42206979082_70359234ef_o-1095×616

بھارت نے  یوکرین پر روسی حملے کے خلاف اقوام متحدہ میں ۲ مارچ کو پیش کی گئی قرارداد پر ووٹ ڈالنے سے گریز کیا۔ ایسا ایک ہفتے سے کم مدت میں تیسری بار ہوا۔  اپنے ووٹ کی وضاحت میں بھارت نے ماسکو اور کیو کے درمیان سیز فائر کے عالمی برادری کے مطالبے کی حمایت کی، تمام ریاستوں  کی علاقائی سالمیت اور خود مختاری پر اپنے یقین کو دوہرایا، اور بحران کے حل کے لیے سفارت کاری اور مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا لیکن روس کی مذمت سے پرہیز کیا۔ 

بھارت کے بارے میں معمولی علم رکھنے والوں کے لیے ایک جمہوری اور لبرل اصولوں کی حامی ریاست کی جانب سے  یہ قدم حیران کن ہو سکتا ہے تاہم بھارت اور روس کے تعلقات پر گہری نگاہ رکھنے والے  نئی دہلی کی جانب سے واشنگٹن اور دیگر یورپی ممالک کی پیروی اور روس مخالف تند و تیز بیانات اور ماسکو پر پابندیاں عائد کرنے کی کوششوں کی قیادت کی توقع کر رہے تھے۔ نئی دہلی ماسکو کے ہمراہ اپنے تعلقات کے ضمن میں کئی طرح کے عناصر کے سبب پابند ہے اور اس بحران میں اس کے منفرد نوعیت کے مفادات داؤ پر لگے ہیں جو صورتحال پر اس کی تاحال خاموشی کی وجہ بیان کرتے ہیں۔ 

اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہماری تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کا ۸۵ فیصد عسکری سازوسامان روسی یا سویت ساختہ ہے اور بھارت اپنے موجودہ اسلحے کی مرمت، سپیئر پارٹس اور اضافی نوعیت کے سامان کے لیے روس پر انحصار جاری رکھے ہوئے ہے۔ 

وہ ٹیکنالوجیز جنہیں نئی دہلی قومی سلامتی کے لیے انتہائی اہم گردانتا ہے مثلاً ایس ۴۰۰ فضائی اور میزائل ڈیفنس سسٹمز، براہموس سپرسانک کروز میزائلز اور بحری جوہری پروپلژن  یا تو ماسکو کے ہمراہ تیار کیے گئے یا پھر اس سے خریدے گئے ہیں۔ امریکی بھارت دفاعی تجارت میں حالیہ برسوں میں ہونے والی فیصلہ کن پیش رفت کے باوجود بھی نئے بالادست سسٹمز کے ضمن میں روس ہی شراکت دار کے طور پر بھارت کا اولین انتخاب ہے جس کی بڑی وجہ  یہ ہے کہ بہت سے موقعوں پر روس ہی وہ واحد ملک تھا جو جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی بیچنے پر رضامند ہوا۔ اگر نئی دہلی یوکرین پر ماسکو کے موقف کو بلا حیل و حجت قبول نہیں کرتا ہے تو ایسے میں یہ انحصاری کی کیفیت بھارت کو روس کی جوابی کارروائی کا حقدار بنا دے گی۔  یہ جوابی کارروائی اسلحے کی ہنگامی بنیادوں پر ترسیل کو روکنے کی شکل میں ہو سکتی ہے جو کہ بھارت کے لیے ایسے میں خصوصی مہنگی ہو سکتی ہے کہ جب وہ چین کے ہمراہ اپنی مشترکہ سرحد پر متعدد مقامات پر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا ہے۔  

بیجنگ اور ماسکو کی بڑھتی ہوئی قربت بھی نئی دہلی کے لیے پریشانی کی وجہ ہے اور یوکرین پر روسی حملوں کے طول پکڑنے نیز روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی عالمی سطح پر تنہائی مزید بڑھنے کے ساتھ ساتھ  بظاہر دکھائی دیتا یہ اتحاد بھی گہرا ہونے کا امکان ہے۔ نئی دہلی یوکرین پر ماسکو کے اقدامات پر اپنی قدرے خاموشی کو ممکنہ طور پر ایک ایسے ہتھیار کے طور پر دیکھتا ہے کہ جس کے ذریعے وہ روس پر اثرانداز ہو سکتا ہے کہ وہ بھارت کے خلاف چینی جارحیت میں کمی لانے اور خاص کر ہمالیہ میں برف پگھلنے کا عمل شروع ہوتے ہی لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر چین کی ممکنہ مہم جوئی میں اپنا کردار ادا کرے ۔  

بھارت خود کو ملنے والی اس تاریخی سیاسی حمایت کے سبب بھی روس کا زیر بار محسوس کر سکتا ہے جو اکثر پاکستان کی مخالفت میں ہوتی تھی۔ مثال کے طور پر ماسکو نے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) میں مسئلہ کشمیر پر بھارت کے خلاف بین الاقوامی مداخلت کی  پاکستانی کوششوں کی راہ میں آڑے آنے کی کوشش کی ہے۔  مزید براں بھارت کی تزویراتی خودمختاری اور کثیرالقطبی عالمی نظام کو برقرار رکھنے کی ضرورت کی پرانی پالیسی بھی اس کی ہچکچاہٹ کا موجب ہو سکتی ہے۔

اور اہم ترین بات یہ ہے کہ کسی ایک کی طرفداری ان باقی ماندہ ۲۰۰۰ بھارتی شہریوں کو محفوظ راستہ فراہم کرنے اور انخلاء کی نئی دہلی کی کوششوں کو پیچیدہ بنا سکتی ہے جو یوکرین میں میدان جنگ میں پھنسنے والے کل ۲۰ ہزار سے زائد میں شامل تھے۔ ان میں زیادہ تر کا تعلق مشرق میں متنازعہ علاقوں سے ہے۔

ان تمام سنجیدہ نوعیت کی اور قابل فہم دشواریوں کے باوجود یہ امر انتہائی اہم ہے کہ نئی دہلی اس بحران سے  درست سبق حاصل کرے اور اپنے مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے کام کرے۔ 

سب سے پہلے تو یہ کہ خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی روایات کی حمایت و دفاع نہ صرف ان اقدار سے جڑے رہنے  کے نقطہ نگاہ سے اہم ہے بلکہ اس لیے بھی اہم ہے کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں یہ سرحدوں پر چین کے حوالے سے خود بھارتی موقف کو کمزور بناتا ہے۔  مزید براں بھارت کو یہ ذہن نشین رکھنا چاہیئے کہ برصغیر میں اس کے چھوٹے پڑوسی جیسا کہ نیپال اور بھوٹان نیز جنوب مشرقی ایشیا میں اس کے شراکت دار روسی جارحیت کی حمایت کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں نیز یہ بطور علاقائی طاقت نئی دہلی کے بارے میں ان کے ذہن میں کن خدشات کو جنم دینے کا سبب ہو سکتا ہے۔

دوئم یہ بحران بھارت کو یہ احساس دلانے کے لیے کافی ہونا چاہیئے کہ اسے خود اپنے مفادات کی خاطر روسی اسلحے پر انحصار میں کمی لانا ہوگی نا کہ اس لیے کہ  امریکہ یا مغرب ایسا چاہتے ہیں۔ دہائیوں سے نئی دہلی روسی ساختہ اسلحے اور سازوسامان کے خراب معیار کے سبب پریشان ہے اور بہت سے سسٹمز کی لاگت میں اضافے اور تاخیر کے سامنے کے سبب بھی مشکل میں ہے۔ اب روس پر سخت پابندیوں اور یوکرین میں تباہی کے سبب بھارت کو نئے اسلحے اور سازوسامان کی فراہم میں التوا کا خطرہ ہے نیز یہ پہلے سے موجود سسٹمز کو جدید بنانے کے  منصوبوں پر اثرانداز یا ان کی منسوخی کا سبب ہوگا جو نئی دہلی کو کمزور کرتا ہے۔ یوں یہ وقت نئی دہلی کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اپنے دفاعی شراکت داروں میں اضافے کی کوششوں میں تیزی کے ساتھ ساتھ دفاعی پیداوار کو مقامی بنانے کے لیے پہلے سے زیادہ سنجیدگی اختیار کرے۔ 

امریکہ، بھارت کے ان کلیدی دفاعی شراکت داروں میں سے ایک ہو سکتا ہے خاص کر ایسے میں کہ جب چین کی جانب سے درپیش خطرات پر گہری تشویش دونوں میں قدر مشترک ہے۔ تاہم یوکرین میں روسی اقدامات پر بھارت کی جانب سے کھلم کھلا تنقید کی کمی نے امریکی قانون سازوں کو مایوس کیا ہے۔ یہ موقف واشنگٹن میں کل جماعتی سطح پر نئی دہلی کے عروج کی حمایت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے اور روس سے ایس ۴۰۰ سسٹمز کی خریداری کے باعث پابندیوں کے قانون برائے امریکی مخالفین (کاٹسا) کے تحت بھارت پر پابندیاں عائد کرنے کیلئے دباؤ بھی پیدا کر سکتا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ میں اعلیٰ حکام بھارت کے روس کے ہمراہ روایتی تعلقات اور اس کی وجہ سے نئی دہلی کو دستیاب محدود امکانات پر کسی حد تک ہمدردی کی نگاہ رکھتے ہیں۔ تاہم  روس کے خلاف سخت بیانات یا اقدامات کی غیرحاضری میں امریکی کانگریسی ممبران اور بائیڈن انتظامیہ میں شامل عملی کردار ادا کرنے والے حکام کے لیے مشکل ہوگا کہ وہ بھارت کو کاٹسا پابندیوں سے بچانے کے لیے درکار اندرونی حمایت حاصل کر سکیں۔

آخر میں یہ کہ کارکیو میں ایک بھارتی طالب علم کی حالیہ ہلاکت، کیو میں فائرنگ کی زد میں آنے سے ایک شہری کے زخمی ہونے اور جنگ زدہ علاقوں میں پھنسے انخلاء کے منتظر بہت سے افراد کی موجودگی کے سبب نئی دہلی کو یہ امر ذہن نشین رکھنا چاہیئے کہ یوکرین میں روسی اقدامات داخلی سیاسی مسئلہ بن سکتا ہے جس کا نتیجہ ماسکو سے تعلقات کے از سر نو جائزے کے لیے حکومت پر عوامی دباؤ کی صورت میں ہو سکتا ہے۔

بھارت ان اسباق پر عمل پیرا ہونے اور ان مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے کیا کر سکتا ہے؟ یہ توقع کرنا معقول دکھائی دیتا ہے کہ بھارت سفارت کاری کے اس تنے ہوئے رسے پر بظاہر اپنا سفر جاری رکھے گا۔ تاہم بھارت کو اندرون خانہ روس سے درخواست کرنی چاہیئے کہ وہ یوکرین کے ہمراہ مذاکرات کی میز پر بیٹھے کیونکہ بھارت کی بنیادی دلچسپی تشدد کے خاتمے اور اس کے شہریوں کے تحفظ میں ہے۔

 بھارت کو تمام ریاستوں کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام کیلیے آواز بلند کرنے، خاص کر پوٹن اور یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کے ہمراہ دو طرفہ رابطوں اور بعد ازاں جاری ہونے والے بیانات میں اس پر خصوصی زور دینا چاہیئے، جیسا کہ اس نے حالیہ دنوں میں اقوام متحدہ اور یورپی رہنماؤں سے بات چیت میں بھی کیا۔

سب سے آخر میں یہ بھارتی حکام کی دانش مندی ہوگی کہ اگر وہ کاٹسا پابندیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکی کانگریسی اراکین سے رابطے کریں اور ان کے سامنے نئی دہلی کی پوزیشن اور روسی اسلحے پر انحصار کے سبب سفارتی سطح پر لاحق محدود رکاوٹوں کو  بیان کریں۔ اس سلسلے میں بائیڈن انتظامیہ کا یہ کردار ہو سکتا ہے کہ وہ فارن ملٹری  فنانسنگ کے تحت بھارت کو اسلحے کی فروخت کے کسی پیکج پر غور کرے جو مستقبل میں اس کے روسی اسلحے پر انحصار میں کمی لا سکے اور تزویراتی انتخابات میں روس سے آزادی دلا سکے۔ ان امریکی حکام کو اس پیکج کی حمایت و تیاری میں مدد کے لیے سیاسی سہارا فراہم کرنے کی غرض سے بھارت  یہ اشارہ دے سکتا ہے کہ وہ امریکہ کی ایف۲۱ لڑاکا طیاروں کی پہلے سے موجود پیشکش پر زیادہ متحرک ہوگا نیز وہ پریڈیٹر ڈرون پر ہونے والے مذاکرات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے پھرتی دکھائے۔ 

یوکرین کو انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی اور یو این ایس سی میں ووٹنگ سے غیر حاضری پر وضاحتی بیان میں روسی رویے پر تنقید بھارت کے قابل تعریف اقدامات ہیں۔ بھارتی وزیر برائے خارجہ امور ایس جے شنکر اپنی حالیہ کتاب جو بھارتی خارجہ پالیسی کی منطق اور اہداف کو بیان کرتی ہے، میں یہ دانشمندانہ اعتراف کرتے ہیں کہ ”بھارت کسی بھی ریاست کو اس کی پالیسیوں پر ویٹو کا حق نہیں دے سکتا ہے۔ بالخصوص ایسی دنیا میں کہ جہاں تمام اہم کھلاڑی کوشش میں ہوں کہ اپنے لیے تمام امکانات کھلے رکھیں۔ نا ہی یہ تجویز کرنے کے لیے کوئی جواز موجود ہے کہ ایک منسکرالمزاج بھارت کا عالمی تشخص اسے طاقت کے عشق میں گرفتار ریاستوں سے کسی نہ کسی طرح انعام دلوا سکے گا۔“ روس کے خلاف زیادہ جرات مندانہ اقدامات کے لیے نئی دہلی کی اپنی خارجہ پالیسی کا احوال بتانے والی اس کتاب سے اخذ شد منطق پر خود جے شنکر اور دیگر بھارتی فیصلہ سازوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔  

***

Click here to read this article in English.

Image One: India Ministry of External Affairs via Flickr

Image Two: PRAKASH SINGH/AFP via Getty Images

Share this:  

Related articles

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا Hindi & Urdu

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا

کواڈ کے نام سے معروف چار فریقی سیکیورٹی ڈائیلاگ کے…

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع  Hindi & Urdu

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع 


سرد جنگ کے دوران جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات…

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…