India-0037_-_Flickr_-_archer10_Dennis-1014×616-1


سرد جنگ کے دوران جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات کا مطلب  بھارت -امریکہ تعلقات میں کشیدگی  اور دفاعی تعاون  کی عدم موجودگی تھا۔ آج بھارت اور امریکہ کے درمیان مفادات کے ارتکاز اور چین کی بڑھتی ہوئی فوجی مہم جوئی کے چیلنج نے دفاعی شراکت داری کو بھارت -امریکہ تعلقات کا “ایک اہم محرک” بنا دیا ہے۔ تاہم شراکت داروں کے  مابین دفاعی تجارت کے برعکس، امریکی اشرافیہ میں ہچکچاہٹ، ریگیولیٹری مسائل اور باقی اسٹریٹیجک اختلافات کی وجہ سے ان کے دفاعی-صنعتی تعاون نے کوئی ٹھوس نتائج حاصل نہیں کیے ہیں۔ اگرچہ حالیہ اقدامات مستقبل میں روشن امکانات کی نشاندہی کرتے ہیں، لیکن دونوں فریقین کے لیے اب بھی پالیسی سلسلہ بندی، متعدداسٹیک ہولڈرز کی شمولیت اور نجی شعبے کی شمولیت میں اضافے کے بارے میں بہت کچھ بہتر بنانا باقی ہے۔
 اگرچہ حالیہ اقدامات مستقبل میں روشن امکانات کی نشاندہی کرتے ہیں، لیکن دونوں فریقین کے لیے اب بھی پالیسی سلسلہ بندی، متعدد اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت اور نجی شعبے کی شمولیت میں اضافے کے بارے میں بہت کچھ بہتر بنانا باقی ہے۔


بھارت-امریکہ دفاعی تعلقات: ۲۰۰۵ تا حال


بھارت- امریکہ دوطرفہ دفاعی تعاون نے، جسے دونوں فریق “گلوبل سیکیورٹی کے اینکر ” (عالمی سلامتی کے استحکام) کے طور پر دیکھتے ہیں، گزشتہ برسوں کے دوران ادارہ جاتی میکانزم، معاہدوں اور اقدامات کےفروغ سے تدریجاََ ترقی پا ئی ہے۔ دفاعی تعاون کے لئے ۲۰۰۵ کے فریم ورک معاہدے کا مقصد ایک جامع اور باہمی طور پر مفید شراکت داری قائم کرنا اور پائیدار دفاعی تعلقات کی بنیاد رکھنا تھا۔ ۲۰۱۲ میں  ایک سنگِ میل معاہدہ، ڈیفنس ٹریڈاینڈ  ٹیکنالوجی انیشی ایٹو (ڈی ٹی ٹی آئی)، جو ہر ریاست کے بیوروکریٹک ڈھانچے کی ان پابندیوں سے بچ نکلنے کے لئے متعارف کرایا گیا تھا جو صنعتی تعاون پر توجہ مرکوز کرکے بامعنی دفاعی تعاون میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔


دریں اثنا، ۲۰۱۶ میں امریکہ کی جانب سے بھارت کو ایک میجر ڈیفنس پارٹنر  (ایم ڈی پی) کے طور پر تسلیم کرنے سے بھارت کے ساتھ دفاعی تجارت اور ٹیکنالوجی کے تبادلے میں امریکہ کے قریبی اتحادیوں کے مساوی اضافہ ہوا ہے۔ دونوں شراکت داروں نے ۲۰۱۶ اور ۲۰۲۰ کے درمیان “فاؤنڈیشنل” فوجی معاہدوں پر بھی دستخط کیے ، جس کا مقصد لاجسٹک سپورٹ اور مزید باہمی تعاون کی متعلقہ فراہمی کو عملی جامہ پہنانا تھا۔ ان معاہدوں کو حتمی شکل دینا ضروری تھا کیونکہ واشنگٹن کے سٹیٹ ریگولیشن محکمہ کے سرکلر ۱۰۵ میں ٹیکنالوجی کی منتقلی کو ان کے وصول کنندگان کے ساتھ فوجی معاہدوں پر دستخط کرنے سے مشروط کیا گیا ہے۔


جون ۲۰۲۳ میں وزیر اعظم نریندر مودی کے واشنگٹن کے سرکاری دورے نے بھارت اور امریکہ کے بڑھتے ہوئے دفاعی تعلقات کو مزید تقویت بخشی۔ اس دورے میں ایف ۴۱۴ جیٹ انجنوں کی دو طرفہ مشترکہ تیاری اور بھارت کو  جدید ڈرونز، ایم کیو ۹ بی کی فراہمی کے معاہدے سمیت غیر معمولی دفاعی معاہدے دیکھنے میں آئے۔ جیٹ انجن کے معاہدے میں ۸۰ فیصد تک کی  ٹیکنالوجی کی غیر معمولی منتقلی شامل ہے، جو بھارت کی مقامی طیارہ سازی کی صلاحیتوں کے لئے ایک بڑی پیش رفت ہے۔  اس معاہدے کو “تاریخی” سمجھا جاتا ہے کیونکہ امریکہ اپنی جیٹ انجن ٹیکنالوجی کو  اپنے “تاج” کے طور پر دیکھتا ہے۔ مزید برآں، مسلح ڈرونز کی خریداری سے تمام دائرہ ہائے کار ( ڈومینز ) میں بھارت کی انٹیلی جنس اور آپریشنل صلاحیتوں میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ ڈرون معاہدے کے بعد بھارت اب واحد غیر اتحادی بن گیا ہے جسے میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول ریجیم کیٹیگری ۱ بغیر پائلٹ کے فضائی نظام کی پیش کش کی گئی ہے جو بھارت کی جنگی صلاحیتوں کو بڑھانے اور ان کے دفاعی تعلقات کے  آئندہ لائحہ عمل کے لیے مثال  قائم کرنے سے فقید النظیر امریکی عزم کا اظہار  ہے۔


یہ سرکاری دورہ بھارت امریکہ ڈیفنس ایکسلیریشن ایکو سسٹم (انڈس-ایکس)، جو دفاعی ٹیکنالوجی ڈیزائن اور پیداوار پر تعاون کو آسان بنانے کے لئے ایک قدم (انیشی ایٹو) ہے، کے افتتاح کے دوران ہوا۔ انڈس -ایکس کو انیشی ایٹو آن کریٹیکل اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجیز (آئی سی ای ٹی) کو عملی جامہ پہنانے کے لئے شروع کیا گیا ہے۔ مئی ۲۰۲۲ میں اعلان کردہ  آئی سی ای ٹی دوہرے استعمال کی ٹیکنالوجی میں تعاون پر زور دیتا ہے۔ ہر ریاست کی قومی سلامتی کونسل کی سرکردگی میں  یہ انیشی ایٹو  شعبوں، محکموں، کاروباروں، اسٹارٹ اپس اور تعلیمی اداروں میں ادارہ جاتی روابط کو ممکن بنا کر ڈی ٹی ٹی آئی کی حد بندیوں  کو درست کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

شراکت داری کے لیے رُکاوٹیں


نمو پذیر دفاعی شراکت داری کو تین بنیادی مسائل کا سامنا ہے: متامل امریکی سیاسی برادری، ریگولیٹری رکاوٹیں اور تزویراتی اختلافات۔


اوّل، غیر ملکی ٹیکنالوجی کا انضمام کافی وقت لینے والا عمل ہوسکتا ہے، اور ڈی ٹی ٹی آئی کے تحت منصوبوں  کی بار آوری کی مدّت خاصی سست ثابت ہوئی ہے۔  کچھ کامیاب چھوٹے  پیمانے کے منصوبوں کے باوجود یہ انیشی ایٹو  قوّت پکڑنے میں ناکام رہا۔ یہ ناکامی جزوی طور پر تکنیکی تعاون کے لئے  کسی جامع فریم ورک کی عدم موجودگی کی وجہ سے تھی، جس کے باعث دونوں ریاستوں کی ایجنسیاں کسی ہم آہنگی کے بغیر آزادانہ طور پر کام کر رہی تھیں۔  نتیجتاََ ضروری ضابطہ کاری تنظیم  (پروسیجرل الائنمنٹ)  وقت کے ساتھ ساتھ دشوار  اور مشکل الحصول ہو گئی۔ بھارت کی خواہش کے برعکس، اس انیشی ایٹو  کی برائے نام پیش رفت کا بنیادی عنصر امریکہ کا غیر اتحادیوں کے ساتھ اہم ٹیکنالوجی میں شراکت کے بجائے ہتھیاروں کی فروخت کی طرف جھکاؤ ہے۔


وائٹ ہاؤس مغربی بحرالکاہل میں چینی جارحیت کو روکنے کے لیے اپنے شراکت دار کے سیاسی عزم کے بارے میں بےیقینی کا شکار ہے۔ بائیڈن انتظامیہ بحرہند و بحرالکاہل میں چین کی زور آوری  کو روکنے کے لیے بھارت سے مزید توقعات رکھتی ہے، لیکن چین کے ساتھ امن کی بھارتی خواہش کے علاوہ، اس کے سلامتی کے مفادات بنیادی طور پر بحر ہند کے خطے میں ہیں۔ اس طرح چین سے نمٹنے کے لئے دونوں ریاستوں  کا نقطہ نظر مختلف ہے جو ممکنہ طور پر نمو پذیر دفاعی شراکت داری کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔


دوم،  ایم ڈی پی کی نامزدگی سے ناراض، بھارت کو امریکی قانون یعنی آرمز ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ (اے ای سی اے) ۱۹۷۶ اور انٹرنیشنل ٹریفک آرمز ریگولیشنز کے تحت سخت پابندیوں کا سامنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوزوں جیسے جدید پلیٹ فارمز  تیار کرنے کے لئے نہایت ضروری ٹیکنالوجیز میں بھارت کے ساتھ باہمی شرکت نہیں کی جاسکتی۔ انصاف سے دیکھا جائے تو ریگولیٹری رکاوٹیں بھارت کی طرف سے بھی ہیں۔ اگرچہ بھارت نے ڈیفنس ایکویزیشن پروسیجر  کو زیادہ کارگزار بنایا ہے، تاہم  پروکیورمنٹ پلان (وصولیت کے منصوبے) اور مختص بجٹ کے ناموزوں جوڑ کے باعث  ایکویزیشن  ٹائم لائن ( تحصیل کا نظام العمل)سست ہے۔ امریکی کمپنیوں نے بروقت آف سیٹ کریڈٹ دینے میں بھارتی انتظامیہ کی سستی کی بھی شکایت کی ہے، جس کے سبب  کمپنیوں کو سنگین جرمانے کا دھڑکا رہتاہے۔ اس طرح ان ریگولیٹری مسائل نے شراکت داری کی کار گری کو کمزور کردیا ہے۔


سوم،  نئی دہلی اور واشنگٹن کے بالترتیب روس اور پاکستان کے ساتھ تعلقات بھی ایک رکاوٹ ہیں۔ امریکہ نے بھارت کو روس سے ایس- ۴۰۰   سسٹم خریدنے پر  کاؤنٹرنگ امریکا ایڈورسیریز تھرو سینکشن ایکٹ (سی اے اے ٹی ایس اے) ۲۰۱۷ کے تحت  چھوٹ دی۔ تاہم یوکرین پر چڑھائی پر بھارت کے خود مختار  موقف  اور ماسکو سے تیل کی بڑھتی ہوئی خریداری سے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ مزید برآں  واشنگٹن نے بھارت کی روس سے اسلحے کی خریداری پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کیونکہ روسی ساختہ پلیٹ فارمز تکنیکی طور پر امریکہ کے پلیٹ فارمز سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے باہمی تعاون کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ اسی طرح ۲۰۱۶ ء میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان دفاعی معاہدے نے بھارت اور امریکہ کے تعلقات پر نمایاں اثرات مرتب کیے تھے۔ بھارت نے امریکہ میں قائم لاک ہیڈ مارٹن کی جانب سے اپنی ایف ۱۶ سسٹم اسمبلی لائن کو بھارت منتقل کرنے کی پیش کش کو مسترد کر دیا تھا کیونکہ یہ امریکی پیشکش اسلام آباد کو اسی طیارے کی فروخت کے فیصلے کے بعد سامنے آئی تھی۔ بھارت نے اصرار کیا کہ واشنگٹن پاکستان کو ایف ۱۶ طیاروں کی فروخت روک دے کیونکہ اس سے  ریجنل ڈیٹرنس (علاقے میں مزاحمت کا توازن) متاثر ہونے کا خدشہ ہے اور ان طیاروں کی فروخت کے بعد واشنگٹن کو ایک باضابطہ  زور دار شکایت بھی درج کرائی تھی۔ یہ تزویراتی اختلافات ان کی دفاعی شراکت داری کی تصرف میں نہ لائی جانے والی صلاحیت کو محدود تر کر دیتے ہیں۔

مستقبل پر نظر


ان رکاوٹوں کے باوجود، حالیہ اقدامات اور امریکہ میں بھارت- امریکہ تعلقات  کو مضبوط بنانے کے لئے دو حزبی سیاسی حمایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ نومبر ۲۰۲۴ میں امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج سے قطع نظر، یہ دفاعی شراکت داری امید افزا ہے۔ اگرچہ جیٹ انجن معاہدے کی کامیابی وسیع تر اسٹریٹیجک شراکت داری کے لئے گیم چینجر ثابت ہوسکتی ہے  تاہم دونوں فریقین کو تحمل کی ضرورت ہوگی، خصوصاََ اگر تکنیکی تعاون کے پچھلے معاملات کسی نکتے کا مظہر ہوں۔


 بہت کچھ ادارہ جاتی میکانزم، بشمول آئی سی ای ٹی،  کے نفاذ پر انحصار کرے گا۔ تاہم، ڈی ٹی ٹی آئی کے تحت قائم تعاون میں موزوں مواقع کا مطلب ہے کہ ضابطہ کاری کی تنظیم آسان تر ہو جائے گی۔ اگرچہ بھارت نے ڈیفنس ٹیکنالوجی پروگرامز  کے لئے اپنے بجٹ میں اضافہ کیا ہے، تاہم اس کا ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ (آر اینڈ ڈی) بجٹ معتدل ہے اور اس میں اضافہ کیا جانا چاہیئے۔ مستقبل میں، تکنیکی تعاون کی پیش رفت جزوی طور پر نجی شعبے کے تعاون کی کارکردگی پر منحصر ہوگی۔  یہ دیکھتے ہوئے کہ آئی سی ای ٹی جیسے اقدامات کے  لئے اسٹریٹیجک ، تجارتی اور سائنسی نقطہ نظر  کے تحت ضابطہ کار تنظیم کی ضرورت ہوتی ہے، نئی دہلی کو اپنے نجی شعبے کی تیز رفتار شمولیت کے لئے ترغیبی اقدامات (اسٹرکچر) متعارف کرانے پر غور کرنا چاہیئے۔


اس شراکت داری کو آگے بڑھانے کے لیے دونوں ریاستوں کو اپنے تزویراتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے متعلقہ ریگولیٹری مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اتحادی نہیں بلکہ ایک قابلِ قدر شراکت دار ہے۔ لہٰذا بھارتی حکومت  بیک وقت اپنی توقعات کو اعتدال پر لانے اور  دوسرے ممالک سے خریداری کر کے روس سے دور ہونے پر غور کر سکتی ہے۔ مزید برآں  ایک ایسی شراکت داری، جو “دنیا میں سب سے زیادہ نتیجہ خیز” ہے، کی صلاحیت کو انتہا تک پہنچانے کے لیے متعدد اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت اور باہمی تعاون کی دوریوں کو پاٹنا ضروری ہوگا ۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: PM Modi and President Biden via Flickr

Image 2: The Red Fort via Wikimedia Commons

Posted in:  
Share this:  

Related articles

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا Hindi & Urdu

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا

کواڈ کے نام سے معروف چار فریقی سیکیورٹی ڈائیلاگ کے…

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…

جوابی کار روائی: کیا پاکستان فوجی حملوں کے رد عمل پر غور کر رہا ہے؟ Hindi & Urdu

جوابی کار روائی: کیا پاکستان فوجی حملوں کے رد عمل پر غور کر رہا ہے؟

ایران اور پاکستان کے درمیان حالیہ جیسے کو تیسا حملے …