور پر انتخابی عمل ، انتخابی قوانین اور انتخابی اداروں کا جائزہ لے کر اپنی سفارشات مرتب کرنے کا کہا گیا۔ کمیشن نے اگست اور دسمبر ۲۰۱۵ میں دو حصوں پر مشتمل سفارشات پیش کیں جس پر صدر نے دو احکامات جاری کیے اور پارلیمنٹ کو انتخابی قوانین میں ترمیم کا کہا لیکن پارلیمان کے دونوں حصوں نے انہیں ماننے سے انکار کر دیا۔ اسکے بعد حکومت نے زیادہ تبدیلیاں کئے بغیر ستمبر ۲۰۱۶ میں نیا انتخابی قانون تیار کیا اور اسکو قانونی حکم بناتے ہوئے پارلیمنٹ سے منظوری کےلئے بھی نہ بھیجا اور آئین کے آرٹیکل ۱۰۹ کا حوالہ دیا جس کے مطابق پارلیمان اپنی مدت کے آخری سال میں کوئی ترمیم نہیں کر سکتا۔ نئےانتخابی قانون کو کابینہ نے تو منظور کر لیا لیکن پارلیمان سے عدم منظوری اس میں قانونی سقم کو آشکار کرتی ہے۔
چونکہ ۲۰۱۴ سے اب تک انتخابی حوالے سے تھوڑی بہت ہی تبدیلی آئی ہے اس لئے افغان سیاست اب بھی متنازعہ ہی ہے۔ ۲۴ فروری ۲۰۱۸ کو ۲۱ سیاسی جماعتوں نے کابل میں ایک کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ انتخابات میں سیاسی جماعتوں کی مزید شرکت کےلئے انتخابی قوانین میں تبدیلی لائی جائے۔ اس بیٹھک کو موجودہ قوانین سے بیزاری کے طور پر دیکھا گیا چونکہ بڑی سیاسی جماعتیں جیسے جماعتِ اسلامی (تاجک)، حزبِ اسلامی (پشتون)، جنبشِ ملی (ازبک) اور حزبِ وحدت (ہزارہ) اتحادی ہیں۔ انتخابی عمل سے یہ بیزاری آئندہ کے پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کےلئے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔
ووٹر سنیٹرز کا جائزہ:
منصفانہ انتخابات کےلئے آئی-ای-سی نے ملک بھر کے انتخابی سینٹرز کا جائزہ لیا ہے تاکہ فراڈ کو کم تر کیا جا سکے۔ اگرچہ یہ ایک اہم قدم ہے لیکن آئی-ای-سی کے اقدامات کو بعض اطراف سے ناکافی قرار دیا گیا ہے چونکہ آئی-ای-سی سکیورٹی مسائل کی وجہ سے ۳۳ ضلعوں میں سینٹرز کا جائزہ نہیں لے سکا ہے۔ یہاں تک بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ آئی-ای-سی نے جن علاقوں میں سینٹرز کا جائزہ لینے کا دعویٰ کیا ہے وہاں پر درحقیقت جائزہ لیا ہی نہیں گیا ہے۔ اور سینٹرز کی دور دراز علاقوں میں موجودگی، جیسا کہ طالبان زیر اثر علاقے، بھی ایک مسئلہ ہے اور ان علاقوں میں بھیجے گئے بیلٹ پیپرز پر فراڈ ہونے کے امکانات ہیں۔ اس طرح کے ناکافی اقدامات لوگوں کے اعتماد پر ضرب لگاتے ہیں۔
ووٹرز کی الیکٹرانک رجسٹری اور آئی ڈیز:
۲۰۱۴ میں نیشنل یونٹی گورنمنٹ معاہدہ کے تحت حکومت نے آئیندہ انتخابات کےلئے الیکٹرانک آئی ڈیز جاری کرنا تھے تاکہ انتخابات میں فراڈ سے بچا جا سکے۔ تاہم اس عمل میں ایک سخت بحث آڑے آ گئی جس میں افغانیوں کے الیکٹرانک آئی ڈیز پر نام و نسب کے حوالے سے اعتراضات اٹھائے گئے۔ آئی-ای-سی نے ووٹر رجسٹری کےلئے پرانے آئی ڈیز کا ہی سہارا لیا جس سے مسائل پیدا ہوئے چونکہ شہریوں کے پاس (پرانے) آئی ڈیز ایک سے زیادہ تھے۔ ان روائتی آئی ڈیز کا استعمال یہ ثابت کرتا ہے کہ نیشنل یونٹی گونمنٹ نے ۲۰۱۴ کے انتخابی مسائل کا اب بھی کوئی حل نہیں نکالا ہے۔ انتخابی مبصرین نے بھی ووٹر رجسٹریشن کے شروع کرنے کے دو ہفتے بعد کمپیوٹرائزڈ ووٹر رجسٹریشن ریکارڈ کو جاری کردینے پر آئی-ای-سی پر بد انتظامی کا الزام عائد کیا ہے۔
سکیورٹی خطرات- سب سے اہم چیلنج:
ووٹر رجسٹریشن عمل سے قبل سکیورٹی خطرات سب سے اہم چیلنج ہے۔ سپیشل انسپکٹر جنرل آف افغان ری کنسٹرکشن کی اپریل ۲۸ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں روزانہ تقریباً ۹.۵۵ سکیورٹی واقعات ہوتے ہیں۔ سکیورٹی صورتحال کا ووٹر کی پولنگ سٹیشن پر حفاظت پر براہِ راست اثر پڑے گا ۔ افغان وزارتِ داخلہ کے ڈپٹی منسٹر کا کہنا ہے کہ ۴۳ فیصد پولنگ سٹیشنز ان علاقوں میں ہیں جہاں کم یا زیادہ نوعیت کے سکیورٹی مسائل ہیں۔ غمومی سکیورٹی صورتحال کا پولنگ سٹیشنز تک پہنچنے کے حوالے سے اثر ہو گا اور بدخشاں میں ۴۷ جبکہ ملک بھر میں ۷۰ سینٹرز اسی خطرے کے پیشِ نظر بند پڑے ہیں۔
طالبان اور اسلامک سٹیٹ خراسان پرووِنس ، جو دونوں ہی انتخابی عمل اور سیاست کے مخالف ہیں، کے خطرات نے بھی ووٹر رجسٹریشن پر اثر ڈالا ہے اور الیکشن کے دن بھی ٹرن آؤٹ پر انکا اثر ہو گا۔ طالبان نے کچھ گاؤں مکینوں کو ووٹ ڈالنے پر گھروں پر حملے کرنے سے ڈرا رکھا ہے۔ کابل میں ووٹر رجسٹریشن سینٹر پر حالیہ حملے جس میں ۶۰ سے زائد افراد ہلاک اور ۱۰۰ زخمی ہوئے اور جس کی ذمہ داری اسلام سٹیٹ خراسان پرووِنس نے قبولی کی ، اس بات کا اشارہ ہے کہ ووٹ رجسٹر کرنا بھی انتہائی خطرناک عمل ہو گا۔ خوست، ننگر ہار، غور اور بغلان کے ووٹ رجسٹریشن سینٹرز پر بھی براہ راست حملے ہو چکے ہیں۔
اکتوبر انتخاب کے ممکنات:
سکیورٹی کی دگرگوُں صورتحال اور ووٹر رجسٹریشن کےلئے کم ٹرن آؤٹ دیکھ کر انتخابات کا ملتوی ہو جانا خارج از امکان نہیں۔ اگر اکتوبر میں انتخابات ہو جاتے ہیں تو عدم تحفظ، کم تر انتخابی اصلاحات اور انتخابی عمل پر عوام کے عدم اعتماد کی وجہ سے فراڈ اور کم ٹرن آؤٹ یقینی دکھائی دیتا ہے۔ اگر ایسی کوئی صورتحال جنم لیتی ہے تو افغان جمہوریت کےلئے یہ ایک دھچکا ہو گا اور ۲۰۱۹ کے صدارتی انتخابات پر بھی اسکےبراہِ راست اثرات پڑیں گے۔
***
.Click here to read this article in English
Image 1: USAID Afghanistan via Flickr
Image 2: U.S. Department of State via Flickr