Bloomberg-via-Getty-1095×616

بھارت کی سیاسی تاریخ میں پہلے ”سوشل میڈیا انتخابات“ سمجھے جانے والے ۲۰۱۴ کے انتخابات نے بھارتی سیاست میں سوشل میڈیا انقلاب کی بنیاد رکھی۔ ۲۰۰۹ کے عام انتخابات سے قبل کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور جو قبل ازیں اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل کے طور پر بھی فرائض نبھا چکے تھے، ٹوئٹر پر اکائونٹ رکھنے والے واحد بھارتی سیاستدان تھے۔ ۲۰۱۴ کے انتخابات کے موقع پر تمام سیاسی جماعتوں نے سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی کو نمایاں حد تک بڑھایا۔

سوشل میڈیا استعمال کرنے والی ڈیجیٹل نسل کو متحرک کرنے میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی کامیابی نے حریف جماعتوں کو بھی سوشل میڈیا روابط بہتر بنانے پر مجبور کیا۔ نتیجتاً اب بھارت کی ڈیجیٹل اسپیس میں سیاسی رنگ کے حامل لاکھوں پیغامات موجود ہیں جو سوشل میڈیا کے ذریعے انتخابات میں دھاندلی کا امکان بڑھاتے ہیں۔ بی جے پی مبینہ طور پر ۲سے۳لاکھ واٹس ایپ گروپس اور ۱۸۰۰۰ جعلی ٹوئٹر ہینڈلز چلاتی ہے۔ جماعت غلط معلومات اور پروپیگنڈے کے لیے ایک موثر آئی ٹی ونگ تیار کرچکی ہے، انتخابی فائدے بٹورنے کی خاطر جماعت ان دونوں کو گروہی تقسیم کو مزید بھڑکانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ غلط معلومات کا پھیلاؤ، سماجی تقسیم اور  بی جے پی کی قیادت میں ہندوتوا کو فروغ دینے والی سوشل میڈیا مہمات ہندو اور مسلمان قوم میں تناؤ کو بڑھانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ ایک ساتھ مل کے یہ سچائی اور بھارتی سیکولر جمہوری تشخص کے لیے خطرہ ہیں۔

سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر سیاسی پیغام رسانی

حکومتِ بھارت کے مطابق ملک میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والے افراد کی تعداد ۵۰۰ ملین سے تجاوز کرچکی ہے اور واٹس ایپ، یوٹیوب، فیس بک، انسٹاگرام اور ٹوئٹر بالترتیب ۵۳۰، ۴۴۸ ،۴۱۰ ،۲۱۰ اور ۱۵ ملین صارفین رکھنے کے دعویدار ہیں۔ ۲۰۱۷ کے سی ایس ڈی ایس لوکنیتی سروے کے مطابق بھارت کے واٹس ایپ صارفین کا چھٹا حصہ کسی ایسے واٹس ایپ گروپ کا حصہ تھا جسے  سیاسی جماعت یا پھر اس کا رہنما چلاتا تھا۔ ۲۰۱۹ کے سی ایس ڈی ایس لوک نیتی  اور کونراڈ ایڈینوراسٹفٹنگ سروے سیاسی مواد کے حجم کی نشاندہی کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے کہ سوشل میڈیا پر موجود ہر تین میں سے ایک بھارتی شہری روزانہ یا باقاعدگی کی بنیاد پر سیاسی مواد دیکھتا ہے۔

جو سیاسی مواد ووٹ دہندگان واٹس ایپ یا دیگر پلیٹ فارمز سے وصول کرتے ہیں، دو مرحلوں میں سیاسی خیالات پر اثرانداز ہوتا ہے۔ سب سے پہلے سیاسی اکائونٹس کسی جماعت پر تنقید کو دباتے ہوئے اس کے بارے میں مثبت بیانیہ پیدا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر بی جے پی سے وابستہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروہوں کی جانب سے فوج اور بالاکوٹ حملوں کو سراہنے جبکہ بھارت میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور ابتری کا شکار ہوتے معاشی بحران کو دبانے پر مشتمل قوم پرستی پر مبنی مواد کو بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا۔ دوئم غلط معلومات خاص کر جعلی سوشل میڈیا ہینڈلز کے ذریعے پھیلایا گیا مواد فرض کیے گئے ”دشمنوں“ کے خلاف قوم پرستی کی حمایت کو ٹھوس بناتا ہے۔ ۲۰۲۰ کے اوائل میں بی جے پی کے آئی ٹی ونگ کے سربراہ امیت ملاویا نے سی اے اے مخالف مظاہرین کی جانب سے ایسے بینرز اٹھانے کی جعلی ویڈیو پوسٹ کی جن پر ”پاکستان زندہ باد“ درج تھا۔ اس کا مقصد ہندو مسلم تقسیم کو مزید گہرا کرنا اور بی جے پی کی سیاسی کوششوں کو مزید آگے لے جانا تھا۔

انتخابی سیاست میں سوشل میڈیا کا ارتقاء

بی جے پی کی سوشل میڈیا مہم میں ۲۰۱۴ سے نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے: تب یہ اپنے رہنما کو نمایاں طور پر پیش کرنے پر توجہ مرکوز رکھتی تھی؛ اب یہ شہریوں کے زیرِاستعمال مواد کو قابو میں کرنے کی خواہاں ہے۔ ۲۰۱۴ میں بی جے پی جسے پیشہ ور ایجنسیوں کی مدد بھی حاصل تھی، اس کی سوشل میڈیا مہم کی توجہ کا مرکز اس وقت کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کے تشخص کی تعمیر، ترقیاتی ایجنڈے کو فروغ اور حکمران جماعت کانگریس پر تنقید تھا۔ ۲۰۱۳ میں مودی تھرور کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ٹوئٹر پر سب سے زیادہ فالو کیے جانے والے بھارتی حکمران بن گئے جو بی جے پی کی سوشل میڈیا حکمت عملی کے موثر ہونے کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ انتخابی وعدوں بشمول ترقیاتی مہم پر عمل کرنے میں ناکامی کے بعد بی جے پی کی سوشل میڈیا مہم نے ۲۰۱۷ کے اترپردیش اسمبلی کے انتخابات اور ۲۰۱۹ کے عام انتخابات میں مزید تقسیم پر مبنی لائحہ عمل اپنالیا۔

سوشل میڈیا پر بی جے پی کی سمجھداری کے ساتھ موجودگی اور انتخابی کامیابی نے دیگر جماعتوں کو ڈیجیٹل دنیا میں اپنے کردار کو وسیع کرنے کی جانب ترغیب دلائی۔ ۲۰۱۴ سے مسلسل انتخابی شکستوں اور اپنے رہنما راہول گاندھی کے بطور “پپو” (ایک نام جو جدید ابلاغ میں ناپختہ اور کم عقل شخص کا مذاق اڑانے کے لیے استعمال ہوتا ہے) مسخ شدہ تشخص کا سامنا کرنے والی کانگریس نے ۲۰۱۴ کے موازنے میں ۲۰۱۹ میں اپنے سوشل میڈیا اخراجات میں دس گنا تک اضافہ کیا۔ حتیٰ کہ کمیونسٹ جماعتیں جو کمپیوٹر کی مخالفت کی تاریخ رکھتی ہیں، اپنے خاص الخاص کارکنوں کو اس کی تربیت دینا شروع کرچکی ہیں۔

ہندوتا کو ہتھیاروں سے لیس کرنا

بی جے پی چونکہ سوشل میڈیا کی دنیا میں برتری حاصل کرچکی ہے، اس سلسلے میں ہندوتا اس کی غلط معلومات پر مبنی مہم کا مرکزی نکتہ بن کے ابھرا ہے۔ ۲۰۱۸ کے مطابق، بھارت میں غلط معلومات چار موضوعات پر مبنی ہوتی ہیں جو کہ ہندو قوم پرست نظریے کے گرد گھومتے ہیں: ”ہندو طاقت اوربرتری، (ہندو ثقافت کا) تحفظ اور احیاء، ترقی اور قومی فخر، نیز نریندر مودی کی شخصیت اور بہادری۔“

کسانوں کے حالیہ احتجاج کی حیثیت مشکوک بنانے کے لیے بی جے پی نے اپنے مسلح ڈیجیٹل پلیٹ فارمز سے پردہ اٹھاتے ہوئے ”ریاست مخالف“ پیغامات استعمال کیے تاکہ مخالفین کی آواز کو دبایا جاسکے۔ اسی سلسلے میں بی جے پی نے مظاہرہ کرنے والے کسانوں کو ”خالصتان کا حامی“ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ نومبر ۲۰۲۰ میں بی جے پی کے آئی ٹی ونگ کے سربراہ امیت ملاویا  نے مظاہرہ کرنے والے کسانوں کیخلاف پولیس مظالم کے الزامات کے دفاع میں ٹوئٹر پر ایک ویڈیو شیئر کی تھی۔ بعد ازاں ٹوئٹر نے اس ویڈیو کو غیر مستند قرار کیا۔ بعد ازاں بی جے پی رہنماؤں کی بڑی تعداد جن میں تاجیندر بگا (بی جے پی دہلی کے ترجمان)، ویرون گاندھی (بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ) اور ہریش کھرانہ (بی جے پی دہلی کے ترجمان) شامل ہیں، غلط معلومات کا پرچار کیا اور مظاہرہ کرنے والے کسانوں کو خالصتان تحریک سے جوڑا۔

لوگوں کی جانب سے جعلی خبروں پر یقین کیے جانے کا اس وقت زیادہ امکان ہوتا ہے جب یہ ان کے موجود عقائد سے میل کھاتی ہے۔ مواد جتنا زیادہ ذاتی نوعیت کا ہوتا ہے، ووٹ دہندگان کی سوچ پر یہ اسی قدر زیادہ اثرانداز ہوتا ہے۔ بی جے پی کی سوشل میڈیا حکمت عملی کی کامیابی کا بڑا حصہ ایسے پیغامات کی تشہیر میں اس کی قابلیت تھی جو کہ زیادہ ذاتی نوعیت کے تھے  اور یوں ان میں بڑی تعداد میں شہریوں کے سیاسی خیالات پر اثر انداز ہونے کے زیادہ امکانات تھے۔ ووٹ دہندگان کے اذہان پر اثرات کو دوچند کرنے کے لیے بی جے پی پیشہ ور ایجنسیوں کی مدد سے مقامی زبانوں میں ڈیجیٹل مواد تیار کرتی ہے اور معروف شو اور فلموں کے چٹکلے استعمال میں لاتی ہے۔ مثال کے طور پر اس نے شرانگیزی پھیلانے والے افراد اور گیم آف تھرونز سیریز کے چٹکلوں کا استعمال کیا۔ آئی ٹی مراکز کے قیام، ٹیکنالوجی کے ماہرین کی بھرتی اور پیشہ ور ایجنسیوں کی خدمات کے حصول کے لیے مناسب مقدار میں مالی وسائل نیز سوشل میڈیا مہم کے عام ووٹ دہندہ تک رسائی یقینی بنانے کے لیے میدان میں موجود تنظیمی مشینری کے موثراور بڑے پیمانے پر پھیلے نیٹ ورکس نے ڈیجیٹل رسائی کے شعبے میں حریف جماعتوں سے بہت آگے نکل جانے میں بی جے پی کی مدد کی۔

نتیجہ: جمہوریت پراثرات

فی الوقت بھارتی ووٹ دہندگان کا ایک چھوٹا سا حصہ سوشل میڈیا کا صارف ہے لیکن ہر برس سوشل میڈیا صارفین کی تعداد میں بے پناہ اضافے کے سبب یہ واضح ہے کہ آنے والے برسوں میں سیاسی ابلاغ میں سوشل میڈیا کا کردار محض بڑھے گا۔ بی جے پی اس کھیل کی اولین کھلاڑی رہی ہے جو بھارتی سیاست میں سوشل میڈیا انقلاب کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسی مہمات جن کا مقصد تقسیم ہے، بھارت کے مختلف حصوں میں مذہبی اور سماجی تناؤ کا باعث ہوتی ہیں حتیٰ کہ یہ قومی سلامتی کے لیے بھی خطرات پیدا کرتی ہیں۔ گو کہ  بی جے پی کی سوشل میڈیا مہم محض اسی کا تسلسل ہے جو وہ اصل میں کرتی ہے لیکن نفرت انگیز پیغامات کے لیے جعلی آئی ڈیز کا استعمال بی جے پی کے سوشل میڈیا کے ہتھیار کو مزید خطرناک بنا دیتا ہے کیونکہ یہ احتساب اور سماجی سطح پر پڑتال سے بچاؤ نیز باآسانی تردید کا موقع دیتا ہے۔

بی جے پی جو ہندوتا کے اپنے ایجنڈے کو فروغ دینا چاہتی ہے، اس کے لیے ڈیجیٹل دنیا اس کا سب سے زرخیز میدان ہے۔ بی جے پی کی حکومت میں مخالف آوازوں کو کچلنے کے لیے  چونکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر حکومتی سنسرشپ نافذ ہوسکتی ہے، ایسے میں ایک خودمختار ادارہ جو حکومتی مداخلت کیخلاف مزاحمت کر سکے، اس کا سب سے معقول حل ہے۔ گو کہ بی جے پی ایسے خودمختار ادارے کے قیام کی شائد حمایت نہ کرے لیکن حزب اختلاف کی جماعتوں کو عدالتی مداخلت کے مطالبے سمیت تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اس قسم کی اصلاحات کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیئے۔  ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے استعمال کے حوالے سے بی جے پی کے احتساب کے لیے حزب اختلاف کی جماعتوں کو ایک متحرک کردار ادا کرنا چاہیئے۔ خود سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو حکومتی دباؤ کے خلاف زیادہ موثرطور پر مزاحمت کرنا ہوگی، غلط معلومات کا پھیلاؤ روکنا ہوگا، اوراس امر کی ضمانت دینے کے لیے کام کرنا ہوگا کہ یہ پلیٹ فارمز سماجی اور گروہی تقسیم کا ذریعہ نہ بنیں۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Bloomberg via Getty Images

Image 2: Manjunath Kiran/AFP via Getty Images

Share this:  

Related articles