20368749008_dd49db6854_o-1080×616

 

یوکرین میں روس کی جنگ کے بعد اقوام عالم میں ہونے والی تقسیم نے جنوبی ایشیا میں ”تزویراتی خودمختاری“ پر مباحثے کو ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے۔ ایس کلیانرامن کے مطابق “تزویراتی خودمختاری سے مراد کسی ریاست کی اپنے قومی مفادات کو حاصل کرنے اور کسی بھی طور پر دیگر ریاستوں کے ہاتھوں پابند ہوئے بغیر اپنے مرضی کی خارجہ پالیسی اپنانے کی صلاحیت کو کہتے ہیں”۔ پاکستان اور بھارت دونوں کی آپس کی طویل دشمنی اور دیگر عالمی قوتوں کے ہمراہ تعلقات کے بین بین اپنے اپنے نقطہ نظر کو بیان کرنے کی کوشش کے سبب یہ تصور بے حد اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ تجزیہ کاروں نے جہاں پاکستان اور بھارت کو تمام ممکنہ پہلوؤں سے پرکھ لیا ہے وہیں ” تزویراتی خودمختاری” کے باب کا کم تجزیہ کیا گیا اور سمجھا گیا۔ مزید براں محض کچھ نے ہی یہ موازنہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ نئی دہلی اور اسلام آباد کے لیے تزویراتی خودمختاری کیا معنی رکھتی ہے اور وہ اس پر کیسے عمل کرتے ہیں۔ 

تزویراتی خودمختاری کے حصول کی بھارتی تگ و دو کسی ایک ریاست پر انحصار یا کسی ایک بیرونی قوت سے مغلوب ہونے کے اس کے پرانے خدشے سے جڑی ہے۔ پاکستان کے لیے تزویراتی خودمختاری کی جدوجہد، بنیادی طور پر بھارت سے لاحق سلامتی خدشات کے ردعمل میں تشکیل پاتی ہے۔ پاکستان اور بھارت تزویراتی خودمختاری پر کیسے عمل کرتے ہیں، اس کے لیے چین کا عروج اور یوکرین میں جاری جنگ تازہ ترین مثالیں فراہم کرتے ہیں۔ 

آزادی کے بعد تزویراتی خودمختاری: سرد جنگ کا دور

نوآبادیات کے تجربے نے بھارت کو عظیم طاقتوں کی رقابت کا نشانہ بننے کے حوالے سے محتاط کردیا، جس کا نتیجہ آزادی کے بعد ابتدائی دہائیوں میں اس کے غیروابستہ خارجہ پالیسی اختیار کرنے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی قیادت میں نئی دہلی نے امریکہ کی ہر اس کوشش کا راستہ روک ڈالا جس کا مقصد روسی ناکہ بندی کے لیے مغربی قیادت میں قائم عسکری اتحاد میں بھارت کو شامل کرنا تھا۔ فیصلہ سازی کا اختیار کھونے کے خوف کے علاوہ بھارت روس کو براہ راست سلامتی کو لاحق خطرے کے طور پر بھی نہیں دیکھتا تھا۔ نہرو نے فوجی اتحاد سے کیے گئے وعدے نبھانے کی خاطر وسائل استعمال کرنے کے بجائے ملک کی ترقیاتی ضروریات کو ترجیح دینا چاہا۔ اس غیرجانب داری نے بھارت کو کسی بھی سپرپاور کے سامنے فیصلہ سازی کے اختیار پر سمجھوتہ کیے بغیر اپنے تزویراتی مفادات حاصل کرنے میں بھی مدد دی، نیز یہ آزاد خارجہ پالیسی پر عمل درآمد اور تزویراتی امور پر فیصلہ سازی میں اپنی خودمختاری برقرار رکھنے کی دائمی خواہش میں بھی تبدیل ہو گیا۔ 

سرد جنگ کے دوران بھارت کی جانب سے ”تزویراتی خودمختاری“ پر عمل درآمد کے دو واضح رجحانات کی شناخت کی جاسکتی ہے: سپر پاورز کے ہمراہ شراکت داری کے لیے ناپسندیدگی اور بعدازاں روس کی جانب جھکاؤ کی خاطر لچک میں اضافہ۔ نئی دہلی ابتداً سلامتی امور پر سختی کے ساتھ غیروابستہ رہا تھا۔ ۱۹۶۲ کی بھارت چین جنگ ایک اہم موڑ ثابت ہوئی اور وزیراعظم اندرا گاندھی کی قیادت میں بھارت اپنے مفادات کو محفوظ بنانے کی خاطر اگرچہ سپرپاورز کے ساتھ وابستہ تو نہ ہوا لیکن شراکت داری کے لیے اس میں زیادہ لچک آگئی۔ ۱۹۶۰ کے اواخر میں نئی دہلی کو اس وقت سویت یونین سے زیادہ قریب ہونے کا موقع مل گیا جب چین روس تقسیم کے بعد دونوں ممالک کی قیادت نے چینی عنصر کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔ 

گوکہ ۱۹۷۱ کے انڈو سویت معاہدہ برائے امن، دوستی و تعاون پر دستخط بھارت کے غیروابستگی کی روش سے ہٹنے کا اشارہ دکھائی دیتا ہے لیکن یہ اپنی تزویراتی خودمختاری پر عمل درآمد اور پاک چین امریکہ بڑھتی قربت کے ماحول میں خود کو محفوظ کرنے کا بھارتی طریقہ تھا۔ اس فیصلے نے کسی حد تک مشرق میں بھارتی فوجی کارروائیوں کو ”بیرونی بڑی طاقتوں کی مداخلت“ سے محفوظ رکھا اور ۱۹۷۱ کی پاک بھارت جنگ میں اس کی فتح کے لیے راہ ہموار کی۔ حتیٰ کہ بھارت کی متعدد شعبوں میں سویت یونین کے ہمراہ شراکت داری کے بعد بھی نئی دہلی نے غیروابستہ کردار کے طور پر اپنی تشہیر جاری رکھی۔ یہ رجحان ۱۹۹۱ میں سویت یونین کے خاتمے تک جاری رہا۔ 

ادھر پاکستان کا تزویراتی خودمختاری کا تصور داخلی سطح پر غیر مستحکم سیاسی ماحول، جموں و کشمیر پر بھارت سے تنازعے اور پاکستان کے بارے میں افغانستان کے ناقابل مصالحت آمیز رویے سے خوف پر مبنی تھا۔ بھارت کی طاقت کو للکارنے اور واحد ایک عالمی قوت پر اس کے کلی انحصار میں کمی لانے کی خواہش پاکستان کی تزویراتی خودمختاری کے پس پشت محرک بنی۔ 

سرد جنگ کے دوران پاکستان کی قابل رشک جغرافیائی تزویراتی حیثیت کہ جہاں وہ سویت یونین کے جنوبی اور چین کی مغربی سرحد کے درمیان سینڈوچ بنا ہوا تھا، مغرب کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے کا سبب بنی۔ ادھر بھارت کا مقابلہ کرنے کی خواہش کے تابع پاکستان نے امریکی قیادت میں قائم ساؤتھ ایسٹ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن (سیٹو) اور سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن (سینٹو) میں شمولیت اختیار کر لی۔ پاکستان کی اس روش کا نتیجہ اپنی تزویراتی خودمختاری پر عمل کے لیے دو درجوں پر مبنی سوچ اختیار کرنے کی صورت میں برآمد ہوا۔ علاقائی سطح پر پاکستان نے بھارت کو للکارا اور اسے واحد علاقائی قوت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ تاہم عالمی سطح پر پاکستان نے بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکی فوجی امداد اور سازو سامان حاصل کرنے کے لیے مغرب کی حمایت کے ذریعے نہایت محدود پیمانے پر تزویراتی خودمختاری کا مظاہرہ کیا۔ امریکہ پر کلی انحصار کے حوالے سے پاکستان میں ابتداً پائی جانے والی خوش فہمی ۱۹۶۲ میں چین بھارت جنگ کے بعد اس وقت ہوا ہو گئی جب بھارت کو غیرمعمولی عسکری امداد سے نوازا گیا جس کے بعد پاکستان میں ”اپنی بے حد ناقدری کا احساس“ پیدا ہوا۔ ادھر نہرو کی غیر وابستگی کی پالیسی کے تحت بھارت نے بھی روس کو محدود کرنے کے خواہشمند امریکہ کی حمایت حاصل کرنے لائق ”لچک“ حاصل کر لی، گوکہ اس معاملے میں زیادہ کامیابی نصیب نہ ہو سکی۔ ۱۹۶۵ کی جنگ کے بعد پاکستان اور بھارت پر عائد کی گئی پابندیاں، آنے والے برسوں میں داخلی و بیرونی سطح کو متوازن کرنے کی پاکستان کی حکمت عملیوں پر اثرانداز ہوئیں۔ 

علاقائی سطح پر تزویراتی خودمختاری پر عمل کرتے ہوئے پاکستان نے جولائی ۱۹۷۱ میں ایک خفیہ دورے کے ذریعے چین اور امریکہ کے مابین مفاہمت میں معاونت کی۔ یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی جب مشرقی پاکستان میں طویل عرصے سے موجود سیاسی بحران بدستور جاری تھا جو بالآخر بھارت کی خفیہ حمایت سے ایک بغاوت میں تبدیل ہوا اور بعد ازاں پاکستان بھارت کے مابین ایک بڑی جنگ پر منتج ہوا۔ جس کے نتیجے میں پاکستان کا مشرقی بازو کٹ گیا۔ یہ پیش رفت ۱۹۷۳ میں سیٹو اور ۱۹۷۹ میں سینٹو سے پاکستان کی علیحدگی کا اہم محرک بنی۔ پاکستان اپنے علاقائی سلامتی مفادات کے تحفظ اور بھارتی عسکری اقدامات کا راستہ روکنے میں اتحادیوں کی ناکامی سے دل برداشتہ ہوگیا۔ 

سویت یونین کے ۱۹۷۹ میں افغانستان پر حملے نے پاکستان اور امریکہ کے مابین تزویراتی بندھن کے لیے نئی راہیں کھول دیں۔ سویت یونین کے بڑھتے ہوئے عزائم کے آگے بند باندھنے کے لیے امریکہ کو پاکستان کی حمایت درکار تھی، اس کے ساتھ ساتھ سویت یونین سے لاحق خطرے سے نمٹنے کے لیے واشنگٹن نے عسکری و معاشی امداد بھی جاری کی۔ آخرکار پاکستان کا جغرافیہ اور امریکی آپریشنز میں مدد سویت انخلاء کو یقینی بنانے میں اہم عنصر بنے۔ 

سرد جنگ کے بعد تزویراتی خودمختاری

سرد جنگ کے خاتمے اور اپنے سب سے اہم شراکت دار سویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد بھارت کو اپنی خارجہ پالیسی کے خدوخال کو دوبارہ ترتیب دینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ داخلی سطح پر بھارت کو درپیش معاشی چیلنجز نے متعدد ممالک کے ہمراہ سفارتی و معاشی تعلقات کے قیام اور بھارت کو فائدہ پہنچانے کی خاطر بعد از سرد جنگ کی دنیا سے روابط قائم کرنا نئی دہلی کے لیے لازمی بنا دیا۔ وزیراعظم پی وی نرسیماراؤ نے اس پالیسی کا آغاز کیا جو اب بھارت کی کثیرالوابستگی کی پالیسی کہلاتی ہے اور جس کے تحت تزویراتی شراکت داریوں کے ذریعے تمام اہم طاقتوں کے ساتھ رابطے رکھے جاتے ہیں۔ ۱۹۹۰ کی دہائی میں امریکی تسلط کے سامنے نبردآزماد ہونے اور ۱۹۹۸ میں جوہری دھماکوں کے بعد عالمی تذلیل کے باوجود بھارت ۲۰۰۰ کی دہائی میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہمراہ تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ کثیرالوابستگی کی پالیسی کو وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی حکومت میں بے حد اہمیت حاصل رہی جبکہ وزیراعظم من موہن سنگھ کی قیادت میں اسے بھرپور بڑھاوا دیکھنے کو ملا۔ کثیرالوابستگی نے بھارت کو بیک وقت متعدد شراکت داروں سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی کے شعبے میں فیصلہ سازی کے لیے تزویراتی خودمختاری پر عمل کرنے کا موقع فراہم کیا۔

 

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پاکستان نے بھارت کے خلاف تزویراتی برابری حاصل کرنے کے لیے جوہری صلاحیت کے حصول کا آغاز کیا اور یوں قومی سلامتی کے لیے عالمی قوتوں پر اپنے انحصار میں کمی لے آیا۔ حتیٰ کہ بیرونی قوتیں شدید دباؤ اور پابندیوں کے باوجود بھی پاکستان کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے میں ناکام رہیں جو علاقائی اور عالمی سطح پر تزویراتی خودمختاری کے اظہار کی علامت ہے۔ 

 پاک امریکہ تعلقات، امریکہ کے ہمراہ عسکری شراکت داری اور اس سے سلامتی و معاشی معاونت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی تزویراتی خودمختاری حاصل کرنے کی اسلام آباد کی جدوجہد کا خوب پتہ دیتے ہیں۔ سرد جنگ کے بعد کی دہائی میں اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان کچھ مدت کے لیے آنے والی لاتعلقی ۱۱/۹ کے دہشتگرد حملوں کے بعد ختم ہو گئی۔ القاعدہ اور طالبان کے خلاف امریکہ کی قیادت میں لڑی گئی طویل جنگ کے دوران پاکستان نے افغانستان میں امریکی آپریشنز کی بڑی حد تک حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر امور پر اپنی تزویراتی خودمختاری برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ پاکستان نے افغانستان میں بھارتی عنصر کے حوالے سے اپنے مفادات کی پیروی جاری رکھی جبکہ وہ حقانی دھڑے کے مکمل خاتمے سے بھی احتراز کرتا دکھائی دیا۔ دیگر مواقع پر بھی مثلاً آپریشن عراقی فریڈم کے دوران اسلام آباد نے عراق میں لڑائی کی خاطر فوجیں بھیجنے کے مغربی مطالبے کو مسترد کیا اور اس نے یمن تنازعے میں بھی حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ 

حال میں تزویراتی خودمختاری

 بھارتی قیادت نے حال ہی میں ”معاملے کے مطابق وابستگی“ کا تصور متعارف کروایا ہے۔ جیسا کہ بھارتی خارجہ سیکرٹری وجے گوکھلے نے اسے بیان کیا ہے کہ بھارتی وابستگی ”نظریاتی“ نہیں بلکہ ”معاملے کے مطابق“ ہوتی ہے جو ”اسے لچک کا مظاہرہ کرنے اور فیصلہ سازی میں ہمیں خودمختاری برقرار رکھنے کا موقع“ دیتی ہے۔ نئی دہلی اپنی تزویراتی شراکت داریوں کو وسیع کر چکا ہے اورکثیر القریقی اداروں، فورمز اور گروہوں کے ذریعے سے وہ متعدد ممالک کے ہمراہ رابطے میں رہتا ہے۔ بعض اوقات اس کے بیک وقت ایسی قوتوں کے ہمراہ بھی تعلقات رہے ہیں جو ایک دوسرے کی مخالف ہیں۔ مثال کے طور پر نئی دہلی امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے ہمراہ کواڈ کا بھی حصہ ہے جبکہ اس نے برکس، روس- بھارت- چین سہہ فریقی معاہدے اور شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے ذریعے روس اور حتیٰ کہ چین کے ہمراہ بھی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ بھارت مختلف ممالک کے ہمراہ اختلافات کے باوجود بھی ان سے رابطے میں رہتا ہے اور حتیٰ کہ مشترکہ مفادات کے شعبوں میں شراکت داری بھی کرتا ہے۔ 

 پاکستان میں تزویراتی خودمختاری پر موجودہ بحث جغرافیائی معیشت پر مبنی خارجہ پالیسی کی جانب منتقلی کی پاکستان کی خواہش کے گرد گھومتی ہے۔اس معاملے پر ایک دھڑا جس کے موقف کو پاکستان کے سابق مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے بیان کیا، خیال کرتا ہے کہ پاکستان کو جغرافیائی سیاسی حیثیت کا فائدہ اٹھانے کی اپنی پرانی روش سے ہٹتے ہوئے خود کو نئے افکار، سرمایہ کاری، تجارت، کاروبار اور رابطے کے مرکز میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے دھڑے کی دلیل ہے کہ پاکستان، خود کو ہموار طور پر ایک جغرافیائی معیشت میں تبدیل کرنے کے لیے داخلی سطح پر درکار عوامل سے محروم ہے۔ نظریات میں تنوع کے باوجود پاکستان کے اپنی تزویراتی خودمختاری پر عمل کرنے میں تضاد عام ہے۔ پاکستان میں ڈھانچہ جاتی سطح پر معاشی چیلنجز، آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے عارضی چھٹکارے کی خاطر لیے گئے قرضے اور داخلی سطح پر مسائل پاکستان کے لیے اپنی تزویراتی خودمختاری پر موثر طور پر عمل کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ تاہم جب پاکستان کی اصل قومی سلامتی خطرے کی زد میں ہو تو ملکی قیادت کی جانب سے تزویراتی خودمختاری پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ لیکن ایسے میں کہ جب اصلاحات کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے، تزویراتی خودمختاری پر زیادہ بڑے پیمانے پر عمل کرنے کے لیے جغرافیائی معیشت کی جانب رخ کرنا پاکستان کی تزویراتی قیادت کے سامنے ایک ممکنہ متبادل حل ہوسکتا ہے۔ 

حال ہی میں ہونے والی دو تزویراتی سرگرمیاں جن میں چین کا عروج اور یوکرین پر روسی حملہ شامل ہیں، ان پر جنوبی ایشیا کا ردعمل، پاکستان اور بھارت میں تزویراتی خودمختاری پر عمل درآمد کو سمجھنے کا نادر موقع فراہم کرتا ہے۔ 

چین کا عروج

چینی افواج کا عروج، اس کی بڑھتی ہوئی خود اعتمادی اور لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر غیرمعمولی طول دیے گئے تنازعے نے بھارت کی کثیرالوابستگی کی پالیسی میں ایک نیا پہلو متعارف کروایا ہے۔ باوجود یہ کہ بھارت بہت سے ممالک کے ہمراہ مفید تعلقات رکھتا ہے، اس نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہمراہ مزید قربت اختیار کی ہے۔ اس صورتحال نے بھارت میں اس بحث کو بڑھاوا دیا ہے کہ کیا نئی دہلی امریکہ سے قربت کی خواہش میں اپنی تزویراتی خودمختاری کھو رہا ہے یا کیا امریکی حمایت بھارت کو چین کے خلاف تزویراتی خودمختاری برقرار رکھتے ہوئے اپنے عالمی اور علاقائی مفادات حاصل کرنے کی اجازت دیتی ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ مغرب میں بھی یہ بحث جاری ہے کہ کیا بھارت درحقیقت ان کی امیدوں پر پورا اتر سکتا ہے۔ 

امریکہ پاکستان تعلقات میں زوال کے ساتھ ساتھ اسلام آباد نے چین کے ہمراہ تعلقات کی مضبوطی اور جغرافیائی معاشی مقاصد کے لیے اپنے محل وقوع سے فائدہ اٹھانے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ ان فوائد میں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ فلیگ شپ منصوبے کے تحت پاک چین اقتصادی راہداری کے ذریعے چین سے روابط شامل ہیں جس میں چین رابطوں، بجلی کی پیداوار اور اکنامک زونز میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ بھارت کے حوالے سے اپنی تزویراتی خودمختاری کہ جس کا بنیادی مقصد علاقے میں بھارتی تسلط کو چیلنج کرنا ہے، اسے برقرار رکھنے کی خاطر پاکستان چین کے ہمراہ اپنے دفاعی تعاون میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے؛ اور یہ دفاعی تعاون لڑاکا طیاروں، ایئر ڈیفنس پلیٹ فارمز اور مین بیٹل ٹینکس جیسے ہتھیاروں کی مشترکہ پیداوار و حصول سے ظاہر ہوتا ہے۔ معاشی اور عسکری شعبوں میں ہونے والی پیش رفت یہ تجویز کرتی ہیں کہ پاکستان ورثے میں ملنے والی آزمائشوں کے باوجود بھی اپنے معاشی میدان کو بھی اپنی شرائط پر اسی قدر ترجیح دینے کا ارادہ رکھتا ہے جس قدر کہ سلامتی کے خدشات کو۔ اس کے باوجود کسی ایک کیمپ میں نہ جانے کی پالیسی پاکستان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ چین اور امریکہ میں سے کسی ایک پر کلی انحصار کیے بغیر خارجہ محاذ پر استحکام کی خاطر بیرونی دنیا میں متوازن کردار کے لیے اپنے ذرائع میں وسعت لائے۔ اس پالیسی کا ایک اور محرک کسی بھی تنازعے کی صورت میں کسی ایک کیمپ کو چننے سے اجتناب کی خواہش بھی ہے۔ یہ وہ خدشہ ہے جس کی گونج جنوب مشرقی ایشیا میں آسیان ممالک میں بھی سنائی دیتی ہے۔ 

یوکرین میں روسی جنگ

بھارت کی بیک وقت روس اور امریکہ سے رابطوں کی روش کو یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے سفارتی چیلنجز کا سامنا ہے۔ نئی دہلی نے اس جنگ پر ایک پرپیچ حکمت عملی اختیار کی ہے اور ۲۴ اگست ۲۰۲۲ تک اس معاملے پر اقوام متحدہ میں ہونے والی رائے شماری میں حصہ لینے سے گریز کیا۔ بیک وقت دونوں فریقوں کے ہمراہ رابطے میں رہنے سے جڑے چیلنجز حالیہ مہینوں میں نمایاں دکھائی دیے ہیں۔ تاہم روس اور امریکہ سے بیک وقت ہتھیاروں کے سسٹمز اور حتیٰ کہ بحران کے دوران روسی کروڈ آئل کی خریداری بھارتی نقطہ نگاہ سے ملنے والی بعض کامیابیاں ہیں۔ نئی دہلی کو کاٹسا پابندیوں کے خاتمے کی بھی امید ہے جس کے بعد وہ روس سے ایس-۴۰۰ میزائل سسٹم کی خریداری جاری رکھ سکے گا۔ حسب توقع اسے بعض مغربی ممالک کی جانب سے تنقید کا سامنا بھی ہوا ہے تاہم اس نے معاملات کے مطابق وابستگی کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ چین سے لاحق خطرات کے بارے میں بھارتی تاثر اس کے روس اور امریکہ کے ہمراہ تعلقات کو بڑی حد تک تشکیل دیتے ہیں۔ نئی دہلی چینی جارحیت کے حوالے سے اپنی صلاحیتوں اور حتیٰ کہ سفارتی سطح پر حسب موقع امریکی حمایت چاہتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ روس کو اس حد تک تنہا چھوڑنے سے خائف ہے کہ جہاں وہ چین سے جا ملے۔ روس کی بھارت کو ہتھیاروں کی فراہمی جاری رکھنے کی صلاحیت میں مسلسل کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے امکان ہے کہ نئی دہلی دفاعی ٹیکنالوجی میں شراکت داری اور مقامی سطح پر دفاعی پیداوار کی خواہش کی تکمیل کے لیے ”مغرب کی جانب“ دیکھے گا۔ بھارت کا حتمی مقصد فیصلہ سازی میں خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ کیے بغیر اپنے لیے ایک سازگار صورتحال پیدا کرنا ہے۔ تاحال، بھارت دونوں فریقوں میں توازن پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی تزویراتی خودمختاری کے لیے جگہ برقرار رکھنے میں کامیاب دکھائی دیتا ہے۔ تاہم جیسا کہ فی الوقت جاری پیش رفت نئے عالمی نظام کو تشکیل دے رہی ہیں، ایسے میں آزمائشوں اور مواقع کا امتزاج بھارتی قیادت کے لیے نئی کشمکش اور مسائل کھڑے کر سکتا ہے۔

 

ادھر پاکستان اقوام متحدہ میں یوکرین میں روسی جارحیت کے خلاف ووٹنگ سے گریز اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں صدر زیلنسکی کی تقریر جیسے مواقع کے سبب یوکرین پر جنگ کے معاملے میں خود کو مشکل مقام پر کھڑا پاتا ہے ۔ اس جنگ نے روس، یورپ اور امریکہ کے مابین توازن کی پاکستانی کوششوں کو پیچیدہ کر دیا ہے جس کے اثرات داخلی سیاست تک بھی پہنچ چکے ہیں۔ تاہم یوکرین کے معاملے میں اصل چیلنج روس سے ملنے والے فوجی سازوسامان کی فراہمی کو اس انداز میں برقرار رکھنا ہے کہ یہ اس کے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے تحت یورپی یونین سے کاروباری برآمدات کو حاصل تحفظ اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے ملنے والی اگلی قسط پر بھی اثرانداز نہ ہو۔ ۱۵ ستمبر ۲۰۲۲ کو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف اور صدر ولادیمیر پوٹن نے پاکستان اسٹریم نامی گیس پائپ لائن منصوبے کو جاری رکھنے اور تجارت، غذائی اجناس اور دفاع و سلامتی کے شعبوں میں تعاون برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔ یہ اتفاق موجودہ پاکستانی حکومت کی جانب سے اپنی تزویراتی خودمختاری پر عمل درآمد کی خاطر بیرونی دنیا میں تعلقات کو متوازن بنانے کے لیے ان میں وسعت لانے کی کوشش کا مظہر ہے۔ زیادہ وسیع پیمانے پر دیکھا جائے تو یہ تزویراتی خودمختاری کے لیے ممکنہ صورتوں پر بار بار اٹھنے والی بحث کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ 

حاصل کلام

بھارت اور پاکستان تزویراتی خودمختاری کے بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں جو اس تصور پر ان کے عمل درآمد کو بھی ایک دوسرے سے مختلف بناتا ہے۔ ایک ملک اپنی تزویراتی خودمختاری پر کیسے عمل پیراء ہوتا ہے، اس کا قریبی تعلق اس کے خارجہ پالیسی اہداف، سلامتی مفادات اور سلامتی کو لاحق خطرات کے بارے میں اس کی رائے سے ہوتا ہے۔ 

تزویراتی خودمختاری کے لیے بھارتی جدوجہد اس کے اندر موجود شکوک و شبہات اور غیرملکی قوت کے زیرغلبہ آنے کے خوف سے جڑی ہے۔ حتیٰ کہ بھارت اپنے جغرافیائی سیاسی اور خارجہ پالیسی اہداف کو پورا کرنے یا اپنے سلامتی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے بڑی طاقتوں کے ہمراہ شراکت داری قائم کرنے کے باوجود بھی فیصلہ سازی میں اپنی خودمختاری کھونے کے حوالے سے محتاط رہتا ہے۔ دونوں پہلوؤں میں توازن قائم کرنا وقت کے ساتھ ساتھ بعض دفعہ باعث آزمائش ثابت ہوا ہے لیکن بہرحال بھارت نے گزشتہ پانچ برس کے دوران بیرونی دنیا سے اپنے تعلقات میں تقریباً یکساں رویے کا مظاہرہ کیا ہے۔ 

اس کے مقابلے میں پاکستان کا تزویراتی خودمختاری کا تصور اور اس پر عمل درآمد بنیادی طور پر سلامتی کو لاحق خطرات کے بارے میں اس کی رائے، بالخصوص بھارت اور دیگر سلامتی خطرات کے بارے میں اس کی رائے کے تابع ہے۔ اس نے ان امور پر تزویراتی خودمختاری کا مظاہرہ کیا ہے جو قومی سلامتی کے لیے فوری خطرہ نہیں رکھتے ہیں اور کثیرالفریقی فورمز میں شمولیت کے ذریعے اپنی سفارتی برتری میں اضافہ کیا ہے۔ دوسری جانب اندرونی سطح پر متعدد چیلنجز نے تزویراتی خودمختاری پر عمل درآمد کی راہ میں اس کے لیے رکاوٹیں پیدا کی ہیں۔ داخلی سطح پر جذبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے متعارف کروائی گئی اصلاحات اور جغرافیائی معیشت کی جانب رخ کرنے سے تزویراتی خودمختاری کے لیے میدان وسیع ہو سکتا ہے اور یوں یہ تصور ادھورے خواب کے طور پر باقی نہیں رہے گا۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Umair Khan via Flickr

Image 2: U.S. Embassy New Delhi via Flickr

Image 3: Presidential Executive Office of Russia via Wikimedia Commons

 

Share this:  

Related articles