جون میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کو فائنینشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف-اے-ٹی-ایف) کی گرے لسٹ میں شامل کر لیا جائے گا ۔اس فہرست میں وہ ممالک شامل کئے جاتے ہیں جو مبینہ طور پر دہشت گرد تنظیموں کی مالی امداد کرتے ہیں یا دوسروں کو اپنی سرزمین پر دہشت گرد تنظیموں کی مالی مدد کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ایف-اے-ٹی-ایف کی کاروائی خفیہ ہوتی ہے تاہم اسلام آباد میں سرگوشیاں جاری ہیں کہ پاکستان کا نام اس فہرست میں کیونکر شامل کیا جائے گا۔ پاکستان کےلئے اس فہرست میں شمولیت پہلی دفعہ نہیں ہو گی بلکہ پاکستان پر ۲۰۰۹ سے ۲۰۱۵ کے عرصہ میں بھی خاص نظر رکھی گئی تھی۔ تاہم اس دفعہ اندرونی طور ملک میں کئی ایک وجوہات کی بناء پر کافی آوازیں اٹھائی گئی ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ پاکستان کا نام امریکی ایماء پر شامل کیا گیا چونکہ صدر ٹرمپ نے اپنی ٹویٹ میں پاکستان کی عسکری امداد کو معطل کرنے کا کہاتھا۔ دوسری رائے کے مطابق پاکستان نے پچھلے کچھ عرصہ میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضربِ عضب اور ردُالفساد کے تحت خاطر خواہ اقدامات کئے ہیں اور نیشنل ایکشن پلان کی بدولت دہشت گردوں کے خلاف تیز تر ایکشن لیا لیکن یہ تمام تر اقدامات ایف-اے-ٹی-ایف کو رام کرنے کےلئے ناکافی ثابت ہوئے اور اسی وجہ سے پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کیاگیا۔
گرے لسٹ میں پاکستانی نام شامل کئے جانے کا ماخذ حافظ سعید کی سرگرمیوں کو نہ روکنا تھا چونکہ حافظ سعید اقوامِ متحدہ کی طرف سے دہشت گرد قرار دئے گئے ہیں اور بھارت کی طرف سے ۲۰۰۸ کے ممبئی حملوں کے ماسٹر مائند ہونے کا الزام بھی انہی کے سر ہے۔ تاہم وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ مفتاح اسماعیل کا دعویٰ ہے کہ پاکستان داراصل ایف-اے-ٹی-ایف کا ‘سیاسی نشانہ’ بنا ہے جبکہ دیگر کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ امریکہ منشاء پر کیا گیا جو دہشت گردی کے خلاف ‘محدود /خاص‘ جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ حافظ سعید کارڈ کو استعمال کر کے پاکستان پر دباؤ بڑھا رہا ہے تاکہ پاکستان ان جیسے لوگوں کے افغانستان میں دہشت گردوں سے مبینہ روابط کو ختم کر سکے۔ پس اگلے چند ماہ کے دوران پاکستان کےلئے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف کاروائیوں میں ‘اچھے’ یا ‘برے‘ طالبان کو مدِ نظر نہیں رکھتا بلکہ بلا امتیاز کاروائی کر رہا ہے۔
امریکہ کا (پاکستانی) نا اہلیت پر بیانیہ؛
وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ جب سے صدر ٹرمپ نے امریکہ کی جنوبی ایشیا سے متعلق پالیسی کا علان کیا ہے تب سے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا ہے۔ پردوں کے پیچھے یہ باتیں عام ہیں کے پینٹا گون افغانستان میں بری طرح ناکام ہو گیا ہے ۔اس بات کی حقیقت اپریل ۲۰۱۷ میں سپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ریکنسٹرکشن کی رپورٹ سے عیاں ہے جس میں بتایاگیا کہ افغانستان کا ۴۰ فیصد علاقہ طالبان کے زیرِ اثر ہے اور پھر جنوری ۲۰۱۸ میں اس تناسب میں اضافہ ہوا لیکن اس رپورٹ کو مبینہ طور پر امریکی حکومت نے سینسر (چھپا لیا) کر دیا ۔ پاکستانی پالیسی سازوں کے مطابق افغانستان میں یہ ناکامی داراصل امریکہ کو اپنا بوجھ پاکستان پر پھینکنے اور گرے لسٹ میں پاکستانی نام شامل کروانے پر اکساتی ہے۔
اس نظرئے میں وزن ہے چونکہ پاکستان نے جب ۲۰۱۷ میں آپریشن ردالفساد شروع کیا تو عالمی تنظیموں جیسے فریڈم ہاؤس نے انسدادِ دہشت گردی کے ان اقدامات کو سراہا۔ حتیٰ کہ حافظ سعید سے متعلق بھی پاکستان نےحال ہی میں ایکشن لیا اور انکے ۱۲۱ اکاؤنٹس جنکی مالیت ۱ ملین امریکی ڈالر تھی، کو منجمد کر دیا۔ اسی طرح کے اقدامات پاکستان نے ۲۰۱۲ سے ۲۰۱۵ کے عرصہ میں بھی اٹھائے جب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت کام کرتے ہوئے ملک کو گرے لسٹ سے نکالنے میں کردار ادا کیا۔ اس دفعہ ایف-اے-ٹی-ایف کو کریک ڈاؤن کے بار ےمیں بتایا بھی گیا تھا تا ہم پاکستان کو اس فہرست سے باہر نہ رکھا جا سکا۔
حالیہ پالیسی میں تضادات؛
اگرچہ پاکستان کی ایف-اے-ٹی-ایف میں شمولیت کی وجہ امریکی دباؤ تھا لیکن چند داخلی عناصر کی وجہ بھی کارفرما تھی اور انہی کی وجہ سے اب سے جون تک پاکستان کا کیس مزید الجھ سکتا ہے۔ فروری میں خیبر پختونخواہ حکومت نے مولانا سمیع الحق ، جنہیں طالبان کا باپ بھی کہا جاتا ہے، کے مدرسے کی امدادی رقم میں اضافہ کر دیا۔ یہ بھی کہا جاتاہے کہ حقانی نیٹ ورک کے کچھ ممبرز نے اسی مدرسے سے تعلیم بھی حاصل کی ۔ مزید برآں ملک میں دائیں بازو کی جماعتیں بھی زور پکڑ رہی ہیں اور انتخابات میں حصہ لینے کےلئے پر تول رہی ہیں جیسا کہ حافظ سعید کی جماعت اپنی رجسٹریشن کےلئے قانونی لڑائی لڑ رہی ہے۔ اگر اس مقصد میں کامیابی ملتی ہے تو وہ آئندہ انتخابات کےلئے مہم چلارہے ہوں گے جبکہ اسی دوران جون میں ایف-اے-ٹی-ایف کاا جلاس بھی ہو رہا ہو گا۔ یہ پریشان کن صورتحال پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں سے متصادم ہے اور پاکستان کے ملک سے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرنے کے نقطہِ نظر پر بھی سوال اٹھاتی ہے۔
پاکستان کےلئے اثرات؛
کچھ رپورٹس یہ کہتی ہیں کہ ایف-اے-ٹی-ایف میں نام آنے پر پاکستان میں براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری پر ضرب لگے گی۔تاہم مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ پچھی دفعہ ایسا ہونے پر بھی پاکستانی سٹاک مارکیٹ نے ۳ فیصد اضافہ دیکھا تھا اور معیشت نے خود کو مضبوط رکھا چونکہ پاکستان ورلڈ بینک اور ایشئن ڈویلپمنٹ بینک سے قرضہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا تھا۔ تب سے پاکستان نے جنوبی ایشیائی خطے میں سی-پیک کے ذریعے اپنی معیشت کو ترقی دی ہے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں جیسے جنرل الیکٹرک اور رینالٹ نے ملک میں اپنے قدم رکھے ہیں۔ اگر مغربی ممالک کی طرف سے پاکستان میں براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری کم بھی ہوتی ہے تو اسکا پاکستان پر کچھ خاص اثر نہیں پڑے گا چونکہ چین اب پاکستان میں سرمایہ کاری کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ وزارتِ خزانہ بھی پُر اعتماد ہے کہ پاکستان اس طوفان کو جھیل لے گا اور آئی-ایم-ایف نے بھی کہا ہے کہ پاکستانی لین دین پر اثر نہیں پڑے گا۔
تاہم فہرست میں نام آنے سے ملک کی عالمی ساکھ پر منفی اثر پڑے گا۔ پہلے ہی چین، روس اور خلیجی ممالک کی طرف سے ایف-اے-ٹی-ایف میں پاکستانی موقف کا ساتھ نہ دینے پر آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اس طرح کے حالات امریکہ و بھارت کو یہ مواقع فرہم کریں گے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف پاکستانی کو ششوں پر سوال اٹھا سکیں۔
آئندہ کےلئے کیا مناسب ہو گا؟
گزشتہ دس برسوں میں پاکستان بہت آگے نکل چکا ہے۔ انتہا پسندی میں کمی ہوئی ہے اور معیشت نموُ پذیر ہوئی ہے جبکہ عالمی کمپنیاں ملک میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ تاہم اس موزوں وقت پر اگر مناسب اقدامات نہیں کئے جاتے تو پاکستان وہ سب کھو دے گا جو اس نے سالوں میں حاصل کیا۔ اس دلدل سے باہر نکلنا ملکی تشخص کےلئے انتہائی ضروری ہے ورنہ امریکہ کی طرف سے پھیلایا جانے والا پروپیگنڈہ پاکستان کی عالمی تنہائی کو جاری رکھے گا۔ یہ بھی ضروری ہے کہ دہشت گردی سے متعلقہ لوگوں کو ملک میں سیاسی کردار یا خلاء فراہم نہ کیا جائے۔ اس مقصد کےلئے مفتاح اسماعیل نے اعلان کیا کہ ایف-اے-ٹی-ایف کے فیصلے سے نمٹنے کےلئے ایک ایکشن پلان جون سے پہلے تیار کر لیا جائے گا۔
***
.Click here to read this article in English
Image 1: Imtiaz Ahmed via Flickr
Image 2: Arif Ali via Getty Images