Pak

جنوری ۲۰۲۳ میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پاکستان کے نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا العلا میں اپنےسرمائی کیمپ میں استقبال کیا ۔اگرچہ بات چیت دفاعی تعاون پر مرکوز تھی، لیکن پاکستان کی پالیسی اشرافیہ  کو امید  تھی کہ اس دورے سے بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کو  سنبھالنےکے لئے ضروری نقد امداد حاصل ہو جائے گی۔جنرل منیر کے دورے کے صرف ایک دن بعد  ہی ایم بی ایس نے پاکستان کی گزارشات کا جواب  دے دیا اور ملک کے لیے  مالی امداد بڑھانے کی ہدایات جاری کیں۔تاہم سعودی ولی عہد نے یہ بھی کہا کہ اب ان کا ملک پاکستان کو غیر مشروط امداد فراہم نہیں کرے گا۔ایک مشکل معاشی ماحول میں اسلام آباد کو  مستقل سعودی امداد کے حصول کےلیے اپنے سامانِ محافظت (سیکیورٹی پرووژن) اور اہلِ جوہر  (ہیومن ٹیلنٹ)سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔

اس وقت اسلام آباد کے پاس ریاض کی شطرنج میں  دوبارہ اجارہ داری قائم کرنے کا موقع ہے کیونکہ شریف خاندان اور سعودی قیادت  کے اعلیٰ عہدیداران کے درمیان دیرینہ تعلقات ہیں۔تاہم عمران خان کے دور ِ حکومت میں پاکستان اور ریاض کے تعلقات میں تنزلی آئی ، خاص طور پر ۲۰۱۹ میں جب انہوں نے سعودیوں کے دباؤ کا حوالہ دیتے ہوئے کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور ۲۰۲۰ میں جب سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مسئلہ کشمیر پر ریاض کے  غیر اطمینان  بخش ردعمل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔شریف کے زیرِ قیادت حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد اسلام آباد کو اب حرکت میں آنا چاہیے۔

اس میں جغرافیائی سیاست  کابھی ہاتھ ہے۔ ہندوستان اور سعودی عرب کے درمیان مضبوط اقتصادی تعلقات پاکستان کے لئے علاقائی جغرافیائی سیاسی نقشے پر قدم  جمانے کے لئے تیزی سے جگہ  گھٹا رہے ہیں۔مزید برآں، سعودی عرب، مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے معاندانہ ماحول  کا، جس  کا مرکز ایران  ہے، ادراک رکھتا ہے، اور اس نے اپنے  پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (پی آئی ایف) کو متنوع بنانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کے ایس اے کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے دستیاب فنڈز پر کوئی پابندی نہیں ہے۔اگرچہ حرکت پذیری کی گنجائش کم ہوتی جا رہی ہے لیکن اسلام آباد کے پاس اب بھی  داؤ کھیلنے کی گنجائش موجود ہے۔

اسلام آباد کو چاہیے کہ وہ مزیدسعودی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے  تدبیر کاری سے اپنی سکیورٹی پارٹنرشپ سے  فیض یاب ہو اور بیرون ملک ملازمتوں کے لیے اپنی افرادی قوت کی تربیت کرے۔ پاکستان سعودی سرمایہ کاری کے لیے موزوں ماحول فراہم کرتا ہے جبکہ مضبوط سیکیورٹی تعلقات پاکستان میں ممکنہ ایرانی اثر و رسوخ کو روکنے میں مدد دیتے ہیں جو اسلام آباد اور ریاض کا مشترکہ مقصد ہے۔  آنے والے وقت میں،اسلام آباد کو نقد امداد  کےقرضوں  پرانحصار سے دور رہنا ہوگا اور باہمی فائدہ مند شراکت داریوں میں سرمایہ کاری اور پائیدار روابط قائم کرنے کے لئے سعودی مدد کو استعمال کرنا ہوگا۔

پاک سعودی فوجی تعلقات

پاکستان، بنیادی طور پر اپنے  جغرافیائی تزویراتی محل وقوع اور ان کے مشترکہ سیکیورٹی انتظامات کی وجہ سے،  طویل عرصے سے ریاض کے علاقائی بلیو پرنٹ کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ اس بات کو اس حقیقت سے تقویت ملتی ہے کہ ایک اہم مسلم اکثریتی ملک کی حمایت کو سعودی عرب کے اس دعوے کی تائید کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اسلام کے دو مقدس ترین مقامات کا صحیح محافظ ہے۔ 

پاکستان اور سعودی عرب نے ۱۹۶۰ کی دہائی سے سیکیورٹی تعاون کو فروغ دیا ہے۔ ۱۹۶۹میں یمن کے ساتھ سعودی عرب کے تنازعہ میں پاکستانی پائلٹس رائل سعودی ائیر فورس  کے جیٹ طیاروں کے انچارج تھے۔  دس سال بعد پاکستان نے ۱۹۷۹ میں  خانہ کعبہ  پر قبضے کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ۱۹۸۲ میں ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کر کے دونوں فریقین نے سعودی سرزمین پر پاکستانی فوجیوں کی تعیناتی کو قانونی شکل دے دی۔اس میں مزید توسیع کے ذریعے تربیت (ٹرینگ)، مشترکہ مشقیں اور انٹیلی جنس  کے تبادلے کو بھی  شامل کیا گیا۔اس وقت تقریباََ ۱۸۰۰ پاکستانی فوجی سعودی عرب میں تعینات ہیں۔

پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال

پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے روابط کی طویل تاریخ ہے، اسلام آباد نے گزشتہ ۷۵ سالوں میں ۲۲ بار آئی ایم ایف سے رابطہ کیا ۔اگست ۲۰۲۲ میں پاکستانی حکومت آئی ایم ایف سے ۱.۲ بلین امریکی ڈالر کا قرضہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ مالیاتی پالیسیوں پر اختلافات کی بدولت قرض کی دوسری قسط روک دی گئی ہے۔ مزید برآں اسلامی ترقیاتی بینک اور یورپی یونین (ای یو) سمیت مختلف اداروں  نے  بین  الاقوامی کانفرنس  برائے موسمیاتی تغیر پذیر پاکستان (انٹرنیشنل کانفرنس آن کلائمٹ ریزیلینٹ پاکستان) کے دوران ۸ بلین  سے زائد امریکی ڈالر  دینے کے جو وعدے کیے تھے، خدشہ ہے کہ انہیں آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے مشروط کر دیا جائے۔

اس وقت پاکستان  توازنِ ادائیگی (بیلنس آف پیمینٹ) کے بحران سے گزر رہا ہے۔۹  فروری ۲۰۲۳ کو یہ بتایا گیا کہ زرمبادلہ کے ذخائر ۳ بلین امریکی ڈالر سے نیچے گر گئے ہیں۔اکتوبر ۲۰۲۲ میں افراط زر کی شرح بڑھ کر ۲۶ فیصد ہوگئی اور جنوری ۲۰۲۳ میں بتایا گیا کہ ۲۰۲۳ کے پہلے چھ ماہ میں  افراط زر کی شرح اوسطا ۳۳  فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔مجموعی طور پر بے روزگاری کی شرح ۶.۳ فیصد ہے جس میں سے ۳۱ فیصد نئے گریجویٹس  ہیں۔ ۲۰۱۰ سے اب تک پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری جی ڈی پی کا تقریبا ۰.۸ فیصد رہی ہے۔ 

ایشیائی ترقیاتی بینک کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کے مالیاتی سال ۲۰۲۳ کے نقطہ نظر کا خلاصہ پیش کیا گیا، جس میں بتایا گیا  کہ پاکستان کی معیشت  سے ’’سخت مالیاتی موقف، اعلیٰ  افراط زر اور غیر سازگار عالمی ماحول کے ساتھ مل کر حقیقی مجموعی  ملکی   پیداوار (جی ڈی پی) کی نمو کو سست کرنے کی توقع ہےــ۔‘‘ مرے پر سو درّے، ۲۰۲۲  میں پاکستان کو تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں اندازاََ  ۳۰  بلین سے زائدامریکی ڈالر کا نقصان ہوا۔ 

اسلام آباد  کو  رواں چلنے کے لیے سعودی عرب سمیت غیر ملکی امداد کی ضرورت ہے۔ ۲۰۱۸ سے ۲۰۲۲ کے دوران ریاض کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی امداد ۲۲ بلین امریکی ڈالر سے بڑھ گئی ہے۔سرکاری ذرائع کے مطا بق اپریل سے نومبر ۲۰۲۲ کے درمیان ریاض پہلے ہی ” ۹۰۰ ملین سے زائد  امریکی ڈالر کی امداد اور ۵۰۰ ملین امریکی ڈالر تیل کی درآمد  کے لئے” دے چکا ہے۔ 

اگرچہ پاکستان کو اضافی امداد کی ضرورت ہے ، لیکن اس کی مسلسل معاشی مشکلات کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو براہ راست سرمایہ کاری واپس لینے کا مشاہدہ  کرنا پڑا۔بڑھتے ہوئے تذبذب  کا سامنا کرتے ہوئے، پاکستان کو ممکنہ سرمایہ کاروں کے لئے اپنے آپ کو مزید پرکشش بنانا ہوگا۔

پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری کی راہیں

پاکستان سعودی عرب کے ساتھ مشترکہ سامانِ محافظت (سیکیورٹی پرووژن)  بالخصوص معاونت، مشاورت، تربیت  (ٹرینگ)اور اسلحے کی برآمدات کے حوالے سے زیادہ آسانی سے سہولت فراہم کر سکتا ہے۔محافظت (سیکیورٹی) فراہم کرنے والے کے طور پر پاکستان کے کردار کو جوہری صلاحیت رکھنے والے واحد مسلم اکثریتی ملک کی حیثیت سے تقویت ملتی ہے۔ مزید برآں، یہ دیکھتے ہوئے کہ امریکہ نے اپنی افواج کو مشرق وسطیٰ سے دور کر دیا ہے، ریاض اپنے   سیکیورٹی خدشات، بالخصوص  برائےایران ، کو دور کرنے کے لیے نئے راستے تلاش کر سکتا ہے۔سعودی عرب میں پہلے سے ہی تعینات شدہ  فوج ہونے کی  بدولت پاکستان ایک قابل عمل آپشن پیش کرتا ہے۔

سعودی عرب کی ڈیٹرنس صلاحیت کو مضبوط بنانے کے لیے پاکستان کو سعودی عرب میں اپنی فوج کی موجودگی کو فروغ دینا چاہیے۔ چونکہ یہ پہلے سے موجود معاہدے کے دائرہ کار میں آئے گا، لہذا ایرانی ناراضگی کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ مزید برآں، سرزمین پر فوج رکھنے کے علاوہ  پاکستان ایک باضابطہ مشاورتی کمیشن قائم کر سکتا ہے۔

اگرچہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز  کی داخلی مانگ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے،  لیکن دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کی جانب سے بڑھتی ہوئی مسابقت کے پیش نظر غیر متعلقہ ہونے کے بڑھتے ہوئے خدشے کے پیش نظر،فوج کے سعودی عرب میں تقرر سے پاکستان کو ایک ایسا موقع ہاتھ آ گیا ہے جس کی شدّت سے ضرورت تھی۔ فوج کی تعیناتی نے دونوں ممالک کے درمیان ایک “انوکھا رشتہ” قائم کیا ہے۔

سعودی عرب بھی عالمی روابط کو وسعت دینا چاہتا ہے۔ سعودی قومی وژن ۲۰۳۰ کو پاکستان کے سسٹینابل ڈیویلوپمنٹ گول  (ایس ڈی جی ایس) ایجنڈے کے ساتھ ضم کرکے، ریاض  پاکستان میں ایسا کر سکتا ہے۔

پاکستان میں خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیڈز) سعودی عرب کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضروریات  کو پورا کرسکتے ہیں۔مثال کے طور پر سیالکوٹ میں، جو پاکستان میں کھیلوں کے سامان کا گڑھ ہے، سعودی سرمایہ کاری سے، و ژن ۲۰۳۰ کے مطابق، کے ایس اے کے کھیلوں کے فروغ کے ہدف کو حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔

پاکستانی اور سعودی تاجروں دونوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان موافقت اور تقابلی فائدے کے شعبوں کا تعین کریں۔ دونوں جانب کے چیمبرز آف کامرس کو زیادہ باقاعدگی سے بات چیت اور ضروری قانونی اصلاحات کے لئے ایک فریم ورک کی ضرورت ہے، جو سرمایہ کاری پر موزوں منافع کو یقینی بنانے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔ علاوہ ازیں سعودی عرب پاکستان سپریم کوآرڈینیشن (ایس پی ایس سی سی) کے زیرِ دست، پاکستان اور سعودی عرب کو ایسے عناصر کی نشاندہی کرنے کے لئے جنہیں سعودی ویژن ۲۰۳۰ منصوبوں کے تحت پاکستان میں مکمل کیا جا سکتا ہے،مشترکہ طور پر کام کرنا چاہیئے۔گو کہ ڈیویلپمنٹ (ترقی) پاکستان میں  مرکوز ہو گی  تاہم منصوبوں سے  فائدہ سعودی عرب کو ہوگا۔ مزید برآں پاک عرب  تاجران کی نمائش بڑے شہروں میں منعقد کی جائے تا کہ وسائل کی مارکیٹنگ کی جا سکے اور پاکستان میں  براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا جا سکے۔آزاد  تجارت (فری ٹریڈ) معاہدہ بھی ممکن ہے۔

اپنے نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کی  صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لئے پاکستان کو سعودی عرب کی ضروریات کے مطابق کارکنوں کو تربیت دینے کے لئے پیشہ ورانہ ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سعودی عرب میں پاکستان کے مقابلے میں زیادہ مواقع اور بہتر تنخواہیں موجود ہیں۔

پاکستان کے لیے ترسیلات زر ملک کی ثانوی آمدنی کا سب سے اہم ذریعہ ہیں۔۲۰۲۰  میں پاکستانی تارکین وطن کی جانب سے ترسیلات زر پاکستان کی جی ڈی پی کا تقریبا نو فیصد تھیں۔ان ترسیلات زر  میں سے تقریبا ۶۰ فیصد آمدنی خلیجی ممالک سے حاصل ہوتی ہے، خصوصاً سعودی عرب سے جہاں تقریبا ۲۰ لاکھ پاکستانی کارکنان مشغولِ کار ہیں۔اس وقت، اس افرادی قوت کا زیادہ تر حصہ غیر ہنر مند مزدوروں پر مشتمل ہے، جو سعودی عرب میں آئی ٹی، سیاحت اور مالیاتی شعبوں  میں میّسر مواقع کے لئے ناموزوں ہیں۔پاکستان کی ۶۰ فیصد سے زائد آبادی ۳۰ سال سے کم عمر ہے اور بگڑتے ہوئے معاشی ماحول میں روزگار کے مواقع تلاش کر رہی ہے۔اپنے نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کی  صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لئے پاکستان کو سعودی عرب کی ضروریات کے مطابق کارکنوں کو تربیت دینے کے لئے پیشہ ورانہ ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سعودی عرب میں پاکستان کے مقابلے میں زیادہ مواقع اور بہتر تنخواہیں موجود ہیں۔

اختتامیہ

اسلام آباد کو سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے اور غیر ملکی امداد پر انحصار کم کرنے کے لیے تکلیف دہ معاشی اصلاحات کرنی ہوں گی۔تاہم اس دوران اسلام آباد خود کو ایک مشکل صورتحال میں پاتا ہے۔ریاض میں ایک نوجوان اور  سرگرمِ عمل رہنما کے صاحبِ بست و کُشاد ہونے سے پاکستان  کے لیے اب ہرممکن  موقع سےفائدہ اٹھانے کا وقت آ گیا ہے۔بظاہر اسلام آباد کے پاس پیش کرنے کے لئے کچھ زیادہ نظر نہیں آتا، خاص طور پر معاشی قدر کے نظریے کے لحاظ سے ، لیکن پاکستان اپنی جغرافیائی و اقتصادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے  جغرافیائی سلامتی  کو سمجھداری سے استعمال کر سکتا ہے۔ بلا شبہ  خاطر خواہ  داخلی سرمایہ کاری کو راغب کرنے سے ادائیگیوں کے توازن کے فرق کو ُپر کرنے میں مدد ملے گی اور پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا ملے گا  اور بار بار بیل آؤٹ حاصل کرنے کی ضرورت کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔

 

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Aamir Qureshi/AFP via Getty Images

Image 2: Saudi Royal Council / Handout/Anadolu Agency via Getty Images

Share this:  

Related articles

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع  Hindi & Urdu

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع 


سرد جنگ کے دوران جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات…

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…

جوابی کار روائی: کیا پاکستان فوجی حملوں کے رد عمل پر غور کر رہا ہے؟ Hindi & Urdu

جوابی کار روائی: کیا پاکستان فوجی حملوں کے رد عمل پر غور کر رہا ہے؟

ایران اور پاکستان کے درمیان حالیہ جیسے کو تیسا حملے …