Balochistan-Pass-1536×1024

چمن، بلوچستان میں افغانستان- پاکستان سرحد سیکیورٹی فورسز اور شہریوں کے درمیان مسلسل جاری لڑائی جھگڑوں اور ہلاکت خیز سرحدی جھڑپوں کا مرکز رہی ہے۔ نومبر ۲۰۲۰ میں، سیکیورٹی اہلکاروں اور مقامی تاجروں کے درمیان ایک جھڑپ نے ۱۴ سالہ لڑکے کی جان لے لی تھی جبکہ دیگر نو افراد زخمی ہوئے تھے۔ یہ اس سلسلے کی فقط ایک مثال ہے جو اس خطے کے لیے معمول بن چکا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ نہ تھمنے والے دوطرفہ تناؤ اور دشمنی کا گڑھ ہونے کے باوجود سرحدی راہداری کا نام ”باب دوستی“ ہے، جس کا ترجمہ ”دوستی کا دروازہ“ ہے۔

 پاکستان نے ڈیورنڈ لائن پر ۲۰۱۶ میں اس بنیاد پر باڑ لگانا شروع کی تھی کہ یہ عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کو محدود کرے گی۔ اس منصوبے کے مخالفین  بشمول افغان حکومت نے اسے بہانہ قرار دیا تھا  جس کا اصل مقصد دونوں ممالک کے درمیان ڈیورنڈلائن کو ہی قانونی سرحد قرار دینے کے پاکستانی دعووں کو مزید ٹھوس بنانا تھا۔ ملکی سالمیت کی سیاست اور تزویراتی فیصلہ سازی کے بیچ زمینی حقائق کو نظرانداز کیا جاتا ہے، برادریاں مصنوعی طور پر تقسیم ہوجاتی ہیں اور سرحدی انتظام کے لیے فیصلہ سازی میں مقامی آبادی کی رضامندی اور شرکت ناممکن ہوجاتی ہے۔ دنیا بھر میں سرحدی انتظام کے نظام وجود رکھتے ہیں، تاہم کامیابی سے سرحدوں کی حفاظت اور متوازن دوطرفہ تعلقات  مشترکہ نگرانی کے نظام، سرحدی بندش پر دوطرفہ معاہدوں اور مقامی آبادی کی دلچسپی وعزائم کو دیکھتے ہوئے کی گئی فیصلہ سازی سے مشروط ہوتے ہیں۔ پاکستان افغانستان سرحد کے معاملے میں پاکستان عام طور پر سرحدی انتظام کے حوالے سے یکطرفہ فیصلے کرتا ہے۔ ایک غیر محفوظ سرحد جس پر دونوں ممالک کے درمیان گہرے  تعاون کی ضرورت ہوتی ہے، اس پر یہ یکطرفہ حدبندیاں دوطرفہ تعلقات کو متاثر کرتی ہیں اور سرحدی کارروائیوں کی کامیابی کیلئے لامحالہ خطرہ بنتی ہیں۔

رکاوٹوں کا مقصد

سرحدیں اور رکاوٹیں محض علاقوں کو تقسیم کرنے اور ان میں نقل و حرکت کو روکنے والے مادی وجود اور ذرائع نہیں ہوتے۔ یہ وہ سیاسی- سماجی اور تکنیکی پرزہ جات ہیں جو آبادی کی درجہ بندی، اعداد وشمار اکھٹا کرنے نیز تعمیرات کی جاسوسی اور نگرانی میں معاونت کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ رکاوٹیں سیکیورٹی عمل میں بھی معاونت کرتی ہیں، سیاسی دباؤ ڈالتی ہیں نیز آبادیوں کے درمیان تفریق اور انہیں اندر والے / باہر والے، قابل قبول/ناقابل قبول کے طور پر شناخت کرنے کا غیر اعلانیہ کردار بھی ادا کرتی ہیں۔ نقل و حرکت میں مداخلت کے ذریعے آبادیوں کی جانچ کا عمل، قومی شناخت اور خودمختاری پیدا کرتا ہے۔

سماجی سیاسی اعتبار سے باڑ لگانے کا عمل سرحد کے دونوں جانب موجود ممالک میں باہمی اعتماد کو متزلزل بنا دیتا ہے: افغانستان-پاکستان کی مثال میں افغانستان سمجھتا ہے کہ ڈیورنڈ لائن ایک عارضی سرحد ہے جسے پاکستان باڑ لگانے کے منصوبے کے ذریعے مستقل بنا رہا ہے۔ باڑ لگانے کا عمل سرکاری حکام اور سرحد پار بسنے والی آبادی کے درمیان بھی تناؤ پیدا کرتا ہے کیونکہ بعد ازالذکر کو اس کی وجہ سے اپنی بسراوقات جو کہ سرحد پار آمدورفت پر منحصر ہے اس میں اور ذاتی تعلقات جو کہ سرحد کے دونوں جانب پھیلے ہوئے ہیں، ان میں دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے۔ سرحدوں کے ساتھ بسے قبائل میں خونی رشتوں کے جال کے پیش نظر آزادانہ نقل و حرکت کا حق محفوظ رکھنے کی یقین دہانیاں سرحد پر بندش کے وقت نظرانداز کی جاتی ہیں جو اس معاشرتی شیرازہ بندی پر منفی طور پر اثرانداز ہوتی ہے۔

ان رکاوٹوں کا خطے میں کردار اور باڑ لگانے کے پاکستان کے منصوبے کی ظاہری وجہ یہ ہے کہ غیرضروری عناصر کو باہر رکھا جائے اور غیرقانونی سرگرمیوں کو روکا جائے تاہم اس کی کامیابی دہشت گردی کیخلاف جنگ کے ذیلی اقدامات پر منحصر ہے۔  اس کیلئے مدارس (دینی درسگاہوں) کے نظام کی رجسٹریشن و نگرانی نیز جن علاقوں میں ریاست کی جانب سے عسکریت پھیلائی گئی وہاں  جمہوری و شہری سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ انسانی ترقی کیلئے موثراداروں اور سہولیات کی ضرورت ہوگی۔ انتہا پسندانہ جذبات اور نظریات سے نمٹنے کیلئے عارضی نوعیت اور باڑ لگانے جیسے لیپاپوتی پر مبنی اقدامات کے بجائے سماجی سطح پر طے شدہ اہداف پر مبنی سوچ اپنانا ہوگی۔ ان میں سے بیشتراقدامات اگرچہ پاکستان کے نیشنل ایکشن پلان کا حصہ تھے جو کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد عسکری و سیاسی قیادت نے ترتیب دیا، تاہم اسلام آباد دہشتگردی سے نمٹنے کے منصوبے کے کلیدی پہلوؤں کے نفاذ میں ناکام رہا ہے۔ سرحد کے ساتھ ساتھ دہشتگردوں کی موجودگی مستقل جاری ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ پر پاکستان کا برقرار رہنا بین الاقوامی برادری کی جانب سے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پاکستان کے عزم پر یقین نہ ہونے کی علامت ہے۔ یہ سب مل  کے، باڑ لگانے کے پس پشت پاکستان کی اصل نیت کے حوالے سے افغانستان کے خدشات میں اضافہ کرتے ہیں۔

رکاوٹوں کی تعمیر جیسے ظاہری حکومتی اقدامات، ریاست کی جانب سے شورش پسند عناصر کی حمایت جیسے تاریخی و سیاسی حقائق پر ملمع کاری کرتے ہیں اور انہیں محض ایک ایسے مسئلے کے طور پر پیش کرتے ہیں جو کمزور سرحدی انتظام کے نتیجے میں موجود ہے۔ دہشتگردی کے مقابلے کیلئے نیک نیتی پر مبنی حل کی صورت میں سرحدوں پر باڑ لگانے جیسی مہم جوئی، جس کے دوطرفہ تعلقات اور سرحد کے دونوں جانب بسنے والی آبادیوں کے معاشرتی شیرازے پر سنگین نوعیت کے مضمرات ہوسکتے ہیں، اس میں قدم رکھنے سے قبل تمام حرکیات کا جائزہ لیا گیا ہوتا۔ سرحد پر یکطرفہ باڑ لگانے اور پالیسیوں کے نتیجے میں دونوں ممالک میں پیدا ہونے والے شکوک اور عدم اعتماد محض دوطرفہ تنازعوں کو بھڑکائیں گے؛ جس کے ساتھ  ساتھ دونوں کی جانب سے کھلم کھلا تزویراتی پالیسیاں اپنانے کا امکان بھی موجود ہے جو کہ خطے میں شورش کو جنم دے سکتا ہے۔

 تعاون اور اتفاق رائے

سرحدی خطوں میں باریکیاں اور منفرد حرکیات پائی جاتی ہیں جنہیں سرحدی انتظام کے منصوبوں کی تیاری اور حکمت عملی کے وقت ذہن نشین رکھے جانے کی ضرورت ہے۔ افغانستان- پاکستان سرحد کے ساتھ پھیلی ہوئی آبادیاں مشترکہ تاریخ، ملتی جلتی ثقافت اور مروجہ روایات، زبان، خونی رشتوں کے جال اور حتیٰ کہ جائیداد کے باعث قدرتی طور پر بندھن میں بندھی ہیں۔ یہاں کے تین بڑے قصبوں بشمول غزنلی  اور چمن کا کچھ حصہ افغانستان میں ہے اور کچھ حصہ پاکستان میں ہے۔ ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں سرحدی لکیر نے ایک ہی خاندان کی ملکیتی زمین کو تقسیم کیا ہے جو خاندان کے افراد کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرتی اور انہیں قومی شناخت کے ریاستی پیمانے کا نشانہ بنادیتی ہے۔ پاکستان کی جانب موجود قبروں کے کتبوں پر آخری آرام گاہ کے مقام کے طور پر خوست درج ہے جو اس امر سے پردہ ہٹاتا ہے کہ سرحد کی غیرواضح نوعیت افواج کو تھوڑا تھوڑا کرکے افغان علاقہ ہڑپ کرنے کا موقع دیتی ہے نیز یہ اس خطے میں شہریت اور قومی شناخت کی غیر حتمی اور بدلتی حیثیت کی بھی علامت ہے۔

سرحدی انتظام کیلئے حل ترتیب دینے والے پالیسی سازوں کو خطے کے سماجی-سیاسی حقائق کا لازماً ادراک ہونا چاہیئے نیز تمام متعلقہ فریقین کو شامل کرنے کیلئے مشترکہ کوشش کے طور پر انتظامی و ضابطہ اداروں سے رابطے کرنے چاہیئں۔  افغانستان میں ریاستی اور مقامی آبادی کی سطح پر پائی جانے والی شکایات کا سرحدی پالیسی میں لازماً احاطہ ہونا چاہیے۔ اسی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی جانب مقامی رہنماؤں اور آبادیوں کو بھی فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کیا جانا چاہیے۔ اس کی عدم موجودگی میں سلامتی اور شہری آبادی کی جانوں کیلئے تشویش کے نام پر باڑ لگانے کا عمل منافقت محسوس ہوتا ہے کیونکہ نوجوان اور بزرگ روز مرہ معمولات میں خلل کی وجہ سے سرحدی اہلکاروں سے جھڑپوں میں اپنی جانیں تو بہرحال کھو رہے ہیں۔ باڑ کی تعمیر تکمیل کے قریب ہے تاہم سرحد کے ساتھ ساتھ باقاعدگی سے جاری احتجاج اور جھڑپیں اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ سرحدی انتظام فیصلہ سازی میں گھمبیر مسائل ہیں اور ان رکاوٹوں کے نتیجے میں سرحد کے دونوں جانب بسنے والی آبادیوں کے متاثر ہونے کے فہم میں ناکامی ہوئی ہے۔

***

.Click here to read this article in English

Image 1: Wikimedia Commons

Image 2: Banaras Khan via Getty Images

Share this:  

Related articles

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…

جوابی کار روائی: کیا پاکستان فوجی حملوں کے رد عمل پر غور کر رہا ہے؟ Hindi & Urdu

جوابی کار روائی: کیا پاکستان فوجی حملوں کے رد عمل پر غور کر رہا ہے؟

ایران اور پاکستان کے درمیان حالیہ جیسے کو تیسا حملے …

پاکستان کا بعد از انتخابات ماحول: ماہرین کا ردعمل Hindi & Urdu

پاکستان کا بعد از انتخابات ماحول: ماہرین کا ردعمل

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والے…