تاریخی لحاظ سے امریکہ پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات بنانے میں اولین ممالک میں سے ایک تھا، اور ایک اتحادی کی حیثیت سے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ہمیشہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اپنی تاریخ کے ذیادہ تر حصے میں پاکستان کا جھکاؤ امریکہ کی طرف رہا ہے۔ تا ہم یہ گرمجوشی اسامہ بن لادن کی موت کے بعد اب ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کا روس کے ساتھ تعلقات بنانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ علاقائی تبدیلیوں نے ماسکو اور اسلام آباد کے بیچ دو طرفہ تعلقات استوار کرنے کی بنیاد رکھی ہے۔ روس اپنا اثرورسوخ یوریشیا تک بڑھانے کے ساتھ ساتھ امریکی بالا دستی کو بھی چیلنج کرنا چاہتا ہے۔ داعش کے خلاف جنگ میں روس پاکستانی کردار کو ناگزیر سمجھتا ہے۔ مزید برآں روس بحیرہ عرب تک رسائی چاہتا ہے جو کہ سی-پیک فراہم کر سکتا ہے۔ بھارت کا امریکہ کے ساتھ حالیہ دنوں میں فوجی تعلقات کو وسعت دینا پاکستان کو روس کے ساتھ دفاعی تعلقات مضبوط کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ امریکہ کے علاوہ ایک اور عالمی طاقت کے ساتھ استوار ہوتے تعلقات عالمی سیاست میں پاکستانی اہمیت میں اضافہ کرتے ہیں۔
پاکستان ۱۹۴۷ میں اپنے قیام سے لےکر سوویت یونین کے ساتھ نظریاتی، جغرافیائی اور تاریخی وجوہات کی بنا پر تعلقات بنانے میں ہچکچاہٹ دکھاتا رہا ہے۔اس کی بڑی مثال آزادی کے کچھ سال بعد پاکستان کے پہلے وزیراعظم کا سوویت یونین کے بجائے امریکہ کا دورہ کرنا تھا۔
جہاں سول حکومت کے دوران دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کی ایک کوشش کی گئی ، پاکستان کا جھکاؤ فوجی ادوار میں امریکہ کی طرف ہو گیا ۔۱۹۵۰ اور ۱۹۶۰ کی دہائی میں پاکستان نے سیٹو اور سینٹو جیسے اتحاد میں سوشلزم کو کنٹرول کرنے کےلئے شمولیت اختیار کی اور امریکہ کے جاسوسی یو-ٹو جہاز کو پشاور سے اڑ کر سوویت یونین میں جاسوسی کرنے کی اجازت بھی دی۔
اس دوران سوویت یونین نے پاکستان کے دیرینہ حریف بھارت کو فوجی امداد دی۔ جب ۱۹۷۱ میں پاک۔بھارت جنگ شروع ہوئی تو سرد جنگ اتنی وسعت اختیار کر چکی تھی کہ امریکہ نے پاکستان کو جبکہ سوویت یونین نے بھارت کو سپورٹ کیا ۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کےبعد ذوالفقار علی بھٹو نے روس کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی جس کی مثال روس کا پاکستان میں پاکستان سٹیل ملز بنانا تھا تاہم بھٹو کی حکومت ختم ہونے کےبعد صدر ضیاء کے دور حکومت میں روس اور پاکستان کے تعلقات خاصے کشیدہ ہو گئے جب دونوں ملک افغانستان میں ایک دوسرے کے مدمقابل آگئے۔
ماضی میں مختلف ترجیحات اور جغرافیائی حقائق نے پاک-روس تعلقات کو نہ پنپنے دیا ۔ تاہم بدلتے علاقائی حالات نے دونوں کو اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا موقع فراہم کیا ہے۔ گذشتہ دو سالوں میں روس نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینی شروع کر دی ہے۔
سکیورٹی سے متعلق روس، چین، پاکستان کے ملتے جلتے مفادات اور افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر نے روس اور پاکستان کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے- تینوں ملکوں نے گزشتہ سال دسمبر میں افغانستان سے متعلق اجلاس میں بھارت کو شامل نہ کیا جس پر بھارت نے ماسکو کو اپنے اعتراضات سے فوری آگاہ کیا۔ بھارت روس کو اس بات پر قائل کرنے میں ناکام رہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کو سپورٹ کرتا ہے۔ ماسکو داعش کو افغانستان میں قابو کرنے کےلئے طالبان کو ضروری سمجھتا ہے اور اسی وجہ سے وہاں پر امن لانے میں پاکستان کے کردار کو بھی ناگزیر سمجھتا ہے۔ بھارت- امریکہ دفاعی تعلقات اور بھارت-روس تعلقات میں سرد مہری نے پاکستان اور روس کےلئے تعلقات استوار کرنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ روس نے پاکستان کے ساتھ پہلی دفعہ مشترکہ فوجی مشقیں کیں جو کہ اگرچہ بھارت-روس دفاعی تعلقات کے جتنی وسیع نہیں تھیں تاہم یہ مشقیں اس وقت ہوئیں جب پاکستان اور بھارت کے بیچ اڑی حملے کےبعد فوجی تناؤ چل رہا تھا۔ روس نے پاکستان کو چار ہیلی کاپٹرز بھی فراہم کیے ہیں ۔ یہ چیزیں دکھاتی ہیں کہ روس جہاں تاریخی طور پر بھارت سے دور ہو رہا ہے وہیں وہ پاکستان کے قریب ہو رہا ہے۔
سی-پیک کی صورت میں پاکستان کو جو معاشی فوائد اور مواقع ملے ہیں، پاکستان ان میں روس کو شامل کر کے تعلقات کو وسعت دے سکتا ہے۔ سی-پیک علاقائی اور عالمی معاشی سرگرمیوں کی وسعت میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے ۔ سی-پیک “لینڈ لاکڈ” ملکوں کو بحیرہ عرب کے گرم پانیو ں تک رسائی بھی دے گا جس کی روس نے ایک عرصے سے خواہش رکھی ہے۔ کچھ خبریں بتاتی ہیں کہ ماسکو اور اسلام آباد سی-پیک اوریوریشین اکنامک یونین کو ملانے سے متعلق بات چیت کر رہے ہیں۔
گرم پانیوں تک رسائی کے علاوہ روس پاکستان کو ہتھیار بھی فروخت کر سکتا ہے۔ پابندیوں میں جکڑا ہوا اور دفاعی منڈی میں ہتھیاروں کی فروخت میں سخت مقابلے کی وجہ سے روس نئی منڈیاں تلاش کر رہا ہے۔ افغانستان میں دیرپا استحکام لانے میں روس کو پاکستان کی ضرورت ہو گی جبکہ دوسری طرف پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ افغانستان میں امن پاکستان کی داخلی سکیورٹی کا ضامن ہے۔ مزید برآں روس چین کے قریب ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں یہ بات محسوس کی جاتی ہے کہ قومی مفادات کےلئے پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو ازسر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ پاک-روس تعلقات میں دو طرفہ گرمجوشی اس تبدیلی کی بڑی مثال ہے۔ پاکستان کےلئے روس کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے کا عالمی سیاست اور امریکہ کو ایک واضح پیغام ہو گا کہ ایک نئی صف بندی ہو رہی ہے۔ سکیورٹی، توانائی اور معاشی تعلقات میں بہتری یہ ظاہر کرتی ہے کہ دونوں ملکوں کے بیچ سرد جنگ کی سرد مہری ختم ہو گئی ہے۔ علاقائی امن اور خوشحالی کو وسعت دینے کےلئے پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں لگاتار تبدیلی لانی چاہئے جو کہ دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کے ساتھ مثبت تعلقات بنانے سے قائم ہو گی۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Ministry of Defence of the Russian Federation
Image 2: Russia-Pakistan joint military exercise, Ministry of Defence of the Russian Federation