Modi_Flickr-1600×900

کشمیر میں۲۰۰۸  میں یکے بعد دیگرے احتجاجی سلسلے دیکھنے میں آئے جو ہفتوں اور بعض دفعہ مہینوں پر محیط تھے۔ گزشتہ برس خاص طور پر علیحدگی پسند عسکریت گروہ  سے تعلق رکھنے والےبرہان وانی کے بھارتی فوج کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد ہونے والے مظاہروں  اور پتھر اؤ کے واقعات میں  ۷۸ لوگ جاں بحق جبکہ ۱۰۰۰۰ کے قریب زخمی ہوئے۔

مسئلہ کشمیر کو غمومی طور پر پاک-بھارت تنازعہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔جہاں پاکستان کی کشمیری عسکریت پسند گروہوں کی حوصلہ افزائی اور تربیت بھارت کےلئے پریشان کن ہے وہیں احتجاج کی حالیہ لہر خالصتاً داخلی معاملہ ہے جس میں کشمیری اپنی شکایات کا اظہار کر رہے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں انتہائی کم ووٹ ڈالے جانے اور احتجاجی سلسلے پر ردِ عمل دیتے ہوئے جموں و کشمیر کے سابق وزیرِ اعلیٰ(۲۰۰۹-۲۰۱۵) عمر عبداللہ نے درست کہا ہے کہ “اگرچہ پاکستان وادی میں آگ لگاتا ہے اور اس کو ہوا بھی دیتا ہے مگر موجودہ صورتحال اُسکی بنائی ہوئی نہیں ہے”۔ مزید برآں جموں اور لداخ کے لوگوں کی اپنی اپنی شکایات ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ بھارتی حکومت نے انکے ساتھ اچھا سلوک روا نہیں رکھا۔

اس صورتحال سے لگتا ہے کہ کشمیر خطرناک داخلی سیاسی مسائل  میں گھرا ہے اور بھارت اب محض پاکستان کو تمام مسائل کےلئے موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتا۔ بھارت کو اب جموں و کشمیر  میں رہنے والے اپنے شہریوں کی ذمہ داری لینا شروع کر دینی چاہئے ۔ کشیدگی کو کم کرنے کےلئے بھارتی حکومت کو فوری طور پر ۲۰۱۲ میں مذاکرات کرنے والے گروپ (انٹرلوکیٹرز) کی تجاویزپر عمل کرنا چاہئیے کہ جس میں اختیارات کی تقسیم، انسانی حقوق پر توجہ اور قانون کی حکمرانی پر توجہ مرکوز کرنے کا کہا گیا۔

پس منظر

جموں و کشمیر کے مذاکرات والے گروپ کی رپورٹ ایک جامع کوشش تھی کہ وادی میں موجود تمام ۲۲ اضلاع کے ۷۰۰ وفود کی آواز یا مطالبات کو صحیح معنوں میں سنا جائے۔ احتجاج میں حالیہ اضافہ گروپ کی رپورٹ کو پانچ سال بعد بھی درست ثابت کرتا ہے چونکہ زیادہ تر تجاویز پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ بہت سوں کا  کہنا ہے کہ اگر گروپ کی تجاویز پر عمل دارآمد کر لیا جاتا تو کشمیر کی موجودہ دگرگوں صورتحال سے بچا جا سکتا تھا۔

تین علاقائی کونسلز

رپورٹ کی تجاویز میں سب سے اہم تجویز یہ تھی کہ اختیارات کی مرکزیت کم کر کے ان کو تین علاقائی کونسلز (جموں، کشمیر اور لداخ کےلئے) میں تقسیم کر دیا جائے۔ یہ تین علاقے جغرافیائی، نسلی اور ثقافتی لحاظ سے ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ جموں بنیادی طور پر ڈوگرا ہندوؤں پر، کشمیر مسلمانوں اور لداخ تبتی بدھ مت اور شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ جموں و کشمیر کے ۱۹۴۷ میں بھارت سے الحاق سے قبل ہندو ڈوگرا نے بادشاہت میں کشمیریوں اور مسلمانوں کے خلاف امتیاز روا رکھا۔ ۱۹۵۳ میں اکثریتی  ووٹ سے منتخب ہونے والے کشمیری راہنما شیخ عبداللہ، ۱۹۸۴ میں جمہوری طور پر منتخب ہونے والی ریاستی حکومت کے خاتمے اور ۱۹۶۲، ۱۹۶۷، ۱۹۷۲ اور ۱۹۸۷ میں دھاندلی زدہ انتخابات نے کشمیریوں کو مزید تنہا کر دیا۔ نوے کی دہائی کی پر تشدد عسکریت پسندی کے بعد ۲۰۰۳ سے ۲۰۰۷ تک قدرے سکون رہا۔ تاہم اس وقتی سکون کے دوران بھی مرکزی حکومت نے ریاست کے محصور اداروں کو بہتر کرنے یا لوکل سٹیک ہولڈرز کی مدد سے آگے بڑھنے کےلئے کوئی اقدامات نہ کیے۔ نتیجتاً ریاست کو حقیقی منصوبے کی ضرورت پیش آئی کہ جس سے آرٹیکل ۳۷۰ صحیح معنوں میں نافذ ہو سکے۔

اس مقصد کےلئے ۲۰۱۲ کی رپورٹ میں یہ  تجویزبھی کی گئی کہ ان تین کونسلز کو مالی اور انتظامی اختیارات دیے جائیں تا کہ خود مختار قانونِ حکمرانی قائم ہو سکے۔ وسائل کو ان تین کونسلز کے بیچ تقسیم کر دیا  جائے تا کہ وہ اپنی معاشی و معاشرتی  ضروریات کے مطابق پالیسی قائم کر سکیں۔ اختیارات کی یہ تقسیم آزادانہ اور شفاف کونسلز کا باعث بنے گی جسکے نتائج کشمیریوں کےلئے بہتر گورننس اور روزگار  کے مواقع پیدا کرے گی۔

انسانی حقوق اور قانونِ حکمرانی میں اصلاحات

اسی رپورٹ میں انسانی حقوق اور قانونِ حکمرانی میں اصلاحات نافذ کرنے کی بھی تجویز کی گئی۔ رپورٹ میں پتھراؤ کرنے والوں اور سیاسی قیدیوں جن پر ہلکی نوعیت کے الزامات ہیں اور ہتھیار پھینک دینے والوں کےلئے عام معافی کا اعلان کیا جائے۔ اسطرح کے اقدامات ایسے لوگوں کوواپس قومی دھارے میں لانے کا باعث بنیں گے۔ جولائی ۲۰۱۶ میں سابقہ وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے یہ نوٹ کیا کہ ہریانہ اور گجرات میں  پتیدار تحریک میں بھارتی سکیورٹی فورسز  کی جانب سے اسطرح کا سخت جواب نہیں دیکھا گیا جیسا کشمیر میں ہلکی نوعیت کی بد امنی پر بھی کیا جاتا ہے۔ اس عدم مساوات کے خاتمے کےلئے ۲۰۱۲ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ  پر نظرِ ثانی کی جائے جو کہ سکیورٹی فورسز کو تلاشی، گرفتاری اور حتی کہ لوگوں پر عسکریت پسندوں سے تعلقات کے باعث بغیر وارنٹ گولی چلانے کی اجازت دیتا ہے۔  یہ ایکٹ چالانِ عدالت سے بھی مبرا ہے جسکی وجہ سے نا انصافی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوا اور ۱۹۹۰ سے ۲۰۱۱ تک ۳۶۴۲شہری مارے گئے۔ عمر عبداللہ اور موجودہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اسی وجہ سے ایکٹ کی منسوخی پر زور دیا ہے۔

خلاصہ

مرکزی  حکومت کی طرف  سے حالیہ پالیسیاں کشمیر میں احتجاجی تحریکوں اور شکایات کا ازالہ نہیں کر سکی ہیں۔ تاہم علاقائی کونسلز گورننس اور روزگار جیسے مسائل حل کرنے اور تین مختلف نوعیت کے علاقوں میں انفرادی ضروریات کو پورا کرنے میں مددگار ہوں گی ۔ اس سے کشمیریوں کو اپنی ضروریات اور سیاسی آوازبلند کرنے میں بھی آسانی ہو گی ۔ کشمیر میں کشیدگی کی حالیہ لہر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بھارت اب دوسروںــبشمول پاکستان ـــ پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ بھارت کو الزامات کی بجائے ان  تجاویز اور  بیانات پر عمل کرنا ہو گا جو جموں و کشمیر میں شہریوں کے تمام سیاسی اور فلاحی حقوق کی تلافی کر سکے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Presidencia de la Republica Mexicana via Flickr

Image 2: Kashmir Global via Flickr

Share this:  

Related articles

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…

جوابی کار روائی: کیا پاکستان فوجی حملوں کے رد عمل پر غور کر رہا ہے؟ Hindi & Urdu

جوابی کار روائی: کیا پاکستان فوجی حملوں کے رد عمل پر غور کر رہا ہے؟

ایران اور پاکستان کے درمیان حالیہ جیسے کو تیسا حملے …

پاکستان کا بعد از انتخابات ماحول: ماہرین کا ردعمل Hindi & Urdu

پاکستان کا بعد از انتخابات ماحول: ماہرین کا ردعمل

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والے…