اپریل ۹ کو نصف شب بیت چکی تھی جب پاکستان کی پارلیمنٹ عمران خان کے تقریباً چار سالہ دور حکمرانی اور ایک ایسے بحران کو کامیابی سے ختم کر پائی جو اب اعصاب کو تھکا دینے والا ایک سوپ ڈرامہ دکھائی دینا لگا تھا۔ خان نے ۸ مارچ کو سیاسی مخالفین کی جانب سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے سے انکار کیا تھا جس سے ایک سادہ سے عمل میں تاخیر ہوئی اور جو عدلیہ سمیت متعدد اداروں کی مداخلت کا سبب بنا۔ خان نے غیر آئینی طریقے سے پارلیمنٹ توڑنے اور فوری انتخابات کے ذریعے اس تحریک کو روکنے کی کوشش کی، یہ وہ اقدامات تھے جن کی انہیں اپنے خلاف تحریک پیش ہونے کے بعد اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔
خان نے ان اقدامات کا دفاع اس دلیل سے کیا کہ سیاسی مخالفین نے امریکہ کی ہدایات پر ان کے خلاف سازش کی ہے اور واشنگٹن ڈی سی میں اس منصوبے کی تیاری کے ان کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ پارلیمنٹ آخر کار ۷ اپریل کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بحال ہو گئی جس سے عدم اعتماد کی تحریک کو ۹ اپریل کو آگے بڑھانے کی راہ ہموار ہوئی۔ خان کی برطرفی کا سنسنی خیز عمل ان کی سیاست میں بڑے مسئلے کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ مسئلہ ان میں اداروں کی اطاعت یا اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر کسی بھی چیز بشمول آئین کے لیے احترام کی صلاحیت کا نہ ہونا ہے۔ اس عمل کے دوران انہوں نے اس طاقتور فوج کو مزید مضبوط کیا جس کے ہاتھ ۲۰۱۸ میں ان کے چناؤ میں بھی اتنے ہی واضح تھے جتنا کہ ۲۰۲۲ میں ان کی برطرفی میں ہیں۔
خان کی میراث
خان جو کہ سابق کرکٹر ہیں، انہیں سیاست دان نہ ہونے پر فخر تھا۔ درحقیقت، دو دہائیوں پر مشتمل اپنے سیاسی سفر میں انہوں نے لچک دکھانے، عہد کی پاسداری کرنے یا اصولوں کی پیروی کرنے کے فن کو کبھی نہیں سیکھا۔ وہ عمدگی کے ساتھ اکسانے والے، مقبول بیانیے کو قائم کرنے اور عوام کے خوابوں کی پہچان رکھنے کے ماہر تو رہے تاہم ان میں انہیں عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت نہ تھی۔ ۲۰۱۸ میں ان کی اقتدار میں آمد کرپشن، نوجوانوں میں بیروزگاری کا مسئلہ حل کرنے اور ۹۰ دن میں معیشت کی بحالی کے بلند بانگ وعدوں سے مامور تھی۔ بدقسمتی سے ناقص حکمرانی اور غلط ترجیحات کی وجہ سے یہ وعدے کبھی پورے نہ ہو سکے۔
آخر کار خان صاحب کو اس بنا پر یاد رکھا جائے گا کہ وہ معاشی چیلنجز جیسا کہ مہنگائی جو ۱۳ فیصد تک بڑھ چکی ہے اور جس کی وجہ سے مارچ ۲۰۲۲ میں غذائی اجناس بھی ۱۵.۱ تک مہنگی ہو چکی ہیں اور جو کہ لاکھوں افراد کو غربت کی لکیر کی جانب دھکیل رہی ہے، اس کی جانب توجہ دینے کے بجائے حزب اختلاف کو نشانہ بناتے رہے۔ برآمدات یا ٹیکس وصولی میں اضافے میں ناکامی کا شکار خان حکومت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے بھیجے ہوئے زرمبادلہ، داخلی و بیرون ملک سے لیے گئے قرضوں اور آئی ایم ایف کے معاشی بیل آؤٹ پر بڑی حد تک انحصار کر رہی تھی۔ آخر میں اپنی حکومت کے خلاف خاص کر گنجان آباد اور سیاسی اعتبار سے اہم صوبے پنجاب میں پائی جانے والی ناراضی کا رخ موڑنے کے لیے عمران خان نے یہ جواز پیش کیا کہ بائیڈن حکومت نے ملک میں ”انتقال اقتدار“ کے لیے پاکستان کی حزب اختلاف کے ہمراہ سازش کی ہے۔
پاکستان نے اگرچہ کووڈ ۱۹ وبا کے مقابلے میں اچھی کارکردگی دکھائی تاہم خان کا مجموعی طرز حکمرانی کمزور رہا ہے۔ خاص کر ان کی مدت کے دوران پاکستانی سماج زیادہ وسیع پیمانے پر تقسیم کا شکار ہوا اور مذہبی جنون میں اضافہ ہوا۔ ان کی جانب سے ۱۴۰۰ برس قدیم ”ریاست مدینہ“ کی دوبارہ تخلیق کا مسلسل حوالہ اور اس کے لیے نصاب میں اسلامی مذہبی مواد میں اضافے کے ذریعے تعلیمی نظام میں تبدیلی لانے کے عمل نے نوجوانوں میں دنیا کو سیاہ و سفید کے مخصوص پیرائے میں دیکھنے کی جانب زیادہ اکسایا۔ اس کے شدید نوعیت کے اثرات مرتب ہوئے جیسا کہ دسمبر ۲۰۲۱ میں مشرقی پاکستان میں مذہبی طور پر مشتعل اور قانون ہاتھ میں لینے والے ہجوم کے ہاتھوں سری لنکن شہری کا ماورائے عدالت قتل۔ اقتدار میں اپنے آخری دنوں میں خان اور پی ٹی آئی کے دیگر سرکردہ رہنماؤں کی جانب سے نعرے بازی جس نے ان کی مخالفت کرنے والے ہر شخص کی تذلیل کی حوصلہ افزائی کی، اس نے معاشرے میں عدم برداشت اور فاشسٹ رجحانات کو مزید فروغ دیا۔
فوج کا لازوال کردار
کمزور معیشت یا سماجی تقسیم کے بجائے جو امر بہرحال ان کی عارضی سیاسی حکومت کے خاتمے کا سبب بنا وہ ان کے فوج سے بڑھتے ہوئے اختلافات تھے جس پر ۲۰۱۸ میں انتخابی کامیابی کے لیے ان کو ”منتخب“ کرنے اور اقتدار میں لانے کا الزام ہے۔ اس وقت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور عسکری قیادت دونوں نے حکومت چلانے کے اس طریقہ کار کو بے حد سراہا تھا جس میں سول اور عسکری قیادت دونوں مل جل کے کام کریں اور ایک صفحے پر رہیں گے۔ یہ نظام جسے ہائبرڈ نظام کے طور پر متعارف کروایا گیا اس میں ذمہ داریاں سول اور عسکری قیادت کے درمیان منقسم تھیں جہاں موخرالذکر تمام تر تزویراتی فیصلہ سازی، بالخصوص خارجہ امور اور قومی سلامتی کے لیے ذمہ دار تھا۔
خان جو ۱۹۹۲ میں کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے، جارحانہ سیاست اور اپنے کینسر ہسپتال کے لیے چندہ اکھٹا کرنے کے لیے معروف ہیں انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ پر دیگر ذمہ داریاں بھی لاد دیں۔ جنرل اور ان کی ٹیم ملک میں چوٹی کے کاروباری افراد و صنعت کاروں سے ملاقاتیں کرتے اور انہیں مستقبل کے حوالے سے ہدایات جاری کرتے دیکھے گئے۔ معاشی منصوبہ بندی میں شامل ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ یہاں تک کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے چیف بجلی فراہم کنندگان (آئی پی پیز) پہلے سے کیے گئے معاہدوں کی تشکیل نو، اور اس سے ملتے جلتے دیگر معاملات میں بھی شامل تھے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ناقص طرز حکمرانی پر خان پر کی گئی کسی قسم تنقید میں فوج کو بھی شامل کیا جانا چاہیئے جو نہ صرف ایک ایسے شخص کو اقتدار میں لائی جو طرز حکمرانی کے لیے جوش سے عاری تھا بلکہ بعد میں بھی مسلسل اس کے کام میں مداخلت کرتی رہی۔
اقتدار میں گزرے برسوں کے دوران خان نے ریاست اور سماج میں عسکری مداخلت کو یکساں طور پر پھیلایا۔ آخر میں کوئی ایک بھی ریاستی ادارہ ایسا باقی نہیں بچا تھا جو باوردی یا ریٹائرڈ آفیسر کے زیر انتظام نہیں تھا۔ فوج نے بلاشبہ غلط فیصلوں کے لیے کبھی بھی ذمہ داری قبول نہیں کی اور تنقید کا رخ حکومت کی جانب موڑ دیا۔ آرمی چیف نے بھی سول حکومت کے بجائے فوج کے لیے مثبت بیانیہ تشکیل دینے کی خاطر اہم شعبوں جیسا کہ ذرائع ابلاغ اور تعلیم نیز ملک بھر کی جامعات سے اپنے روابط میں اضافہ کیا۔
ہائبرڈ تعلق جس میں ابتداء میں گرمجوشی دکھائی دیتی تھی، اس میں آہستگی سے تلخی آنے لگی۔ اس کا آغاز ۲۰۲۰ میں آرمی چیف کی مدت میں توسیع میں خان کی ہچکچاہٹ کے سبب فیصلے میں التواء سے ہوا۔ پھر جنرل باجوہ کے حق میں فیصلے کے لیے سیاسی حزب اختلاف اور سپریم کورٹ کی شمولیت کی ضرورت پڑی۔ آرمی چیف اور وزیر اعظم کے مابین اختلافات، اولالذکر کی جانب سے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی بطور کور کمانڈر پشاور تعیناتی کے فیصلے کے سبب نقطہ عروج تک پہنچ گئے۔ خان، حمید کو اپنی سیاسی بقا اور آئندہ انتخابات میں کامیابی کا ضامن سمجھتے تھے لہذا انہوں نے اس ٹرانسفر کو جہاں تک ممکن ہوا موخر کیا۔ اگرچہ آخر میں آرمی چیف کا فیصلہ ہی غالب آیا تاہم اس نے عمران خان کے بارے میں جنرل کے خدشات کو گہرا کر دیا جو اس وقت تک ماضی کے دیگر حکمرانوں کی روش پر چلنا شروع کر چکے تھے اور جس کا مقصد اپنی طاقت میں اضافے کے لیے عسکری ادارے میں جوڑ توڑ تھا۔
ماضی کی طرح خان نے بھی جلد ہی جان لیا کہ پاکستان میں کسی کے فائدے کے لیے اداروں میں جوڑ توڑ کی سہولت سویلین سیاست دانوں کو نہیں بلکہ مسلح افواج کو حاصل ہے۔ درحقیقت، خان کے پیش رو نوازشریف نے یہی غلطی ۱۹۹۹ میں کی تھی جب انہوں نے آرمی چیف کو تبدیل کرنے کے لیے اپنی طاقت استعمال کی۔ شریف کی کوشش کا نتیجہ فوج کی اقتدار میں واپسی کی صورت میں ہوا جو خوش قسمتی سے اس بار نہیں ہوا۔ دریں اثناء پاکستان کی فوج نے اپنی ادارہ جاتی حیثیت محفوظ بنانے کی اہمیت کا سبق تاریخ سے سیکھ لیا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ ہر بار اختیارات سنبھالے بلکہ اس نے سیاسی ماحول پر اثرانداز ہونے کے نئے طریقے جان لیے ہیں۔
مستقبل کے امکانات
متعدد ذرائع ابلاغ جیسا کہ بی بی سی، رائٹرز اور ڈان کی جانب سے شائع کی گئی افواہیں یہ تجویز کرتی ہیں کہ آرمی چیف اور خان کے درمیان کسی قسم کی کوئی جھڑپ واقع ہوئی تھی کیونکہ موخرالذکر جنرل کو ہٹانے کے لیے ۹ اپریل کو رات گئے حرکت میں آئے تھے۔ ذرائع یہ بھی تجویز کرتے ہیں کہ خان کو ان کے کچھ قریبی معاونین نے تصادم کی راہ پر گامزن کیا تھا۔ اگرچہ خان کو قربانی کی سولی پر چڑھا کے فوج کی سیاست میں دوبارہ آمد سے بچاؤ ہو گیا تاہم ان کی رخصتی پاکستان کے سیاسی نظام میں زیادہ گہرے مسئلے کا اشارہ کرتی ہے۔ سول سیاستدانوں کی نسلیں پائیدار ادارے قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں اور اس کے بجائے وہ اپنے حواریوں کے غلط مشوروں کا شکار ہوئی ہیں۔
عمران خان شہروں میں بسنے والے متوسط طبقے کا بھی ایک ناکام تجربہ ہیں جو روایتی سیاستدانوں سے شاکی رہتا ہے اور جس نے انہیں ایک معتبر متبادل کی نگاہ سے دیکھا۔ اس میں مسلح افواج اور بیرون ملک مقیم پاکستانی شامل ہیں جن میں وہ بدستور مقبول ہیں۔ دیگر سیاسی کھلاڑیوں کی طرح ان کی اقتدار میں واپسی اس صلاحیت پر منحصر ہے کہ جس کے ذریعے سے وہ (اقتدار میں واپسی کے) اس طویل سفر کے دوران اپنے پیروکاروں کی توانائیاں مجتماع اور فوج جو کہ اقتدار کا منبع ہے اس کی خود میں دلچسپی برقرار رکھتے ہیں۔ تاحال وہ نئی حکومت اور مسلح افواج دونوں سے ہی تصادم کی راہ پر دکھائی دیتے ہیں۔ فوج بطور ادارہ اور آرمی چیف بطور شخصیت ان کے حامی اور سوشل میڈیا فالورز کے نشانے پر دکھائی دیتے ہیں جو خان کی بے دخلی کے لیے ان دونوں کو ہی موردالزام ٹھہراتے ہیں۔
فوج نے اگرچہ جی ایچ کیو میں منعقد ہونے والی ۷۹ ویں فارمیشن کمانڈرز میٹنگ میں پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے پروپیگنڈے کی مذمت کی ہے تاہم خان کی حمایت اور جاری مقبولیت ایک چیلنج پیش کرتی ہے۔ یہ ممکنہ طور پر نئی مقررہ عبوری حکومت کے فیصلوں، خاص کر خارجہ پالیسی امور سے متعلقہ فیصلوں کو مشکوک اور منفی پروپیگنڈے کا نشانہ بننے کا خطرہ رکھتی ہے۔ ماسوائے اس کے کہ خان اپنی تصادم پر مبنی حکمت عملی کو ترک کر دیں، وہ فوج کی جانب سے اپنے جماعتی ڈھانچے کو نشانہ بنائے جانے اور خود کو اس سیاسی فراموشی میں دھکیلے جانے کے خطرے سے بھی دوچار ہیں جس کا وہ ۲۰۰۸ کے انتخابات میں شکار ہوئے تھے۔ دوسری جانب نئی حکومت کے لیے سب سے بڑی آزمائش سماجی اختلافات کو پاٹنا اور خود کو سیاسی طور پر زیادہ قابل قبول کے طور پر پیش کرنا ہے جو محض معیشت کا رخ موڑ دینے کی صورت میں ہو سکتا ہے۔
Editors’ Note: A version of this piece originally appeared on 9DashLine and has been republished with permission from the editors.
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Abdul Majeed/AFP via Getty Images
Image 2: Anadolu Agency via Getty Images