Brahmos_WPN_System_passes_through_the_Rajpath_during_the_full_dress_rehearsal_for_the_Republic_Day_Parade-2016_in_New_Delhi_on_January_23_2016-1095×616
Brahmos WPN System passes through the Rajpath during the full dress rehearsal for the Republic Day Parade-2016, in New Delhi on January 23, 2016.

بھارت نے گزشتہ برس کے دوران اپنی خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلیاں دیکھیں۔ روس کے ساتھ تاریخی تعلقات اور امریکہ کے ساتھ تیزی سے بڑھتی شراکت داریوں کے درمیان الجھا ہوا بھارت، یوکرین پر حملے کے بعد عظیم قوتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو نہایت ہوشیاری کے ساتھ آگے بڑھاتا رہا، جبکہ اس دوران اس نے تزویراتی خودمختاری پر اپنے موقف سے بھی دغا نہیں کی۔ چینی افواج کے لائن آف ایکچوئل کنٹرول ایک بار پھر پار کرنے کے سبب، یہ سال بیجنگ کے ساتھ تناؤ میں اضافے کا بھی ناظر رہا۔ اس برس نئی دہلی جی-۲۰ کی میزبانی کرنے جا رہا ہے، تاہم ۲۰۲۲ کثیرالفریقی سوچ، علاقائی استحکام اور مستقبل کے لیے راہیں ہموار کرنے کے بھارتی عزم کو نمایاں کرتا ہے۔

آزمائشوں سے پُر خارجہ پالیسی

اگرچہ بھارت کی خارجہ پالیسی، تزویراتی خودمختاری پر اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹی، لیکن یہ بتدریج تبدیلیوں سے گزرتی رہی، خاص کر تب جب نئی دہلی نے، عالمی قوتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو آگے بڑھایا ۔ یوکرین میں پورے زور و شور سے جاری جنگ نے عظیم قوتوں کے ساتھ خاص کر امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ بھارتی تعلقات میں پائی جانے والی لچک کا امتحان لیا۔ جب مغرب نے چاہا کہ روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کی جائیں اور اسے سیاسی طور پر تنہا کیا جائے تو بھارت پر روسی تیل کی درآمد روک دینے کے لیے عالمی دباؤ بڑھ گیا۔

بہرحال، تزویراتی خودمختاری کی اصل روح کے مطابق، بھارت نے محتاط طریقے سے روسی تیل خریدنے کے ساتھ ساتھ ، سیاسی دباؤ کے باوجود مغرب کے ساتھ تعلقات بھی برقرار رکھے۔ جب جنگ آگے بڑھی اور بھارت نے روس کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے یا توانائی کے لیے اپنے انحصار میں کمی لانے کا معمولی اشارہ دیا تو امریکہ نے بھارت کا ساتھ دینے کے لیے اپنے فیصلوں میں پختگی کا مظاہرہ کیا۔ اس حوالے سے، گزشتہ برس نے امریکہ بھارت دو طرفہ تعلقات میں مضبوطی اور لچک نیز اپنے لیے راہیں خود ہموار کرنے کے نئی دہلی کے عزم کو ظاہر کیا ہے۔

امریکی موقف نے بھارت کے لیے یورپی یونین کے ہمراہ روابط کے لیے اضافی راہیں ہموار کیں۔ وزیراعظم مودی کے مئی ۲۰۲۲ کے اوائل میں جرمنی، ڈنمارک اور فرانس کے دورے نے یورپی شرکت داروں کے ساتھ تعلقات کو وسیع کرنے کے بھارتی عزم کو مزید پختہ کیا۔ مودی کا سفر، یورپیئن کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈر لین کے اپریل ۲۰۲۲ میں رائسینا ڈائیلاگ کے لیے دورہِ بھارت کے بعد عمل میں آیا تھا۔ ان کوششوں نے یورپی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات میں طویل عرصے سے حائل رکاوٹوں کے باوجود بھی اس کے لیے راہیں ہموار کیں۔

۲۰۲۲ کے دوران بھارت کی خارجہ پالیسی میں چین سب سے بڑی آزمائش رہا۔ دونوں کی مشترکہ سرحد پر مسلسل جاری تناؤ نے خطرات کے بارے میں خدشات کو بڑھاوا دیا اور ان کے آمنے سامنے ہونے سے زیادہ وسیع پیمانے پر جنوبی ایشیا اور انڈوپیسیفک خطے میں تنازعے کے پھیل جانے کا اندیشہ پیدا ہوا۔ لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر چین کے ساتھ ممکنہ تنازعے کے بارے میں خدشات سے نمٹنے کے لیے بھارت نے انڈوپیسیفک میں اپنی کثیرالفریقی سوچ کو بڑھاوا دیا، جو بنیادی طور پر امریکہ کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے کیا گیا۔ چین نے بھارت اور امریکہ کے درمیان یودھ ابھیاس فریم ورک کے تحت مشترکہ مشقوں پر اعتراض کیا۔ دسمبر میں چینی سپاہ نے توانگ کے علاقے میں چین-بھارت سرحد کو پار کیا، جو ایل اے سی پر حملوں کے سلسلے میں تازہ ترین جھڑپ بنا۔ توانگ میں یہ جھڑپ ممکنہ طور پر امریکہ بھارت مشترکہ مشقوں کا ردعمل تھا۔ تنازعے بڑھنے کے ساتھ ، ردعمل کا یہ سلسلہ خطے کی جغرافیائی سیاسیات میں فیصلہ کن مثلث کے دوبارہ وجود میں آنے سے خبردار کرتا ہے۔

مشترکہ سلامتی کا ایک ابھرتا ہوا ضامن؟

چین پر بھارتی کشمکش نے نئی دہلی کو انڈوپیسیفک میں ایک کثیرالفریقی تعاون کو وسعت دینے کی جانب ترغیب دلائی ہے۔ گزشتہ برس کے دوران، بھارت، آسٹریلیا، جاپان اور امریکہ پر مشتمل اتحاد کواڈ نے، مشترکہ تزویراتی اہمیت کے شعبے جیسا کہ علاقائی ترقی، صحت اور تعلیم میں بہتر تعاون کی خاطر اور اندرونی اختلافات کے خاتمے کے لیے متعدد اقدام اٹھائے ہیں۔ مثال کے طور پر، انڈوپیسیفک کے اندر پائیدار اقتصادی ترقی کے حصول کے اپنے ہدف کے لیے، انڈوپیسیفک اقتصادی فریم ورک (آئی پی ای ایف) اور انڈوپیسیفک اوشیئنز انیشی ایٹو (آئی پی او آئی) میں ارتقاء پانے والے مباحثے بھارت کے لیے اپنے اہداف کو پہچاننے کے دو مختلف مواقع فراہم کرتے ہیں۔ نئی دہلی اگرچہ آئی پی ای ایف کے تمام ممبران سے مکمل اتفاق نہیں رکھتا ہے، تاہم بھارت اور امریکہ فروری ۲۰۲۳ میں مذاکرات کی میز پر واپس آ رہے ہیں۔

۲۰۲۲ کے دوران بھارت نے انڈوپیسیفک خطے میں، مشترکہ سلامتی کے ضامن کے طور پر اپنے کردار کو زیادہ قبول کیا۔ تاہم اس حوالے سے اپنی حیثیت کے مکمل اعتراف کی راہ میں بھارت کے لیے دو نمایاں رکاوٹیں برقرار ہیں۔ اولاً یہ کہ بھارت انڈوپیسیفک میں اپنے کردار کی وسعت کے حوالے سے بے یقینی کا شکار ہے۔ بھارت نے اگرچہ بحر ہند میں اپنی سرگرمیوں کو آگے بڑھایا ہے، تاہم نئی دہلی وسیع تر انڈوپیسیفک خطے میں سلامتی کے لیے ایک مہنگا کردار ادا کرنے کے لیے ایک مضبوط اور معقول دلیل نہیں رکھتا ہے۔ نئی دہلی، پورے خطے کے تحفظ کے لیے اپنی بحریہ کا دائرہ کار بہت زیادہ وسیع کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا ہے۔ دوئم یہ کہ بھارت مختصر مدت میں اس طرح کا وسیع تر کردار نبھانے لائق صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔ اگرچہ بھارت نے حالیہ برسوں میں اپنی بحری صلاحیتوں کی مضبوطی کے لیے تیزی سے پیش رفت کی ہے اور اپنی بحری حکمت عملی کی دوبارہ سمت بندی کی ہے، تاہم امریکہ و غیر نیٹو اتحادیوں کے ساتھ خطے کے بارے میں نظریات پر نہ دکھائی دینے والے اختلافات، بعض اوقات اس کے لیے کواڈ کے نظریات کے ساتھ اتفاق کرنا دشوار بنا دیتے ہیں۔ کواڈ کو اپنی رفتار برقرار رکھنے کے لیے ان اختلافات کا محتاط انداز میں جائزہ لینا ہو گا۔

اپنے گھر کا قریبی جائزہ لینے پر، بھارت کی اپنے پڑوسیوں پر گزشتہ برس کی پالیسی ایک انتباہی داستان سناتی ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت، نیپال میں سیاسی عدم استحکام، سری لنکا میں تقریباً معاشی دیوالیہ پن اور بنگلہ دیش میں منڈلاتی بدامنی، یہ تمام امورعلاقائی تعلقات کے لیے چیلنج ثابت ہوئے۔ مزید براں، بھارت نے پاکستان کو یکسر نظرانداز کرنے کی اپنی پالیسی کو بھی جاری رکھا۔ افغانستان اور پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافے سے نئی دہلی کو ان اثرات کے سرحد پار آنے کا اندیشہ بھی درپیش ہے۔ اس کے باوجود بھی مارچ ۲۰۲۲ میں بھارت کا پاکستانی علاقے میں غلطی سے کیا گیا براہموس میزائل کا تجربہ اس امر کی واضح یاد دہانی ہے کہ نئی دہلی اپنے مغربی پڑوسی کو نہیں بھول سکتا ہے۔ میزائل لانچ کے فوری بعد، پاکستان نے اطلاع ملتے ہی اپنے اگلے مورچوں اور لڑاکا طیاروں کو ہائی الرٹ کر دیا تھا۔ اشتعال انگیزی میں کمی کے لائحہ عمل کی غیرموجودگی میں، ایسا واقعہ جس کی کوئی نظیر موجود نہیں، برصغیر میں بحران کے استحکام کے ضمن میں سنگین مضمرات رکھتا ہے۔ میزائل تجربے کا یہ واقعہ اگر کسی ایسے وقت میں ہوا ہوتا جب تناؤ اپنے عروج پر ہو، تو ایسے میں یہ واقعہ حالات کو خطرناک مقام تک لے جاتا۔

اس برس نئی دہلی، جی۔۲۰ کے موقع پر عالمی قیادت کا سفر شروع کرے گا، تاہم ۲۰۲۲ کو اس کی شکل میں ڈھالنے والی حرکیات بدستور موجود رہیں گی۔ عظیم قوتوں کے ساتھ تعلقات آگے بڑھانے میں بھارت کو بدستور دباؤ کا سامنا رہے گا، جبکہ دہشت گرد گروہوں کی جانب سے عدم استحکام کے لیے بھی خبردار کیا گیا ہے۔ عالمی نظام میں مقابلہ سفارتی تعلقات کو بدستور دباؤ میں رکھے گا۔ بے یقینی کے اس ماحول میں، بھارت عالمی منظرنامے پر جگہ لے گا، اور ایسے میں کہ جب بھارت اپنی حکمت عملیوں کو مضبوط کرے گا، دنیا کی نظریں اس پر مرکوز ہوں گی۔ 

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Ministry of Defence, Government of India via Wikicommons

 

Share this:  

Related articles

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…

جوابی کار روائی: کیا پاکستان فوجی حملوں کے رد عمل پر غور کر رہا ہے؟ Hindi & Urdu

جوابی کار روائی: کیا پاکستان فوجی حملوں کے رد عمل پر غور کر رہا ہے؟

ایران اور پاکستان کے درمیان حالیہ جیسے کو تیسا حملے …

پاکستان کا بعد از انتخابات ماحول: ماہرین کا ردعمل Hindi & Urdu

پاکستان کا بعد از انتخابات ماحول: ماہرین کا ردعمل

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والے…