حالیہ رپورٹیں طالبان قیادت کے مابین گہری پڑتی تقسیم کا اشارہ دیتی ہیں۔ ان میں اگرچہ پہلی بار تناؤ کی خبریں کابینہ کی تشکیل کے لیے سیاسی طریقۂ کار کے حوالے سے سامنے آئی تھیں، تاہم تقرریوں اور نشستوں کی تعداد پر اختلافات کے بارے میں افواہیں، افواہوں تک ہی محدود رہیں اور واضح یا تقسیم کا سرعام ثبوت دکھائی نہ دیا۔ تاہم سینیئر طالبان قیادت کی جانب سے حال ہی میں سامنے آنے والے بیانات گروہ کے مابین اتفاق میں دراڑوں کو سرعام لاتے دکھائی دیتے ہیں۔ اپنے تمام تر اندرونی اختلافات پر کامیابی کے ساتھ پردہ ڈالے رکھنا اس گروہ کی طاقت کا راز رہا ہے۔ شورش کے بیس برسوں میں، طالبان نے عدم اتفاق کے برسرعام اظہار سے گریز کیا ہے تاکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو فائدہ اٹھانے کی کوئی راہ تلاش کرنے سے باز رکھا جائے۔
اندرونی تقسیم کے اشارے
گزشتہ ماہ طالبان کے وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی نے ایک تقریر کی، جسے بڑے پیمانے پر گروہ کے امیر، ہیبت اللہ اخوندزادہ کے اوپر تنقید کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اپنی تقریر میں حقانی نے اقتدار پر اجارہ داری کی مذمت کرتے ہوئے، اسے ناقابلِ برداشت قرار دیا۔ یہ اندرونی اختلافات کو عوامی نگاہوں سے اوجھل رکھنے پر مبنی طریقِ عمل سے بڑے پیمانے پر بغاوت کی علامت ہے۔ اس تقریر کے صرف چند دن بعد ہی طالبان کے وزیرِ دفاع ملا یعقوب نے عسکری اکیڈمی کے تازہ ترین بیچ سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء کو کسی کی بھی اندھی تقلید سے باز رہنے کا مشورہ دے کر طالبان کے آپسی اختلافات کے بارے میں شبہات کو تقویت دی۔
حالیہ بیانات نے ماضی میں ہونے والی تنقید کو بھی ایک بار پھر سے مرکزِ نگاہ بنا دیا۔ ستمبر میں طالبان کے نائب وزیرِ خارجہ امور عباس ستانکزئی نے بیان دیا تھا کہ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگانے کے لیے کوئی اسلامی جواز موجود نہیں۔ ابتداً یہ بیان اگرچہ تعلیم کے حوالے سے دکھائی دیتا تھا، تاہم لہجوں میں اترتی سختی اور سراج الدین اور یعقوب کی حالیہ تقریروں میں لڑکیوں کی تعلیم سے ماوراء، دیگر مسائل کے لیے نقطۂ نگاہ امیر کے خلاف پیدا ہوتے اضطراب اور ایک ابھرتی ہوئی دراڑ کا اشارہ دیتے ہیں۔
اس تنقید کے حوالے عوامی سطح پر مختلف نوع کی تشریحات موجود ہیں۔ ایک موقف یہ ہے کہ طالبان کے کم قدامت پسند دھڑے ہیبت اللہ کی انتہائی قدامت پسند پالیسی انتخابات سے مایوس ہو کر بول پڑے ہیں۔ خواتین اور بچیوں کے یونیورسٹی اور نوکریوں پر جانے کے خلاف یکے بعد دیگر تیزی سے آنے والے حکم ناموں کے بعد ان طالبان رہنماؤں میں برداشت کا مادہ ختم ہو چکا ہے۔ کابینہ اراکین کی جانب سے بچیوں کی ہائی اسکول کی تعلیم پر پابندی کا حکم واپس لینے کے وعدے کے باوجود پابندی پر ہیبت اللہ کی توثیق سے مایوس، زیادہ عملیت پسند رہنماؤں نے بولنے کا فیصلہ کیا ہے۔
قدامت پرست بمقابلہ انتہائی قدامت پرست طالبان پر مبنی اس موقف سے بہت سے اختلاف رکھتے ہیں، اور دلیل دیتے ہیں کہ بعض رہنما محض دوسروں سے بہتر جھوٹ بولتے ہیں۔ اس موقف کی حمایت میں سب سے واضح ثبوت بڑے پیمانے پر عائد ہونے والی پابندیوں کے خلاف محدود ردعمل ہے کہ جو بچیوں کی تعلیم کے لیے کھڑے ہونے کے دعویدار طالبان گروہوں نے دیا تھا۔ ان پابندیوں کی بزور طاقت مخالفت کرنے کے بجائے، ان گروہوں نے محض بیانات کی صورت میں ردعمل دیا۔ تیسری توجیہہ یہ ہے کہ حالیہ تقریروں میں ایسا کچھ نہیں جیسا کہ بیان کیا جا رہا ہے۔ اس رائے کے حامی اس “دراڑ” کو تصور کی بنیاد پر قائم ایک واہمہ اور طالبان کی فہم سے عاری حکومت کو فہم عطا کرنے کی ایک کوشش قرار دیتے ہیں۔
تعلیم پر پابندیاں عائد کیے جانے کی تازہ ترین لہر کے بعد افغانستان کا دورہ کرنے والے بین الاقوامی حکام کے مطابق پہلے کی نسبت اب عملیت پسند طالبان رہنماؤں کی زیادہ تعداد کے لہجوں میں نرمی اتر آئی ہے، انہوں نے عالمی تنظیموں کے کام کو سراہا ہے، اور صورتحال کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت کا پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ ان تاثرات کے باوجود، ہائی اسکول اور جامعات میں یہ تعلیمی سال طالب علم خواتین کے بغیر شروع ہو چکا ہے، اگر طالبان میں واقعی ایسے دھڑے موجود ہیں جو زیادہ عملیت پسندی کا مطالبہ کر رہے ہیں، تو ان کے مطالبے علمی اقدامات کے ہمراہ ہونے تک بے معنی ہیں۔
اصلاحات کی خواہش
عمل کرنا آسان نہیں ہے۔ طالبان کی جانب سے بچیوں کی تعلیم کے حق میں اقدامات کی راہ میں دو بڑے عناصر حائل ہیں اور توقعات کو حسبِ مطابق طے کرنے کے لیے ان کا اعتراف مددگار ہو سکتا ہے۔ اولاً یہ کہ، ایک ایسی تحریک کہ جس نے مراتب اور عہدوں کے روایتی ڈھانچوں سے ماوراء شورش کو بیس برس تک جاری رکھا، اس کا بنیادی اصول امیر کی اطاعت تھا۔ امیر کا دفتر ہمیشہ سے ایک ایسی علامت رہا ہے کہ جس کے گرد ہی تحریک نے اپنی شناخت قائم کی ہے۔ ایسے میں طالبان سے امیر کی بے دخلی کی توقع کرنا غیر دانشمندانہ اور کوتاہ اندیشی ہو گی۔ اس اولین اصول کا خاتمہ دراصل طالبان کا خاتمہ ہو گا جس سے مسابقتی دھڑے خانہ جنگی کے چکر میں پھنس کے رہ جائیں گے۔
دوئم یہ کہ تعلیم کے مسئلے پر اعتراض کرنے والے مختلف گروہوں کے درمیان اتفاق کی کمی کا نتیجہ ہر گروہ کی جانب سے امیر کے سامنے اپنا مسئلہ علیحدہ علیحدہ رکھنے کی صورت میں ہوتا ہے جس کے نتیجے میں اس قدر دباؤ پیدا نہیں ہونے پاتا کہ جو ان حالیہ پابندیوں کو واپس لینے لائق دباؤ پیدا کر سکے۔ امیر کے قریبی حلقے اور وہ جو ان نئی پالیسیوں کے خلاف ہیں، ان کے مابین افغانستان کے بارے میں تصور میں واضح فرق ہے، نیز صرف اسی حلقے میں اتفاق دکھائی دیتا ہے کہ جو امیر کے قریب ہے۔ امیر اور ان کے قریبی حلقے کی قدامت پرستی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ سراج الدین حقانی جیسا کردار جو افغانستان میں بدترین خودکش بمباری کے واقعات کے پس پشت تھا، وہ ان کے مقابلے میں اعتدال پسند دکھائی دیتا ہے۔
تمام حدود و قیود کو ذہن میں رکھتے ہوئے، تعلیم کے حامی کیمپ کو اپنے اندر اتفاق پیدا کرنا ہو گا نیز کسی نہ کسی سطح کے آئین کے نفاذ کا مطالبہ کرنا ہو گا تاکہ ان کی بغاوت کو بامعنی عملی قدم میں تبدیل کیا جا سکے۔ آئین کے نفاذ کا نتیجہ امیر کی طاقت میں کمی نیز طاقت کی وزراء میں تقسیم کی صورت میں ہو گا۔ موجودہ اختیارِ کل کی حالت کہ جہاں تمام سابقہ قوانین معطل ہیں اور امیر ہی قانون فراہم کرنے والا وجودِ واحد ہے، ایسے میں کسی بھی ادارے کے لیے امیر کی مکمل حاکمیت کے بغیر کام کرنا ممکن نہیں۔ جب افغانستان میں قوانین کی تشکیل اور ان کا نفاذ ہو گا تو پھر وزارتِ داخلہ، وزارتِ دفاع اور جنرل ڈائریکٹوریت برائے انٹیلی جنس کے سربراہ کے اختیارات میں کمی کی خاطر ان کے نائبین کو اختیارات سونپنے جیسی امیر کی حالیہ چالوں کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ موجودہ قانونی خلاء طالبان اور اس کے ساتھ ساتھ مجموعی طور پر ملک کو ٹھیس پہنچا رہا ہے۔
آئین سازی امیر اور مقامی حکام کے درمیان اختیارات کی حقیقی تقسیم کا باعث بنے گی۔ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ جیسے اداروں کے درمیان ذمہ داریوں کی تقسیم سے امیر میں طاقت کے ارتکاز کے بجائے دیگر اداروں کو بھی تقویت ملے گی۔ موجودہ ڈیڈ لاک کی کیفیت سے نکلنے کا یہ ایک موثر طریقہ ہے۔ اس طرح امیر کو اپنے موجود احکام کی نفی کرنے کی خفت بھی نہیں اٹھانا پڑے گی اور مخالفین کو انہیں بے دخل نہیں کرنا پڑے گا۔ اگر امیر کو ریاست کے سربراہ کا کردار سونپا گیا ہوتا جہاں ان کا کام حکمرانی ہوتا اور حکومت کرنا نہیں، تو ایسے میں کم قدامت پسند طالبانوں کے لیے پالیسیوں میں تبدیلیاں لانے کی گنجائش ہوتی۔
امیر کے ان تبدیلیوں کو برضا و رغبت قبول کرنے کا کوئی امکان نہیں ماسوائے اس کے کہ باغی بزورِ طاقت انہیں ایسا کرنے پر مجبور کر دیں۔ پالیسیوں میں یہ تبدیلیاں آخر کار طالبان اور عوام میں بڑھتے ہوئے فاصلوں کو سمیٹیں گی اور دنیا کو طالبان کے ساتھ رابطے قائم کرنے کے لیے ایک جواز فراہم کریں گی۔ آخر کو، اگر طالبان اپنے اقتدار کو داخلی سطح پر جائز قرار دلوانا اور خارجہ سطح پر تسلیم کروانا چاہتے ہیں، تو انہیں اپنے اقتدار کے استحکام کو کوئی خطرہ پہنچائے بغیر اندرونی تنازعات کو حل کرنا ہو گا۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Ahmad Sahel Arman/AFP via Getty Images
Image 2: Mohd Rasfan/AFP via Getty Images