Imran_Khan_PTI_in_Haripur_Ghazi

پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کو، ۹ مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہرسے بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔جیسے ہی نیم فوجی دستوں نے  عمران خان کو حراست میں لیا ، ملک بھر میں سیاسی مظاہرے شروع ہوگئے ، جن میں  دیگر  تنصیبات کے علاوہ فوجی اور انٹیلی جنس تنصیبات کوبھی نشانہ بنایا گیا۔اگرچہ خان کو تین دن بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا، لیکن خان اور پاکستان کے آرمی چیف عاصم منیر کے مابین بڑھتی ہوئی جھڑپوں نے پاکستان کی طاقتور فوج اور اس کے مقبول ترین سیاسی رہنما کے مابین تصادم کے امکان کو ظاہر کیاہے۔ خان کی گرفتاری کے مرحلے  تک پہنچنے میں پاکستان کو کئی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اپریل ۲۰۲۲ میں تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعےعمران خان کو عہدے سے ہٹانے کے بعد سے ایک طرف عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور وزیر اعظم شہباز شریف کے زیرِ قیادت مخلوط حکومت کے مابین  اور دوسری طرف فوجی اسٹیبلشمنٹ  اور پی ٹی آئی کے درمیان سیاسی کشمکش نے پاکستانی سیاست پر قبضہ کر لیا ہے۔ مزید برآں، دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑی معیشت نے دہشت گردی کے حملوں میں اضافے کے باعث  وسائل پر مزید دباؤ ڈالا ہے۔اس سال کے اواخر میں معیّن انتخابات کے پیشِ نظر پاکستان کو کٹھن داخلی ماحول کا سامنا ہے۔

پاکستان کی موجودہ صورتحال کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ساؤتھ ایشین وائسز کی ٹیم نے صحافی سرل المایڈا کے ساتھ بیٹھ کر عمران خان کی گرفتاری کی اہمیت، اس کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی ہلچل اور آئندہ انتخابات کے مضمرات پر تبادلۂ خیال کیا۔

سوال: گزشتہ ہفتے عمران خان کی گرفتاری کے بعد پاکستان کو دوبارہ دہشت گردی کے خدشات کا سامنا کرنا پڑا۔ قریب  آتے ہوئے انتخابات، دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچی ہوئی معیشت اور سیاسی تقطیب (پولرائزیشن) میں بڑھتی ہوئی شدّت؛ پاکستان کے چند در چند بحرانوں کا گزشتہ ہفتے کے سیاسی واقعات سے کیا تعلق ہے؟

جواب: جب تک سیاست سُلجھ نہیں جاتی، تب تک کچھ بھی حل نہیں ہو پائے گا۔ اور  زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ سیاست سُلجھنے کے بعد بھی ممکن ہے کہ کچھ بھی حل نہیں ہو پائے۔ پاکستان کو معاشی، سیاسی اور سلامتی (سیکیورٹی) کے جن تین بحرانات کا سامنا ہے، وہ ایک دوسرے سے گہرے طور پر باہم پیوستہ ہیں، اس حد تک کہ انہیں ناقابلِ تقسیم سمجھا جاسکتا ہے۔ معاشی دیوالیہ پن، جو بلاشبہ اس وقت کاسب سے بڑا خطرہ ہے، فوری طور پر ملک کی سیاست کے رُخ کو تبدیل کر دے گا– اور یہاں تک کہ خود ریاست کو بھی تبدیل کر سکتا ہے۔ لیکن دیوالیہ پن (ڈیفالٹ) سے بچنے کے لیے – یا محض تنزلی کی جانب جاری اس کٹھور عروج و زوال کے  تجارتی  چکّر (بوم اینڈ بسٹ سائیکل) سے باہر نکلنے کے لئے – اہم اصلاحات کی ضرورت ہوگی۔ایسی اصلاحات جو ماضی میں کوئی بھی حکومت، خواہ سویلین ہو یا فوجی، نہیں کر سکی۔اگر یہ واضح ہو جائے کہ اگلے دو یا تین سالوں میں پاکستان کی قیادت کون کرے گا، جو کہ بذاتِ خود ایک بڑا مفروضہ ہے – تو جس کسی کے بھی پاس باگ ڈور ہو گی، کیا وہ اپنے سیاسی وجود  کو لاحق خطرات کو کم کرنے کی تگ و دو میں کبھی اپنے اندیشوں اور اوہام سے باہر نکل سکے گا؟ گزشتہ ہفتے کے واقعات آخری حد تک جاری رہنے والی سیاسی جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان کی تاریخ اور حالیہ واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ فوج کی جانب سے قومی سیاسی خطرے یعنی کہ بھٹو خاندان، شریف خاندان اور اب عمران خان کو ختم کرنے کی کوششیں ناقص ہیں اور عوامی حمایت کو نمایاں طور پر ختم کرنے سے قاصر ہیں۔

سوال: عمران خان کی گرفتاری کے فوری بعد اور آزاد عدلیہ کی حمایت میں جے یو آئی (ف) کے زیرِ قیادت ہونے والے مظاہرے حکومت ( گورننس) اور ریاست کی نوعیت کے بارے میں کیا ظاہر کرتے ہیں؟

جواب: بنیادی طور پر، احتجاج کے  یہ دو سیٹ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ صرف اعداد و شمار پر توجہ مرکوز کرنا گمراہ کن ہوسکتا ہے۔ پی ٹی آئی نے ابھی تک پارٹی کا ایسا انفرا اسٹرکچر (بنیادی ڈھانچہ) تیار نہیں کیا ہے جو مختصر نوٹس پر عوام کی قابل ذکر تعداد کو متحرک کرسکے – حالانکہ ایسا لگتا ہے کہ اسے عوام کے ایک بڑے حصے کی حمایت حاصل ہے۔ دریں اثنا، جے یو آئی (ف) کے پاس ایک منظم دستہ ہے جسے فوری طور پر بلایا جا سکتا ہے، لیکن پارٹی ایک زوال پذیر سیاسی قوت دکھائی دیتی ہے جسے عوام کے بڑے حصّے میں کم مقبولیت حاصل ہے۔ زیادہ دلچسپ یہ ہے کہ احتجاج کے اثرات کو دیکھا جائے۔ پی ٹی آئی کے مظاہرے (مظاہرین)  ماضی کی یادگاروں اورسویلین حکومت  کے  اداروں (تنصیبات)  کو نظر انداز کرتے ہوئے  براہ راست فوجی اہداف کی طرف چلے گئے۔ عمران خان کے  کُچھ کہنے یا فوج کے انکار کے باوجود، پی ٹی آئی کے مظاہروں نے  اس بات کوواضح طور پر ظاہر کیا ہے کہ اس وقت جنگ کِن کے مابین ہے: عمران خان اور فوجی قیادت کے درمیان؛ اور سویلین حکومت کو محض اس کے دشمن  کے خلاف  فوج کی کارروائی دیکھنے اور نعرۂ تحسین  بلند کرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ دریں اثنا، جے یو آئی (ف) کے احتجاج کا نادانستہ اثر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے قانون بنانے کے مکمل اختیار کے مظاہرے کی صورت میں ہوا، حالیہ صورتحال میں پی ٹی آئی اور عمران خان کے حق میں، اگر وہ بامعنی  تنقیص یا قانونی منظوری کے کسی  امکان کے بغیر منتخب کرتے ہیں۔

سوال: پاکستان میں سیاسی ہلچل کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اس بحران میں سویلین حکومت، فوجی اسٹیبلشمنٹ اور سپریم کورٹ کی مداخلت دیکھی گئی ہے۔ ہر ایک کیا کردار ادا کرتا ہے؟ کچھ تاریخی مماثلت یا مثالیں کیا ہیں جو موجودہ صورتحال پر روشنی ڈال سکیں؟

جواب: اب تک، ۲۰۲۳ غیر یقینی صورتحال کے لحاظ سے ۱۹۸۸ سے زیادہ مماثلت رکھتا تھا.اس وقت ڈکٹیٹر جنرل ضیاء کی اچانک وفات کے  بعد یہ واضح نہیں تھا کہ سال کیسے ختم ہوگا۔کیا مارشل لاء دوبارہ نافذ کیا جائے گا، کیا انتخابات کرائے جائیں گے، کیا  ہر دلعزیز بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کو الیکشن جیتنے اور حکومت کرنے کی اجازت دی جائے گی؟ ۲۰۲۳ میں بھی اس بارے میں غیر یقینی صورتحال ہے کہ سال کا اختتام کیسے ہوگا۔ پاکستان کی قیادت کون کرے گا، سویلین یا فوجی؟ اور اگر سویلین ہوں تو مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی یا پی ٹی آئی ؟  یا کیا یہ کوئی البیلا، جامع  نگران سیٹ اپ ہو سکتا ہے جسے اکثر غیر جمہوری حلقوں میں چاہا جاتا ہے؟ حالیہ دنوں میں پی ٹی آئی کے خلاف فوجی کریک ڈاؤن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ـ “عمران خان کے علاوہ کوئی بھی اور”  کا فیصلہ ہو چکا ہے، لیکن کیا عمران انہیں اپنے  آپ کو اس دوڑ سے باہر رکھنے کی قیمت بڑھا سکتے ہیں یہاں تک کہ دوسروں کو موقع دینے کا فائدہ واضح انتخاب سے کم تر ہو جائے؟ ماضی میں تبدیلی کے سالوں میں، جیسا کہ ۲۰۱۸ء، ۲۰۱۳ء، ۲۰۰۸ء، ۲۰۰۲ء وغیرہ کے انتخابات، ان میں کم و بیش  یہ معلوم تھا کہ وزیر اعظم کی ہاٹ سیٹ پر سال کا اختتام کون کرے گا۔اس سال، چونکہ عمران خان نے فوج اور عدلیہ کو شکست دی اور عوام پر غلبہ حاصل کر لیا ہے، یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ کون سا حصّہ پاکستان کے انچارج کے طور پر سال کا اختتام کرے گا۔

سوال: خان کی گرفتاری کے فوری بعد سڑکوں پر بے مثال مظاہرے دیکھنے میں آئے۔ پیر کے روز فوج نے فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے مظاہرین کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے پاکستان آرمی ایکٹ کا استعمال کرنے کا عہد کیا ۔عمران خان اور پاکستان کی فوجی سٹیبلشمنٹ کے درمیان بڑھتی ہوئی محاذ آرائی نے آنے والے انتخابات کو کس طرح متاثر کیا ہے؟

جواب: اب ایک حقیقت پسندانہ سوال یہ ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے، یا  ہوں گے بھی یا نہیں۔ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخوا ہ میں انتخابات نہ ہونے سے شہباز شریف کے لیے،  ہنگامی دفعات یا ایک جامع نگران سیٹ اپ  کے تحت، ۹۰ دن  کی آئینی حد سے کہیں زیادہ مدّت کے لیے وزیر اعظم کے عہدے پر برقرار رہنے کا آئینی دروازہ کھل گیا ہے۔ بظاہر ناممکن نظر آنے والا یہ کام چیف جسٹس آف پاکستان کی ناکامی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے کہ وہ انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کرنے کے بعد انہیں  انتخابات کرانے پر مجبور کر سکیں۔ عدالت کے اصرار  کی عدم موجودگی اور حکومت، فوج اور الیکشن کمیشن کی ملی بھگت کی موجودگی میں انتخابات کا عمل غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہو سکتا ہے۔عمران خان کی گرفتاری کے خلاف مظاہروں کے بعد سے فوجی قیادت اور حکومت کی سخت بیان بازی انتخابی طور پر نامبارک ہے۔اگر فوجی عدالتوں اور دیگر سمری ٹرائلز پر عمل درآمد ہوتا ہے تو انتخابات غارت بھی ہو سکتے ہیں۔دوسری طرف،  پی ٹی آئی کو دیوار سے لگا دینے اور عمران خان کو پسِ پشت ڈال دینے کے بعد، حکومت بد دیانتی  پر مبنی انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے قبل از وقت انتخابات کروا سکتی ہے۔سال ۲۰۲۳ بہت سے محاذوں پر انتہائی غیر یقینی ہے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Imran Khan PTI via Wikimedia Commons

Image 2: Imran Khan Procession via Flickr

Share this:  

Related articles

पर्वतों से समुद्री तटों तक: गलवान के पश्चात् भारत-चीन प्रतिस्पर्धा Hindi & Urdu
جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ Hindi & Urdu

جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ

ریاستہائے متحدہ امریکہ ، 20 ویں صدی کے وسط سے…

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے Hindi & Urdu

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف رواں ماہ کے اوائل میں صدر شی جن پنگ اور دیگر اعلیٰ چینی حکام سے ملاقاتوں کے بعد تقریباََ خالی ہاتھ وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ چین نے واضح انضباطِ اوقات ( ٹائم لائن) کے تحت پاکستان میں بڑے منصوبوں کے لئے سرمایہ کاری کا وعدہ نہیں کیا۔ اس […]