لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً مکمل طور پر غیر حاضر ہے۔ اس غیر حاضری کا بھارتی مذاکرات کار کبھی کبھار تذکرہ کرتے ہیں – جس میں، دنیا کے بارے میں ان کے تزویراتی نقطۂ نگاہ کے مطابق یا تو ہلکی پھلکی افسردگی گھلی ہوتی ہے یا پھر زیادہ تر کچھ فخر کے ساتھ یہ تذکرہ کرتے ہیں۔ درحقیقت کوئی بھی بھارتی تزویراتی تجزیہ کار عالمی سیاست میں پاکستان کو “بھارت کی سطح” پر نہیں سمجھتا۔ کچھ اعتماد کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ بھارت اپنا تزویراتی دائرہ پہلے ہی برصغیر کے خانے سے باہر تک پھیلا چکا ہے اور اب اسے بلاشرکت غیرے چین کو اپنے لیے بنیادی خطرہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک کم تر تعداد یہ دلیل دیتی ہے کہ اسرائیل کی طرح بھارت ایسے کمزور تر پڑوسیوں کو نظرانداز نہیں کر سکتا کہ جو اب بھی بھارت کو نقصان پہنچانے کے لیے متوازن اور غیر متوازن ذرائع رکھتے ہیں، اور یوں اس کی وسیع تر حکمت عملی کو پیچیدہ کرتے ہیں۔
پلوامہ حملے اور ۲۶ فروری کو بھارت کے جوابی فضائی حملوں کے پانچ برس کی تکمیل، سینیئر بھارتی حکام اور تجزیہ کاروں کے لیے پاکستان کے ہمراہ مشکلات کا شکار تعلقات پر اگرچہ مختصر تاہم عکاسی کا ایک موقع ثابت ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان خیالات میں بھارت میں اس موسم بہار کے اختتام یا گرما کے آغاز کے لیے طے شدہ قومی انتخابات کا رنگ گھلا دکھائی دیتا ہے۔
اس فروری کے اوائل میں نئی دہلی میں ایک تقریر کے دوران بھارتی خارجہ امور کے وزیر ایس جے شنکر نے بی جے پی حکومت کی جانب سے عوامی سطح اور بین الاقوامی فورمز پر انڈیا کے لیے ہندی زبان کے لفظ کو استعمال کرنے کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے “بھارت اور دنیا” کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جے شنکر نے زور دیا کہ قومی سلامتی کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرتے ہوئے “بھارت عزم اور استقلال کے ساتھ اپنی جگہ پر ڈٹا ہوا ہے۔” وزیراعظم نریندر مودی کی پہلی مدت میں ایک دہشت گرد گروہ کے خلاف ان کی حکومت کا یہ ردعمل کشمیر میں اڑی کے مقام پر دیکھنے کو ملا تھا جب ایک حملے میں ۱۹ بھارتی فوجی مارے گئے تھے نیز پلوامہ میں دہشت گرد گروہ کا حملہ جس میں ۴۰ فوجی مارے گئے تھے، اس کے بعد بھی یہی رویہ دیکھنے میں آیا تھا۔ “مغربی محاذ پر سرحد پار سے دہشتگردی کے طویل عرصے سے موجود چیلنجز کو اب زیادہ بھرپور جواب مل رہا ہے،” جے شنکر نے کہا۔ “میرا یقین کریں کہ اڑی اور بالاکوٹ نے اپنا پیغام خود دیا ہے۔” اگرچہ خارجہ امور کے وزیر نے اس ہفتے اس پیغام کے متن پر اپنے تبصرے میں مزید وضاحت نہیں کی، لیکن اوائل برسوں میں، جے شنکر نے بیان کیا تھا کہ، “آج لوگ ایک مختلف بھارت دیکھ رہے ہیں جو کھڑے ہونے کے لیے تیار ہے … آج وہ قوتیں جو بھارت کے خلاف دہائیوں سے سرحد پار دہشتگردی میں ملوث رہی ہیں اور جنہیں بھارت نے برداشت کیا ہے، اب جانتی ہیں کہ یہ ایک مختلف بھارت ہے اور یہ بھارت انہیں جواب دے گا۔”
اسی طرح لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ونود بھاٹیہ جو اب نئی دہلی میں سینٹر فار جوائنٹ وار فیئر کے سربراہ ہیں، انہوں نے زور دیا کہ ۱۹۷۱ کے بعد سے بھارت کا پاکستان میں پہلا فضائی حملہ اشارہ دیتا ہے کہ “اگر آپ لکشمن ریکھا (بھارت کی سرخ لکیر) پار کریں گے تو پھر آپ کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔”
ایسے بیانیے میں کسی حد تک داخلی سیاست اور تزویراتی منطق موجود ہے اور اس آمیزش میں تبصرہ نگار کے مطابق تنوع آتا رہتا ہے۔ سیاسی نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو حکمران جماعت بی جے پی نے یہ زور دینا چاہا ہے کہ ان کی حکمرانی نے ماضی سے نجات فراہم کی ہے۔ ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ کو حماس کے حملوں کے بعد بی جے پی نے ایک ویڈیو ٹوئیٹ کی جس میں حماس کے دہشت گرد حملوں کا بھارت میں قبل ازیں ہونے والے دہشتگردی کے حملوں سے موازنہ کیا گیا تھا۔ ٹوئیٹ میں کہا گیا تھا کہ “اسرائیل جس چیز کا آج سامنا کر رہا ہے بھارت نے اسے ۲۰۰۴-۱۴ کے بیچ میں سہا۔ نہ تو کبھی معاف کریں گے، نہ بھولیں گے۔۔۔”
تزویراتی اعتبار سے، ایسے پیغامات اس توقع پر زور دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ بھارت میں دہشت گرد حملے – کم از کم ایک مخصوص حجم کے – بھارتی جوابی کارروائی کا سبب ہوں گے۔ یہ یقین دہانی بھارت سے باہر موجود منصوبہ سازوں کے اندر موجود اس خوش فہمی کا خاتمہ کر دے گی کہ نئی دہلی حملے کو برداشت کرے گا۔ اس کا اصل ہدف مزاحمتی قوت کے توازن کو نافذ کرنا اور بذات خود حملوں کو روکنا ہے۔
تاہم اتنے واضح اشارے دینے کے عمل سے یہ خطرہ جڑا ہے کہ اگر ایک ایسا حملہ ہوتا ہے کہ جس کی شدت اڑی حملے سے جس میں ۱۹ بھارتی سپاہی مارے گئے تھے، زیادہ ہوتی ہے، تو یہ بھارتی ریاست پر اس صورت میں بھی جوابی کارروائی کے لیے شدید زور ڈالے گا کہ جب تزویراتی منطق کی رو سے بے عملی کا مظاہرہ ہی دانش مندی ہو۔ جوابی حملے مہنگے پڑتے ہیں اور خطرناک ہوتے ہیں نیز اشتعال انگیزی پر مبنی ہر عمل خواہ مہلک ہی کیوں نہ ہو، جنگ سے وابستہ خطرات مول لینے کے لائق نہیں ہوتا۔ ماہرین سیاسیات نے بیان کیا ہے کہ بعض اوقات سیاست دان ممکنہ “سامعینی قیمت” بڑھانے کی خاطر عوام سے عہد و پیماں کا انتخاب کرتے ہیں۔ عوام سے عہد و پیماں کرنے سے وہ اپنی حسب وعدہ خارجہ پالیسی پر رائے سے انحراف کی صورت میں داخلی سیاست میں نتائج کے بھگتنے کو یقینی بنا لیتے ہیں۔ جواباً یہ عوامی عہد و پیماں خطرات کو زیادہ باوثوق بنا دیتے ہیں کیونکہ وہ سرخ لکیر پار ہونے کی صورت میں ان خطرات پر عمل درآمد کے لیے ترغیبات میں اضافہ کر دیتے ہیں۔
موجودہ حکومت کا اصرار ہے کہ ۲۰۱۴ میں اس کے انتخاب نے ایک تبدیلی کی بنیاد رکھی، اور اس کے لیے وہ اس امر پر زور دیتی ہے کہ مودی حکومت نے بھارتیوں کو اس دہشت گردی سے محفوظ رکھا ہے جسے سابقہ یو پی اے حکومت روکنے کے قابل نہ تھی۔ بھارت کی دہشت گردی کے مقابلے میں کامیابی کو مودی کی ساکھ کے ساتھ باہم پیوست کرنے کے عمل کے سبب، ایسے بیانیے کا مطلب ہے کہ مستقبل میں ہونے والے دہشت گردی کے حملے کی صورت میں تزویراتی ترغیبات کے ساتھ ساتھ داخلی سیاسی بیانیے بھی سخت جوابی ردعمل کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال اسکاٹ سیگن کی یاد دلاتی ہے جنہوں نے خبردار کیا تھا کہ ڈٹرنس پر بیان بازی “وعدےکا جال” بُن سکتی ہے جو بحران کی صورت میں پالیسی سازوں کے لیے عمل کی آزادی کو محدود کر دیتی ہے۔
پاکستان پر بھارتی عسکریت کی روایتی برتری بڑھنے کے باوجود بھی، ایسا بحران واقع ہو سکتا ہے۔ بھارت میں آخری بڑا حملہ ۲۰۰۸ میں ممبئی پر اس دور میں ہوا تھا جب پاکستان میں سول ملٹری ابتری اپنے عروج پر تھی۔ اگرچہ اس حملے میں پاکستانی حکومت کے کردار کے بارے میں ہمارا فہم اب بھی محدود ہے تاہم کچھ کا ماننا ہے کہ پاکستانی عسکری قیادت اپنے جنگجو گروہوں کو اس لیے مناسب طور پر روکنے میں ناکام رہی تھی کیونکہ دیگر بحرانوں کی وجہ سے اس کی توجہ بٹی ہوئی تھی۔ آج سول ملٹری انتشار کے ایک نئے دور کی وجہ سے حکومت پاکستان کی توجہ ایک بار پھر بٹ سکتی ہے۔
اگر ایک ایسا دہشت گرد حملہ ہوتا ہے کہ جس میں بھارتی سیکیورٹی افسران یا سولینز مارے جاتے ہیں، تو یہ مذمت کیے جانے کے قابل ہو گا۔ لیکن مسئلہ یہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا بالاکوٹ کی یاد اور مفروضے اشتعال انگیزی کو زیادہ پرکشش بنا دیں گے اور آئندہ بحران سے نمٹنے کے لیے اشتعال انگیزی میں تخفیف کو بھارتی رہنماؤں کے لیے مشکل تر بنا دیں گے، جیسا کہ اس ہفتے اور ۲۰۱۹ کے بعد سے بھارتی حکام کی جانب سے زور دیا جاتا رہا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ اس بیانیے کے سفر کا ایک امتحان ہو گا۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: India-Pakistan Wagah Border via Flickr
Image 2: Indian Air Force via Flickr