36517966873_6c27e2b0fc_c

یہ مضمون ہنری ایل اسٹیمسن سینٹر کی اشاعت ۳۸ نارتھ کے ساتھ ایک سیریز کے ایک حصے کے طور پر مشترکہ طور پر شائع کیا گیا ۔

شمالی کوریا کے بڑھتے ہوئے جوہری  خدشات، جنوبی کوریا اور امریکی پالیسی سازوں اور تجزیہ کاروں کی جانب سے خاصی توجہ حاصل  کرتے جا رہے ہیں۔ شمالی کوریا ۲۰۲۲ کے آغاز سے اب تک ۱۰۰ سے زائد میزائل تجربات کر چکا ہے۔ علاوہ ازیں  امریکی افواج، کوریا کے کمانڈر نے اپریل ۲۰۲۳ میں شہادت دی کہ شمالی کوریا کا ساتواں جوہری تجربہ “اگر” کا نہیں بلکہ “کب” کا معاملہ تھا۔  پیونگ یانگ نے ستمبر ۲۰۲۲ میں ایک نیا  نیوکلیئر فورسز ایمپلائمنٹ  قانون بھی جاری کیا تھا، جس نے نہ صرف فرسٹ یوز ڈاکٹرائن  (جوہری استعمال میں پہل کا نظریہ) قائم کیا، بلکہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا آغاز کرنے والی شرائط کو بھی  جامع  تر بنایا تاکہ “تقریبا تمام قابلِ تصوّر جوہری، غیر جوہری اور سیاسی بحرانات کی صورتحال کا احاطہ کیا جا سکے۔” یہ نئی پالیسی جزوی طور پر جنوبی کوریا کی میزائل صلاحیتوں کی بڑھتی ہوئی آب و تاب سے متعلق شمالی کوریا کے خدشات کی عکاسی کرتی ہے، کیونکہ یہ آہستہ آہستہ  پیونگ یانگ کی جوہری قوّتوں اور قیادت کے خلاف سیئول کی  ماتقدم روایتی  جوابی کارروائیوں کی حکمت عملی کی ساکھ کو بہتر بناتی ہیں۔

بڑھتے ہوئے جوہری خطرات جنوبی کوریا کی اپنی آزاد جوہری قوتوں کے حصول کے لیے وسیع  پیمانے پر عوامی حمایت کی وجہ سے مزید بھڑک اُٹھے ہیں۔ جنوری ۲۰۲۳ میں ایک تاریخی بیان میں صدر یون سک یول نے سرِعام اس راستے کو ایک قابل عمل آپشن کے طور پر مجوّز کیا۔ تاہم جوہری بموں کے حق میں یہ جذبات شمالی کوریا کی جانب سے بظاہر آزادانہ طور پر جنوبی کوریا کے خلاف غیر روایتی (سب کنونشنل)  حملے کرنے اور اشتعال انگیزی کرنے سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ غیر روایتی عدم استحکام کو کم کرنے کے لیے روایتی اور جوہری کشیدگی میں اضافے کے انتخاب کی تلاش میں سیئول اس امر سے سبق لے سکتا ہے کہ کس طرح پاکستان ہندوستان رقابت میں بھی اسی طرح کی جستجو کی گئی ہے۔

نئی دہلی اور اسلام آباد کے تجربات،  جوہری قوّتوں سے پُر ماحول میں روایتی کشیدگی کے تناظر میں ، محدود اشتعال انگیزی کا جواب دینے کی تحریص  پر عمل کرنے کے خلاف خبردار کرتے ہیں۔ غیر روایتی عدم استحکام پر ہندوستان اور پاکستان کے باہمی  مربوط ردعمل نے ان کی سلامتی کے ماحول کو خراب کر دیا ہے، جس میں روایتی محدود جنگی منصوبہ بندی اور حالیہ بحرانات کے جوابی ردعمل شامل ہیں، جس سے جوہری کشیدگی میں اضافے کا خطرہ ہے۔ مزید برآں، سیئول  کے لئے اپنے اسٹریٹیجک نقطہ نظر پر غور کرتے ہوئے  یہ سمجھنا اہم ہے کہ کس طرح ہندوستان اور پاکستان نے جوہری ہتھیاروں کے حصول کے باوجود اپنے حریف سے تسلی بخش ڈیٹرنس (قوّتِ مزاحمت کا توازن)  حاصل نہیں کی ہے۔ اس کے بجائے، انہوں نے صرف غیر روایتی، روایتی اور جوہری سطح پر ہتھیاروں کی دوڑ اور عدم استحکام میں اضافہ  ہی کیا ہے۔

برِ صغیر (کے باہمی تعلقات) میں دراڑیں

سال ۱۹۹۸ کے موسم بہار میں ہندوستان اور پاکستان کے جوہری تجربات، بشمول  ان کے جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاست ہونے کے اعلانات کے، جزوی طور پر باہمی فوجی مہم جوئی کو اعتدال پسند بنانے اور گفت و شنید  (ڈائیلاگ)  کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے تھے۔

نئی دہلی اور اسلام آباد دونوں کی سیاسی قیادت کا مشترکہ مفروضہ یہ تھا کہ ان کے تنازعات کےلئے فوجی حل کی  پیروی میوچل ایشورڈ ڈسٹرکشن  (ایم اے ڈی) کے اس نئے تنازعے میں ناقابل قبول جھڑپوں کے خطرات پیدا کرے گی۔ اس طرح، یہ واضح ہو گیا کہ پرامن بات چیت  ہی سب سے زیادہ قابلِ عمل لائحۂ عمل ہے، یا جیسا کہ ہندوستانی وزیر اعظم واجپائی نے اسے “واحد راستہ” قرار دیاتھا۔

 تاہم، ۱۹۹۹ کی کارگل جنگ نے ان امیدوں پر پانی پھیر دیا، جب پاکستانی فوج نے خاموشی سے ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے کارگل سیکٹر میں اہم چوٹیوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔  ہندوستان نے پاکستان کے ساتھ ایک محدود لیکن خونریز روایتی جنگ کی، جس کے نتیجے میں جغرافیائی حیثیت سابقہ حالت کو لوٹی۔ اس تنازعے کے نتیجے میں، ہندوستانی سیاسی اور فوجی رہنماؤں نے اس طرح کی غیر روایتی کارروائیوں کو سرانجام دینے پر پاکستان کو روکنے اور سزا دینے کے لیے محدود روایتی جنگی صلاحیتوں اور تصورات کو فروغ دینے کی ضرورت کے بارے میں کھل کر بات کرنا شروع کر دی۔ اس سوچ کو دسمبر ۲۰۰۱ میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند گروہوں کے ایک دہشت گرد انہ حملے سے تقویت ملی۔ اس کے نتیجے میں ہندوستانی اور پاکستانی روایتی فوجی یونٹوں کو بڑے  پیمانے پر متحرک کیا گیا، اور ایک بڑی جنگ کا خطرہ پیدا ہوا، جو مہینوں تک چھایا رہا۔ اگرچہ اس بحران کے نتیجے میں بالآخر فوجی پسپائی ہوئی، لیکن ہندوستان اور پاکستان دونوں نے اس سے ایک ہی سبق سیکھا: غیر روایتی عدم استحکام کا حل روایتی اور جوہری صلاحیتوں کی تعمیر میں مضمر ہے، جو پالیسی سازوں کو کشیدگی کے ہر مرحلے پر اپنے حریف سے بازی لے جانے کے قابل بنائے گا۔ اس کے بعد دشمن کو غیرمتناسب اور ممکنہ طور پر جوہری جوابی کارروائیوں کے اخراجات کا احساس کرتے ہوئے غیر روایتی کارروائیاں کرنے سے روکا جا سکے گا۔

جنوبی ایشیا کے پالیسی سازوں نے اس کے بعد سے جاری غیر روایتی عدم استحکام کو مطلوبہ روک تھام کے اثرات کے حصول کے لئے روایتی اور جوہری حکمت عملی تیار کرنے میں ناکامی کے طور پر دیکھا ہے۔ غیر روایتی کارروائیوں کو روکنے کی بنیادی منطق کی نشاندہی کرنے کے برخلاف، یہ فوجی جھڑپوں کو غلطی پر ہونے سے دھمکانا ہے۔ دریں اثنا، جوہری چھتری تلے جنگیں لڑنے کے ان کے ارادے نے خطرناک اسٹریٹیجک تصورات اور ہتھیاروں کی دوڑ کو فروغ ہی دیا ہے۔ مثال کے طور پر ۲۰۰۴ کا انڈین آرمی کولڈ اسٹارٹ ملٹری ڈاکٹرائن شامل ہے، جس کا مقصد پاکستان میں مقیم عناصر کی جانب سے ایک اور دہشت گرد حملے کی صورت میں ایک تشدد  آمیز  فوجی جوابی کارروائی ہے۔ خیال یہ ہے کہ چھوٹے اور تیز رفتار جارحانہ فوجی دستے تیزی سے پاکستانی علاقے میں داخل ہوں اور محدود علاقوں  کو گھیرے میں لے لیں  تاکہ انہیں سودے بازی کے ذریعے کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ تاہم، اس تصور کی اسٹریٹیجک قابلیت اور عملی حقیقت ابھی تک مشکوک ہے۔ تاہم، اس نے جزوی طور پر کولڈ اسٹارٹ پیراڈائم کے تحت کارروائیوں کو روکنے کے لئے پاکستان کی نصر ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی حوصلہ افزائی کی ہے۔

پاکستان نے حال ہی میں ایک بظاہر نیم سرکاری  بیان کے ذریعے “کوئڈ پرو کو پلس” کے اپنے اسٹریٹیجک نظریے (ڈاکٹرائن) کی بھی تشہیر کی ہے۔ یہ نظریہ واضح کرتا ہے کہ پاکستان ہندوستان کی جانب سے روایتی حملے کا زیادہ تباہ کن روایتی جواب دینے کے لیے تیار اور قابل ہے، جبکہ اپنی جوہری حد کے بارے میں پاکستان اپنے ابہام کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کی میزائل اور جوہری قوتوں میں اضافہ اور تنوع جاری ہے اور روایتی اور دوہرے استعمال والے میزائل ان کی محدود جنگی منصوبہ بندی میں خاص طور پر مرکزی حیثیت اختیار کر رہے ہیں۔

جنوبی ایشیا کا حالیہ بڑا بحران یعنی ۲۰۱۹ کا پلوامہ بالاکوٹ کی قریباََ جنگ  کی صورتحال، جزیرہ نما کوریا کے لیے اسباق کا خلاصہ پیش کرتا ہے کہ وہ جوہری ماحول میں فوجی اضافے کے ذریعے غیر روایتی عدم استحکام سے بچنے کی کوشش  کرے۔ اس بحران کے دوران ہندوستان نے پاکستان سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کی جانب سے ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں نیم فوجی قافلے پر بمباری کا جواب پاکستان میں روایتی فضائی حملے کر کے دیا جس کے لیے بھارتی فضائیہ (آئی اے ایف) کی ایک بڑی نفری استعمال کی گئی، جو جوہری حملے کے مشن سے مشابہت رکھتی ہے۔ اگلے دن پاک فضائیہ (پی اے ایف) نے جوابی کارروائی کی، جس کانتیجہ ڈاگ فائٹ (دو جہازوں کا  آپس میں لڑنا) میں نکلا، جس کے سبب  ہندوستانی فضائیہ کے ایک جہاز کو مار گرایا گیا اور پائلٹ پکڑ لیا گیا۔ بحران کے اختتام پر دونوں ریاستوں نے مبینہ طور پر میزائلوں کو مستعدی کی اعلیٰ سطح پر تیار رکھا تھا، اور پسِ پردہ  اپنے جوہری عزم کا حوالہ بھی  دیا۔

 اگرچہ تیسرے فریق کی ثالثی کے ذریعے یہ لڑائی ختم ہوگئی ، لیکن نئی دہلی اور اسلام آباد دونوں اس  نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ان کی افواج نے جوہری جنگ سے گریز کرتے ہوئے حریف کو روایتی کشیدگی کی بھاری قیمت اُٹھوانے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگرچہ جنوبی ایشیائی اور بین الاقوامی تجزیہ کار اب یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بحرانات زیادہ تیزی سے اور غیر متوقع طور پر بڑھنے کا امکان ہے، لیکن دونوں ریاستیں پریسیشن سٹرائک (تیر بہدف) دستوں کو فوج میں شامل کرتی  جا رہی ہیں، جو ایک دوسرے کے خلاف محدود جنگ جیتنے میں ان کے اعتماد میں اضافہ کرتے ہیں، اور ارادی  یا غیر ارادی طور پر جوہری کشیدگی کو روکنے میں مدد دیتے ہیں۔

جنوبی کوریا سےمماثلت

پہلی نظر میں ۳۸ پیراریل  (۳۸ خطِ عرض بلد) خطے میں شمالی کوریا کے خطرات سے نمٹنے کا جنوبی کوریا کا تجربہ پاکستان ہندوستان تعلقات سے بہت مختلف دکھائی دیتا ہے جس سے کوئی بامعنی خوشہ چینی ممکن نہیں  نظر آتی ۔ جمہوریہ کوریا (آر او کے) کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہیں، وہ ایک ایکسٹنڈڈ  ڈیٹرنس  کمٹمنٹ  (کسی دوسری ریاست کے خلاف حملے کو روکنے) کے تحت امریکہ کا اتحادی ہے اور مستقل طور پر مشترکہ تربیتی کارروائیوں اور فوجی منصوبہ بندی کے ساتھ امریکی افواج کی میزبانی کرتا ہے۔ اس کا حریف ڈیموکریٹک ریپبلک آف کوریا (ڈی پی آر کے) دنیا کی غریب ترین ریاستوں میں سے ایک ہے، اور اس کے باوجود اس نے بیک وقت ہندوستان یا پاکستان سے وسیع تر رینج والے جوہری ہتھیار تیار کر لئے ہیں۔

تاہم پیونگ یانگ کی غیر روایتی اشتعال انگیزیوں کے حوالے سے سیئول کا انتظام ہندوستان اور پاکستان کی طرح کی کشمکش کی نشاندہی کرتا ہے۔ شمالی کوریا نے دسمبر ۲۰۲۲ میں جنوبی کوریا کی فضائی حدود میں متعدد ڈرون بھیجے تھے، جو ۱۹۵۳ کے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی تھی، جس میں سے ایک نے کامیابی کے ساتھ سیئول کی فضائی حدود میں  پرواز کی اور صدارتی دفتر کے ارد گرد نو فلائی زون میں داخل ہوا۔ صدر یون سک یول نے شمالی کوریا کی اشتعال انگیزیوں کا  کئی گنا بڑھ کر بھرپور جواب دینے کی صلاحیت کا اظہار کیا تھا اور اس کے دو ہفتے بعد ہی انہوں نے جوہری ہتھیاروں کے حق میں بیان دیا تھا۔

ایک اور مثال کے طور پر شمالی کوریا کی جانب سے مارچ ۲۰۱۰ میں جمہوریہ کوریا (آر او کے) کے کورویٹ ( تیز رفتار چھوٹا فوجی بحری جہاز) چیونان کو غرق کرنے کے بعد نومبر میں یون  پیانگ جزیرے پر جنوبی کوریا کے ٹھکانوں پر توپوں سے شدید بمباری کی گئی تھی۔ اس کے نتیجے میں سیئول نے نہ صرف مقامی توپ خانے کی جوابی بمباری کا آغاز کیا بلکہ شمالی کوریا کے توپ خانے پر زمینی حملے کرتے ہوئے شمالی کوریا کے کسی بھی دشمن جنگجو پر حملہ کرنے کے لئے ایف ۱۶ کے لڑاکا طیاروں کو بھی جھڑپوں میں استعمال کیا۔ اطلاعات کے مطابق جنوبی کوریا کے صدر لی میونگ بک ایف ۱۶ کے ان احکامات کے خلاف فوجی مزاحمت پر مایوسی کا شکار تھے کیونکہ انہوں نے ریسٹریکٹیو رولز آف انگیجمنٹ (جھڑپوں کے لئے امتناعی قوانین) کا حوالہ دیا اور ان کا خیال تھا کہ اس آپریشن کے لیے زیادہ مستحکم امریکی رضامندی کی ضرورت ہے۔ یہ واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جنوبی کوریا شمالی کوریا کی اشتعال انگیزیوں کا بھرپور جواب دینے کی اُس کی صلاحیت پر حائل رکاوٹوں کو نرم کرنے کو، متعدد رہنماؤں پر ترجیح دیتا ہے۔

اس کے علاوہ، سیئول بھی اپنے مزید غیر روایتی اقدامات کی حمایت کرنا شروع کر سکتا ہے۔

جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والے  سرگرم کارکنان نے ۲۰۱۴ اور ۲۰۲۲ میں شمالی کوریا میں ادویات اور پروپیگنڈا لے جانے والے غبارے چھوڑے تھے۔ دونوں واقعات کے نتیجے میں ڈی ملٹریائزڈ زون (ڈی ایم زیڈ) پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ پیونگ یانگ کی جانب سے سنگین نتائج کے انتباہ کے باوجود سیئول اب مبینہ طور پر شمالی کوریا میں اس طرح کے غبارے بھیجنے کو ناقابلِ تعزیر قرار دینے پر غور کر رہا ہے۔ سیئول نے دسمبر ۲۰۲۲ میں ہونے والے ڈرون حملوں کے جواب میں شمالی کوریا میں فوجی تنصیبات کی تصاویر  لینے کے لیے اپنے سرویلینس (نگران) ڈرون بھیجے تھے۔

سیئول کی روایتی  پریسیشن (تیر بہدف) میزائلوں سے وابستگی ایسی ہے کہ وہ واحد غیر جوہری ملک ہے جس کے پاس آبدوز سے داغے جانے والے بیلسٹک میزائل ہیں۔

اپنی مقامی بیلسٹک اور کروز میزائل فورس پر میزائل پے لوڈ کی حد ختم کرنے کے لیے امریکہ پر کامیابی سے دباؤ ڈالنے کے بعد، جنوبی کوریا اپنی روایتی کاؤنٹر فورس  صلاحیتوں کو بڑھانے میں بھی مصروف ہے، جس میں کم جونگ ان کو براہ راست نشانہ بنانے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ سیئول کی روایتی  پریسیشن (تیر بہدف) میزائلوں سے وابستگی ایسی ہے کہ وہ واحد غیر جوہری ملک ہے جس کے پاس آبدوز سے داغے جانے والے بیلسٹک میزائل ہیں۔ یہ دانستہ  فیصلے شمالی کوریا کی غیر روایتی اشتعال انگیزیوں کے لیے بڑھتے ہوئے قابل یقین خطرات کا باعث بنتے ہیں جبکہ امریکی مشترکہ فوجی ڈھانچے سے آزادانہ طور پر اس طرح کی کارروائیاں کرنے کی اس کی آزادی کو مضبوط کرتے ہیں۔ تجزیہ کاروں نے متنبہ کیا ہے کہ ان پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہوئے جنوبی کوریا کے ردعمل سے شمالی کوریا کے ساتھ ایک جنگِ عام کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، جس کے  نتائج بے لگام ہوسکتے ہیں۔ یہ خیال کہ برتر روایتی اور ممکنہ طور پر جوہری سطح پر حملہ کی دھمکی سےغیر روایتی استحکام حاصل کیا جا سکتا ہے، جنوبی ایشیا کے اسی نقطہ نظر پر عمل پیرا ہونے کے نتائج کے ریکارڈ کی وجہ سے کمزور پڑ گیا ہے۔

ماحاصل

جب تک جنوبی کوریا اپنے آپشنز  (انتخابات) پر غور کر رہا ہے، جنوبی ایشیا سے حاصل کردہ  مزید سبق ہیں جن پروہ غور و فکر کر سکتا ہے۔ سٹیمسن سینٹر کی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ہندوستانی رہنما اس بات کا چناؤکر سکتے ہیں اور کرتے بھی ہیں کہ کون سی اشتعال انگیزی کو ہندوستانی فوجی ردعمل کے ساتھ ‘بحران’ سمجھا جائے۔ مارچ ۲۰۲۲ میں ہندوستان کی جانب سے پاکستان کی حدود میں حادثاتی طور پر کروز میزائل داغے جانے کے بعد اسلام آباد نے فوجی برداشت کا مظاہرہ کیا اور صرف سفارتی تنقید کی۔ اس طرح کے واقعات اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ ہر غیر روایتی اشتعال انگیزی کو مسلح رد عمل کی ضرورت نہیں۔ اگرچہ یہ نکتہ واضح نظر آ تا ہے، لیکن سیئول کے اسلحہ خانے میں داخل ہونے والے نئے پریسیشن سٹرائیک (تیر بہدف) ہتھیار اس کے پالیسی سازوں کو اپنے بڑھتے ہوئے قابل اعتماد محدود فوجی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کام کرنے کے نئے لالچ دیں گے۔

دوسرا سبق یہ ہے کہ گفت و شنید اور خطرات میں کمی  لانے کے اقدامات دشمنی کو معتدل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ آر او کے (جنوبی کوریا) اور ڈی پی آر کے (شمالی کوریا)  کے تعلقات جتنے مشکل ہیں، اس حقیقت کے ساتھ کہ وہ امریکہ اور چین کے وسیع تر علاقائی مسابقت کے ساتھ  اُلجھے ہوئے ہیں، سیئول اور پیونگ یانگ کے لیے یہ زیادہ ضروری ہے کہ وہ اپنے موجودہ مدار کے تحت  حادثاتی جھڑپوں کے خدشات  کو تسلیم کریں اور خطرات میں کمی کے  اقدامات پر گفت و شنید کریں۔ ہندوستان اور پاکستان اپنی بظاہر ہٹیلی مسابقت کے باوجود اب بھی ایسے کئی معاہد ے طے کرنے  میں کامیاب رہے ہیں۔ جزیرہ نما کوریا کے لیے خاص طور پر متعلقہ امور میں بیلسٹک میزائل فلائٹ ٹیسٹ پری نوٹیفیکیشن پروٹوکول اور فوجی مشقوں کی پیشگی اطلاع دینے کا معاہدہ شامل ہے۔ اگرچہ جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کے تعلقات کی موجودہ صورتحال اس طرح کے اقدامات پر تبادلہ خیال کے لئے خاص طور پر سازگار نہیں ہے ، لیکن اس سمت میں ایک ابتدائی قدم    ہندوستانی اور پاکستانی حکام کے ساتھ مذاکرات  اوران انتظامات  سے عہدہ برا ہونےکے  لئے جنوبی کوریا سےخاموشی سے بات چیت کی جا سکتی ہے۔ اس تجربے کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے ان معاہدوں پر بیک چینلز کے ذریعے،  کسی نہ کسی طرح ، انٹر کورین  مکالمے میں مدد مل سکتی ہے۔  ان کا ڈیزائن اور آپریشنلائزیشن سیئول اور پیونگ یانگ کے لئے حادثاتی طور پر کشیدگی میں اضافے کے خطرات سے نمٹنے کے لئے نمونے کے طور پر کام کرسکتا ہے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: U.S. and ROK Air Forces conduct a mission over the Korean Peninsula via Flickr

Image 2: U.S. Secretary of Defense visits ROK Soldiers at the DMZ via Flickr

Share this:  

Related articles

पर्वतों से समुद्री तटों तक: गलवान के पश्चात् भारत-चीन प्रतिस्पर्धा Hindi & Urdu
جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ Hindi & Urdu

جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ

ریاستہائے متحدہ امریکہ ، 20 ویں صدی کے وسط سے…

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے Hindi & Urdu

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف رواں ماہ کے اوائل میں صدر شی جن پنگ اور دیگر اعلیٰ چینی حکام سے ملاقاتوں کے بعد تقریباََ خالی ہاتھ وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ چین نے واضح انضباطِ اوقات ( ٹائم لائن) کے تحت پاکستان میں بڑے منصوبوں کے لئے سرمایہ کاری کا وعدہ نہیں کیا۔ اس […]