an-mq-9b-skyguardian-glides-beneath-the-clouds-july-a688b2-1

دفاعی خریداری کونسل (ڈی اے سی) کی حالیہ میٹنگ میں، بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی قیادت میں ملک میں اسلحے کے حصول کی اعلیٰ ترین باڈی نے اعلان کیا تھا کہ بھارت جلد ہی امریکہ سے ایم کیو-۹بی حملہ آور مسلح ڈرونز حاصل کر لے گا۔ بھارت اور امریکہ کے درمیان حملہ آور ڈرونز کے حصول کے لیے معاہدے کی خبریں ۲۰۱۷ میں گرم ہوئیں تھیں تاہم اسے وزیراعظم مودی کے واشنگٹن کے سرکاری دورے سے قبل گزشتہ ماہ ٹھوس شکل دی گئی ہے۔ اب بھارت جنرل اٹامکس ایرونوٹیکل سسٹم انک (جی اے-اے ایس آئی) کے تیار کردہ  ۳ بلین ڈالر سے زائد مالیت کے ۳۱ ڈرونز خرید سکتا ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی کے امریکہ کے سرکاری دورے کے تناظر میں معاہدہ طے پانے کے اوقات کار بے حد اہمیت رکھتے ہیں۔ ان ڈرونز کا حصول بھارت کی نگرانی کرنے کی اپنی قابلیت کو اپنی سرحدوں سے آگے شمال تک اور سمندر میں بحر ہند کے خطے میں پھیلانے میں مدد دے گا۔ چین کے ساتھ بڑھتے تناؤ کے پس منظر میں یہ ڈرون معاہدہ نہ صرف بھارتی دفاعی صلاحیتوں کو آگے بڑھائے گا، بلکہ امریکہ اور بھارت کے درمیان دفاعی تعلقات، معلومات کے باہم تبادلے کی قابلیت اور ٹیکنالوجی کے انتقال میں اضافہ کرے گا۔

مسلح ڈرونز کی بڑھتی ہوئی اہمیت

خلیج کی جنگ کے بعد سے ٹیکنالوجی کے میدان میں پیش رفتوں نے ہی جدید جنگوں کا میدان جیتا ہے۔ ماہرین توقع کرتے ہیں کہ مستقبل کی جنگوں میں صف اول کی فہرست میں بغیر پائلٹ کے جہاز (یو اے ویز) خدمات سرانجام دیں گے۔ درحقیقت پائلٹ اور بنا پائلٹ کی گاڑیوں کو ملا کر ٹیم بنانے کا عمل (مم-ٹی) صورتحال کی زیادہ موثر آگاہی کے ذریعے مشن کی موثریت میں اضافہ کر رہا ہے اور انسان اور ٹیکنالوجی کے درمیان فاصلوں کو بھی کم کر رہا ہے۔ گو کہ بڑھتے ہوئے سائبر حملوں اور سائبر جرائم کے دور میں یو اے ویز کچھ مخصوص پیچیدگیاں رکھتے ہیں، تاہم مستقبل کی جنگوں میں ان کی مرکزیت میں کوئی شک و شبہ نہیں۔

تنازعے میں ٹیکنالوجی کے ارتقاء پذیر کردار کے ساتھ ساتھ، روس اور یوکرائن جنگ نے یو اے وی کی صنعت کو عروج کی شاہراہ پر گامزن کر دیا ہے۔ روس یوکرائن جنگ میں یو اے ویز نے ایسی ٹیکٹیکل ٹیکنالوجی کے طور پر مرکزی کردار ادا کیا ہے جس نے نہ صرف میدان جنگ کی نگرانی اور توپخانوں کی نشاندہی میں بلکہ دشمن کی گاڑیوں کو نشانہ بنانے میں بھی کردار ادا کیا۔ ڈرونز بہتر مشاہدے، ہدف تک پہنچ اور نگرانی کے ذریعے عسکری صلاحیتوں میں بہتری لائے ہیں۔ چونکہ ان میں کوئی انسان نہیں ہوتا، اس لیے پائلٹس کی زندگیاں داؤ پر نہیں لگی ہوتیں۔ مزید براں چونکہ ڈرونز لڑاکا طیاروں کی نسبت کم قیمت ہوتے ہیں، بہت سے ملک ان ٹیکنالوجیز کو زیادہ وسیع پیمانے پر تیار کر رہے ہیں اور انہیں حاصل کر رہے ہیں۔

جنوبی ایشیا میں یو اے ویز

ڈرونز کی دوڑ جنوبی ایشیا کو پہلے ہی اپنی گرفت میں لے چکی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان اپنے عسکری انفرااسٹرکچر میں اضافے کی خاطر ۲۰۱۸ سے چین کے کائی ہانگ-۴ (سی ایچ-۴) اور ونگ لونگ- II خرید رہا ہے۔ بھارت طویل عرصے سے طویل پائیداری کے حامل حملہ آور ڈرونز کا خواہاں رہا ہے، جو نہ صرف وہ جو فضا سے زمین پر داغے جانے والے میزائل سے لیس ہوتا ہے بلکہ وہ بھی جو اسمارٹ بم کے حامل ہوتے ہیں تاکہ اپنی حملہ کرنے کی صلاحیتوں کو بڑھا سکے۔ بھارت شمالی اور مغربی سرحدوں پر موجود اپنے دشمنوں کی نگرانی کے لیے زیادہ تر اسرائیلی ڈرونز پر انحصار کرتا ہے۔ امریکی ایم کیو-۹بی ڈرونز کے حصول سے اس کی انٹیلی جنس، مشاہدے اور نگرانی (آئی ایس آر) کے نظام کے ساتھ ساتھ عین نشانے پر حملہ کرنے کی صلاحیت میں مزید بہتری آئے گی کیونکہ یہ زیادہ جدید ہیں اور ۲۷ گھنٹے تک سفر کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

وادی گالوان میں ۲۰۲۰ میں ہونے والی جھڑپوں کے بعد، بھارتی بحریہ نے بحر ہند کے خطے میں چینی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے کے لیے دو ایم کیو-۹ سمندری محافظ ڈرونز استعمال کیے تھے۔ چونکہ چین بھارت کے لیے مسلسل برقرار رہنے والے تناؤ کی مانند کردار ادا کر رہا تھا، لہذا لیز پر ڈرونز حاصل کرنے کا معاہدہ کیا گیا۔ بھارت نے جنرل اٹامکس سے ایک برس کے لیے دو ڈرونز لیز پر حاصل کیے اور وہ لیز کی مدت میں توسیع کر چکا ہے۔ جی اے-اے ایس آئی نے گزشتہ برس اعلان کیا تھا کہ لیز پر لیے گئے یو اے ویز نے دو برس کی مدت میں پرواز کے ۱۰,۰۰۰  گھنٹے مکمل کیے ہیں۔

جبوتی میں چینی بحری اڈے اور بحر ہند میں آبدوزوں، تحقیقاتی جہازوں، اور پیپلز لبریشن آرمی نیوی (پلان) کے بحری جہازوں کی موجودگی نے نئی دہلی کے لیے خدشات پیدا کیے ہیں۔ چینی جہاز یوآن وینگ ۶ اور ۵ کی بحر ہند میں موجودگی کے سبب بھارت کا میزائل تجربے کا التوا اس حوالے سے موزوں مثال دکھائی دیتی ہے۔ چینی آبدوزوں نے بحر ہند میں داخلے کے لیے ملاکہ، لیمبوک اور آبنائے سندا کو استعمال کیا ہے۔ بغیر پائلٹ کے فضائی نظاموں کے شعبے میں جدت کی بدولت، اب ان آبدوزوں کا پتہ چلانے اور روکنے کے لیے ایک ہتھیار میدان میں قدم رکھ چکا ہے۔ ایم کیو-۹بی سی گارڈیئن فاصلے سے چلائے جانے والے فضائی نظام (آر پی اے ایس) کے زمرے میں پہلا یو اے وی ہے جس نے سمندر کی سطح کے اوپر اور نیچے سے بروقت تلاش اور نگرانی کے قابل کیا ہے۔ واضح ہے کہ ایسی ٹیکنالوجیز کا حصول وقت کی ضرورت ہے۔

بھارتی عسکری حکام کی جانب سے نگرانی کے مشنز میں ان کی موثریت کا باقاعدہ جائزہ لیے جانے کے بعد، مسلح افواج کے تینوں شعبوں کو اپنی کارروائی کرنے کی مجموعی صلاحیتوں کو توانا کرنے کے لیے ۳۱ ایم کیو-۹بی ڈرونز فراہم کیے جائیں گے۔ ایم کیو-۹بی کی دو اشکال ہیں- اسکائی گارڈین اور سی گارڈین ڈرونز (بحری قسم)۔ بھارتی بحریہ پندرہ ایم کیو-۹بی سی گارڈیئن ڈرونز وصول کرے گی جبکہ آٹھ اسکائی گارڈین ڈرونز بھارتی آرمی اور بھارتی ایئرفورس میں بالترتیب تقسیم کیے جائیں گے۔

ایم کیو-۹ مسلح ڈرونز کی خصوصیات

امریکہ نے ایم کیو-۹ ڈرون کو “ہنٹر-کلر یو اے وی'” کے کالم میں درجہ بند کیا ہے۔ ایم کیو-۹ مسلح ڈرون بغیر پائلٹ کے فاصلے سے اڑایا جانے والا وہ ایئرکرافٹ ہے جس کے پروں کے درمیان ۶۶ فٹ کا فاصلہ ہے، ۳۶ فٹ لمبائی ہے اور تقریباً ۱۲. ۵  فٹ بلندی ہے۔ یہ ۲۴۰ کے ٹی اے ایس کی رفتار سے پرواز کر سکتا ہے جو کہ تقریباً ۲۹۹ میل فی گھنٹہ ہے۔ اسے ۵۰,۰۰۰ فٹ کی بلندی سے آپریٹ کیا جا سکتا ہے۔ حملہ آور ڈرونز اے جی ایم-۱۱۴ ہیل فائر میزائلز، جی بی یو-۱۲ پیووے II، جی یو-۳۸ جوائنٹ ڈائریکٹ اٹیک میونیشنز، جی بی یو-۴۹ انہانسڈ پیو وے II اور جی بی یو-۵۴ لیزر جوائنٹ ڈائریکٹ میونیشنز جیسے ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایم کیو-۹ ریپر ایک فالٹ ٹولرینٹ فلائٹ کنٹرول سسٹم اور ٹرپل ریڈنڈنٹ ایوی اونکس سسٹم سے لیس ہے۔ اسے ہنی ویل ٹی پی ای۳۳۱-۱۰ جی ڈی ٹربوپروپ کی طاقت حاصل ہے اور یہ ڈیجیٹل الیکٹرانک انجن کنٹرول (ڈی ای ای سی) کے ساتھ ضم ہے۔ ڈرون میں ۳۸۴۹ پاؤنڈز تک کا وزن سنبھالنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس میں ایم کیو-۱ حملہ آور کے مقابلے میں نو گنا زیادہ ہارس پاور موجود ہے۔ مزید برآں، ڈرون اے این/ڈی اے ایس-۱ ایم ٹی ایس-بی ملٹی اسپیشل ٹارگٹنگ سسٹم سے لیس ہے جو کہ ہدف کی ٹھیک ٹھیک شناخت میں مدد دیتی ہے۔

ڈرون کی تیاری میں ان ٹیکنالوجیز کے استعمال کے سبب ایم کیو-۹بی کسی بھی بڑے بحری پیٹرول ایئرکرافٹ میں موجود صلاحیتوں کا ۸۰ فیصد فراہم کرتے ہیں، وہ بھی فی گھنٹہ بہت کم لاگت کے ساتھ۔ بھارتی بحریہ کے لیے ایسے ڈرونز کا حصول ضروری ہو چکا ہے تاکہ وقت، استعمال سے پہنچنے والے نقصانات کے سبب اخراجات میں اضافہ اور دیکھ بھال پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی لائی جا سکے۔ یہ ڈرون آئی او آر کے وسیع تر اخراجات پر نگاہ رکھنے کے حوالے سے عملے کے درد سر میں بھی کمی لائے گا۔

حاصل کلام

آج ڈرونز عصر حاضر کی جنگ میں بازی پلٹ دینے والے اور جدید ترین ہتھیاروں کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ بھارت اپنے دفاعی اخراجات کے مد میں بھاری پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے اور ڈرونز اور ہتھیاروں کی مقامی پیداوار کے لیے بھاری پیمانے پر بجٹ مختص کر رہا ہے۔ ایسی حکمت عملیوں کے پس پشت وزیراعظم مودی کے ‘آتمانربھر بھارت’ پیش رفت مرکزی اثر انگیز کی حیثیت سے موجود ہے۔ حملہ آور ڈرونز کے حصول کے لیے حالیہ معاہدے سے بھارت کو اپنی بحری سلامتی اور علاقائی سلامتی کو لاحق بعض مشکلات پر ردعمل دینے کی قابلیت کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ امریکہ بھارت عسکری تعلقات کو مضبوط کرنے کے علاوہ، یہ معاہدہ دونوں ممالک کو مشترکہ طور پر معاشی فائدہ بھی پہنچائیں گے۔ بھارت کوجدید ترین ٹیکنالوجی کی فراہمی کے لیے امریکہ کی ضرورت ہے جبکہ دوسری طرف واشنگٹن اپنے عالمی تزویراتی توازن کو فروغ دینے کے لیے نئی دہلی کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: MQ-9B SkyGaurdian via Picryl

Image 2: MQ-9 Reaper via Wikimedia Commons

Share this:  

Related articles

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا Hindi & Urdu

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا

کواڈ کے نام سے معروف چار فریقی سیکیورٹی ڈائیلاگ کے…

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع  Hindi & Urdu

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع 


سرد جنگ کے دوران جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات…

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…