53104508313_ac95d4b29f_o-1-1095×616-1

جون میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی امریکہ کے پہلے سرکاری دورے پر امریکہ پہنچے۔ ایک بے حد مفید دو دنوں میں، وزیر اعظم مودی نے امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں سے خطاب کیا، صدر جو بائیڈن کے ہمراہ ملاقات کی، اور اپنے اعزاز میں ہونے والی ایک خصوصی تقریب میں شرکت کی۔ دورے کے اختتام پر، بھارت اور امریکہ نے ۵۸ پیراگرافس پر مشتمل ایک ‘مشترکہ بیان‘ جاری کیا جس میں ان کے دو طرفہ تعلقات کے متعدد پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی، جبکہ دفاعی اور عسکری تعاون پر خصوصاً زور دیا گیا۔ قابلِ غور امر یہ ہے کہ مشترکہ بیان میں علاقائی استحکام کے ایسے متعدد پہلوؤں پر نمایاں توجہ دی گئی جو امریکہ بھارت دو طرفہ تعلقات سے ماوراء ہیں۔ گوکہ دورے اور مشترکہ بیان میں پاکستان میں دہشت گردی اور افغانستان میں انسانی مصائب پر گفتگو کی گئی، لیکن علاقائی استحکام سے جڑے متعدد مسائل کو نظرانداز کیا گیا جیسا کہ بنگلہ دیش میں آنے والے قومی انتخابات، روہنگیا بحران، سری لنکا اور پاکستان کا معاشی بحران اور دیگر بہت سے مسائل۔

جنوبی ایشیا کے حوالے سے بائیڈن کی سوچ بڑی حد تک بھارت پر انحصار کرتی ہے۔ سابق رہنماؤں کی ہم نوائی کرتے ہوئے، بائیڈن نے کہا کہ “میرا ہمیشہ سے یہ ماننا ہے کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان تعلقات — ۲۱ ویں صدی کے اہم ترین تعلقات میں سے ایک ہوں گے۔“ دنیا کے سب سے گنجان آباد ملک اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر، بھارت متعدد عالمی مسائل اور ان کے ممکنہ حلوں کے سامنے صف اول میں کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان مقابلے کے شدت اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ بھارت تعلقات میں بائیڈن انتظامیہ کی دلچسپی میں محض اضافہ ہوا ہے۔ بہت سے تجزیہ کاروں کی رائے میں بائیڈن کی صدارتی مدت کے دوران تیسرے اور آخری سرکاری دورے کے لیے وزیر اعظم مودی کو مدعو کرنے کے پس پشت یہی وجہ تھی۔

پاکستان اور دہشت گردی کا مسئلہ

انڈوپسیفک حکمت عملی کے علاوہ، پاکستان سے سختی کے ساتھ کیا گیا یہ مطالبہ بھی دورے کا ایک کلیدی پہلو تھا کہ جس میں ریاست پر زور ڈالا گیا کہ وہ اپنی سرحدی حدود میں دہشت گردی کی روک تھام کے لیے لشکر طیبہ اور جیشِ محمد کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے۔ اپنی بات چیت اور مشترکہ بیانات کے ذریعے صدر بائیڈن اور وزیراعظم مودی نے سرحد پار دہشتگردی خاص کر دہشت گرد پراکسیوں کے استعمال کی سختی کے ساتھ مذمت کی۔ مزید برآں، انہوں نے پاکستان سے عملی کارروائیوں کا مطالبہ کیا، جس میں اپنے زیر نگرانی موجود کسی بھی خطے کو دہشتگرد حملوں کے لیے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال ہونے سے روکنے کے لیے فوری اقدامات اٹھانے پر زور دیا گیا۔ بیان کے ۳۲ویں پیراگراف میں، اس معاملے میں پاکستان کے فعال طور پر کردار نبھانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے، صدر بائیڈن اور وزیراعظم مودی نے یہ پیغام بھیجا ہے کہ عالمی برادری اس فوری توجہ طلب خدشے کے حوالے سے یہ توقع رکھتی ہے کہ پاکستان کسی سمجھوتے کے بغیر پوری قوت کے ساتھ اور مستقل مزاجی کے ساتھ اس سے نمٹے۔

انہوں نے القاعدہ، داعش اور حزب المجاہدین جیسے گروہ، جنہیں اقوام متحدہ کی جانب سے باقاعدہ طور پر دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے، ان کی جانب سے لاحق کثیرالجہاتی خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک متحدہ اور معاونت یافتہ ردعمل کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ رہنماؤں نے ۲۰۰۸ کے ممبئی حملے جن میں ۱۶۵ سے زائد افراد مارے گئے تھے اور پٹھان کوٹ میں بم دھماکوں کو مثال کے طور پر بیان کرتے ہوئے ذمہ داران کو بھی قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ پاکستانی حکومت نے مثبت ردعمل نہیں دیا اور ملک کی وزارت خارجہ نے امریکی سفارت خانے میں مشن کے نائب سربراہ کو طلب کیا۔ وزارت نے مشترکہ بیان پر شدت کے ساتھ اختلاف ظاہر کیا اور اسے “غیرضروری، یکطرفہ، گمراہ کن اور سفارتی روایات کے منافی قرار دیا۔”

تاہم وزیر اعظم مودی کی قیادت میں بھارت پاکستان کے حوالے سے زیادہ قطعیت کا حامل موقف اختیار کر چکا ہے، جو ۲۰۱۹ میں ہونے والے کشمیری خودکش حملے، جس میں ۴۰ بھارتی فوجی مارے گئے تھے، اس پر دیے گئے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے پوری قوت سے اس کی تردید اور اسے “فالس فلیگ” (دشمن کے خلاف کارروائی کے لیے جواز کی خاطر اپنی ہی زمین اور عوام پر دہشتگردانہ حملہ) آپریشن قرار دینے کے باوجود بھارت نے سلامتی خدشات سے نمٹنے کے لیے تیزی کے ساتھ جوابی کارروائی کی۔ موقف میں یہ سختی، مودی کی پاک امریکہ تعلقات کو داغدار کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے لاحق خطرات سے نمٹنے کے ذریعے پاک بھارت حرکیات میں ارتقاء کا اشارہ دیتی ہے۔

افغانستان میں انسانی مصائب

افغانستان میں موجود انسانی مصائب کے پس منظر میں، یہ امر غور طلب ہے کہ صدر بائیڈن اور وزیر اعظم مودی دونوں نے افغان عوام کے لیے فوری طور پر معاونت کی مسلسل اور بلارکاوٹ فراہمی کو یقینی بنانے کی ضرورت پر مشترکہ طور پر اتفاق کیا۔ بیان کے مطابق، رہنماؤں نے افغانستان میں امن، تحفظ اور استقلال کے ماحول کو فروغ دینے کے لیے اپنے غیرمتزلزل عزم پر زور دیا۔ اپنے گزشتہ بیانات کے علاوہ، انہوں نے طالبان پر بارہا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد ۲۵۹۳ میں تشکیل کردہ شقوں کی پیروی کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ یہ قرارد کھلے بندوں افغان سرزمین کو کسی بھی دوسری ریاست کے لیے خطرے کے طور پر استعمال کرنے یا حملے کے لیے استعمال کی خاطر بطور اڈہ استعمال کرنے، دہشت گردوں کو پناہ یا تربیت دینے یا دہشتگردی کے واقعات کی منصوبہ بندی یا مالی معاونت سے روکتی ہے۔ انہوں نے ایک جامع سیاسی فریم ورک قائم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہوئے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ خواتین اور بچیوں سمیت تمام افغان باشندوں کو بنیادی حقوق فراہم کریں۔

مشترکہ بیان میں موجود خلا

بدقسمتی سے مشترکہ بیان کے متن کا محض ایک مختصر سا حصہ میانمار میں جاری بحران کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ دونوں نمایاں شخصیات نے ابتری کی جانب بڑھتی صورتحال پر اپنے شدید اندیشوں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “میانمار میں بگڑتی صورتحال پر گہری تشویش ہے۔“ مودی اور بائیڈن، دونوں نے بلاجواز گرفتار کیے گئے تمام افراد کی فوری رہائی کا بھرپور مطالبہ کیا۔ مزید برآں، انہوں نے مفید اور بامعنی مذاکرات کے آغاز کی بھی حمایت کی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ میانمار کی ایک ایسے نظام میں تبدیلی کی حمایت کی جو سب کی شمولیت پسندی کو اختیار کرتا ہو اور وفاقی جمہوریت کے اصولوں کا امین ہو۔

تاہم بغور جائزے سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ مشترکہ بیان کا وہ حصہ جو میانمار اور روہنگیا بحران کے حوالے سے ہے، عمومیت اور اعتدال پسندی کی غیرمعمولی سطح رکھتا ہے۔ میانمار کی فوجی حکومت اور وہ روہنگیا کے حوالے سے جن جرائم کی مرتکب ہو رہی ہے، ان کے لیے کسی حوالے کی واضح غیرموجودگی زیربحث گفتگو کا قابل غور پہلو ہے۔ مزید برآں، دس لاکھ سے زائد روہنگیا جنہیں اپنے آبائی وطن سے زبردستی نکالا جا چکا ہے، ان کی بے گھری جیسے نمایاں پہلو سے نظریں چرائی گئیں۔ روہنگیا آبادی کی اپنے آبائی وطن محفوظ واپسی کے کسی تذکرے کی غیر موجودگی مذاکرات کی جامعیت اور ترجیحات نیز اس کے پس پشت موجود سیاسی بیانیوں پر سوال اٹھاتی ہے۔ اس معاملے پر توجہ دینے میں ناکامی نہ صرف روہنگیا آبادی کے مصائب کی پرواہ نہ ہونے کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ علاقائی استحکام اور انسانی حقوق کے وسیع تر مضمرات کو بھی نظر انداز کرتا ہے۔

سب سے آخر میں اس امر پر غور کرنا اہم ہے کہ ‘جنوبی ایشیا’ کے حوالے سے گفتگو قدرے محدود تھی، جو محض پیراگراف نمبر ۲۸ اور ۳۲ میں تذکرے تک محدود ہے۔ مشترکہ بیان نے جہاں علاقائی استحکام اور بحر ہند کے مذاکرات جیسے پلیٹ فارمز کی اہمیت کا تذکرہ کیا، وہیں اس نے مجموعی طور پر جنوبی ایشیا کے مقابلے میں انڈو پسیفک خطے کو نمایاں طور پر زیادہ توجہ دی۔ حسب توقع، چین کی جانب مزاحمت کے واضح اشارے نمایاں تھے۔ یہ محسوس کیا جا سکتا تھا کہ بعض جنوبی ایشیائی موضوعات جیسا کہ بنگلہ دیش میں آئندہ قومی انتخابات، روہنگیا بحران، پاکستان اور سری لنکا کی سیاسی و معاشی عدم استحکام جیسے موضوعات جو کہ دورے کو جنوبی ایشیائی نقطۂ نگاہ سے زیادہ مفید بنا سکتے تھے، ان کے بجائے چین یا متعلقہ پہلو توجہ کا زیادہ مرکز رہے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: India-US Hi-Tech Handshake event in White House via Flickr

Image 2: A young girl pictured on International Womens Day in Afghanistan via Wikimedia Commons

 

Posted in:  
Share this:  

Related articles

पर्वतों से समुद्री तटों तक: गलवान के पश्चात् भारत-चीन प्रतिस्पर्धा Hindi & Urdu
جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ Hindi & Urdu

جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ

ریاستہائے متحدہ امریکہ ، 20 ویں صدی کے وسط سے…

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے Hindi & Urdu

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف رواں ماہ کے اوائل میں صدر شی جن پنگ اور دیگر اعلیٰ چینی حکام سے ملاقاتوں کے بعد تقریباََ خالی ہاتھ وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ چین نے واضح انضباطِ اوقات ( ٹائم لائن) کے تحت پاکستان میں بڑے منصوبوں کے لئے سرمایہ کاری کا وعدہ نہیں کیا۔ اس […]