پاک–امریکہ تعلقات میں تعطل برقرار کیوں نہیں رہے گا
محمد فیصل
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر نظر رکھنے والے مبصرین کے نزدیک پچھلے چند دنوں میں جو کچھ ہوا ہے وہ ناگزیر تھا۔ تعلقات میں تعطل تب سے یقینی تھا جب سے جنوبی ایشیا سے متعلق امریکی حکمتِ عملی کا صدر ٹرمپ نے اگست ۲۰۱۷ میں اعلان کیا۔ نئے سال پر صدر ٹرمپ کی ٹویٹ نے پہلے سے تناؤ کا شکار تعلقات میں محض تلخی میں اضافہ کیا ہے اور ‘جھوٹ اور فریب’ کے الزامات اب دو طرفہ محاذ آرائی میں بدل گئے ہیں۔ ایک انتہائی فیصلہ کرتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کی سکیورٹی سے متعلق تمام امداد معطل کر دی ہے اور کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں ملنے والی رقم کو بھی روک دیا ہے۔ جواب میں پاکستان نے تحمل اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ کے فیصلے کو سمجھ سے بالاتر اور الزامات کو دونوں ملکوں کے بیچ اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف گردانا۔ تاہم لین دین کےجیسی نوعیت ہونے کے باعث تعلقات پہلے سے ہی اعتماد سے عاری ہو چکے تھے۔
گزشتہ کچھ سالوں میں اسلام آباد اور واشنگٹن کے بیچ تزویراتی عدم مساوات خاصی وسیع ہو گئی ہے۔ واشنگٹن میں عمومی رائے یہ پائی جا رہی ہے کہ پاکستان کے داخلی سکیورٹی مفادات افغانستان میں امریکی مفادات سے متصادم ہیں۔ اس دوران اسلام آباد یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ کی افغانستان اور جنوبی ایشیائی پالیسی پاکستان کے لئے نقصان دہ ہے۔ مفادات کی اس الگ الگ سوچ اور اپنے اپنے مفادات کو حاصل کرنے کی تگ و دو میں ٹکراؤ ناگزیر ہے۔ اور یہ ٹکراؤ ہو بھی چکا ہے، پہلے صدر اوبامہ اور اب ٹرمپ کے دورِ حکومت میں۔ فرق صرف صدر ٹرمپ کے غیر یقینی مزاج کا ہے۔
اسلام آباد اور واشنگٹن کے پالیسی سازوں کے لئے آجکل بڑا چیلنج جغرافیہ کا ہے۔ اسلام آباد واشنگٹن کے ساتھ افغانستان کا ہمسایہ ہونے کی وجہ سے مکمل قطع تعلقی نہیں کر سکتا جبکہ امریکہ کےلئے پاکستان کی اہمیت اس لئے ضروری ہے کہ افغانستان کے اندر لڑنے والی اپنی فوجی ضروریات پوری کرنے کےلئے پاکستان فضائی و زمینی گزرگاہ ہے۔ ایران ایک متبادل ہے مگر ٹرمپ انتظامیہ کےلئے ایران ایک ‘نو گو ایریا ‘ہے۔ دوسرا حل روس ہے اور روس کے ساتھ امریکہ تزویراتی مقابلے میں ہے۔
ہم نے اس طرح کا معاملہ ۲۰۱۱ میں پہلے ہی دیکھ رکھا ہے جب امریکہ نے اسامہ بن لادن کے کھوج میں پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں آپریشن کیا تھا۔ تاہم ۲۰۱۲ کے اختتام تک جغرافیائی مجبوریوں اور ایک دوسرے پر منحصر ہونے کے باعث دونوں اطراف نے تعلقات کو دوبارہ استوار کر لیا۔ اب کی بار کیا مشکل ہے؟ ٹرمپ انتطامیہ بھی شائد صدر اوبامہ جیسی حکمتِ عملی اپنائے تاہم وہ جغرافیائی مجبوری کے معاملے کا حل نکالے گی۔ سخت گیر معاشی اقدامات اور یک طرفہ فوجی ایکشن پاکستان کی تزویراتی پالیسی میں تبدیلی نہیں لا سکیں گے۔ تاہم افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے پاکستان اور امریکہ کے مابین سَیر حاصل گفتگو ( بشمول افغانستان میں امریکی فوج کا لمبا پڑاؤ) سے تعلقات کو درست سمت میں دھکیلا جا سکتا ہے۔ اور اسی وقت پاکستان کو بھی امریکہ کی افغانستان میں لمبے پڑاؤ کے حوالے سے اپنے خدشات کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کو سزا دیتے ہوئے صدر ٹرمپ کس حد تک جا سکتے ہیں؟
یعقوب الحسن
پاکستان اور امریکہ کے بیچ مفادات کا ایک جیسا ہونے اور نہ ہونے جیسے بہت سے ادوار گزرے ہیں۔ تاہم صدر ٹرمپ کی طرف سے نئے سال پر پاکستان کو ‘جھوٹااور فریبی‘ کا الزام عائد کرنا بہت گھمبیر ہے اور معاملات پہلی دفعہ اتنے پیچیدہ ہوئے ہیں کہ دونوں اطراف کے راہنما انکے خاتمے پر سرِ عام بول رہے ہیں۔ ٹرمپ کی نئے سال پر ٹویٹ کے ذریعے بھیجے گئے پیغام اور ان سے پہلے کے صدُور کے پیغامت میں تھوڑا ہی فرق ہے۔ امریکہ نے پہلے بھی پاکستان کو خبردار کیا بلکہ بعض اوقات افغانستان میں نیٹو افواج پر حملے کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف موثر کاروائی نہ کرنے پر دھمکی بھی دی۔ فرق صرف طریقے کا ہے کہ اس دفعہ صدر ٹرمپ نے کس انداز میں پیغام دیا۔
تاہم اب بھی یہ تو صرف وقت ہی بتا سکے گا کہ پاکستان کو کوتاہی برتنے پر صدر ٹرمپ کس حد تک سزا دیتے ہیں۔ اب تک ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کو واجب الادا ۲۵۵ ملین ڈالر کی فوجی امداد کو جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اس بات کے بھی امکان معدوم ہیں کہ یہ امداد کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں ادا کر دی جائے۔ پاکستان کا جواب احتیاط اور حقیقت پسندی پر مبنی تھا کیونکہ اس نے اُن راستوں کو معطل نہیں کیا ہے جن سے گزر کر امریکی و نیٹو افواج کو سامان کی ترسیل افغانستان میں ہوتی ہے۔ اور یہ واحد معاملہ ہے جہاں پاکستان کو امریکہ پر سبقت حاصل ہے اور ایک ایسا ہتھیار ہے جسے ماضی میں اس نے کامیابی سے استعمال کیا ہے- ایران اور وسطی ایشیا سے گزرنے والے دیگر راستے مہنگے ہونے کے ساتھ ساتھ سفارتی مسائل سے بھرپور ہیں ۔ اسی دوران پاکستان کی سِول اور عسکری قیادت نے کہا ہے کہ افغان مسئلے کے حل کےلئے امریکہ کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں۔
پاکستان کی اس احتیاط پسندی کے پیچھے کچھ عوامل کارفرما ہیں۔ واشنگٹن نہ صرف اسلام آباد کو فوجی امداد دیتا ہے بلکہ کئی مالی اداروں پر اثرورسوخ رکھتا ہے جن کی مالی امداد پر پاکستانی معیشت منحصر ہے۔ پاکستانی فوج بھی یہ نہیں چاہے گی کہ تعلقات اس نہج پر پہنچ جائیں کہ امریکہ سے ضروری فوجی سازوسامان بھی نہ لیا جاسکے اور وہ بھی اپنے خرچے پر۔ اگرچہ پاکستان نے امریکہ پر انحصار کم کرتے ہوئے چین اور روس کے ساتھ تزویراتی تعاون مظبوط کیا ہے، پھر بھی امریکی ہتھیاروں سے مکمل چھٹکارے میں ایک دہائی لگ جائے گی۔ اس لئے پاکستان اپنے واحد ہتھیار(راستوں کی بندش) کو ابھی استعمال نہیں کرے گا۔
اگر امریکہ دہشت گردی کے معاملے پر خاطر خواہ اور مثبت تبدیلی نہیں دیکھتا تو ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کو یا تو دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والا ملک قرار ردے دے گی یا پھر فوج کے کچھ افسران ، جو حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے ساتھ کام کرتے ہیں، پر پابندیاں عائد کر دے گی۔ امریکہ کو افغانستان میں تعینات اپنی فوج تک سازو سامان کی ترسیل کےلئے متبادل حل بھی تلاش کر نا ہو گا۔ اور اس وجہ سے افغانستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اور اسکا سب سے اہم مطلب شائد یہ ہو گا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ترک کر دے ۔ایک ایسی ریاست جو خود عسکریت پسندی کے مسئلے سے دوچار ہے، اس کے ساتھ ایسا سلوک جنوبی ایشیائی خطے کےلئے بھی بھیانک ہو گا۔
***
.Click here to read this article in English