
بیجنگ نے حال ہی میں تیانجن (چین) میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں افغانستان میں استحکام کی اہمیت پر زور دیا اور ملک (افغانستان) کی تعمیرِ نو اور ترقی کے لیے کثیر الجہتی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔ پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ان جذبات کی حمایت کی۔ یہ گذشتہ چند ماہ کے دوران چینی تائید کے ساتھ، اسلام آباد اور طالبان کے مابین بحالیٔ تعلقات کے سلسلے میں تازہ ترین عندیہ تھا۔ اپریل میں دو طرفہ معاملات پر بات چیت کرنے کے لیے ڈار کی زیرِ سرکردگی طالبان حکومت کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کے لیے پاکستانی وفد گیا، جبکہ بیجنگ نے مئی میں چین میں سہ فریقی مذاکرات کے دوران ڈار اور متقی کے مابین گفت و شنید کے لیے ثالثی کی۔
پاکستان کی اپنی مغربی سرحد پر استحکام کی ضرورت اور بالخصوص نئی دہلی کی طالبان کے ساتھ حالیہ رابطہ کاری کے بعد، چین کی افغانستان میں بھارت کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کی خواہش (کو دیکھتے ہوئے) 21 مئی کا سہ رکنی اجلاس بیجنگ میں ایک موزوں وقت پر ہوا۔2017 میں شروع ہونے والے اس سہ رُکنی فورم نے ایک سال کے وقفے کے بعد ملاقات کی جس کا اہم ٹھوس نتیجہ پاکستان اور افغانستان کی سفارتی نمائندگی کو مئی کے آخر تک سفارتکار (ایمبیسیڈر شپ) کی سطح تک بلند کر نا تھا جس نے پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان سفارتی تعلقات کو رسمی طور پر بحال کر دیا۔
گو کہ یہ ایک مضبوط علامتی آغاز ہے، چین-پاکستان-افغانستان سہ رُکنی تعاون دائمی اور پائیدار سلامتی اور اقتصادی تعاون پیدا کر سکتا ہے۔اراکین کے مشترکہ سیکیورٹی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، مشرقی ترکستان اسلامی تحریک (ای ٹی آئی ایم)، اور اسلامی ریاست خراسان (آئی ایس کے پی) کے خلاف یہ فورم انسدادِ دہشت گردی کے مخصوص اور علاقائی ضروریات سے متعلقہ اقدامات لے سکتا ہے ۔ چینی تسہیل پاکستان اور افغانستان کے سرحدی انتظام اور نگرانی کے مسائل، جیسا کہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی، کو کم کرنے میں بھی ممکنہ طور پر مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ سیاسی تناؤ کے باوجود، معاشی طور پر فورم چین کی امداد، سرمایہ کاری اور سیاسی حمایت کو پاکستان اور افغانستان کے مابین مستحکم باہمی انحصار کی ترغیب دینے کے لیے منفرد انداز سے استعمال کر سکتا ہے۔
پاکستان کی اپنی مغربی سرحد پر استحکام کی ضرورت اور بالخصوص نئی دہلی کی طالبان کے ساتھ حالیہ رابطہ کاری کے بعد، چین کی افغانستان میں بھارت کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کی خواہش (کو دیکھتے ہوئے) 21 مئی کا سہ رکنی اجلاس بیجنگ میں ایک موزوں وقت پر ہوا۔
چینی معاملت کے پسِ پردہ عوامل کیا ہیں؟
بیجنگ کی پاک-افغان بات چیت کو باسہولت بنانے کی کوششیں دونوں اقتصادی اور تزویراتی مفادات کے باعث ہیں۔ایک طرف تو بیجنگ کا خیال ہے کہ چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو افغانستان کے ساتھ ملانا نفع بخش ہوگا اور (چین کو) علاقے میں قدم جمانے کا موقع دے گا، لیکن اس کے لیے ایک پرامن اور مستحکم افغانستان کی ضرورت ہوگی جو دہشت گرد گروپوں کو پناہ فراہم نہ کرے۔ بیجنگ کے تجویز کردہ رابطہ کاری (کنیکٹیویٹی) کے منصوبوں میں پشاور-کابل موٹر وے، چمن-قندھار-مزارِ شریف-ترمذ کوریڈور، طورخم-جلال آباد اور چمن-قندھار ریلوے کے لئے ریلوے لنکس، اور دریائے کنر ہائیڈرو پراجیکٹ جیسے بڑے منصوبےشامل ہیں۔
افغانستان میں سی پیک کی توسیع سے اقتصادی فوائد حاصل کرنے کی چین کی اُمید کے علاوہ بیجنگ ممکنہ طور پر ای ٹی آئی ایم کا مقابلہ کرنے کے لیے تعاون کا ارادہ بھی رکھتا ہے، جو کہ خبروں کے مطابق 2000 کی دہائی کے وسط میں افغانستان کے بدخشاں اور نورستان کے علاقوں میں سرگرمِ عمل تھی اور چین کی جانب سے اُسے شنجانگ کے خطے کے لیے ایک خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ گروپ کی مبینہ سرحد پار سرگرمیوں کے بارے میں تشویش نے بیجنگ کو طالبان حکومت کے ساتھ سفارتی معاملت بڑھانے پر مجبور کیا ہے، اس یقین دہانی کی تلاش میں کہ افغان سرزمین چین کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی۔ بدلے میں چین نے افغانستان کو اقتصادی امداد، انفرا اسٹرکچر کی ترقی اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) میں شمولیت کی پیشکش کی ہے۔
تاہم کچھ ماہرین کے مطابق چین کی افغانستان کے ساتھ معاملت بڑی حد تک اثر و رسوخ قائم کرنے کی ایک مشق ہے، جس کا مقصد 2021 میں مغرب کے ملک (افغانستان) سے افرا تفری کی حالت میں انخلا کے برعکس خود کو ایک ذمہ دار عالمی طاقت کے طور پر پیش کرنا ہے۔ استدلال کے مطابق، اثر و رسوخ (بڑھانے) کی مہم علاقائی عناصر اور عالمی ناظرین پر مرکوز ہے تاکہ چین کی سافٹ پاور اور جغرافیائی اعتبار کو بہتر بنایا جا سکے۔اقتصادی امداد، سفارتی سرمایہ اور سیکیورٹی تعاون کے اغراض کا ایک انتہائی تغیر پذیر ماحول میں ہونا اور چینی مفادات پر ممکنہ حملوں جیسے خطرات کی موجود گی کے باعث بیجنگ کے لیے بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔
چنانچہ چین پاکستان-افغانستان کشیدگی کو حل کرنا دو وجوہات کے سبب ضروری سمجھتا ہے: ایسا کرنے سے اس کے بیلٹ اینڈ روڈ کوریڈور کے قرب وجوار میں استحکام حاصل کیا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی شنجانگ میں علاقائی ردِ عمل کو بھی روکا جا سکتا ہے۔حالیہ سہ فریقی گفت و شنید خطے میں بیجنگ کو ایک استحکام لانے والی قوت کے طور پر پیش کرتی ہے، گو کہ (چین) افغانستان کے ساتھ اقتصادی معاملت میں احتیاط اور لین دین کو پیشِ کار رکھتا ہے۔

پاکستان کی دو محاذوں پر تزویراتی مشکلات
مئی میں بھارت کے ساتھ جھڑپ کے تناظر میں بھارت-افغانستان تعلقات میں حالیہ مضبوطی نے پاکستان کو پریشان کردیا ہے، جو دو محاذوں پر تصادم کے امکانات پر اس کی دیرینہ تشویش کو بڑھا رہی ہے۔ پاکستان کو خدشہ ہے کہ بھارت بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے افغان سرزمین کا استعمال کر سکتا ہے اور حالیہ مہینوں میں بھارت اور طالبان کے درمیان تعلقات کی نزدیکی ، بشمول بھارتی وزیر خارجہ ایس-جےشنکر اور طالبان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی کے درمیان پہلی وزارتی سطح کی (فون) کال نے ان خدشات کو دوبارہ ہوا دی ہے۔ اسلام آباد غالباً کابل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی حالیہ کوششوں کو طالبان کو بھارت سے دُور کرنے کے طور پر دیکھتا ہے، حالانکہ افغانستان کے رویے میں کسی بڑی تبدیلی کے آثار نہیں ہیں۔ بہر حال یہ تمام تبدیلیاں اسلام آباد کے لیے خاص طور پر طالبان کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے اور افغانستان کو بھارت -پاکستان تعادل میں ایک غیر متوقع عنصر بننے سے روکنے میں تین رُکنی فورم کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتی ہیں۔
تاہم اسلام آباد کے کابل کے ساتھ اپنے تعلقات حالیہ مہینوں میں افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری، تجارتی خلل اور سرحدی جھڑپوں کی وجہ سے کشیدہ ہو چکے ہیں۔ ڈیورنڈ لائن کے تنازع سے شروع ہونے والے اختلافات جو پاک-افغان تعلقات کو متاثر کرتے ہیں، کئی دہائیوں سے موجود ہیں۔ تاہم 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کے تعلقات خاص طور پر سرحدی انتظام جیسے مسائل کے باعث بگڑ گئے، جس کے نتیجے میں جھڑپیں ہوئیں یہاں تک کہ افغانستان میں پاکستان نے ہوائی حملے بھی کیے۔ پاکستانی ریاست کا یہ ماننا ہے کہ ان حالیہ مسائل کی جڑ طالبان حکومت کا دہشت گرد گروپوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرناہے (اور) یہ الزام پاکستان نے مختلف افغان حکومتوں کے خلاف عائد کیا ہے۔
پاکستان نے 2021 سے طالبان حکومت سے بار بار ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے پر اصرار کیا ہے، لیکن یہ دباؤ دو بنیادی وجوہات کی بنا پر نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا۔ پہلا یہ کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے مابین دیرینہ نظریاتی اور تاریخی تعلقات ہیں؛ دوسرا یہ کہ ٹی ٹی پی نے طالبان حکومت کے قیام کے موقع پر اس کی حمایت کا وعدہ کیا تھا۔ نتیجتاً طالبان نے ٹی ٹی پی کے روبرو پاکستان کے حق میں سیاسی حمایت کرنے میں ہچکچاہٹ دکھائی ہے (اور) اکثر اس مسئلے کے ذکر کو پاکستان کے داخلی سلامتی کامعاملہ قرار دیا ہے۔ یہ (مسئلہ) اعتماد سازی کے لیے ایک بڑی رکاوٹ بنا ہواہے کیونکہ پاکستان ٹی ٹی پی کی افغانستان میں بِلا ممانعت پناہ گاہوں کو اپنی قومی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ سمجھتا ہے، جبکہ افغانستان پاکستان کے مطالبات کو غیر ضروری دباؤ سمجھتا ہے۔
پاکستان ٹی ٹی پی کی افغانستان میں بِلا ممانعت پناہ گاہوں کو اپنی قومی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ سمجھتا ہے، جبکہ افغانستان پاکستان کے مطالبات کو غیر ضروری دباؤ سمجھتا ہے۔
اس تناظر میں چین کی پاکستان-افغانستان تنازعات کا حل تلاش کرنے کی کوششیں، خصوصاً ایک ایسے عنصر کے طور پر جو دونوں ممالک پر اثر و رسوخ رکھتا ہے، اور اسلام آباد کی جانب سے بھارت اور افغانستان کے ساتھ روبرو دو محاذی تشویشات شاید ایک عارضی صلح کی وجہ بنی ہوں۔ چین کا یہ اقدام انسداد دہشت گردی کے تعاون اور علاقائی استحکام پر اثر انداز ہو سکتا ہے، گو کہ اسے پاکستان-افغانستان عدم اعتماد سے بھی نمٹنا ہوگا۔
پُر امیدی کی گنجائش اور احتیاط کی وجوہات
سہ فریقی اجلاس کا انعقاد علاقائی مسائل کا مکمل حل نہیں، بلکہ محض آغاز ہے۔ پہلے تو یہ کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی تنازعات اور پناہ گزینوں کا نظم و نسق جیسے گھمبیر دو طرفہ مسائل موجود ہیں، وراثت میں ملی ان مشکلات کو عملی تعاون میں رکاوٹ بننے سے روکنا اس فورم کی قابلیت کا امتحان ہوگا۔موثر سہ طرفی معاملت کے لیے ضروری ہے کہ فورم علامتی سفارت کاری سے آگے بڑھے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مخصوص مسائل پر مبنی منظم نظام العمل تیار کرے۔اس میں سرحدی انتظام اور پناہ گزین ہم آہنگی پر ایک مستقل مجلسِ کار (ورکنگ گروپ) کے قیام، سرحد پار شدت پسندی پر معلومات کا باقاعدہ تبادلہ، اور مشترکہ اقتصادی منصوبے شامل ہو سکتے ہیں جو افغان استحکام کو علاقائی باہمی انحصار سے جوڑیں۔ پہلے قدم کے طور پر فورم اہم سرحدی گزر گاہوں کو باہمی ہم آہنگ سلامتی کے ضابطۂ کار (سیکیورٹی پروٹوکولز) کے ساتھ فعال رکھنا، پناہ گزینوں کے اندراج کے نظام العمل کو باقاعدہ بنانا، اور سی پیک یا بی آر آئی کے تحت چھوٹے پیمانے پر مشترکہ ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کرنے جیسے اعتماد بڑھانے والے اقدامات متعارف کروا سکتا ہے۔
تینوں ممالک کے درمیان سہ فریقی معاہدے کے بڑے جُز ، خصوصاً خطے کی رابطہ کاری اور اقتصادی تعاون پر مرکوز جُز کو آگے بڑھانے کے لیے افغانستان کو پاکستان اور چین کے شدید سیکیورٹی خدشات کا حل نکالنا ہوگا۔ اس (مقصد) کومخصوص سیکیورٹی یا انتظامی سنگ میلوں سے وابستہ مرحلہ وار اقتصادی امداد یا انفرا اسٹرکچر کی سرمایہ کاری کی صورت میں مشروط مراعات پیش کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔عہد کی پابندی کے لیے مشترکہ ذمے داریوں اور عدم تعمیل کے نتائج کو واضح کرنا ضروری ہوگا۔ مثلاً سہ فریقی سرحدی سیکیورٹی معاہدہ جو تصدیقی ضابطۂ کار کے ساتھ ہو یا مہاجرین کے ڈیٹا کے تبادلے کا اشتراکی معاہدہ سیاسی ارادے کو جوابدہ عمل میں تبدیل کر سکتا ہے (اور) فورم کو علامتی معاملت سے قابل پیمائش نتائج کی طرف منتقل کر سکتا ہے۔ایسا عملی تعاون تینوں ممالک کے مفادات کو تحفظ دینے اور خطے کو مزید استحکام اور ترقی کی جانب بڑھانے کے لیے ایک زیادہ باحوصلہ اور عملی طور پر متحرک فورم کی بنیاد رکھے گا۔
***
This article is a translation. Click here to read the article in English.
Image 1: PRC State Council
Image 2: MFA Pakistan via X