trump__clinton_flickr

ڈانلڈ ٹرمپ حیران کن انداز میں امریکی الیکشن جیت چکے ہیں۔ صدارت سنبھالنے پر ٹرمپ کو جنوبی ایشیا میں چند کٹھن چیلنجوں کا سامنا کرنا ہو گا، ان میں افغانستان میں بادستور جاری عدم استحکام، متلاطم پاک-امریکی تعلقات اور خطے میں چین کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ شامل ہیں۔ اگر امریکہ جنوبی ایشیا میں اپنی اہمیت برقرار رکھنا چاہتا ہے تو ٹرمپ کو خطے میں کسی ایک ملک کے ساتھ امتیازی سلوک کئے بغیر مسائل کا حل تلاش کرنا ہو گا۔

افغانستان

افغانستان میں سیکورٹی صورتِ حال دن بدن زیادہ نازک ہو رہی ہے۔ روز روز کے دہشت گرد حملے عدم استحکام پیدا کر رہے ہیں اور طالبان ملک کے وسیع حصوں پر قبضہ کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کو دو اہم سوالات کا فوری جائزہ لینا ہو گا: (1) کیا امریکہ کو طالبان اور افغان حکومت کے بیچ مذاکرات کو ایک مرتبہ پھر بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے؟ (2) نیٹو کی افغانستان میں جمہوری کاوشوں کی امداد کے لئے کیا امریکہ کو افغانستان میں تعینات اپنی فوج میں اضافہ کرنا چاہیئے؟

امریکہ کے افغانستان میں کئی وسیع مفادات ہیں، جن میں دہشت گرد حملوں میں کمی، دہشت گردوں کی محفوط پناہ گاہوں کا خاتمہ، متحارب گروہوں کے بیچ مفاہمت، اور افغانستان میں جمہوریت کا فروغ شامل ہیں۔  اگر امریکہ نے جلد ایک دوراندیش افغان پالیسی تیار نہ کی تو اسے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکامی کا سامنا رہے گا۔ 9/11 کے حملوں اور پاکستان کے موجودہ حالات سے یہ بات ظاہر ہے کہ ایک غیر مستحکم افغانستان پورے خطے، بلکہ پوری دنیا پر اثرانداز ہو سکتا ہے، خاصکر اب جبکہ افغانستان میں داعش کے تقریباً 2,500 جنگجو بھی موجود ہیں۔

پاک-امریکہ تعلقات

پاکستان کے سیاسی حالات اب بھی کافی نازک ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی بیش بہا قربانیوں کے باوجود دہشت گرد حملے اور ملکی تغیرات برابر جاری ہیں۔ ایک کمزور اور دہشت گردی کا شکار پاکستان امریکی مقاصد کے برعکس ہے، کیونکہ پاکستان میں موجود انتہا پسندی جنوبی ایشیا کے دیگر حصوں تک پھیل سکتی ہے۔

پاک و ہند تعلقات کو بہتر بنانے میں امریکہ کا مثبت کردار ادا کرنا انتہائی اہم ہے، کیونکہ اس خطے کے استحکام کا دارومداران دو جوہری طاقتوں کے بیچ امن پر ہے۔ حالیہ پاکستان میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ امریکہ جوہری اور دیگر مسائل پر بھارت کی طرف جانبدارانہ رویہ اختیار کر رہا ہے۔ اس تاثر کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں تلخی پیدا ہوئی ہے۔ مثلاً جب بھارت نے “نیوکلئیر سپلائر گروپ” میں رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کی تو پاکستان نے تشویش کا اظہار کیا، مگرامریکہ نے بھارت کی مضبوط حمایت کی۔ دوسری جانب، امریکہ پاکستان کے جوہری پروگرام پر تنقید کرتا ہے جو کہ پاکستان کی نظر میں امتیازی، بلاجواز، اور بھارت کی طرف داری کے مترادف ہے۔ اگر امریکہ نے پاکستان جیسے “جیوسٹریٹیجک” اہمیت کے حامل ملک کا اعتماد گنوا دیا تو اسکے مفادات کو بہت نقصان پہنچے گا۔ جانبدارانہ رویہ اپنانے سے امریکہ اس خطے کے مشکل سیکورٹی مسائل حل کرنے کی طاقت کھو بیٹھے گا۔

کمزور پاک-امریکہ تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چین اسلام آباد کے ذریعےجنوبی اور وسطی ایشیا میں اپنا رسوخ بڑھا سکتا ہے۔ اگر امریکہ پاکستان اور جنوبی ایشیا میں اپنی اہمیت برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اسے پاکستان میں اپنے غیر مساوی رویے کے تاثرات کو درست کرنا ہو گا۔

gwadar port-pakistan-china-CPEC

جنوبی ایشیا میں دسترس کا مقابلہ

جنوبی ایشیا میں چین کے بڑھتے  ہوئے  اقتصادی اِحضار کے مدِنظرامریکہ کو اس خطے میں زیادہ واضح موجودگی پیدا کرنی ہو گی۔ چین کی طرح امریکہ کو بھی علاقائی ربط سازی (“ریجنل کنیکٹووٹی”) کے ذریعے خطے میں اپنی پہنچ کو بڑھانا ہو گا۔ امریکہ اس معاملے میں چین سے کافی پیچھے رہ چکا ہے۔ چین بہت پہلے سے علاقائی ربط سازی کو اہمیت دیتا آ رہا ہے، مثلاً “ون بیلٹ ون روڈ” اور پاکستان میں “سی پیک” پراجیکٹ، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بندرگاہوں کی تعمیر، اور بنگلہ دیش-چین-انڈیا- میانمار (“بی سی آئی ایم”) راہداری میں سرمایہ کاری، یہ سب منصوبے اس بات کا ثبوت ہیں کہ چین اس خطے میں ربط سازی کو بہت اہم سمجھتا ہے۔ اگر امریکہ خطے میں چین کا معاشی طور پر مقابلہ کرنا چاہتا ہے تو اسے “سارک” جیسی علاقائی تنظیموں کے ذریعے ربط سازی کو فروغ دینا ہو گا۔ اسکے علاوہ امریکہ کو صرف بھارت ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے باقی ممالک کے ساتھ بھی مضبوط اقتصادی تعلقات قائم کرنے ہونگے، اور امریکی تجارتی برادری جیسے نئے “سٹیک ہولڈرز” کو اس خطے میں دعوت دینی ہو گی۔

اگرچہ موجودہ امریکی حکومت نے یقیناً بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو کافی مضبوط کیا ہے، ٹرمپ کو جنوبی ایشیا کے لئے ایک وسیع تر نقطہِ نظر اپنانا ہو گا۔ خطے میں امریکی مقاصد کے حصول کے لئے ٹرمپ کو بھارت کا حمائتی بننے کے بجائے پاک و ہند تعلقات میں متوازن کردار ادا کرنا ہو گا۔ اسی طرح افغانستان کے لئے بھی ٹرمپ کو ایک شفاف اور دور اندیش پالیسی پیش کرنی ہو گی، کیونکہ افغانستان میں عدم استحکام پورے خطے، خاصکر پاکستان کو متاثر کرتا ہے۔ اسکے علاوہ امریکہ کو علاقائی انضمام، بالخصوص اقتصادی انضمام پیدا کرنے میں زیادہ واضح کردار ادا کرنا ہو گا، ورنہ خدشہ ہے کہ امریکہ اس خطے میں اپنی اہمیت چین کو کھو دے گا۔

Click here to read an earlier version of this article in English

***

Image 1: Furfur, Wikimedia

Image 2: Moign Khwaja, Flickr

Share this:  

Related articles

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا Hindi & Urdu

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا

کواڈ کے نام سے معروف چار فریقی سیکیورٹی ڈائیلاگ کے…

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع  Hindi & Urdu

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع 


سرد جنگ کے دوران جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات…

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…