گزشتہ ماہ بیجنگ میں ہونے والے “ وَن –بیلٹ-وَن-روڈ” فورم میں کابل سے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے اس امید کے ساتھ شرکت کی کہ افغانستان میں بنیادی ڈھانچوں سے متعلق منصوبوں میں اس فورم کی وجہ سے تیزی آئے گی۔ ۲۰۰۷ میں افغانستان کے توانائی، معدنیات اور خام مال جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقعے آنے کے بعد چین وہاں پر غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری میں سب سے بڑا ملک بن کر سامنے آیا ہے۔ چین افغانستان سے متعلق اس لئے بھی سنجیدہ ہے کہ وہ اپنے انتہا پسندی کا شکار ژن جیانگ صوبے میں ویغور جہادیوں کو کچلنا چاہتا ہے چونکہ یہ علاقہ افغانستان سے متصل ہے۔ مزید برآں ” وَن –بیلٹ-وَن-روڈ” کی کامیابی کا راز علاقائی امن اور استحکام پر منحصر ہے۔ افغانستان میں اپنے سیاسی، معاشی اور فوجی اثرورسوخ بڑھانے اور ۲۰۱۶ میں باقاعدہ طور پر ” وَن –بیلٹ-وَن-روڈ” کے “میمورینڈم آف انڈرسٹینڈینگ” (ایم او یو) پر دستخط کرنے کے ساتھ ان تمام اقدامات کی بدولت چین علاقائی “گریٹ گیم” کا اہم کھلاڑی ظاہر ہوتا ہے۔
” وَن –بیلٹ-وَن-روڈ” چین کی معاشی حکمتِ عملی کو دور دراز علاقوں تک پھیلانے اور آبنائے ملاکا میں سکیورٹی خدشات کو لگام ڈالنے کا شاخسانہ ہے۔ اس مقصد کےلئے بیجنگ مشرق وسطیٰ کے ساتھ توانائی روابط کو یوریشیا میں ریلوے اور سڑکوں کے جال کو از سرِ نو متعارف کرا رہا ہے۔ اس ساری صورتحال میں افغانستان چین سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے۔
چین نے ” وَن –بیلٹ-وَن-روڈ” کو ترقی دینے کےلئے اہم اقدامات کئے ہیں۔ ۴۰ بلین ڈالر کا نیو سلک روڈ فنڈ، چائنہ ڈویلپمنٹ بینک کا ۹۰۰ بلین ڈالر اور ایشین انفراسٹرکچر بینک کا ۱۰۰ بلین ڈالر کے حصےسے یہ امید کی جا رہی ہے کہ اس خطیر رقم سے ۶۰ ملکوں کے ۹۰۰ منصوبوں پر کام کیا جائے گا۔ ” وَن –بیلٹ-وَن-روڈ” کے اہم حصے سی-پیک نے بھی ۶۲ بلین ڈالر کی چینی سرمایہ کاری حاصل کی ہے۔ ہمسایہ ملک افغانستان سے کسی بھی قسم کی بد امنی چین کے ان مہنگے منصوبوں پر اثر انداز ہو گی۔
چین کی افغانستان میں ” وَن –بیلٹ-وَن-روڈ” کے متعارف ہونے کے بعد سرمایہ کاری میں کثیر اضافہ ہوا ہے۔ چین نے افغانستان کو ۲۰۰۱ سے ۲۰۱۳ کے دوران تقریباً ۲۴۰ ملین ڈالر امداد دی۔ ۲۰۱۵ میں چین نے وعدہ کیا کہ وہ ۲۰۱۷ تک افغانستان کو ۳۲۷ ملین ڈالر مزید امداد دے گا۔ بیجنگ نے ۵۰۰ افغا نی طالبعلموں کو وظائف دئے اور ۳۰۰۰ افغان شہریوں کو دیگر پیشہ وارانہ امور میں تربیت دینے کی پیشکش کی جس میں انسدادِ دہشت گردی، اور زراعت کی تعلیم شامل ہیں۔ اسکے علاوہ چین کابل میں ۳۰۰ ملین ڈالر مالیت کے ایک رہائشی منصوبے پر بھی کام کر رہا ہے جس سے۱۰،۰۰۰ فلیٹ تعمیر کئے جائیں گے ۔ ” وَن –بیلٹ-وَن-روڈ” کا حصہ ہونے کے باعث چین افغانستان کے ساتھ اپنے زمینی روابط میں بھی اضافہ کر رہا ہے۔ چین سے پہلی ٹرین شمالی افغانستان کے علاقے ہیراتن بعذریعہ قازقستان اور ازبکستان پہنچی۔ چین افغانستان ریلوے میں سرمایہ کاری کے ذریعے تجارتی مقاصد کیلئے افغانستان کا پاکستان پر انحصار بھی کم کر رہا ہے۔
بیجنگ اور کابل کا سکیورٹی معاملات میں تعاون خاصہ محدود تھا تاہم اب یہ تیزی سے بدل رہا ہے۔۲۰۱۶ میں بیجنگ نے افغانستان کو پہلی دفعہ فوجی امداد کی پیشکش کی۔ افغان صدر اشرف غنی اور چینی جرنیل فینگ فینگہوئی نے بھی سکیورٹی معاملات بڑھانے کیلئے بات چیت کی اور بتایا جاتا ہے کہ افغانستان ، افغان نیشنل ڈیفنس اور سکیورٹی فورسز کیلئے ہلکے ہتھیار، فوجی یو نیفارم اور گولہ بارود حاصل کرنا چاہتا ہے۔ چینی افواج کی افغانستان میں موجودگی کی سرکاری تردید کے باوجود اطلاعات کے مطابق افغانستان اور چین نے شمالی افغانستان کے علاقے پامیر میں مشترکہ گشت شروع کر دیا ہے۔ دونوں ملک انسدادِ دہشت گردی کیلئے اس سال چین میں مشترکہ مشقیں کریں گے۔
سال ۲۰۱۴ کے بعد افغانستان اور چین کے سفارتی تعلقات وسیع ہوئے ہیں ۔ اشرف غنی نے منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد چین کو اپنے پہلےغیر ملکی دورے کےلئے چنا۔ بیجنگ نے ۲۰۱۴ میں “ہارٹ آف ایشیا” کانفرنس کا انعقاد بھی کیا جسکا مقصد افغانستان اور اسکے ہمسایوں کے بیچ تعاون بڑھانا تھا۔ اعلیٰ سطحی سفارتی اور فوجی وفود کی بات چیت کے علاوہ دونوں ملکوں نے باہمی تعاون کے کئی اہم سمجھوتوں پر دستخط کیے ہیں۔
چین کے وسطی ایشیا کے ذریعے علاقائی روابط بڑھانے کی خواہش افغانستان میں استحکام سے مشروط ہے۔ اس نے ۲۰۱۴ کے بعد افغان حکومت اور طالبا ن کے بیچ امن مذاکرات کےلئے سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔ چین کا یہ کہنا تھا کہ گفت و شنید کےذریعے کی گئی مفاہمت دیر پا امن کےلئے سب سے بہترین حل ہے اور وہ “کواڈریلیٹرل کوآرڈینیشن گروپ” (کیو جی سی) کا حصہ بھی رہا ہے۔ کیو جی سی کی ناکامی کے باوجود افغانستان نے چین کی مدد چاہی تا کہ وہ پاکستان کو مجبور کرتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے۔
افغانستان میں چین کے سفیر یاؤ جنگ نے کہا ہے کہ “افغانستان کے بغیر چین کوباقی دنیا سے ملانے کا کوئی راستہ نہیں ہے”۔ چین اپنی دانست میں دیر پا معاشی مفادات کیلئے تمام حربے بروئے کار لا رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ژن جیانگ صوبے کی انتہا پسندی کو روکنے کیلئے سکیورٹی اقدامات بھی اٹھا رہا ہے۔ اس کے بدلے میں کابل یہ امید کرتا ہے کہ ” وَن –بیلٹ-وَن-روڈ” افغانستان کی معاشی ترقی میں کردار ادا کرے گا،علاقائی تجارت کا مرکز بنائے گا اور اندرونی سکیورٹی خطرات سے نبرد آزما کر سکے گا۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Lintao Zhang, Getty Images
Image 2: Regional Economic Cooperation Conference on Afghanistan