پاکستان کے انتخابی عمل میں دائیں بازو کے بنیاد پرستوں کا دوبارہ ظہور ملکی جمہوری نظام میں ایک قدم پیچھے جانے کے مترادف ہے۔ جہاں تحریکِ لبیک پاکستان اور ملی مسلم لیگ کے ظہور پر خدشات ہیں وہیں دائیں بازو کے بنیاد پرستوں کی آنے والے انتخابات میں شرکت مبہم ہے۔ ان جماعتوں کی طرف سے اپنے سپورٹرز کو متحرک کرنے کی صلاحیت ــــ جیسا کہ اسلام آباد میں گزشتہ برس تحریک لبیک کے دھرنے میں دیکھا گیا تھا ــــ کو ملکی و عالمی سطح پر پاکستان کی پہلے سے بنیاد پرست معاشرے میں اضافے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم ‘اسلامی شعار‘ اور مذہبی رواداری کے نعروں پر مشتمل یہ بیانیہ معاشرتی و معاشی مسائل میں گھرے ووٹر کو مائل کرنے کےلئے ناکافی ہے۔ مبصرین ان جماعتوں میں دہشت گرد عناصر کی شمولیت کے اندازے لگاتے ہیں لیکن انکی مرکزی سیاست میں شمولیت محدود ہے چونکہ ملکی انتخابی نظام اس وقت کثرت ِ رائے پر قائم ہے۔
دوبارہ نمودار ہوتے مذہبی کردار؛
گزشتہ جولائی نواز شریف کے عدالتی فیصلے پر نااہل ہونے کے بعد جماعت الدعوۃ ــلشکرِ طیبہ کا سیاسی بازوــــ نے ملی مسلم لیگ کی صورت میں سیاست میں باقاعدہ آمد کا اعلان کیا۔ اس دوران حکومت کی طرف سے انتخابی بِل میں ممبرانِ اسمبلی کے حلف نامے میں ترمیم پرتحریک لبیک نے اپنے کارکنان کو متحرک کیا۔ تحریک لبیک کے مطابق بل قادیانیوں کےلئے ایک سہولت تھی تاکہ وہ مسلمانوں کی طرح اپنا ووٹ ڈال سکیں۔ ستمبر تک دونوں جماعتوں نے اپنا وجود منوا لیا کیونکہ دونوں نے ضمنی انتخاب میں ۱۱ فیصد ووٹ حاصل کئے ۔ اس تعداد نے ایک تشویش کو جنم دیا کہ عوام اب انتہا پسند جماعتوں کو ووٹ دینے پر مائل نظر آتے ہیں۔
ان خدشات کو دیکھنے سے پہلے مذہبی جماعتوں بالخصوص متحدہ مجلسِ عمل کے ماضی میں ملکی سیاست میں کردار کو دیکھنا ہو گا ۔ متحدہ مجلسِ عمل نے ۲۰۰۲ کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی ۵۹ سیٹیں جیتیں اور خیبر پختونخواہ میں حکومت بنانے کے علاوہ بلوچستان میں حکومتی اتحاد کا حصہ بنی۔ تاہم متحدہ مجلسِ عمل کا اتحاد اگلے انتخابات میں قومی اسمبلی کی محض ۵ اور صوبائی اسمبلی (خیبر پختونخواہ) کی صرف ۱۴نشستیں جیت سکا۔ متحدہ کا ۲۰۰۸ میں ناکام ہونا اندرونی خلفشار کا نتیجہ تھا۔ مزید برآں پارٹی نے ۲۰۰۲ میں جو زیادہ نشستیں جیتیں وہ خیبر پختونخواہ سے تھیں یعنی پارٹی کے جغرافیائی وسعت ایک صوبے تک محدود تھی۔ ۲۰۰۸ میں متحدہ مجلسِ عمل عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے ابھرتی ہوئی سیکولر پشتون وطن پرستی کا شکار ہوئی۔ اب بھی اندرونی مسائل کی وجہ سے متحدہ مجلسِ عمل زیادہ ووٹ بینک کو مائل نہیں کر سکے گی۔
بے ربط مذہبی اتحاد؛
یہ جاننا ضروری ہے کہ مذہبی جماعتیں ایک ہی طرح اور روش کی نہیں بلکہ مختلف عقائد رکھتی ہیں۔ اہلحدیث اور اہل سنت سُنی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن حدیث (پاک نبی کے فرمودات) اور سنت (پاک نبی کا زندگی کا طریقہِ کار) پراختلاف رکھتے ہیں۔ سیاسی طور پر اہل حدیث جہادی اسلام کی طرف رغبت رکھتے ہیں جب کہ اہلِ سنت صوفی اور غیر متشدد اسلام پر مائل ہوتے ہیں۔ لیکن حالیہ وقتوں میں روائتی طور پر لچکدار اہل سنت عسکریت پسندی کی طرف جانا شروع ہو گئے ہیں۔
ان اختلافات کو تحریکِ لبیک کی صورت میں پرکھنا ہو گا کیونکہ یہ بڑھتی عسکریت پسندی سے باہم ہیں۔ لیکن اسی عمل سے نہ صرف تحریک لبیک میں اندرونی خلفشار پیدا ہوا بلکہ تحریک لبیک اور جمعیت علمائے پاکستان کے مابین بھی اختلافات نمودار ہوئے۔ جمیعت نے خود کو تحریک لبیک سے دور رکھا اور ُمصر رہے کہ تشدد اسلام کی روح اور اہل سنت کی روایات سے متصادم ہے۔ اس کشمکش میں جمیعت نے متحدہ مجلس عمل میں شمولیت اختیار کر لی ہے اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس اتحاد میں اہل سنت اور اہل حدیث جماعتوں کے ساتھ ساتھ علامہ ساجد نقوی کی شیعہ جماعت ‘تحریکِ اسلامی’ ، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام بھی شامل ہیں۔اس پرانے اتحاد کو اب تحریکِ لبیک اور اہل حدیث سے متاثر اللہ اکبر تحریک سے مقابلہ کرنا ہے۔ ان تینوں جماعتوں کے بیچ اختلافات کی وجہ سے چونکہ اتحاد ناممکن ہے اس لئے آئندہ انتخابات میں مذہبی ووٹ تقسیم ہو گا۔
اسکے علاوہ دو مزید عناصر ہیں جو مذہبی جماعتوں کی کامیابی/ناکامی کےلئے اہم ہیں۔ پہلا امر یہ ہے کہ اس دفعہ تحریک لبیک اور اللہ اکبر تحریک کے ووٹ بینک میں اضافہ ہو گا مگر انکو خاطر خواہ نشستیں ملنے کے امکانات نہیں ہیں۔ لودھراں، چکوال اور لاہور کے ضمنی انتخابات میں ان جماعتوں کے ووٹرز میں اضافہ ہوا تاہم نسشت نہ جیتی جا سکی۔
دوسرا امر یہ ہے کہ تحریکِ لبیک اور اللہ اکبر تحریک کا اصل جوڑ پنجاب میں ہے اور اسکا مطلب باقی صوبوں میں انکی شنوائی کم تر ہے۔ اس لئے یہ جماعتیں شمالی اور وسطی پنجاب میں مسلم لیگ۔ ن کے ووٹ کو ختم نبوت معاملے کے استعمال سے خراب کریں گی۔ لیکن چونکہ نشتیں جیتنے کے امکانات کم ہیں اس لئے الیکشن کے بعد صوبائی و قومی سطح پر ان جماعتوں سے دیگر جماعتوں کے اتحاد کے کم تر امکانات اور جوڑ توڑ میں کردار بھی نہیں ہو گا۔
مستقبل کے امکانات؛
مستقبل میں مذہبی جماعتوں کی نمائندگی کو روکنے کےلئے مناسب وقت پر قانونی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ الیکشن کمیشن نے ملی مسلم لیگ کی رجسٹریشن نہ کی لیکن جس آسانی سے ملی مسلم لیگ نے اللہ اکبر پارٹی کا پلیٹ فارم استعمال کر لیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانون کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر موجودہ قوانین انتہا پسند گروہوں کو کاروائیاں کرنے سے روک نہیں سکتا تو انکا اثرورسوخ ملکی سیاسی بساط پر برقرار رہے گا۔
مزید برآں مذہبی جماعتوں کی پاکستانی سیاسی منظر نامے پر غالب ہونے کے امکانات انکی طرف سےعوام کےلئے پیش کردہ سماجی و معاشی لائحہِ عمل دینے پر بھی منحصر ہے۔ ملی مسلم لیگ کی ویب سائٹ پر چار عوامل درج ہیں، بھارتی مقبوضہ کشمیر کےلئے حقِ خود ارادیت، اقلیتوں کا تحفظ، خواتین کو طاقتور بنانا اور پاکستان کی بنیادی نظرئے کی حفاظت کرنا۔ پارٹی کا اسلامی بیانیہ بھی موجود ہے جسکا مقصد پاکستان کومعاشی ترقی دلانا ہے۔ تاہم اگر پارٹی ملک کی معاشی ترقی کےلئے کوئی جامع منصوبہ پیش نہیں کرتی ہے تو اسکو وسیع حمائت حاصل نہیں ہو گی بالخصوص بڑھتی ہوئی نوجوان آبادی سے۔
خلاصہ؛
پاکستان کو انتخابی عمل میں انتہا پسند عناصر کی شمولیت ،انکی سماجی طاقت اور انکی طرف سے سیکولر جماعتوں و رہنماؤں کو مذہبی رجحانات کی طرف مائل کرنے جیسے چیلنجز درپیش ہیں۔ اور پھر دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ۔ن اور تحریک انصاف پر انتہا پسند مذہبی عناصر کی اپنے مفادات کےلئے آبیاری کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ درست ہے لیکن ان جماعتوں کو ملکی انتخابی عمل میں مقام بنانے کےلئے ایک لمبی تگ و دو کی ضرورت اب بھی باقی ہے۔ فی الوقت آئندہ الیکشن کے نتائج انکی مقبولیت اور حمائت کا احاطہ کریں گے۔
ایڈیٹر نوٹ؛ پاکستان ۲۵ جولائی کو انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے اور تاریخ میں یہ محض دوسرا کامیاب انتقالِ اقتدار ہو گا۔ ساؤتھ ایشیئن وائسز کے مصنفین عمیر جمال، فرحان صدیقی، حمزہ رفعت، رضوانہ عباسی اور کشور منیر ممکنہ اثرات اور نتائج کا ملکی معاشی ایجنڈے، خارجہ پالیسی اور دیگر سٹیک ہولڈرز جیسے فوج اور مذہبی جماعتوں کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں۔ مکمل سیریز پڑھنے کےلئے یہاں کلک کریں۔
***
.Click here to read this article in English
Image 1: bm1632 via Flickr (cropped)
Image 2: Arif Ali/AFP via Getty Images