پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی حالیہ لہر نے انسدادِ دہشت گردی کے لیے کی گئی کوششوں کو اکارت کر کے پیچھے کی جانب دھکیل دیا ہے۔ردُّالفساد کے تحت کومبنگ آپریشنز اور انسدادِ دہشت گردی کی جامع تر حکمت عملیوں نے پاکستان کو ۲۰۰۹ میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کے عروج کے سدِّ باب میں مدد دی۔تاہم گزشتہ ماہ پشاور میں مضبوط حصار بندی کے حامل پولیس کمپاؤنڈ کے اندر ایک مسجد اور بلحاظِ آبادی ملک کے سب سے بڑےشہر کے درمیان واقع کراچی پولیس آفس پر حملوں نےان اقدامات کو ایک بار پھر جانچ پڑتال کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حساس تنصیبات کو نشانہ بنانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دہشت گرد ایجنسیاں اور ان کے معاونین پاکستان کی کامیاب انسدادِ دہشت گردی کی کہانی کو پلٹنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔انسدادِ دہشت گردی کی مکمل طور پر فعال اور انتہائی قابل عمل پالیسی ہونے کے باوجود پاکستان کو اس خطرے سے نمٹنے کے لیے دہشت گردی کے تدارُک کی ایک تکمیلی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔
انسدادِ دہشت گردی اور تدارُکِ دہشت گردی کے درمیان فرق یہ ہے کہ موخر الذکر دہشت گردی کی پیش بندی اور روک تھام کرتا ہے جبکہ اوّل الذکر زیادہ تر کسی واقعے کے بعد کا رجعتی ردعمل ہے۔ حملے کے بعد، انسدادِ دہشت گردی کی حکمتِ عملیوں میں جوابی اور رجعتی ردعمل پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے جس میں اکثر تادیبی فوجی کاروائیاں استعمال کی جاتی ہیں اور دہشت گردوں کی تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔دوسری طرف تدارُکِ دہشت گردی کی حکمتِ عملیاں حملوں سے پہلے کام کرتی ہیں، جس میں دہشت گرد تنظیموں کے لئے ہمدردی اور حمایت کو ختم کرنے کے لئے پیچیدہ قانونی اور ضابطۂ کار کارروائیوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔قانون کی بالا دستی کو از سرِ نو قائم کرنےاور اسےمضبوط بنانے والے قانونی نظام کو تیار کر کے، تدارُکِ دہشت گردی کا مقصدمعاشرے کے ان طبقات کی نشاندہی اور ان کا تحفظ کرنا ہے جو دہشت گرد نظریات کے زد پذیر ہیں۔ اب جبکہ پاکستان دہشت گردی کی موجودہ لہر سے نمٹ رہا ہے،پالیسی سازوں کو بنیادی علّتوں کا سدِّ باب کرنے کے لیے تدارُکِ دہشت گردی کے ضابطۂ کار کو وسیع العمل انسداد ِ دہشت گردی کے فریم ورک کے ساتھ ملا کر مکمل کرنا ہو گا۔
پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی اور تدارُکِ دہشت گردی میں حائل خلیج کی نشاندہی
انسداد ِدہشت گردی اور تدارُکِ دہشت گردی میں حائل خلیج کے حوالے سے پاکستان کو پہلا تجربہ ۲۰۰۹ میں شروع کیے گئے جامع فوجی آپریشنز کی کامیابی کے بعد ہوا۔فوری خطرات کم ہونے کے بعد، ریاست نے مزید ادارے قائم کیے جن کا مقصد دہشت گردی کی ان پیچیدہ بنیادی وجوہات سے نمٹنا تھا جن کے باعث ملک میں دہشت گردی پھل پھول رہی ہے۔ان نیک ارادوں کے باوجود پاکستان تدارُکِ دہشت گردی کی حکمتِ عملیوں کو انسدادِ دہشت گردی کے پہلے سے موجود فریم ورک میں ضم کرنے میں ناکام رہا ہے۔
اب جبکہ پاکستان دہشت گردی کی موجودہ لہر سے نمٹ رہا ہے،پالیسی سازوں کو بنیادی علّتوں کا سدِّ باب کرنے کے لیے تدارُکِ دہشت گردی کے ضابطۂ کار کو وسیع العمل انسداد ِ دہشت گردی کے فریم ورک کے ساتھ مکمل کرنا ہو گا۔
انسدادِ دہشت گردی اور تدارُکِ دہشت گردی میں حائل یہ خلیج نیشنل ایکشن پلان اور مابعد نیشنل کاؤنٹر ٹیررازماتھارٹی (نیکٹا) میں سب سے زیادہ واضح طور پر دیکھی گئی ہے۔۲۰۱۴ میں آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) حملے کے بعد قائم ہونے والے نیکٹا کا مقصد جامع پالیسی نقطہ نظر اور اسٹریٹیجک مواصلات کے ذریعے پیش بندی کر کے دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کو ختم کرنا ہے۔ دہشت گردوں کو پاکستان کی سماجی، معاشی اور سیاسی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے سے روکنے کے لئے خیال یہ تھا کہ پیشگی وارننگ میکانزم تیار کرنے اور معقول ادارہ جاتی ہم آہنگی فراہم کرنے کی پاکستان کی صلاحیت کو مضبوط کیا جائے۔ تاہم، بعد کے برسوں میں، اس کے برعکس نیکٹا نے دہشت گردی کی سرگرمیوں کے نظریاتی جائزے پر توجہ مرکوز رکھی اور قانون کے نفاذ اور قانونی خدمات کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ چھوڑ دیا۔اگرچہ نیکٹا نظریاتی طور پر دہشت گردی اور اس کی مختلف اشکال سے نمٹنے کے لئے ایک مثالی ادارے کے طور پر کام کرتا ہے ، لیکن اسے دہشت گردی سے نمٹنے اور دہشت گرد تنظیموں کی مرکزِ توجہ میں مسلسل تبدیلی کے باعث شدید رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
دہشت گردوں اور مجرموں کی دیگر قسموں کے درمیان فرق کرنا ایک ایسا پہلو ہے جسے انسدادِ دہشت گردی کی پالیسیوں کے نفاذ کے طریقہ کار کو وضع کرنے میں مسلسل نظر انداز کیا جاتا ہے۔گھناؤنے جرائم اور فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ملزمان، دہشت گرد سرگرمیوں کے باعث گرفتار مجرموں سے مختلف ہوتے ہیں، لیکن انسدادِ دہشت گردی ایکٹ ۱۹۹۷ کی دفعہ ۷، جو دہشت گردوں کو سزا دینے سے متعلق ہے، اکثر غیر دہشت گرد مجرموں کے لیے بھی استعمال کی جاتی رہی ہے۔اس طرح کے اقدامات کے خلاف قانونی کارروائیوں میں اس سے نہ صرف عدالتی کار گزاری پر بوجھ بڑھ جاتا ہے، بلکہ ریاستی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی ایسی تحقیقات کے طوفان کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کا نتیجہ اکثر شواہد کی عدم دستیابی کی وجہ سےبرّیت میں نکلتا ہے یا پھر وہ انسدادِ دہشت گردی کی حکمت عملیوں کی حقیقی کامیابی پر اجارہ داری قائم کر لیتی ہیں۔
کم رفتارسویلین قانونی طریقۂ کار کے باعث، پاکستان نے گرفتار دہشت گردوں کے خلاف خصوصی فوجی عدالتیں قائم کیں۔تاہم، ان فوجی عدالتوں میں بےفیصلہ تحقیقات کی تعداد میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور انہیں مناسب طریقہ کار کے مسائل کا سامنا ہے۔متوازی سویلین اور فوجی ڈھانچے نہ صرف پاکستان کی قومی اور بین الاقوامی برادری میں اعتماد کی خواہش کو کمزور کرتے ہیں بلکہ انسداد دہشت گردی کی حکمت عملیوں کی کامیابیوں کےاستحکام کو بھی کمزور کرتے ہیں۔
اے پی ایس کے حملے سے پہلے، انسدادِ دہشت گردی اور تدارُکِ دہشت گردی کے درمیان خلیج وسیع ترتھی۔
نائن الیون کے بعدشورش کچلنے کی کامیاب کارروائیوں نے پاکستان کو بڑے پیمانے پر کام کرنے کا موقع فراہم کیا، لیکن ساتھ ہی دہشت گردوں کے لئے امید سے بڑھ کر بھر پور جوابی کارروائیاں کرنے کے مواقع بھی فراہم کیے ، جس سے اس کی انسداد دہشت گردی اور تدارُکِ دہشت گردی طریقۂ عمل میں ایک اور پرت کا اضافہ ہوا۔ اے پی ایس پشاور کے واقعے کے بعد، پاکستان نے تدارُکِ دہشت گردی کی حکمت عملیوں پر انسدادِ دہشت گردی کے ردِ عملی نظام (میکانزم) کو ترجیح دی، جس میں کثیرالجہتی فوجی اور انٹیلی جنس آپریشنز کے ساتھ ایک جامع تر انسداد دہشت گردی پالیسی تیار کی گئی۔
اس دوران پاکستان نے تدارُکِ دہشت گردی کی کاوشوں پر کم توجہ دی۔عدالتوں، تحقیقاتی نظریات اور متعلقہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فوجی نظریات کے تحت نئے سرے سے وضع کیا گیا، ایک ایسا قدم جو کامیاب تدارُکِ دہشت گردی کے تقاضوں کو پورا نہیں کر پاتا۔ حملے کے ردِ عمل کے طور پر چونکہ ریاست نے انسدادِ دہشت گردی کی پالیسیوں کو ترجیح دی تھی ، نتیجتاََ کائنیٹیک آپشنز (متحرک طریقۂ کار) نے تدارُکِ دہشت گردی کے نظام ( میکانزم) کو گہنا دیا۔ حملے کے بعد پارلیمانی مباحثوں میں انسداد دہشت گردی قوانین اور تحقیقاتی ترجیحات پر توجہ مرکوز کی گئی، جس سے نہ صرف نفاذِ قانون کے قائم شُدہ نظام کی افادیت متاثر ہوئی بلکہ انسداد دہشت گردی اور اس کے مابین اختلافات بھی بڑھ گئے۔
وقت کے ساتھ جیسے جیسے انسدادِ دہشت گردی تدارُکِ دہشت گردی کے نظام میں شمولیت کی طرف بڑھ رہا ہے، ادارہ جاتی بے قاعدگیاں سامنے آ رہی ہیں جوپاکستان میں نفاذِ قانون کی جڑیں کھود رہی ہیں۔
مثلاََ، اے پی ایس حملے کے رد عمل کے طور پر قائم کیے گئے الگ الگ قانونی اور تحقیقاتی نظامات نے عملیت کو کمزور کر دیا ہے۔سویلین ایجنسیاں جیسے کہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) اور مقامی ادارے برائے نفاذِ قانون ، انکے پاس عسکریت پسندوں کو زیرِ حراست رکھنے کے لیے مناسب بنیادی ڈھانچے کا فقدان ہے، جس کے باعث ایجنٹس یا تو ملزمان کو مسلح افواج کے حوالے کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور یا تو پھر سیکیورٹی کی خلاف ورزیوں اور اپنی تنصیبات پر دہشت گرد حملوں سے نمٹنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔فوجی آپریشنز، انٹیلی جنس آپریشنز اور شورش زدہ علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کومبنگ اور سوئپنگ آپریشنز ؛ ایک جامع پالیسی کے بہت سے اقدامات میں سے چند ہیں۔ انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کی وجہ سے داخلی نقل مقامی اور نقل مکانی کے رجحانات اور خصوصیات کی نشاندہی کے لیے نفاذِ قانون کی جامع حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔
پاکستان میں تدارُکِ دہشت گردی کو ترجیح دینا: آگے بڑھنے کا راستہ؟
پاکستان دہشت گردی کے خلاف سخت جنگ لڑ رہا ہے۔سیاسی عدم استحکام اور مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اصلاحات کی ضرورت، اس مسئلے میں اضافہ کرتے ہیں، جس سے پچھلی انسداد ِ دہشت گردی کی کارروائیوں کی کامیابیوں میں کمی واقع ہوتی ہے۔مشترکہ مربوط کارروائیوں کی عدم موجودگی میں پولیس، مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پیرا ملٹری فورس پر حملوں سے دہشت گردوں، علیحدگی پسندوں اور انتہا پسندوں کو با آسانی کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔پاکستان میں پولیس فورس سیکیورٹی برقرار رکھنے کے حوالے سے شدید تنقید کا موضوع رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پولیس تدارُکِ دہشت گردی اور انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتی ہے اور یہ ایک ایسی صفت ہےجو پاکستان کے نیشنل ایکشن پلان میں ناپیدہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حالیہ فیصلے پرانے وعدوں کو تازہ کرتے ہیں اور مختلف نتائج کی امید میں ماضی کے طریقوں کو نئے پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔کسی نئی ادارہ جاتی ترمیم یا قانونی فریم ورک کو اختیار نہیں کیا گیا اور نہ ہی عمل میں نہیں لایا گیا ہے۔ پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کی فورسز کیل کانٹے سے لیس ہیں، نظریاتی اور تزویراتی طور پر غیر معمولی ہم آہنگی برقرار رکھتی ہیں، اور انہیں بے پناہ سماجی حمایت بھی حاصل ہے، لیکن تدارُکِ دہشت گردی کے ادارے نہ تو اچھی طرح سے مسلح ہیں اور نہ ہی مجموعی صورتحال میں ضم ہیں، جو ان کے کام کرنے کی صلاحیت اور پیشگی / احتیاطی طریقہ کار کو کمزور کر دیتا ہے۔
نیشنل ایکشن پلان مطابقِ ضرورت ترامیم اور ساختی اصلاحات پاتا ہے تاہم حکمتِ عملی وضع کرنے کے طریقۂ کار بنانے کے تناظر میں اسے مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے معلومات و آراء (اِن پُٹ) کی کمی کا سامنا ہے۔
نیشنل ایکشن پلان مطابقِ ضرورت ترامیم اور ساختی اصلاحات پاتا ہے تاہم حکمتِ عملی وضع کرنے کے طریقۂ کار بنانے کے تناظر میں اسے مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے معلومات و آراء (اِن پُٹ) کی کمی کا سامنا ہے۔پاکستان کو تدارُکِ دہشت گردی پر اتنی ہی توجہ دینی ہوگی جتنی اس نے انسدادِ دہشت گردی کے طریقوں پر دی تھی کیونکہ اس سے نہ صرف کارروائیوں میں آسانی و تیزی آئے گی بلکہ پاکستان میں دہشت گرد گروہوں اور سرگرمیوں کی تغیر پذیری سے نمٹنے کے لیے متنوع قانون نافذ کرنے والے اداروں کی باہم کار روائیوں کو بھی مدّرج کیا جا سکے گا۔دہشت گردوں، علیحدگی پسندوں، کالعدم تنظیموں اور جرائم پیشہ عناصرکے درمیان گٹھ جوڑ کو توڑنا تدارُکِ دہشت گردی کا ایجنڈا ہے اور اگر حالیہ دہشت گردی کی سرگرمیوں کے جواب میں انسداد دہشت گردی کی یہی (پہلی والی) حکمت عملی استعمال کی گئی تو اس پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Arif Ali/AFP via Getty Images
Image 2: Abdul Majeed/AFP via Getty Images