سال ۲۰۱۷ پاکستان کےلئے اندرونی و علاقائی طور پر افراتفری سے بھرپور رہا ہے۔ ملک کی داخلی صورتحال سپریم کورٹ کی طرف سے نواز شریف کو نا اہل قرار دئے جانے اور پھر اسلام آباد میں بریلوی فرقے کی مذہبی و سیاسی دھرنے کا شکار رہی۔ خارجہ پالیسی کے محاذ پر پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کمزور اور افغانستان کے ساتھ کشیدہ رہے۔ اس داخلی سیاسی انتشار اور علاقائی اتار چڑھاؤ کے باوجود پاکستان کے سیاسی ادارے آپس میں باہم رہے اور دہشت گردی سے ہونے والی اموات میں کمی واقع ہوئی جس کے بعد پاکستان ۲۰۱۸ کے انتخابات میں ایک امید کے ساتھ داخل ہو گا۔
۲۰۰۸ میں جمہوری تبدیلی کے بعد پاکستان نے سیاست میں متحرک عدلیہ کا کردار دیکھا ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں متحرک عدالت عظمٰی کی وجہ سے ملک کے تین سربراہانِ مملکت صدر پرویز مشرف ، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو استعفے دینے پڑے۔اس سال سپریم کورٹ کے فیصلے پر نواز شریف کو رخصت ہونا پڑا اور جب مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو نواز شریف اور انکے خاندان کے مبینہ گھپلوں میں تحقیقات کا کہا گیا تو انہوں نے چار و ناچار عدالت کا فیصلہ مانتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔
عدالت کے احتساب سے متعلق غیر معمولی سخت موقف سے دعوں اور جوابی دعوں کی ریل پیل ہو گئی اور اسی تناظر میں نواز شریف کی پارٹی یعنی مسلم لیگ نواز اپوزیشن رہنما عمران خان کی نااہلی بھی تلاش کرتی رہی۔ اگرچہ احتساب کی موجودگی لازمی طور پر جمہوری نظام کو مظبوط کرتی ہے تاہم اگر یہی عمل داخلی استحکام کو دیگر (نامناسب) طریقوں سے مظبوط کرنے کی کوشش کرے تو نظام کمزور ہو جاتا ہے۔اور اسی طرح اگر سیاستدان احتساب کے عمل کو اپنے ذاتی سیاسی مفادات کےلئے استعمال کر سکتے ہیں تو سیاسی نظام زمین بوس ہونے کے پورے امکانات ہیں۔
انتخابی بل تنازعہ اور احتجاج ؛
مسلم لیگ نواز کی طرف سے انتخابی بل ۲۰۱۷ میں ترمیم سے ایک نئے تنازعہ نے جنم لیا جس سے سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہوا اور ایک نئی سیاسی جماعت تحریکِ لبیک یا رسول اللہ نے نومبر میں اسلام آباد میں اسی حوالے سے دھرنا بھی دیا۔ تحریکِ لبیک کا سیاسی ارتقاء اور انکی انتخابی عمل کے مرکزی دھارے میں شمولیت انکی روائتی سیاسی نظام کی جگہ مذہب کو متبادل آپشن کے طور پر پیش کرنے کی خواہش کو ظاہر کرتی ہے (جماعت نے لاہور کے اہم ضمنی انتخاب سخت گیر توہینِ رسالت قانون کی حمائت کرتے ہوئے لڑا اور ۷۱۳۰ ووٹ حاصل کئے)۔ دھرنے کا اختتام ایک معاہدے پر ہوا جسے فوج کی ثالثی سے طے کیا گیا اور نتیجتاً وزیرِ قانون مستعفی ہوئے۔
اس تنازعہ کی وجہ انتخابی بل تھا جس میں حضور پاک کو آخری نبی ماننے کی شق موجود تھی اور جس میں مبینہ طور پر ترمیم کی گئی۔ بل میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دئے جانے سے متعلق بھی ۲ شقوں کو ختم کیا گیا۔ مذہبی حلقوں کا کہنا تھا کہ اس ترمیم کا مقصد احمدیوں کےلئے مسلم ووٹر لسٹ میں شامل ہونے کی راہ ہموار کرنا تھا۔ اسکی وجہ سے مسلم لیگ -ن ۲۰۱۸ کے انتخابات میں احمدی ووٹ حاصل کر کے جیت سکتی تھی۔
تاہم بل کے پاس ہونے کے ایک ہفتے بعد حکومت نے حذف شدہ شقوں کو دوبارہ شامل کر لیا اور انتخابی بل کو پرانی حالت میں بحال کر دیا۔ اگرچہ حکومت نے اس معاملے کو کلیریکل غلطی کہتے ہوئے شقوں کو بحال کر دیا تاہم تحریک لبیک کے سپورٹرز نے اسلام آباد کی طرف مارچ کرتے ہوئے وزیرِ قانون کا استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ حکومت کی رِٹ کو ان مذہبی عناصر کی طرف سے زبردست چیلنج درپیش ہوا اور اسکے اثرات تب ظاہر ہوئے جب نیم دلی سے کیا گیا پولیس آپریشن مظاہرین کو منتشر کرنے میں ناکام ہو گیا۔ حکومت نے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سویلینز کی مدد کےلئے فوج تعینات کر دی جس کے نتیجے میں مظاہرین کے ساتھ بالآخر ایک معاہدہ عمل میں آیا۔
اگرچہ مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک اتنا نہیں ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں نشستیں جیت سکیں تاہم انکی موجودگی اس بات کا اشارہ ہے کہ اب ملک میں مذہبی سیاست بھی پنپ رہی ہے اوریہ روائتی سیاست سے مایوسی کی وجہ سے ہے، جو بد عنوانی اور گورننس کے مسائل حل نہیں کر سکی ہے۔
پاکستان اور امریکہ: روابط اور کشیدگی؛
توقعات کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سکیورٹی ٹیم نے افغانستان سے متعلق ایک سخت گیر پالیسی بنائی ہے جس کے پاک-امریکہ تعلقات کےلئے منفی اثرات پڑے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں نئی امریکی حکمتِ عملی کو اپنی ایک بڑی تقریر میں بیان کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ “ہم جن کے خلاف لڑ رہے ہیں انہیں تحفظ فراہم کرتا ہے”۔ جبکہ پاکستان نے جواباً اپنے اس موقف کو دہرایا کہ اس نے اپنی سر زمین سے دہشت گردوں کا صفایا کیا ہے جن میں حقانی نیٹ ورک بھی شامل ہے۔
اگرچہ دو طرفہ تعلقات میں وقتی گرمجوشی بھی دیکھی گئی جب پاکستان نے ایک کینیڈین جوڑے کو طالبان سے بازیاب کرایا تاہم پاکستان اور امریکہ سال بھر روابط کے بننے اور بگڑنے کی صورتحال سے دوچار رہے۔ نومبر میں امریکی کانگریس نے (مالی سال ۲۰۱۸ کےلئے فوجی بجٹ ) کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں پاکستان کو ۷۰۰ ملین ڈالر ادا کرنے کی منظوری دی۔ تاہم اس رقم میں سے آدھی وزیرِ دفاع جیمز میٹس کی طرف سے پاکستان کو ‘سرٹیفیکیٹ‘ دینے سے مشروط ہے۔ یہ رقم تب تک پاکستان کو جاری نہیں کی جائے گی جب تک جیمز میٹس یہ تعین نہ کر لیں کہ پاکستان نے “خاصی حد تک محفوظ پناہ گاہوں، فنڈز اکٹھا کرنے اور بھرتیوں کے ساتھ ساتھ حقانی نیٹ ورک کے پاکستان میں متحرک ہونے میں خلل ڈالا ہے”۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسلام آباد اب اس بل کے پاس ہونے کے بعد بھارت مخالف تنظیموں (جیسےلشکرِ طیبہ) کے خلاف اقدامات کرکے امریکہ کو جواب دینے یا دکھانے کا پابند نہیں رہا ہے۔ یہ تبدیلی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ امریکہ اب افغان مسئلے کا حل فوری طور پر چاہتا ہے اور وہ بھی اُن نان-سٹیٹ-ایکٹرز کے خلاف اقدمات کر کے جو براہ راست افغانستان میں دخل انداز ہوتے ہیں نا کہ بھارت میں۔
ان سب اقدامت کے باوجود بھی اعتماد کا فقدان برقرار ہے۔ تعلقات میں نیا دھچکہ تب آیا جب لاہور ہائیکورٹ نے ناکافی ثبوت ہونے پر ۲۰۰۸ کے ممبئی حملوں میں مبینہ طور پر ملوث حافظ سعید کی نظر بندی ختم کر دی۔ اس عمل نے امریکہ کو پاکستان پر براہِ راست دباؤ ڈال کر حافظ سعید کو دوبارہ گرفتاری کرنے پر مجبور کیا۔ وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری کا کہنا تھا کہ “یہ پاکستان کے اس دعوے کی نفی کرتا ہے کہ وہ دہشت گردوں کو اپنی سر زمیں پر جگہ مہیا نہیں کرتا”۔
بنیادی اختلافات کی وجہ سے دو طرفہ تعلقات پیچیدگی کا شکار رہیں گے چونکہ امریکہ ترجیحی طور پر ۱۶ سالہ افغان جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے۔ ۲۰۱۸ میں داخل ہوتے ہوئے یہ کہیں نہیں لگتا کہ امریکہ پاکستان کی غیر محفوظ افغان بارڈر سے متعلق سکیورٹی خدشات کے بارے میں ہمدردی اپنائے گا ۔ اور اسی بدولت ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہی رہیں گے۔
پاک–افغان ٹوٹتے تعلقات
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات مئی ۲۰۱۷ میں تب انتہائی کشیدگی میدا ہوئی جب پاک-افغان سرحد ی علاقے چمن میں پاک فوج کی سکیورٹی میں مردم شماری کی ٹیم پر افغان آرمی کی جانب سے حملہ کیا گیا۔اسکی وجہ سرحدی علاقے میں واقع کچھ گاؤں ہیں جن پر دونوں ممالک اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔ پاکستان آرمی نے جوابی حملہ کیا جس میں افغان آرمی کے ۵۰ جوان مارے گئے تاہم افغانستان نے اپنے جوانوں کی ہلاکت کی خبروں سے انکار کیا۔
تعلقات کی بگڑتی نوعیت کے باعث پاکستان نے نہ صرف سرحد پر باڑ لگانا شروع کر دی بلکہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی سے متعلق اپنی پالیسی کو سکیورٹی رسک کی وجہ سے مزید سخت کر لیا۔ سیاسی اور سکیورٹی صورتحال دوطرفہ تجارت کےلئے مہلک ثابت ہوئی اور افغانستان نے بھارت کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ اگر بھارت اور افغانستان کے بیچ تعلقات ۲۰۱۸ میں مزید گہرے ہوئے تو پاکستان اور افغانستان میں کدُورتیں بڑھیں گی اور فاصلے مزید وسیع ہو جائیں گے۔
۲۰۱۸ کا پاکستان: دھچکوں کے باوجود امیدی؟
سیاسی جھٹکوں کے باوجود پاکستان میں جمہوریت پرورش پا رہی ہے اور تمام جماعتیں ۲۰۱۸ کے انتخابات کی تیاری میں ہیں۔ پاکستان انتخابات سے پہلے اور بعد میں سیاسی استحکام کےلئے بہتر کوشش کرے گا تاکہ اقتدار کی پُر امن منتقلی یقینی بنائی جا سکے اور ملک میں دھرنوں اور مظاہروں کی سیاست کا سدِ باب ہو سکے۔ اسی دوران اسلام آباد کو افغانستان سے جنم لیتی جیوسٹریٹیجک پیچیدگیوں پر بھی گہری نظر رکھنی ہو گی بالخصوص اس لئے کہ عدم استحکام اور تنازعات سی-پیک جیسے بڑے معاشی منصوبے کےلئے منفی اثرات کا باعث بن سکتے ہیں۔
***
.Click here to read this article in English
Image 1: World Economic Forum, via Flickr
Image 2: Jim Mattis via Flickr