Army-female-soldiers-1095×616

یہ بات تقریباً عالمی طور پر تسلیم شدہ ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے کا رجحان کسی بھی ملک میں بہتر طرز حکمرانی، معاشی ترقی، بہتر انسانی ترقی کے اشاریے اور مجموعی استحکام کا باعث بنتا ہے۔ مزید یہ کہ پچھلی دہائی سے تعلیمی تحقیق کا ایک بڑھتا ہوا حجم یہ واضح کرتا ہے کہ خواتین کی معاشی، سیاسی، اور سماجی شرکت میں سرمایہ کاری ایک زیادہ متمول معاشرے اور زیادہ پر امن دنیا کی طرف لے کے جاتی ہے جو خواتین کی بہتری میں سرمایہ کاری کا ایک اہم نتیجہ ہے۔

اس کے باوجود، تجارت یا قومی سلامتی کے کچھ ”سخت“ اور ”انتہائی اہم“ معاملات پر غور کرتے وقت متعدد حکومتوں نے صنفی طور پر اندھے پن کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایشیا میں حالیہ برسوں میں حکومتوں کو خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کے شعبوں میں زیادہ صنفی شمولیت پر زور دینے کی ضرورت پر ایک بڑھتا بیانیہ جنم لے رہا ہے۔ کم اہم سمجھے جانے والے مسائل، یعنی صحت، انسانی حقوق، جی بی وی، ہجرت بمقابلہ مشکل سمجھنے جانے والے مسائل، جیسے کہ تجارت، سلامتی معاملات اور تنازعات پر صنفی نقطہء نظر کے اطلاق کا مساوی اور متوازن طور پر دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے.

”انتہائی“ اور ”کم اہم“ مسائل کے درمیان سمجھی جانے والی حد بندی کو سلجھانے اور مساوات اور شمولیت کی پوزیشن سے مسائل حل کرنے اور مختلف شعبوں میں کام کرنے کے لیے ”فیمنسٹ فارن پالیسی“ (ایف ایف پی) کے نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ ایک صنفی خارجہ پالیسی کا نقطہ نظر غیر ملکی/ سفارتی خدمات میں خواتین کی نمائندگی بڑھانے سے لے کر غیر ملکی امداد، تجارتی پالیسی، دو طرفہ آبی حکمرانی، سلامتی اور امن سے متعلق فیصلوں تک، ہر چیز میں جنس کے حوالے سے غور کرتا ہے۔

نسائی خارجہ پالیسی کی تعریف

ایک ایف ایف پی فریم ورک ہمیں مختلف ممالک میں اس قابل بناتا ہے کہ  تمام کثیرجہتی اور دوطرفہ سفارتی مصروفیات میں صنفی مساوات کے نظریے کے اطلاق کو مکمل قابل نفاظ بنانے کے لیے  وکالت کی جا سکے جو ترقیاتی امداد، تجارت، امن و تنازعات اور عالمی و قومی سلامتی کے مفاد کی وضاحت کرتی ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ ہم پدرانہ نظام کے تاریخی طور پر ثبت شدہ اصولوں پر سوال اٹھائیں اور ان پر توجہ دیں جو ریاستی شناخت، سفارتی اصولوں اور طریقوں اور طاقت اور اختیار کے کردار کے بارے میں ہماری سمجھ بوجھ کی وضاحت کی شکل میں سامنے آئے ہیں۔

اصطلاح ”نسائی خارجہ پالیسی“ پہلی بار سویڈن نے ۲۰۱۴ میں وضع کی تھی۔ سویڈش ماڈل تین پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرتا ہے: حقوق، نمائندگی، اور خواتین اور لڑکیوں کے وسائل- مزید براں یہ اپنے پورے خارجہ پالیسی ایجنڈے میں صنفی مساوات کے ایک منظم تناظر کو لاگو کرنے کا عہد کرتا ہے۔ جن تین اہم شعبوں میں اس کا اطلاق ہوتا ہے ان میں مندرجہ ذیل شامل ہیں: خارجہ اور سلامتی پالیسی، ترقیاتی تعاون، اور تجارت اور فروغ۔ جن ممالک نے اپنی ترقیاتی ایجنسیوں میں صنفی مساوات کی حکمت عملی اپنائی ہے ان میں کینیڈا، آئرلینڈ، جاپان، برطانیہ، فرانس اور میکسیکو شامل ہیں۔ میکسیکو عالمی جنوب میں پہلا ملک تھا جس نے جنوری ۲۰۲۰ میں حقوق نسواں کی خارجہ پالیسی کا اعلان کیا۔ میکسیکو کی ایف ایف پی کی رہنمائی درج ذیل اصولوں سے ہوتی ہے: خارجہ پالیسی میں صنفی نقطہ نظر، وزارت خارجہ کے اندر برابری، صنفی بنیاد پر تشدد کا مقابلہ کرنا، مرئی مساوات، اور وزارت خارجہ کے تمام شعبوں میں حقوق نسواں کو ضم کرنا۔

فارن پالیسی تجزیاتی جریدے میں شائع ہونے والے مضمون ”صنفی خارجہ پالیسی: تجزیے کے لیے ایک تقابلی ڈھانچہ“ میں، تعلیمی ماہرین نے ”صنفی مساوات“ کے اصولوں کی وسیع پیمانے پر تعریف کی ہے جو خارجہ پالیسی کے شعبے میں چار قسم کے وعدوں پر مشتمل ہیں: (1) صنفی مساوات اور خواتین کے حقوق کو آگے بڑھانے کے لیے پالیسی کے نظریے کے طور پر ”صنف مرکزی دھارے میں لانے“ کی واضح مشق، جو خارجہ سلامتی اور دفاع، اقتصادی ترقی، تجارت، امداد، اور انسانی حقوق کی پالیسیوں اور خارجہ پالیسی سازی کی تمام سطحوں پر کلیدی مسائل کے طور پر ہو؛ (2) بین الاقوامی ترقیاتی امداد جو کافی حد تک صنفی عدم مساوات کو نشانہ بناتی ہے اور صنفی تعلقات کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ (3) اقوام متحدہ کے خواتین کے امن و سلامتی (ویمن، پیس اینڈ سیکورٹی) کے ایجنڈے کے ساتھ وابستگی اور ویمن، پیس اینڈ سیکورٹی پر نیشنل ایکشن پلانز کو اپنانے کے ثبوت کے طور پر ریاستی استحکام اور بین الاقوامی سلامتی کے اشارے کے طور پر خواتین کی سلامتی اور انسانی حقوق پر توجہ مرکوز کرنا؛ اور (4) دیگر ٹھوس خارجہ پالیسی صنفی مساوات کے ادارہ جاتی یا قانون سازی کے طریقہ کار، جیسے خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے کے لیے عالمی سفیروں کی تعیناتی یا زیادہ صنفی مساوات کے حصول کے لیے خارجہ پالیسی کے پورٹ فولیو میں خواتین کی قیادت کو فروغ دینے کے لیے واضح وعدے۔

کووڈ ۱۹ کا دور جنوبی ایشیا میں صنف پر مبنی خارجہ پالیسی کا مطالبہ کرتا ہے

آج دنیا بھر کووڈ ۱۹ کی عالمی وبا سے لڑ رہی ہے، قوموں اور برادریوں کی روزمرہ  زندگی میں بے مثال خلل کا سامنا ہے، عالمی معیشتیں غیر منقطع ہو گئی ہیں؛ ایسی مشکلات کا سامنا  تمام دنیا نے پچھلی پوری صدی میں نہ کیا تھا۔ جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ جو قیمت ادا کرنی پڑی ہے اس میں غربت کی بلند سطحیں، روزی اور روزگار کا نقصان، صحت پر طویل اور قلیل مدتی اثرات، اور بڑھتی ہوئی تفاوت کا معاشی بحالی اور ترقی پر طویل مدتی اثرات شامل ہیں۔ ان حالات میں اب پہلے سے کہیں زیادہ، یہ تسلیم کرنا ناگزیر ہو گیا ہے کہ عالمی سطح پر ایک پائیدار اقتصادی تبدیلی کے لیے صنفی مساوات کو ایک کلیدی اعشاریہ کے طور پر شامل کرنے کی ضرورت ہوگی۔

اس کے لیے ضروری ہو گا کہ ممالک شعوری طور پر تمام ترقیاتی امداد، اقتصادی ترقی کے محرک پیکجوں اور تجارتی پالیسیوں میں صنفی مساوات کے بنیادی اصولوں کی شناخت کریں، ان کو ترجیح دیں اور ان مرکزی اصولوں کی نشاندہی کریں جن پر وہ گفت و شنید  کرتے ہیں اور ان اصولوں پر مبنی صحت کی دیکھ بھال اور طبی تحقیق، صاف توانائی اور آب و ہوا پر دو طرفہ یا کثیر جہتی تعاون وغیرہ کے اہداف یا کوئی دوسرے ایسے مسائل جو طویل مدتی سماجی و اقتصادی استحکام اور ترقی کو متاثر کرتے ہیں، کے پروگرام شروع کریں۔ ایف ایف پی  پر مبنی پالیسی کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے پروگراموں اور پالیسیوں میں صنفی اصولوں کو بیان کرنے، شعبہ جاتی صنفی تجزیہ کرنے کے لیے درکار تکنیکی مدد کی سہولت فراہم کرنے کے لیے بجٹ مختص کرنے اور پالیسیوں اور پروگراموں کو خارجہ پالیسی کے معاملات میں عملی شکل دینے کے لیے درکار صلاحیت کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔

ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا چاہیئے کہ اس روایتی طریقے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے جس طریق سے ہم خارجہ پالیسی کے ساتھ  جڑے ہوے ہیں ۔ مثال کے طور پر خواتین کے امن اور سلامتی کے مسائل آج کسی بھی قیام امن کے مذاکرات یا معاملے میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ قومی ریاستیں اور کثیر الجہتی ایجنسیاں اس ضرورت سے زیادہ واقف ہیں اور خارجہ پالیسی کی مصروفیات کے مختلف شعبوں میں اس نقطہ نظر کو بیان کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہیں۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ بہت سے ممالک، جنوبی ایشیا میں اور اس کےعلاوہ بھی، جمہوری طور پر منتخب حکومتوں کا تختہ الٹتے ہیں اور آمرانہ اور جابرانہ حکومتوں کی طرف چلے جاتے ہیں۔ یہ بات اب نوشتہ دیوار بن چکی ہے کہ ایسے حالات میں خارجہ پالیسی کے کسی بھی تحفظ کے لیے ایک اچھی طرح سے متعین صنفی (نسائی) نقطہ نظر کی ضرورت ہوگی، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہم عدم مساوات اور پسماندگی کو فروغ دینے کی حمایت یا مدد نہیں کرتے ہیں۔

شاید وقت آ گیا ہے کہ ایشیائی رہنما ایک ایسی صنفی خارجہ پالیسی تیار کریں جو ایشیائی ممالک کے لیے منفرد اور قابل نفاذ ہو اور صنفی مرکزی دھارے میں لانے کے نظریات پر بحث شروع کریں۔ ہو سکتا ہے ایشیا بھر کے ممالک کے پاس نیشنل ایکشن پلان نہ ہوں، لیکن انہوں نے پالیسی فیصلوں (ملکی اور غیر ملکی دونوں) کو نافذ کیا ہے جو تبدیلی کا اشارہ دیتے ہیں۔ ہندوستان کا صنفی بجٹ ایسی ہی ایک مثال ہے، اور بہت سی دوسری مثالیں بھی ہو سکتی ہیں۔ جنوبی ایشیا نے خواتین کے لیے ایسے مواقع اور جگہیں کھولنے میں بھی بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے جو روایتی طور پر ”صرف مردوں کے لئے“ سمجھی جاتی تھیں۔ مثال کے طور پر، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں دفاعی خدمات کے فرنٹ لائن جنگی یونٹوں میں خواتین کے لیے رسائی دی ہے۔ ہمیں صنفی مساوات کے بارے میں اپنی قومی جیتوں اور نافذ نقطہ نظر کو پرکھنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ وہ ہماری خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں نظر آتے ہیں۔

ہندوستان میں خارجہ پالیسی کے حکام نے اس سے نمٹنے کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے۔ ہندوستان کے وزیر خارجہ نے ایک حالیہ مضمون میں کہا ہے کہ ’’میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہمیں دنیا کو خواتین کے نقطہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے، ہمیں متوازن صنفی خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہاں تین چیزوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے: خارجہ پالیسی کے معاملات میں زیادہ سے زیادہ خواتین کو شامل کرنا، خارجہ پالیسی میں خواتین کے مفادات کی عکاسی کرنا، اور خارجہ پالیسی میں حقوق نسواں کا نقطہ نظر لانا۔“

فی الحال، صرف ۷۴ کے لگ بھگ آزاد تجارتی معاہدوں میں صنف کا حوالہ دیا گیا ہے- قابل ذکر ۲۰۱۶ کا چلی-یوراگوئے معاہدہ ہے جس میں صنف پر ایک پورا باب ہے۔ بہرطور، تجارتی پالیسی یقینی طور پر ایک آلہ ہے جو صنفی مساوات کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہی بات دفاعی پالیسی کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے- جس میں وزارتی سطح پر ممالک فوج، پولیس اور امن فوج میں خواتین کی شمولیت کی کم از کم فیصدی کا پختہ عزم کر سکتے ہیں، اور ان اداروں میں خواتین کی برقرار شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے پالیسیاں بھی نافذ کر سکتے ہیں۔ ایسی رہنمائی کرنے والی پالیسیوں کو نافذ کرنا اور ان پر عمل درآمد کرنا جو اہداف متعین کرتی ہیں، اور صنف کو معاشرے میں شامل کرتی ہیں ضروری ہے۔ صنفی مساوات پر رہنمائی  اور اس کے حصول کے لئے اہداف مہیا کرنے والی پالیسیوں کے ترتیب اور نفاذ سے اقتصادی ترقی کے لئے پائدار حل حاصل کرنے میں یقیناً مدد ہوسکتی ہے جو کہ انسانی سیکورٹی اور شمولیت کو فروغ دینے کے عزم پر مبنی ہو۔ حقوق نسواں کی تحریک نے تمام شعبوں میں صنفی مساوی شمولیت کو دیکھنے کے لیے پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے جگہ بنائی ہے۔ یہ مشکل سے جیتی گئی جنگیں ہیں، اور ان جیتوں کے نفاذ پر سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہیئے۔ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ ہر ملک کی مصروفیت کے اٹوٹ حصہ کے طور پر مساوات اور حقوق کی بات چیت کو مرکزی دھارے میں لانے کی ضرورت ہے اور حقوق نسواں کی خارجہ پالیسی کے نقطہ نظر کو اپنانے سے ہمیں ایسا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

مصنفہ محترمہ دیا ناگ، (ایس پی او- ٹی اے ایف ) کی کام میں شمولیت کو تسلیم کرنا چاہیں گی۔

ایڈیٹر کا نوٹ: جب سے سویڈن نے ۲۰۱۴ میں حقوق نسواں کی خارجہ پالیسی کا اعلان کیا ہے، کئی دیگر ممالک نے بھی اس سفر کا آغاز کیا ہے، تاہم بات چیت اور فریم ورک کی جڑیں زیادہ تر مغربی ممالک میں ہیں۔ یہ سلسلہ، کوبرنائن انیشیئٹو کے ساتھ مشترکہ طور پر چلایا جاتا ہے، پورے برصغیر کے معاونین اس بات پر تبادلہ خیال کرتے ہیں کہ ”نسائی خارجہ پالیسی“ کا مطلب کیا ہے اور یہ نقطہ نظر جنوبی ایشیا میں خارجہ امور، علاقائی پالیسی اور جغرافیائی سیاست، ترقی اور خواتین کو بااختیار بنانے میں کوششوں کو کیسے ملا سکتا ہے۔ یہ سلسلہ پوچھتا ہے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک نے کس حد تک حقوق نسواں کی خارجہ پالیسی کے نقطہ نظر کو شامل کیا ہے، اور جن طریقوں سے صنفی شعور رکھنے والا نقطہ نظر برصغیر میں سلامتی، جمہوریت اور سفارت کاری کی حمایت کر سکتا ہے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Abhishek Chinnappa/Stringer via Getty Images

Image 2: Abhishek Chinnappa/Stringer via Getty Images

Share this:  

Related articles

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا Hindi & Urdu

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا

کواڈ کے نام سے معروف چار فریقی سیکیورٹی ڈائیلاگ کے…

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع  Hindi & Urdu

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع 


سرد جنگ کے دوران جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات…

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…