طالبان کے افغانستان پر قابض ہونے کے بعد سے بھارت نئی حکومت کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر پر غور کر رہا ہے۔ کابل کے پرانے اتحادی کے طور پر نئی دہلی افغانستان میں اپنے تزویراتی مفادات اور طالبان جو خواتین اور اقلیتوں پر جبر کی تاریخ رکھتے ہیں اور حال ہی میں سخت گیر موقف رکھنے والے افراد کو اہم حکومتی عہدوں پرفائز کر چکے ہیں، ان کے ہمراہ روابط کے اخلاقی جواز پر بحث کو متوازن کرنے کی کشمکش سے دوچار ہے۔ بھارت تاحال اپنے حریفوں کے تعاقب میں ہے اور امید کرتا ہے کہ محض ان طالبان سے روابط جو کہ زیادہ “قوم پرست” اور پاکستان کے زیر اثر دکھائی نہیں دیتے پر مبنی اس کی حکمت عملی بڑی طاقتوں کے درمیان مقابلے کے نئے دور میں افغانستان میں اس کو سرگرمیاں جاری رکھنے کے قابل رکھے گی۔
افغانستان میں بھارت کی گزشتہ حکمت عملی اشرف غنی حکومت کے اقتدار میں رہنے اور ملک میں امریکہ کی موجودگی جاری رہنے کی بنیاد پر تھی۔ تاہم اس سال کے شروع میں امریکی انخلاء کے دوران جیسے ہی طالبان نے افغانستان بھر میں مسلسل جارحانہ انداز اختیار کیا، شورش بپا کرنے والے گروہ کے بارے میں بھارت کی رائے میں ممکنہ پیش رفت کے حوالے سے خبریں سامنے آنے لگیں۔ نئی دہلی کو یقین ہے کہ طالبان کے دور کے بارے میں اس کے ماضی کے تحفظات کے باوجود وہ اس گروہ سے روابط نہ رکھ کے زیادہ نقصان اٹھائے گا۔ گو کہ بذریعہ زمین رابطہ نہ ہونے اور طالبان کے پاکستان کی عسکری انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ کے مسلسل زیراثر ہونے کے باعث بھارت اگرچہ کمزور دکھائی دیتا ہے لیکن اس کی حکمت عملی میں ارتقاء دیکھنے کو ملا ہے۔ طالبان کے بعض دھڑوں سے رابطہ تزویراتی ضرورت کا نتیجہ تھا؛ یہ ایسی خواہش ہے جس کا مقصد نہ صرف افغانستان میں بھارت کے سلامتی و معاشی مفادات کا تحفظ ہے بلکہ یہ یقینی بنانا ہے کہ طالبان بطور علاقائی طاقت بھارت کی اہمیت اور حیثیت کو پہچانتے ہیں۔ طالبان کے چند مخصوص رہنماؤں سے روابط اور علاقائی شراکت داروں کے ہمراہ کام کرنے کی بھارت کی حکمت عملی اسے افغانستان میں زیادہ سرگرمیوں اور اس کے تزویراتی حریفوں پاکستان اور چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کے قابل بناتی ہے۔
بھارت کی افغانستان میں تاریخی موجودگی
گو کہ بھارت کبھی بھی اس مقام پر نہیں رہا کہ جہاں سے وہ افغانستان میں ہونے والی سرگرمیوں پر اثرانداز ہو سکے لیکن کابل میں طالبان کی موجودگی کا یہ مطلب ہے کہ اب بھارت کے قدموں تلے اتنی زمین بھی نہیں رہی جتنا کہ پہلے تھی۔ بھارت کے مفادات میں ۳ بلین ڈالر مالیت کی وہ ترقیاتی معاونت شامل ہے جو وہ ۲۰۰۱ سے ہائیڈروالیکٹرک ڈیم، ہائی ویز، اسکولوں اور اسپتالوں جیسے انفرااسٹرکچر کے منصوبوں کے لیے افغانستان کو فراہم کر چکا ہے نیز یہ یقینی بنانا ہے کہ ہندو اور سکھ اقلیتی برادری محفوظ ہیں۔
طالبان پر کسی قسم کا اختیار نہ ہونے اور اپنے مفادات کے تحفظ میں معاونت کے قابل چند امکانات کے ساتھ بھارت پرامید ہے کہ وہ ایک ایسے خطے میں تھوڑی سی جگہ بنا سکتا ہے جو اس کے تزویراتی حریف پاکستان اور چین کے زیر تسلط ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ طالبان کے بارے میں نئی دہلی کی پالیسی تبدیل ہوئی ہے اور ۱۹۹۶ سے ۲۰۰۱ کے دوران طالبان کے اقتدار میں پہلی بار آنے پر کوئی رابطہ نہ رکھنے کی پالیسی کی جگہ اب اس کے بعض رہنماؤں کے ہمراہ خفیہ بات چیت اور اگست میں دوہا اور گزشتہ ماہ ماسکو میں طالبان کے ترجمانوں سے ملاقات لے چکی ہے۔ یہ تبدیلی زمینی حقائق کے پیش نظر سلامتی اور افغانستان میں اس کے معاشی مفادات کے بارے میں اس کے خدشات کی نشاندہی کرتی ہے۔
بھارت جہاں طالبان حکومت کی نوعیت اور عام افغانوں کی حالت زار کے بارے میں شبہات کا شکار ہے، وہیں زمینی سطح پر تبدیل شدہ حقیقت کا مطلب یہ ہے کہ اسے صورتحال کو قبول کرنا ہی ہو گا۔ اس نے بھارت مخالف دہشتگرد کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین کے ممکنہ استعمال کے بارے میں اپنے خدشات کا مسلسل اظہار کیا ہے۔ اگرچہ طالبان کی زبان کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہے تاہم ان خدشات کے بارے میں طالبان کی جانب سے یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ تاہم بھارت نے جانتے بوجھتے ایسے رہنماؤں تک رسائی پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو حقانی نیٹ ورک یا کوئٹہ شوریٰ جو پاکستان کی عسکری انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ کے پٹھو کے طور پر دیکھے جاتے ہیں، کا حصہ نہ ہوں۔ بعض طالبان سے روابط کرنے اور دیگر سے نہ کرنے کے ذریعے بھارت پرامید ہے کہ وہ طالبان کو اپنی جغرافیائی تزویراتی اہمیت واضح کرنےکے ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے سامنے میدان خالی نہیں چھوڑ رہا ہے۔
بھارت کی افغانستان میں موجودہ کوششیں
گروہ تک ابتدائی رسائی کے بعد، طالبان کا ملکی اختیار سنبھال لینا نیز بھارت کا اصلی شراکت داروں اور قابل بھروسہ اتحادیوں کے بغیر خود کو افغانستان میں پانا، زمینی سطح پر آنے والی دو بڑی تبدیلیاں ہیں۔ نتیجے میں بھارت خوفزدہ ہے کہ طالبان سے بات چیت نہ کرنے کی صورت میں افغانستان میں گزشتہ بیس برس کے دوران قائم کیے گئے اثرورسوخ میں مزید کمی واقع ہوگی۔
اسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی دہلی نے رواں ماہ کے اوائل میں افغانستان کی سلامتی پر علاقائی سطح کے مذاکرات کی میزبانی کی جس میں پانچ وسطی ایشیائی ریاستوں، ایران اور روس کے قومی سلامتی کے مشیروں نے شرکت کی۔ کانفرنس کے نتیجے میں دہلی اعلامیہ پیش کیا گیا جس میں ”ایک ایسی شفاف اور صحیح معنوں میں ہمہ گیرحکومت تشکیل دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا جو افغانستان کے عوام کی امنگوں کی عکاس اور اس میں سماج کے تمام طبقوں کی نمائندگی ہو۔“ شرکاء ممالک نے افغانستان میں انسانی معاونت کی ضرورت اور دہشتگردی، بنیاد پرستی اور منشیات کی فروخت کے سبب درپیش خطرات پر بھی ”توجہ دی۔“
اہم ترین امر یہ ہے کہ مذاکرات بھارت کی ہم خیال ملکوں کے ہمراہ افغانستان میں کام کرنے اور اس کے مستقبل پر غورخوض کے عمل میں اہم کردار کا مالک بننے کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ علاقائی ریاستوں کے ایک اجتماع کی میزبانی کے ذریعے اس نے ظاہر کیا ہے کہ محض میز پر بیٹھنے کی خواہش کے علاوہ اسے علاقائی بات چیت کے عمل میں متحرک و مصروف رکن بننے کی ضرورت بھی ہے۔ جیسا کہ ایک ذرائع نے انڈین ایکسپریس میں موزوں طور پر لکھا ہے کہ ”جب آپ میز پر نہیں ہوتے ہیں تب آپ مینئو کا حصہ ہوتے ہیں۔“ بالفاظ دیگر، بھارت افغانستان میں علاقائی اور ہم خیال ریاستوں کے ہمراہ کام کرنے کی ضرورت کو سمجھتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ اگر وہ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے کسی علاقائی بات چیت کا حصہ بننے سے رہ گیا تو وہ بازی ہار جائے گا۔ مذاکرات میں شامل تمام ممالک افغانستان میں طالبان کی موجودہ حکومت کی جگہ ایک ہمہ گیر حکومت میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ بھارت کی طرح، روس اور ایران بھی طالبان میں ان دھڑوں کو دیوار سے لگانے کے مخالف ہیں جو ان کے زیرکفالت رہے ہیں اور طالبان کو غیرمتناسب حد تک پاکستان کے زیر اثر ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے۔
بھارت کی جانب سے پاکستان اور چین کو مدعو کیا گیا تھا لیکن انہوں نے کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس طرح وہ دہلی اعلامیئے میں شامل نہیں تھے۔ مذاکرات میں ان کی عدم شرکت اگرچہ حیران کن نہیں تاہم یہ امر قابل ذکر ہے کہ دیگر علاقائی ریاستوں نے نا صرف افغانستان کی خاطر اکھٹا ہونے کی اہمیت کو سمجھا بلکہ مذاکرات میں بھارت کی شمولیت کی اہمیت کو بھی پہچانا جو کہ افغانستان پر پاکستانی ایجنڈے سے یکسر مختلف نقطہ نگاہ رکھتا ہے۔ ان ممالک کے جہاں افغانستان میں اپنے اپنے مفادات اور اختلافات ہیں، وہیں ان مذاکرات نے ملک اور خطے کو درپیش آزمائشوں کی جانچ میں ”غیرمعمولی اتفاق رائے“ دیکھا۔ یہ چین اور پاکستان کو یہ پیغام دیتا ہے کہ ایسے بہت سے ممالک باقی ہیں جن کے ہمراہ بھارت افغانستان کے حوالے سے مل کے کام کرنے کو تیار ہے اور اسی طرح وہ بھی مل کے کام کیلئے تیار ہیں۔ باوجودیکہ طالبان پاکستان کے ہمراہ اپنے قریبی تعلقات اور پاکستان کے ذریعے چین کے ہمراہ اپنے تعلقات کو جاری رکھ سکتے ہیں، بھارت کو افغانستان میں عمدہ کام کرنے کیلئے دونوں میں سے کسی ایک کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
حاصل کلام
بھارت اپنے سفارتی وزن اور معاشی اثرورسوخ کو استعمال میں لاتے ہوئے افغانستان میں اپنی کھوئی ہوئی اثرانگیزی کی بحالی کیلیے پرامید ہے۔ گو کہ افغانستان کو ہمہ گیر جمہوری ریاست دیکھنے کی بھارت کی خواہش تعبیر سے عاری خواب بن چکی ہے تاہم بھارت اپنے اصولوں اور زمینی حقائق کے درمیان توازن پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ وہ سب کچھ کر رہا ہے جو اس کے اختیار میں ہے۔ جہاں تک طالبان کا تعلق ہے تو وسیع پیمانے پر عالمی قبولیت کی ان کی جستجو کا یہ مطلب ہوگا کہ ان کی قیادت کو بھارت سمیت دیگر علاقائی ریاستوں کے اس اہم کردار کا اعتراف کرنا پڑے گا جو وہ افغانستان کے ایک ایسی ہمہ گیر قوم کے طور پرفروغ میں ادا کر سکتے ہیں جہاں تمام مختلف گروہوں کے افراد اور اقلیتیں محفوظ اور قابل احترام ہوں ۔ البتہ بھارت کے ہمراہ کسی قسم کی شراکت داری یا مضبوط تعلقات کے اشارے کوطالبان کے ان دھڑوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہو گا جو پاکستان کے ہمراہ مضبوط بندھن میں بندھے ہیں، خاص کر حقانی نیٹ ورک جس کے اراکین موجودہ حکومت میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ تب تک بھارت کو اپنے شراکت داروں اور خطے میں موجود اپنے سفارتی اتحادیوں کے ذریعے تبدیلی لانے کی کوشش کرنا ہوگی۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Narendra Modi via Flickr