مئی ۲۰۱۳ میں جب پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا آغاز ہوا تو پاکستان چین کے ۴.۱ بلین ڈالر کا مقروض تھا جو کہ پاکستان کے کل ۴۴.۴ بلین ڈالر بیرونی قرضے کا لگ بھگ نو فیصد تھا۔ مارچ ۲۰۲۰ تک چین سے لیا گیا قرضہ ۱۸۵ فیصد بڑھ گیا اور پاکستان کے کل ۷۲.۷ بلین ڈالر بیرونی قرضے میں سے ۱۱.۸ بلین ڈالر اسکے تزویراتی اتحادی کو واجب الادا ہیں۔ ان اعداد و شمار میں اگر چینی کمرشل بنکوں سے لیا گیا قرضہ بھی شامل کرلیں تو یہ رقم اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ آئی ایم ایف کے اعداد وشمار کے مطابق ۲۰۱۹ میں یہ رقم ۶.۷۴ بلین ڈالر کے قریب تھی۔
یہ اعداد و شمار پاکستان کے لئے چینی قرضے کے حوالے سے گہری تشویش پیدا کرتے ہیں جس کا اظہار امریکی سرکاری حکام اور تجزیہ کاروں کی جانب سے کیا جاچکا ہے۔ جہاں پاکستان کا چینی قرضے پر بڑھتا ہوا انحصار تشویش کی بڑی وجہ ہے وہیں اصل حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان کے قرضے کا مسئلہ بڑی حد تک ملک کی اپنی ناقص سیاسی معیشت کا شاخسانہ ہے ناکہ چینی بدنیتی ۔ یہ نکتہ آنے والی بائیڈن حکومت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان میں اصلاحات کی حوصلہ افزائی امریکہ چین دونوں ممالک کے مفاد میں ہوسکتی ہے۔
سی پیک- تب اور اب
۲۰۱۳ میں جس وقت سی پیک کے بارے میں مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے اس وقت پاکستان بجلی کے شدید بحران اور طالبان اور دیگر بنیاد پرست اسلامی گروہوں کے سبب بڑھتی ہوئی شورش سے متاثر تھا جس نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ختم کردیا تھا۔ اس موسم گرما میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) (پی ایم ایل این) کے اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے توانائی کی اس کمی کو پورا کرنے پر غیر معمولی توجہ دی۔ تاہم پیچیدگی یہ تھی کہ بین الاقوامی سرمایہ کار پرتشدد شورش کا شکار، سیاسی طور پر غیر مستحکم معیشت میں سرمایہ کاری میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ بچت اور سرمایہ کاری میں مسلسل فرق کا ایک یہ مطلب بھی تھا کہ داخلی بچت کو حرکت میں لاتے ہوئے بھی ان منصوبوں کی سرمایہ کاری نہیں کی جاسکتی تھی۔
یہ وہ پس منظر تھا جس میں چین نے یہ ذمہ داری اٹھائی تھی۔ چین نے اس صورتحال کو ایک ایسے موقع کے طور پر دیکھا جس میں وہ اپنی اضافی صلاحیتوں کو پاکستان کے لیے اشد ضروری انفراسٹرکچر کے منصوبوں کے لئے مختص کرتے ہوئے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ممالک میں شامل اپنے ایک تزویراتی اتحادی کے ہمراہ تعلقات کو مزید گہرا کرسکتا تھا۔ اس کا نتیجہ بجلی کی شدید کمی کے خاتمے اور اضافی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت حاصل ہونے نیز نئی سڑکوں اور ہائی ویز کی تعمیر کی صورت میں ہوا جس نے پاکستان بھر میں روابط کو بہتر بنا دیا۔
ان منصوبوں نے جہاں مستقبل قریب میں مدد کی وہیں پاکستان کے بنیادی معاشی مسائل کو حل کرنے میں بمشکل کردار ادا کیا۔ کاروباری سرگرمیوں کے لئے نامساعد حالات کی وجہ سے ملک متاثر ہوتا رہا، ہم عصر معیشتوں کے موازنے میں یہ مقابلے کی صلاحیت سے عاری رہا اور ۲۰۱۱ میں ۲۵ بلین ڈالر کی بلند ترین حد کو چھونے والی اپنی برآمدات کو بڑھانے سے قاصر رہا۔ مزید براں، چینی تعاون سے شروع ہونے والے منصوبوں نے توانائی کے شعبے میں قرضے کے بحران کو مزید بڑھاوا دیا جس کے نتیجے میں اس شعبے کا کل بیرونی قرضہ جو کہ گردشی قرضہ کہلاتا ہے جون ۲۰۲۰ میں بڑھ کے ۱۳ بلین ڈالر تک ہوگیا۔
عمران خان کی سربراہی میں جب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت ۲۰۱۸ میں اقتدار میں آئی تو ملک قرضے کی لازمی ادائیگیوں کے سبب زرمبادلہ کے ذخائر سے تیزی سے ہاتھ دھو رہا تھا اور یوں اسے بڑا معاشی بحران ورثے میں ملا۔ تجارت اور سرمایہ کاری پر عمران خان کے مشیر عبدالرزاق داؤد نے ایک بین الاقوامی جریدے کو بتایا کہ پی ایم ایل این ”نے سی پیک کے معاملے پر چین سے مذاکرات میں ناقص کارکردگی دکھائی“ اور ”انہیں بہت کچھ دے بیٹھے۔“ انہوں نے سی پیک کے بارے میں پی ٹی آئی حکومت کے موقف کو بھی پیش کرتے ہوئے کہا ”ہمیں سب چیزوں کو ایک برس کے لئے روک دینا چاہئے تاکہ ہم خود کو زیادہ بہتر طور پر منظم کرسکیں۔“ ان خیالات نے ایک طوفان کھڑا کردیا اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو داؤد کے تبصروں پر منفی ردعمل سے نمٹنے کیلئے بیجنگ کا دورہ کرنا پڑا۔
خان کی حکومت نے سی پیک کے نفاذ اور بیوروکریسی کی صورت میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے سی پیک اتھارٹی قائم کی اور ریٹائرڈ جنرل عاصم سلیم باجوہ کو اس کا سربراہ بنایا۔ یہ اتھارٹی اپنے ابتدائی دنوں میں ہی اس وقت متنازع ہوگئی جب اس بارے میں اطلاعات سامنے آئیں کہ اس اتھارٹی کو قانونی حیثیت دینے والا قانون اس کے سربراہ کو کرپشن کیخلاف تحقیقات سے استثنیٰ فراہم کرتا ہے۔ اس اتھارٹی کو قانونی حیثیت فراہم کرنے والے آرڈیننس کی مدت اگرچہ پوری ہوچکی ہے تاہم باجوہ کی جانب سے سی پیک اتھارٹی کے سربراہ کے طور پر اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کرنا پارلیمانی ممبران کو ناگوار گزرتا ہے اور اتھارٹی کی حیثیت کے بارے میں ابہام پیدا کرتا ہے۔
پاکستان میں معاشی مسائل کے باوجود پی ٹی آئی نے سی پیک کے تحت منصوبوں کو جاری رکھتے ہوئے نئے ہائی ویز تعمیر کئے، پاکستان کی پہلی لائٹ ریل میٹرو لاہور میں مکمل کی اور نئی سی پیک سٹی کی تعمیر کا آغاز کیا۔ پاکستان کے لئے چین کے نومنتخب سفیر نونگ رونگ نے حال ہی میں سی پیک سے جڑے چینی عزم کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ ”سی پیک کی تعمیر نے مسلسل مثبت نتائج حاصل کیے ہیں۔“
قرضے کے چکر کو توڑنا
چینی اور غیر چینی قرض خواہوں کو قرض واپس کرنے کے لیے پاکستان کو باقی کی دنیا کو مزید مصنوعات اور خدمات فراہم کرنے کی اپنی صلاحیت کو بہتر کرنا ہوگا۔ تاہم ایسا کرنے کیلئے سخت اصلاحات کی ضرورت ہے جو کہ مقابلے کی صلاحیت کو بہتر اور اس کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرسکیں۔ بصورت دیگر، قرض کی طاقت سے چلنے والی پیداوار جس کے لئے آئی ایم ایف کے متواتر بیل آئوٹ منصوبے اور چین اور سعودی عرب جیسے ممالک سے ملنے والے مزید دو طرفہ قرضوں کی ضرورت ہوتی ہے، اس کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اس کے لیے نقطہ آغاز توانائی اور زراعت کے شعبے ہونے چاہیئں: توانائی کے شعبے میں فی یونٹ لاگت میں کمی اور گردشی قرضے کے خاتمے کے لئے اصلاحات کی ضرورت ہے جبکہ زراعت کے شعبے میں پیداوار میں اضافے، غذائی اشیا کی قیمتوں میں کمی اور ملک کی تقریباً چالیس فیصد افرادی قوت کی آمدن میں اضافے کے لئے اصلاحات کی ضرورت ہے۔ بجلی کے شعبے میں اصلاحات، اور قیمتوں میں کمی اور گردشی قرضے کے خاتمے کیلئے بجلی پیدا کرنے والے کارخانے داروں سے گفت و شنید کے بارے میں آوازیں اٹھتی رہتی ہیں تاہم اس ضمن میں عملی پیش رفت سست رہی ہے۔ جبکہ دوسری جانب زرعی شعبے کو بہت بڑے بحران کا سامنا ہے جبکہ حکومت مسائل پر مزید پیسہ خرچ کرنے اور احتجاج کرنے والے کسانوں کیخلاف طاقت استعمال کرنے کے درمیان جھول رہی ہے۔
ان اصلاحات کو آگے بڑھانے کے لئے ملکی سیاسی معیشت کے عین قلب میں موجود ایک بڑی رکاوٹ کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے جو کہ ملک کی اشرافیہ ہے۔ طبقہ اشرافیہ پاکستان کی سیاسی، بیوروکریسی اور سلامتی کے شعبے میں اسٹیبلشمنٹ پر اپنی گرفت مضبوط رکھتی ہے۔ ۲۰۱۶ سے ۲۰۱۹ کے درمیان جہاں ایک اوسط پاکستانی گھرانے کی اوسط آمدن میں تقریباً چار فیصد کی کمی آئی ہے وہیں اشرافیہ کے لئے زندگی بنا کسی بدلاؤ کے جاری ہے۔ چونکہ پاکستان امریکہ، چین اور دیگر ممالک کی ضروریات کے مطابق اپنی جغرافیائی سیاسی حیثیت کا معاوضہ، مثلاً افغانستان میں امریکی جنگ میں معاونت کے عوض ملنے والی معاشی امداد وغیرہ، وصول کرنے کے قابل رہا ہے ایسے میں اصلاحات کے لئے اصل محرک کوئی نہیں ہے۔ مزید براں پاکستان کو زیادہ متحرک معیشت بنانے کے لئے درکار زیادہ تر اصلاحات اشرافیہ کو فائدہ نہیں نقصان دیں گی۔
چین نے اگرچہ معاشی سفارت کاری کے ذریعے پاکستان سے اپنے تعلقات کو مزید گہرا بنانے کی کوشش کی ہے تاہم اسے بہت جلد ہی یہ اندازہ بھی ہو رہا ہے کہ اس کے اثرورسوخ کی کچھ حدود و قیود ہیں۔ بیجنگ سی پیک کے اہم ترین منصوبے ایم ایل 1 ریلوے منصوبے کے لئے کم شرح سود پر قرضہ فراہم کرنے کے لئے تیار نہیں جس کے بعد نئے سی پیک منصوبوں پر کام سست روی کا شکار ہے۔ اپنے اثرورسوخ کے باوجود چین کے الیکٹرک کی شنگھائی الیکٹرک پاور کو فروخت کے لئے بھی پاکستان کو حتمی رضامندی پر تیار نہیں کر پایا۔ پاکستان نے بھی اس برس قرضوں کی واپسی کے لئے شرائط میں لچک دکھانے کے لئے چین سے رابطہ کیا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کے لیے مضمرات
پاکستان کو اپنا لائحہ عمل خاص کر قومی سلامتی حکمت عملی تبدیل کرنے پر رضامند کرنے کیلئے امریکہ کو بھی خاصی تگ ودو کرنا پڑی ہے۔ ۲۰۱۹ میں سفیر ایلس ویلز نے واشنگٹن میں ایک تقریب سے خطاب میں سی پیک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ سی پیک کے بارے میں ”پاکستان میں لوگوں نے سخت سوال کرنا شروع کردیئے ہیں۔“ آنے والی بائیڈن انتظامیہ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس قسم کی براہ راست سرعام تنقید کو پاکستان سنی ان سنی کردے گا۔ اس کے بجائے پاکستان کو درکار معاشی ترقی کے حصول کے لئے متبادل لائحہ عمل پیش کرتے ہوئے اپنے خدشات کا نجی طور پر اظہار زیادہ بہتر راستہ ہوسکتا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کو اس امر کا ادراک کرنا چاہیے کہ چین پاکستان سے اپنے تزویراتی تعلقات کے باوجود بھی اسے حسب ضرورت دباؤ میں لانے پر تیار رہتا ہے۔ مثال کے طور پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فاٹف) کی صدارت چین کے پاس ہونے کے باوجود بھی پاکستان فاٹف کی گرے لسٹ پر برقرار ہے۔ جہاں تک دہشت گردی سے نمٹنے اور معاشی مسائل کا معاملہ ہے جیسا کہ جب پاکستان کو اپنی معیشت کو مستحکم بنانے کے لئے آئی ایم ایف اور چینی قرضوں کی ضرورت ہوتی ہے تب بائیڈن انتظامیہ کو بیجنگ کے ساتھ تعاون کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ سخت اصلاحات بشمول وہ جو پاکستان کو چینی قرضوں کی واپسی میں دیوالیہ ہونے کا خطرہ کم کریں، ان کا بوجھ اٹھانے کیلئے اشرافیہ کو راغب کیا جاسکے۔ بڑھتی ہوئی رقابت کے باوجود بھی چین اور امریکہ کے پاکستان میں مشترکہ مفادات ہیں اور کھلے عام محاذ آرائی کے بجائے محتاط سفارتی تعاون تمام متعلقہ فریقوں کے لئے زیادہ بہتر نتائج پیدا کرسکتا ہے.
***
.Click here to read this article in English
Image 1: Preston Rhea via Flickr
Image 2: U.S. Institute of Peace via Flickr