2581104167_507eb1db27_b-1024×616-1

ایران اور پاکستان کے درمیان حالیہ جیسے کو تیسا حملے  پاکستان کی  کرائسس ریسپونس (بحران کےردّ عمل) پالیسی کی پختگی  کی نشاندہی کرتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں  ۲۰۱۹ کے پلوامہ-بالاکوٹ بحران میں پاکستان کے اندر بھارت کے حملے کے جواب میں  پاکستان نے پہلی بار طاقت کا استعمال کیا۔ اس حملے کے بعد  پاکستانی پالیسی سازوں نے تجویز کیا کہ پاکستان کسی بھی ملک، بالخصوص بھارت پر، حملہ کرنے میں پہل نہیں کرے گا، لیکن کسی بھی حملے  کی صورت میں اس کا منہ توڑ جواب دے گا۔ تاہم پاکستان کی جانب سے اپنی سرزمین پرکیے جانے والے ایران کے حملوں کا بدلہ لینا نئی دہلی کے لیے بظاہرایک اشارہ ہے۔ اس مضمون میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ اپنے حالیہ فوجی بحرانات سے  کیاسبق سیکھے اورکس طرح انہیں ایران پر لاگو کیا ۔ اس مضمون میں مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی حوصلہ شکنی کے لئے اسلام آباد اور تہران کے درمیان اعتماد کو بحال کرنے کے لئے تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں۔ 
تاہم پاکستان کی جانب سے اپنی سرزمین پرکیے جانے والے ایران کے حملوں کا بدلہ لینا نئی دہلی کے لیے بظاہرایک اشارہ ہے۔

پلوامہ-بالاکوٹ بحران سے حاصل ہونے والے اسباق


پلوامہ-بالاکوٹ بحران سابقہ بحرانات سے مختلف تھا۔ ۲۰۰۱-۲۰۰۲ کے ٹوئن  پیک (جڑواں چوٹیوں کے) بحران میں، دونوں فریقین نے کشیدگی میں اضافے پر اپنی افواج کو متحرک تو  کیا  تاہم انہوں نے براہ راست تصادم سے گریز کیا۔ اسی طرح ۲۰۰۸ کے ممبئی بحران میں بھی دونوں فریقین نے اپنی فضائی افواج کو ہائی الرٹ پر رکھا تھا لیکن سفارت کاری کا پلڑا بھاری رہا۔ پلوامہ- بالاکوٹ بحران کے دوران دونوں نے  ایک نئی مثال قائم کرتے ہوئے سفارتکاری سے پہلے فوجی کارروائی کا چناؤ کیا۔


بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں بھارتی فوج کے قافلے پر عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد بھارتی فضائیہ نے خیبر پختونخواہ کے علاقے بالاکوٹ میں  مخصوص اہداف پر  حملے کیے ۔ اس حملے کا مقصد مبینہ دہشت گردوں کے کیمپ کو بے ضرر بنانا تھا، تاہم اس میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ اس کے باوجود پاکستانی فیصلہ سازوں کو پاکستان کے خودمختار علاقے پر بھارت کی خلاف ورزی کے خلاف جوابی کارروائی کرنے کے لئے اندرونِ ملک عوامی دباؤ میں  شدید اضافے کا سامنا تھا۔


پاکستان کی جانب سے جوابی کارروائی ۲۴ گھنٹے بعد کی گئی جب پاک فضائیہ نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے پار بھارتی فوج کے ٹھکانوں پر حملہ کیا۔ بھارتی فضائیہ کی جانب سے پاکستانی فضائیہ کے طیاروں کو روکنے کی کوشش کے دوران ایک بھارتی طیارہ مار گرایا گیا اور پائلٹ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اتر گیا۔  کشیدگی بڑھنے اور بین الاقوامی برادری کی مداخلت کے بعد پاکستان نے دو دن بعد بھارتی پائلٹ کی رہائی کا اعلان کیا۔گو کہ  پائلٹ کو رہا کرنے سے فوری بحران پر قابو پا لیا گیا تاہم اس واقعے نے پاکستان کے لیے ایک نمونہ فراہم  کیا۔


پاکستان نے پلوامہ -بالاکوٹ واقعہ سے تین اہم اسباق حاصل کئے۔ اوّل یہ کہ پاکستان کی  رسک ایکسیپٹنس  (خطرات کی  قبولیت)  کی حد میں اضافہ ہوا ہے، جس کے باعث فوج طاقت کا استعمال  ایک قابل قبول ردّعمل بن گیا ہے۔ دوم،  حکومت یا فوج کے لیے علاقائی خودمختاری کی خلاف ورزی کا جواب نہ دینا کوئی آپشن نہیں ہے۔ سوم، روایتی، غیر جوہری بحران کے دوران اور اس طرح کے جوابی حملوں کے بعد واضح سفارتی رابطے کشیدگی میں کمی کی کلید ہیں۔ جنوری ۲۰۲۴ میں ایرانی فضائی حملوں پر پاکستان کا ردعمل کسی حد تک فروری ۲۰۱۹ کے پلوامہ -بالاکوٹ بحران سے سیکھے گئے سبق کے زیرِ اثر تھا۔

ایران کا حملہ: پاکستان کی جوابی کارروائی


ایران کی جانب سے ۱۶ جنوری کو پاکستان پر فضائی حملہ کچھ ہفتے قبل ایران میں کئے گئے مبینہ دو دہشت گرد حملوں کا بدلہ لینے کے لیے کیا گیا تھا:  ایک، دسمبر ۲۰۲۳ میں ایک پولیس اسٹیشن پر ہونے والا حملہ، جس کی ذمہ داری سیستان -بلوچستان سے تعلق رکھنے والے جیش العدل (جے اے اے) نے قبول کی تھی؛ دوسرا، جنوری کے اوائل میں کرمان میں کیا جانے والا حملہ، جس کی ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ نے  قبول کی تھی ،جس میں ۱۰۰ سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب ایران نے پاکستان کے اندر طاقت کے استعمال کا سہارا لیا ہو۔ اکتوبر ۲۰۱۳ میں ، جب ایران نے ۱۶ سنی قیدیوں کو پھانسی دی، جے اے اے نے ۱۴ ایرانی سرحدی محافظوں پر حملہ کیا اور انہیں ہلاک کردیا۔ اس کے بعد ایران نے مبینہ جے اے اے کمپاؤنڈز اور ایک مسجد پر حملہ کیا۔ نہ تو ایران اور نہ ہی پاکستان نے اسے سفارتی مسئلہ بنایا، جو پاکستان کے لئے بہتر تھا کیونکہ وہ پہلے ہی تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی طرف سے شدید دہشت گردی  کا سامنا کر رہا تھا۔ ۲۰۱۷ میں پاکستان نے اپنی سرزمین کے اندر ایرانی سرویلنس ڈرونز کو مار گرایا تھا تاہم ایک بار پھر کسی بھی ملک نے اسے مسئلہ نہیں بنایا۔

 

 

لہٰذا ایران نے اس سال جنوری میں پاکستان کے اندر مبینہ جے اے اے مقامات  کو نشانہ بنا کر پاکستان کو ششدرکر  دیا۔دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات بالکل معمول پرتھے کیونکہ جس دن ایران نے پاکستان پر حملہ کیا اس دن پاکستانی بحریہ کا ایک دستہ آبنائے ہرمز میں ایرانی بحریہ کے ساتھ ایک فوجی مشق مکمل کر رہا تھا۔ ایک پاکستانی وفد  بھی سرحدی تجارت پر بین الحکومتی مذاکرات کے لیے چابہار میں موجود تھا۔


ایران نے مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے جواب میں  بیک وقت شام اور عراق پر میزائل حملے کرتے ہوئے پاکستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سے یہ پیغام دیا گیا کہ ایران پاکستان کو عراق اور شام کے ساتھ ایک ہی زمرے میں شمار کرتاہے اور اسے ایک ہی  کنفلکٹ زون (جھگڑے والے علاقے)  کا حصہ سمجھتا ہے۔ پاکستان کی فوج اور پالیسی سازوں، خاص طور پر جوابی حملوں کی وکالت کرنے والوں کے لیے یہ ایک زبردست دلیل بن گیا، کیونکہ جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک کی دفاعی صلاحیت کا موازنہ عراق اور شام سے،جہاں ایران کافی دباؤ ڈالتا ہے، نہیں کیا جا سکتا۔


پاکستان کے لیے ایران کو جواب دینا ایک ضرورت بن گیا تھا۔ اسے اپنے ہمسایوں کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے والی علاقائی قوّت کے مقابلے میں  مزاحمت (ڈیٹرنس) کرنا پڑی۔ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے فوری پس منظر میں، پاکستان کی جانب سے جوابی کارروائی سے گریز کو علاقائی سطح پر ایران کے بڑھتے ہوئے غلبے کو قبول کرنے کے طور پر سمجھا جا سکتا تھا۔ یہاں پلوامہ -بالاکوٹ بحران سے حاصل ہونے والے سبق کا اطلاق کیا گیا۔


اوّل، ایران کے حملوں اور پاکستان کے ردعمل کے درمیان گزرنے والے ۴۸ گھنٹوں کے دوران پاکستان نے واضح اسٹریٹیجک رابطے کو برقرار رکھا۔ اسلام آباد نے ایران کی جانب سے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی مذمت کرتے ہوئے ہمدردانہ انداز میں یہ باور کرایا کہ ــ’’ نتائج کی ذمہ داری ایران پر ہوگی۔” اس نے تہران سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا اور دونوں ممالک کے درمیان معمول کی مصروفیات معطل کر دیں۔ اس کے بعد سرحد پار بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر جوابی حملے کئے گئے، جہاں پاکستان نے اس بات کا خیال رکھا کہ ایران میں فوجی ٹھکانوں پر حملے نہ کیے جائیں۔ بعد ازاں جب وزراء خارجہ  گفت و شنید میں مشغول ہوئے تو سفارتکاری نے معاملے کے سُلجھاؤ کی ذمہ داری سنبھال لی اور ایک ہفتے بعد ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اس دورے میں چونکہ سرحدی سکیورٹی کا موضوع حاوی رہا، اس لئے دونوں فریقین نے سیکیورٹی تعاون بڑھانے اور تربت اور زاہدان میں ملٹری لی ایزن افسران تعینات کرنے پر اتفاق کیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس دورے کے اختتام پر جاری ہونے والے بیانات میں مربوط کارروائی کے لیے عسکریت پسند گروہوں کو واضح نہیں کیا گیا۔ غالب امکان یہ ہے کہ دونوں فریق ایک گروپ (ایران کے لئے جے اے اے اور پاکستان کے لئے بی ایل اے) کو دوسرے کے مقابلے میں اپنی سلامتی کے لئے زیادہ سنگین اور فوری خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔


جب ایران نے حملہ کیا تو بھارت کی وزارت خارجہ نے کہا کہ اگرچہ یہ پاکستان اور ایران کے مابین معاملہ ہے لیکن بھارت کا دہشت گردی پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے والا موقف ہے اور وہ  ممالک کی جانب سےاپنے دفاع میں اٹھائے جانے والے اقدامات کو سمجھتا ہے۔ لہٰذا یہ سوچنا منطقی ہے کہ ایران کے حملوں پر پاکستان کا ردعمل ،بھارت کے لیے  بھی ایک اشارہ تھا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اگر بھارت نے دوبارہ حملہ کیا تو پاکستان طاقت کے استعمال سے دریغ نہیں کرے گا۔


مستقبل کے اقدامات


علاقائی استحکام اور اپنی متعلقہ قومی سلامتی کے مفاد میں یہ ضروری ہے کہ ایران اور پاکستان دوطرفہ مواصلاتی چینلز کو فعال کریں۔ مستقبل میں خارجہ سیکرٹریز اور ڈائریکٹر جنرلز آف ملٹری آپریشنز کے درمیان براہ راست ہاٹ لائن قائم کی جانی چاہیئے۔ اس طرح کے گفت و شنید کے ادوار ۲۰۱۳ میں دونوں وزراء  داخلہ کے درمیان دستخط شدہ دوطرفہ سیکیورٹی تعاون کے معاہدے کے تناظر میں ہونے چاہئیں۔ یہ معاہدہ دہشت گردی اور ان سرگرمیوں کے خلاف دوطرفہ تعاون کا مطالبہ کرتا ہے جو دونوں ممالک کی قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں۔


اس معاہدے پر دونوں اطراف کے سکیورٹی حکام اور سفارت کاروں کے درمیان باقاعدگی سے سرحدی سلامتی اور انسداد دہشت گردی کی مشاورت کے ساتھ عمل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کےباقاعدہ تبادلۂ خیال اور مربوط مگر قابل تصدیق ایکشن کے ذریعے ہی مستقبل میں یکطرفہ کارروائی کے واقعات کو روکا جا سکتا ہے۔ تاہم نیا معیار بن جانے کے بعد، دونوں فریقین کو اب اپنی سلامتی کے حساب کتاب میں ملٹری آپشنز کو لازماََ شامل کرنا پڑے گا۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Bird’s eye view of Balochistan, Pakistan via Flickr

Image 2: Pakistan’s consul general with the Mayor of Mashhad via Wikimedia Commons

Share this:  

Related articles

جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ Hindi & Urdu

جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ

ریاستہائے متحدہ امریکہ ، 20 ویں صدی کے وسط سے…

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے Hindi & Urdu

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف رواں ماہ کے اوائل میں صدر شی جن پنگ اور دیگر اعلیٰ چینی حکام سے ملاقاتوں کے بعد تقریباََ خالی ہاتھ وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ چین نے واضح انضباطِ اوقات ( ٹائم لائن) کے تحت پاکستان میں بڑے منصوبوں کے لئے سرمایہ کاری کا وعدہ نہیں کیا۔ اس […]

آبدوزیں بحرہند میں ہندوستان کی ابھرتی ہوئی قوت کی کلید ہیں Hindi & Urdu

آبدوزیں بحرہند میں ہندوستان کی ابھرتی ہوئی قوت کی کلید ہیں

شمال مغربی بحر ہند میں سمندری تجارت گزشتہ چھ ماہ…