اس واقعے کو تقریباً دو سال ہونے کو ہیں جب حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کو جموں و کشمیر کے بمدُورا گاؤں میں ایک مقابلے میں مار دیا گیا تھا۔ وانی کی ۸ جولائی ۲۰۱۶ کی ہلاکت نے وادی میں مظاہروں اور امن ا مان کی ناقص صورت حال کو جنم دیا جسکے نتیجے میں بہت سے شہری اور سکیورٹی فورسز والے جاں بحق ہوگئے۔ مزید برآں وانی کی ہلاکت نے کشمیر میں عسکریت پسندی کو شہ دی ہے اور کشمیر ی جدوجہد کی حمائت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
وانی کی ہلاکت کے دو سال بعد بھی وادی میں حالات کشیدہ ہیں اور مشکل سکیورٹی صورتحال سیاسی فضاء کو بھی چیلنجنگ بنائے ہوئے ہے۔ جون میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی-جے-پی) کے پیپل ڈیمو کریٹک الائنس سے الگ ہونے کے بعد جموں و کشمیر اب گورنر راج کے زیرِ اثر ہے تاہم ریاست کو اگلے سال تین اہم انتخابات ــــ پنچائیت، ریاستی اسمبلی اور لوک سبھاـــ کی طرف جانا ہے۔ایسے مشکل حالات میں انتخابات کا انعقاد ایک مشکل مرحلہ ہے لیکن ناممکن کام پھر بھی نہیں ہے۔ تاہم انتخابات کو منعقد کرانے اور جیتنے کےلئے بی-جے-پی کو کشمیریوں کا اعتماد جیتنا ہو گا۔ بی-جے-پی ایسا ممکن بنا سکتی ہے اگر وہ مذاکرات کی راہ چنتی ہے جیسا کہ چند علیحدگی پسند وں سے پہلے سے ہی بات چیت کی گئی ہے ــــتاکہ کشمیر کے تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز کو یہ یقین ہو جائے کہ مذاکرات کی میز پر کم از کم نشستوں کا معاملہ بھی موجود ہے۔
برہان وانی کے بعد کی صورت حال اورمقامی عسکریت پسندی؛
کشمیر میں لوکل عسکریت پسندی میں خاطر خواہ تبدیلی آئی ہے اور اب وہ زیادہ تر مقامی نوعیت کی ہے کیونکہ مقامی نوجوانوں کی اس میں شرکت کی تعداد ۸۸ (۲۰۱۶) سے بڑھ کر ۱۲۶(۲۰۱۷) ہو گئی ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق وسط جولائی ۲۰۱۸ تک ۱۲۸ مقامی نوجوانوں نے مختلف عسکریت پسند تنظیموں میں اندراج کرایا ہے ۔ بلاشبہ ۲۰۱۶ میں سویلین فساد اور افراتفری برپا ہونے کے بعد کشمیر تنازعہ نے بیرونی عناصر کی امدد کی بجائے مقامی اور عام لوگوں میں حمائت حاصل کی ہے۔اسکے نتیجے میں جغرافیائی طور پر کشمیر کے مرکزی اضلاعــــ پلوامہ، شوپیاں، اننت ناگ اور کلگن ـــ عسکریت پسندی سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، بجائے ان اضلاع کے جو شمال میں پاکستانی سرحد کے قریب ہیں۔
مزید برآں اس تبدیلی کو کچھ اس طرح سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ برہان وانی نام اب کشمیر کے کچھ حصوں میں گھریلو نام بن گیا ہے۔ بہت سے کشمیری نوجوان وانی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بھارتی ریاست کے خلاف برسرِ پیکار عسکریت پسند گروہوں میں شمولیت اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ حتیٰ کہ پڑھے لکھے نوجوان اور سابقہ سکیورٹی افراد بھی ایسا ہی چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر جنید اشرف خان جو کشمیر یونیورسٹی کا گریجویٹ ہے اور تحریکِ حریت کے رہنما کا بیٹا ہے، نے اس سال مارچ میں حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کر لی۔ مزیدبرآں پچھلی شورشوں کے برخلاف اس دفعہ عسکریت پسند لوکل سویلینز کی طرف سے مدد حاصل کر رہے ہیں۔ عسکریت پسندوں کی تدفین کا چرچا کیا جانا، سکیورٹی فورسز کی طرف سے شروع کئے جانے والے مقابلوں میں شہریوں کی بھیڑ کا اکٹھے ہو جانا اور سکیورٹی فورسز پر پتھراؤ ہونا، ۲۰۱۶ کے بعد سے بہت عام ہو گیا ہے۔
علاقائی عسکریت پسندی سے متعلق بدلتے خیالات کا اثر یہ بھی ہوا ہے کہ مختلف گروہ کشمیری (عسکریت پسند) فضاء کا کیسے استعمال کرتے ہیں۔ ۱۹۹۰ کے برعکس کشمیری نوجوان تربیت یا اسلحہ کےلئے پاکستان نہیں جا رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ وہ نوجوان ہیں جو آزادی کی خاطر لڑنے مرنے کے لئے رضاکارانہ طور پر سامنے آئے ہیں۔ سکیورٹی فورسز سے اسلحہ چھیننے کے علاوہ عسکریت پسندوں کے گروہ چھوٹے چھوٹے حملے کرتے ہیں جیسا کہ سکیورٹی فورسز پر اندھادھن فائرنگ کر دینا، معلومات بہم پہنچانے والوں کو قتل کر دینا اور کبھی کبھار خود کش حملہ کر دینا۔ یہ سب طریقے پاکستان سے باقاعدہ تربیت یافتہ ساتھیوں سے مختلف ہیں۔
عسکریت پسندی کا مقامی ہونے کا ایک اور امر یہ ہے کہ کچھ اطلاعات کے مطابق نئے بھرتی ہونے والے نوجوانوں کی ترجیح حزب المجاہدین ہے جبکہ پاکستانی حمائت یافتہ لشکرِ طیبہ اور جیشِ محمد کا نام بعد میں آتا ہے۔ کچھ نئے گروہ جیسے القاعدہ کی لوکل برانچ انصار غزوۃ الہند اور کشمیری داعش بھی پچھلے دو سالوں میں ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ آن لائن موجودگی کے برعکس ایسے گروہوں میں نوجوانوں کی شمولیت کا رجحان کم جب کہ اوپر بیان کئے گئے گروپس میں زیادہ ہے۔ لیکن ۲۰۱۷ میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے آپریشن “آل آؤٹ“ اور اسکے نتیجے میں بڑے کمانڈر کے مارے جانے کے باوجود عسکریت پسند گروہوں میں بھرتی کی رفتار کم نہیں ہوئی ہے اور وادی میں یہ مہم زور و شور سے جاری ہے۔
مستقبل کا سیاسی منظر نامہ؛
مقامی عسکریت پسندی کے حالات بدلنا یہ اشارہ ہے کہ برہان وانی کی ہلاکت نے علیحدگی کی فضاء کو ہوا دی- اور ایک غصے کی لہر نے تب جنم لیا جب وادی کی پیپل ڈیموکریٹک الائنس اور بھارتیہ جنتا پارٹی میں ۲۰۱۵ میں اتحاد ہوا اور وادی میں دیگر انتظامی معاملات میں گڑ بڑ ہوئی۔ اسکے نتیجے میں شروع ہونے والے احتجاجی سلسلے اور عسکریت پسندوں کی حمائت میں اضافے نے جولائی ۲۰۱۶ کے بعد سے مقامی حکومت کے تقریباً نہ ہونے کا پتہ دیا کیونکہ مقامی سیاسی قیادت اور سیاسی کارکنوں پر رویے متشدد ہو گئے۔
اس سب کے باوجود پیپل ڈیموکریٹک الائنس اور بھارتیہ جنتا پارٹی میں اتحاد ختم ہونے اور اسکے بعد گورنر راج نافذ ہونے پر حالات میں کچھ بہتری آئی۔ اب توجہ بہتر گورننس اور شہریوں کے تحفظات دور کرنے پر ہوئی ہے ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے کہا ہے کہ پارٹی کی پہلی ترجیح پنچائت کے انتخابات کرانا اور جموں و کشمیر ریاستی اسمبلی میں تازہ الیکشن کرانا ہے۔ ان انتخابات کے نتائج ۲۰۱۹ کے لوک سبھا انتخابات پر اثر انداز ہوں گے۔ اگر امن امان کی صورتحال بہتر نہیں ہوتی ہے تو نئی دہلی شائد انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کر دے۔ ان حالات میں انتخابات منعقد کرا کر انتظامیہ ۲۰۱۷ میں سری نگر-بڈگام ضمنی انتخابات جیسے انتخابات ہوتے ہی دیکھ سکے گی چونکہ ان انتخابات میں تشدد اور امن و امان کی ناقص صورتحال کے باعث ٹرن آؤٹ محض ۵.۶ فیصد تھا۔
چونکہ ۲۰۱۹ کے لوک سبھا انتخابات آنے والے ہیں تو بھارتی سرکار شائد تمام سٹیک ہولڈرز بشمول حریت کانفرنس کے ساتھ بات چیت کا آغاز کر دے۔ بھارتی وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ اور مرکزی مذاکرات کار دنیش ور شرما نے تمام علیحدگی پسند وں کو وادی میں امن کےلئے مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ ان اقدامات سے بظاہر لگتا ہے کہ بھارتی حکومت شائد یہ سمجھ چکی ہے کہ بھاری بھر کم سکیورٹی انتظامات معاملات کو سدھارنے کے لئے ناکافی ہیں۔ پر امن انتخابات کےلئے حکومت کو سکیورٹی کے ساتھ ساتھ مذاکرات کی راہ بھی اپنانی ہو گی۔ اور مذاکرات میں تمام سٹیک پولڈرز جیسے ریاستی سیاسی جماعتیں، مقامی معاشی باڈیز، تعلیمی اداروں کے نمائندگان اور جموں و کشمیر اور لداخ کے دیگر سٹیک ہولڈارز کو اعتماد میں لینا ہو گا۔
اس وقت نئی دہلی کی پریشانی مقامی آبادی ہے جس کا اعتماد جیتا جانا ضروری ہے کیونکہ وہ ہی ووٹ کی طاقت رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے کے بہت دیر ہو جائے حکومت کو جموں و کشمیر کے خدشات دور کرنے کے لئے غیر معمولی اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ وقت بہت مناسب ہے اور بھارتی حکومت مختلف سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت کر کے سویلین آبادی کا اعتماد حاصل کر سکتی ہے۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Jesse Rapczak via Flickr
Image 2: Yawar Nazir via Getty