کشمیر مسئلے کی گتھی سلجھانا یقیناً ایک پیچیدہ عمل ہے جس کے دیرینہ اور پائیدار حل کےلئے نہ صرف ریاستی ، غیر ریاستی عناصر بلکہ بین الاقوامی کھلاڑیوں کو بھی کردار ادا کرنا چاہئیے۔ اگرچہ تعمیری بات چیت کشمیر میں امن کےلئے اہم ہے اور جس کےلئے پاکستان اور بھارت نے مذاکرات کاروں کو تعینات بھی کیا تاہم ان اقدامات کے خاطر خواہ نتائج آنا ابھی باقی ہیں۔
۲۰۰۱ اور ۲۰۰۳ میں بھارت نے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور میں کے–سی پانٹ اور این–ایم وہرہ کو بھارتی ریاست اور علیحدگی پسند گروہوں کے بیچ بات چیت کےلئے مذاکرات کار کے طور پر تعینات کیا۔ ۲۰۱۰ میں منموہن سنگھ نے تین مذاکرات کاروں (پر مشتمل گروپ) کی امن مذاکرت دوبارہ شروع کرنے کےلئے تعیناتی کی لیکن اُنکے پاس مطلوبہ سیاسی اختیار نہ تھا اور نئی دہلی کی طرف سے گروپ کی سفارشات کو نظر انداز کیا گیا (گروپ نے سفارشات میں کشمیر میں بھارتی فوج کی موجودگی کو کم کرنے اور وہاں پر آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ پر نظرِثانی کی تجویز دی تھی)۔
گزشتہ ماہ وزیراعظم نریندر مودی نے جارحانہ پالیسی بدلتے ہوئے انڈین انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ دینیشور شرما کو مذاکرات کارکے طور پر تعینات کر دیا۔ دینیشورشرما کو کابینہ سیکرٹری کے مطابق کا عہدہ اور رتبہ دیا گیا اور انکو اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کا مکمل اختیار دیا گیا۔ کشمیر کے علاوہ ، دینیشورشرما بھارتی حکومت کی طرف سے شمال مغربی ریاستوں سے بات چیت کےلئے بھی مذاکرات کار بنائے گئے ہیں۔
تاہم پاکستان نے دینیشور شرما کی تعیناتی کو غیر سنجیدہ اور غیر حقیقی قرار دے کر رد کر دیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کی مسٹر شرما کی تعیناتی کا اعلان پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر کے یومِ آذادی والے دن کیا گیا ۔
جہاں ایک مذاکرات کار کی تعیناتی کو مثبت اور نئی دہلی کی طرف سے اچھے سفارتی اشارے کےروپ انداز میں دیکھا جا سکتا ہے تو کشمیر تنازعہ کو اب محض خیر سگالی کے اشاروں سے آگے بڑھنا چاہیئے۔ اگر اس طرح کی بات چیت صحیح اور دیرپا نتائج کی طرف جانا چاہتی ہے تو بھارتی حکومت کو مذاکرات کاروں پر اعتماد کرنے جیسے چیلنجز کو تسلیم کرنا ہو گا اور اپنی پالیسی کو ان کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔ مزید اہم یہ ہے کہ بھارتی حکومت کو مذاکرات کاروں کو اختیارات دینا ہوں گے تا کہ وہ کئی طرح کے سٹیک ہولڈرز (بشمول پاکستانی حکومت اور علیحدگی پسند گروہوں) سے کھل کر بات کر سکیں تا کہ سب پارٹیوں کی مشاورت سے ایک دیرپا اور قابلِ قبول حل نکالا جا سکے۔
فعال بات چیت کےلئے درپیش چیلنجز؛
کشمیر میں بد امنی اور عدم استحکام کا دوبارہ آغاز جولائی ۲۰۱۶ میں حزب التحریر کے کمانڈر برہان وانی کے جاں بحق ہونے پر ہوا۔ وانی کی ہلاکت نے بھارتی سکیورٹی فورسز اور شہریوں کے بیچ جھڑپوں کو جنم دیا جس کے نتیجے میں ۸۲ لوگ مارے گئے۔ اور موجودہ سال بھی (اگست تک) ۱۸۴ اموات کی وجہ سے سب سے پر تشدد سال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اس صورتحال کو کنٹرول کرنا صرف ایک روائتی مذاکرات کار کےلئے تقریباً نا ممکن ہے اور اسی لئے گھمبیر صورتحال کو قابو کرنے کےلئے تمام سٹیک ہولڈرز کو مذاکرات کے میز پر لانا ہو گا۔ پچھلے مذاکرات کاروں کو صرف چند گروہوں سے بات چیت کرنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ انہوں نے حریت کانفرنس (کشمیری سیاسی جماعتوں پر مشتمل گروپ) اور پاکستان سے بات چیت نہیں کی تھی۔ اپنی تعیناتی سے لے کر اب تک دینیشورشرما ۳۰ وفود سے مل چکے ہیں لیکن ان میں نہ تو حریت ممبرز شامل تھے اور نہ ہی نامی گرامی تاجر حضرات۔ حریت کانفرنس نے مسٹر شرما سے ملنے سے انکار کر دیا تھا اگرچہ دینیشورشرما نے اشارہ دیا تھا کہ حریت راہنماؤں سے ملاقات ہو سکتی ہے۔اسی لئے یہ ظاہر ہونا باقی ہے کہ مسٹر شرما کس حد تک سیاسی چیلنجز کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔
سٹیک ہولڈرز سے محض ملاقات کے علاوہ اُنکی (سٹیک ہولڈرز) مختلف رائے بھی کسی چیلنج سے کم نہیں۔ پچھلے مذاکرات کاروں کی طرف سے کشمیری گروہوں کو جو پیشکش کی گئی تھی وہ اُنکی خواہشات کے برعکس ثابت ہوئیں۔ مثال کے طور پر جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ اورآل پارٹیزحریت کانفرنس، جن کو کشمیری لوگوں میں آج بھی اچھی خاصی حمائت حاصل ہے، نے ایک آذادانہ اور خودمختار کشمیری ریاست کا مطالبہ کیا تھا (جو کہ پورا نہ ہو سکا)۔
اسی طرح پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کی مختلف پوزیشن بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بھارت کشمیر کے معاملے پر عالمی ثالثی سے انکاری ہے اور امن کے حوالے سےمذاکرات کو اندرونی اور داخلی معاملہ سمجھتے ہوئے پاکستان کی شمولیت کا بھی مخالف ہے۔ اسکے برعکس پاکستان کشمیر کو خالصتاً انسانی بنیادوں پر دیکھتا ہے اور آذادی کی تحریک میں عالمی مداخلت کی حمائت کرتا ہے۔ اس صورتحال میں بھارتی مذاکرات کاروں کےلئے ایک متوازن حل نکالنا اور بھارت کا اس سارے عمل پر کنٹرول برقرار رکھنا بھی ایک چیلنج ہو گا۔ تاہم اگر مسٹر شرما اپنے گزشتہ مذاکرات کاروں سے کچھ مختلف کرنا چاہتے ہیں تو انہیں تمام سٹیک ہولڈرز (بشمول مخالف) کی بات سننی ہو گی تاکہ کوئی راستہ تلاش کیا جا سکے۔
خالصتاً کشمیر سے متعلق بات چیت کا فروغ؛
مذاکرات کی میز پر درست کرداروں کو لانا اور مشترکہ نوعیت کے معاملات کی نشاندہی کر لینا کشمیر سے متعلق امن مذاکرات کی راہ میں محض آدھا کام کرنے جیسا ہو گا۔ حکام کو کشمیریوں کے حقوق اور شکایات کو بھی سننا ہو گا۔ پاکستان اور بھارت کے بیچ تعلقات کی حالیہ سرد مہری میں بات چیت کا آغاز مثبت علامت ہو گا۔ تاہم اگر مذاکرات میں کشمیر اور کشمیری لوگوں کے مفادات کو شامل نہ کرنا سارے عمل کو ہی بے سود بنا دے گا۔
دوسری بات یہ کہ بھارت کی طرف سے طاقت کے استعمال (ربڑ کی گولیوں اور پیلٹ بندوقوں سے) احتجاج کو روکنے کی حکمتِ عملی نے وادی میں محض کشیدگی کو ہی جنم دیا ہے۔ جہاں دینیشورشرما کی تعیناتی درست عمل ہے وہیں بھارت آرمی چیف بیپن روات کا اس بات پر اصرار ہے کہ اس عمل سے کشمیر میں جاری عسکری آپریشن میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی اور اس طرح کے آپریشن دراصل بھارت کی بات چیت میں مضبوط پوزیشن کو عیاں کریں گے۔ ہتھیاروں سے لیس ردِ عمل ہی شائد مذاکرات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک قابلِ عمل بات چیت کی بنیاد کشمیریت، جمہوریت اور انسانیت کے اصول پر ہونی چاہئیے اور یہ اصول بھارتی جنتا پارٹی کے رہنما اور سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے بیان کیا تھا ۔
اسی لئے بھارتی حکومت کو طاقت کے استعمال کے بجائے دلیل کے نقطے کو ترجیح دینی چاہیئے۔ تنازعہِ کشمیر کی پیچیدگیوں کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہے کہ محض ایک مذاکرات کار کی تعیناتی، اس بات سے قطعِ نظر کہ وہ کتنا ذہین ہے، مسئلے کے حل میں محدود آپشن ہے۔ اس لئے بھارت حکومت کو اپنے مذآکرات کار کو با اختیار بنا نا چاہیئے تا کہ وہ تمام متعلقہ پارٹیوں کے ساتھ وسیع تر بات چیت کر کے دیرپا امن قائم کر سکے۔
***
.Click here to read this article in English
Image 1: Yawar Nazir via Getty Images.
Image 2: Yawar Nazir via Getty Images.