۲۰۱۸ شروع ہوئے ابھی ایک ماہ گزرا ہے اور صدر ٹرمپ کا انتہاپسندانہ موقف اور عجیب و غریب بیانات کے منفی اثرات واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اس مہینے کے آغاز میں اسلام آباد کو بھی اسی طرح کے رویے کا سامنا کرنا پڑا جب صدر ٹرمپ نے پاکستان کو جھوٹا اور فریبی قرار دیا۔ اس بیان سے پاکستان کے اندر سے شدید ملامتی اور تردیدی ردِ عمل سامنے آیا اور بیجنگ نے بھی اسلام آباد کی بھرپور سپورٹ کی۔ یہ جارحانہ موقف صدر ٹرمپ کی جنوبی ایشیا سے متعلق حال ہی میں جاری کی گئی نیشنل سکیورٹی سٹریٹیجی اور نیشنل ڈیفنس سٹریٹیجی (جو ایک پیچیدہ عالمی ماحول کو تسلیم کرتے ہوئے شمالی کوریا، ایران، چین اور روس کے ساتھ تزویراتی مقابلہ بازی پر زور دیتی ہے) میں اپنائی گئی ‘زیرو سم ‘ (یک طرفہ فائدہ) اور غیر محتاط نقطہ نظر کو بیان کرتا ہے۔
پاکستان کا ایک طائرانہ جائزہ:
نیشنل سکیورٹی سٹریٹیجی یہ دکھاتی ہے کی پاکستان جو غیر نیٹو ساتھی ہے، اپنی سر زمین پر دہشت گرد گروہوں کے خلاف لاپرواہ ہے۔ یہ امریکہ کی اس ترجیح کا اعادہ ہے کہ وہ پاکستان کو ‘انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں’ کی طرف راغب کرے۔ تاہم نیشنل سکیورٹی سٹریٹیجی پاکستان کی طرف سے ۲۰۰۱ سے دی گئی قربانیوں اور سول و عسکری جانی نقصان کو خاطر میں ہی نہیں لاتی۔ مزید برآں اس سٹریٹیجی میں پاکستان کا امریکہ کے ساتھ مل کر علاقائی (امن وامان) کوششوں کاا حاطہ بھی نہیں کیا گیا ہے۔ پاکستان اپنے علاقوں طورخم اور چمن کے راستے نیٹو افواج کےلئے افغانستان میں انتہائی اہم راہداری فراہم کرتا ہے۔ پاکستان نے ۱۹۷۹ میں افغانستان پر سووویت حملے کے بعد سے لاکھوں افغانیوں کی میزبانی کی ہے اور جنکی وجہ سے ملک کے معاشی وسائل اور سکیورٹی صورتحال پر زبردست اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ پاکستان سے متعلق یہ پالیسی عقل سے بالاتر لگتی ہے چونکہ اب بھی پاکستان کے پاس افغانستان کے ساتھ قربت کا جغرافیائی فائدہ موجود ہے جس سے مستفید ہو کر وہ سپلائی لائن کو کاٹ سکتا ہے اور چین و رو س کے ساتھ شراکت داری کر سکتا ہے۔ اگر امریکہ پاکستان کو تنہا کرتا ہے تو افغانستان میں استحکام لانے کا مقصد بھی ناپید ہو جائے گا۔ اس موقع پر امریکہ کےلئے یہ زیادہ ضروری ہے کہ وہ اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کرے چونکہ افغان حکومت کا ملک پر کنٹرول محض ۶۰ فیصد ہے۔
نیشنل سکیورٹی سٹریٹیجی کے مطابق پاکستان اور بھارت کے بیچ جوہری تنازعہ کو امریکہ کی ‘متواتر سفارتی توجہ’ درکار ہے۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ پاکستان اور بھارت کے بیچ کشیدگی عدم بات چیت کی وجہ سے ، سرحد کے آر پار چھوٹی موٹی مگر بڑھتی ہوئی لڑائیوں اور کشمیر کی گھمبیر ہوتی صورتحال کی وجہ سے بھی ہے مگر مکمل جوہری تصادم کا خطرہ اصل میں پالیسی سازوں، بیوروکریٹس اور اسلام آباد اور نئی دہلی میں نفع ونقصان کی جانچ پڑتال کرنے والوں پر منحصر ہے۔ ڈیٹرنس بھی دوطرفہ جوہری تصادم کو روکنے کےلئے کارگر ہے چونکہ دونوں ملک عالمی دباؤ کو مدعو نہیں کرنا چاہتے ۔
نیشنل سکیورٹی سٹریٹیجی اس بات پر بھی زور دیتی ہے کہ امریکہ پاکستان کو ‘جوہری ہتھیاروں سے متعلق ذمہ دار ریاست’ بننے کےلئے حوصلہ افزائی کرے گا۔ تاہم پھر بھی جب بات جوہری ہتھیاروں کے تحفظ کی آتی ہے تو پاکستان کے سٹریٹجک پلانز ڈویژن کا تیار کردہ ‘پرسنل ریلائبلٹی پروگرام’ ، جو کہ امریکی حفاظتی سسٹم کی طرز پر ہی بنایا گیا ہے اور جس میں ایک انتہائی مستعد نظام بنایا گیا ہے تاکہ جوہری ہتھیاروں کا امن کے دوران غلط استعمال نہ ہو سکے، کو امریکہ زیادہ معتبر نہیں سمجھتا ہے۔
بگڑتی علاقائی کشیدگی؛
جہاں نیشنل سکیورٹی سٹریٹجی خالصتاً پاکستان سے متعلق ہے وہیں نیشنل ڈیفنس سٹریٹجی ایک ایسی سکیورٹی صورتحال بنانے پر زور دیتی ہے جس سے “آزاد اور کھلے انڈو-پیسفک” کی ترویج ہو سکے۔ اس طرح کے منصوبہ کا مطلب بیجنگ کو چھیڑنا ہے جو کہ اپنے مخالفوں کا اس طرح کا ”باہم سکیورٹی ڈھانچے” کو اپنے اثرو رسوخ کو چیلنج کرنے کے مترادف سمجھے گا۔ ٹرمپ انتظامیہ کا بالخصوص بھارت کے ساتھ بڑھتی شراکت داری اور نیشنل سکیورٹی سٹریٹیجی میں بھارت کو ‘ابھرتا ہوئی عالمی طاقت (تسلیم کرنا) اور اسکے ساتھ مظبوط تزویراتی و دفاعی تعلقات” بنانا بھی چین کےلئے پریشان کن ہوگا۔ بھارت کی پاکستان اور چین کے مقابلے میں حمائت کر کے ٹرمپ انتظامیہ دشمنیاں پیدا کر رہی ہے اور علاقے میں خوشحالی نہ لانے کی طرف گامزن ہے جبکہ دوسری طرف علاقائی خوشحالی کا ذکر نیشنل سکیورٹی سٹریٹیجی اور نیشنل دیفنس سٹریٹجی میں موجود ہے۔ پس اگر امریکہ ان پالیسیوں پر عمل کرتا ہے جو نیشنل سکیورٹی سٹریٹیجی اور نیشنل ڈیفنس سٹریٹجی میں درج ہیں تو وہ بھارت کے ساتھ اپنی تزویراتی شراکت داری قائم کرنے پر کام کرے گا، باقاعدہ اور بے قاعدہ تنظیموں/بلاکس/گروہوں کو قائم کرے گا جن میں جاپان، بھارت یا دیگر چین مخالف قوتیں ہوں اور چین کے سب سے قریبی ساتھی یعنی پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی حمائت جاری رکھے گا۔اسطرح کی پالیسیاں چین اور امریکہ کے مابین پہلے سے موجود کشیدگی کو ہوا دیں گی اور چین کو ممکنہ طور پر علاقائی طور پر امریکہ یا اسکے حواریوں کے مخالف جارحانہ حکمتِ عملی اپنانے کے طرف دھکیلیں گی۔
انسدادِ دہشت گردی کے چیلنجز کی نظر اندازی:
نیشنل ڈیفنس سٹریٹجی انسدادِ دہشت گردی کی بجائے “انٹر سٹیٹ(ریاستوں کے مابین) تزویراتی مقابلے” پر زور دیتی ہے ۔ اور یہ نقطہ امریکہ کا جنوبی ایشیا میں داعش کو روکنے کی کوششوں پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ اگرچہ مشرق وسطیٰ میں داعش کا خاصی حد تک خاتمہ کر دیا گیا ہے تاہم افغانستان کے صوبے خراسان میں اسکی موجودگی اب بھی برقرار ہے۔ امریکہ، افغان حکومت اور حتیٰ کہ طالبان کا دشمن ہونے کے باعث داعش ملک میں حملوں میں اضافہ کرے گی جو علاقائی امن کےلئے اچھا نہیں ہوگا۔مزید برآں افغانستان جنگی اور کرپشن مسائل میں گھرا ہوا ہے جسکو اس ”زیروسم گیم“ (یک طرفہ فائدہ) سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی بجائے سکیورٹی سٹریٹیجی اس طرح سے بنائی جاتی کہ معاملے کا کوئی نیا حل تلاش کیا جاتا جیسا کہ فوجوں کی تعداد میں اضافہ کر کے مذاکرات کرنا۔ اس عمل سے افغانستان اور پاکستان کے بیچ خفیہ معلومات کا تبادلہ اور تعاون میں بھی اضافہ ہوتا۔ کیو-سی-جی (چار ملکی گروپ) اس تناظر میں ایک اچھی مثال فراہم کرتا ہے ۔ جس میں پاکستان اور چین افغانستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھا رہے ہیں اور اس سے افغانستان کی داخلی مسائل کا ادراک کرتے ہوئے تمام سٹیک ہولڈرز بشمول طالبان کو اعتماد میں لیا جاتا ہے۔
خلاصہ:
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ نیشنل سکیورٹی سٹریٹیجی اور نیشنل ڈیفنس سٹریٹجی میں جنوبی ایشیا سے متعلق دوراندیشی سے کام نہیں لیا گیا ہے ۔ اسکا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اتحادی تنہا ہو جائیں گے، دشمنیوں کو شہ ملے گی اور علاقائی عدم استحکام میں اضافہ ہو گا۔ علاقائی امن اور استحاکام کےلئے نت نئے خیالات اور تحقیق کی ضرورت اب بھی اہم ہے۔
ایڈیٹر نوٹ: وائٹ ہاؤس کی طرف سے حال ہی میں نیشنل سکیورٹی سٹریٹیجی اور پنٹا گون کی طرف سےنیشنل ڈیفنس سٹریٹجی جاری کی گئی ہے۔ ان دونوں میں ٹرمپ انتظامیہ نے اپنی تزویراتی پالیسیوں اور ترجیحات کا اندونی و بیرونی طور پر احاطہ کیا ہے۔ ساؤتھ ایشین وائسز کی اس چار حصوں پر مشتمل سیریز میں مونیش تورنگبام، حمزہ رفعت، آمنہ افضال اور پوجا بھٹ اس بات کا جائزہ لیں گے کہ یہ پالیسیاں جنوبی ایشیا کےلئے کیا اثرات ڈال سکتی ہیں۔ سیریز کو مکمل پرھنے کےلئے یہاں کلک کریں۔
***
Click here to read this article in English
Image 1: The White House via Flickr
Image 2: Jewel Samad via Getty