Modi-2.0-May-2019

نریندرمودی تاریخی کامیابی کے نتیجے میں ایک بار پھر وزارت عظمیٰ پر فائز ہوچکے ہیں جبکہ انکی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) پہلے کے مقابلے میں زیادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے- ۱۹۸۴ کے بعد کسی بھی بھارتی سیاسی جماعت کے ساتھ ایسا پہلی بار ہوا ہے۔  اپنی دوسری مدت کے دوران مودی پاک بھارت دو طرفہ تعلقات کو کیسے دیکھیں گے، یہ سوال نہ صرف بھارتی اور پاکستانی تجزیہ نگاروں بلکہ جنوبی ایشیائی سیاست پر نگاہ رکھنے والے بین الاقوامی مبصرین  کا بھی پسندیدہ موضوع بن چکا ہے۔ یہ مضمون مودی کے دوسرے دور میں بھارت- پاکستان دو طرفہ تعلقات کے مستقبل کے ممکنہ منظرناموں کو پیش کرتا ہے اور اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ دونوں جوہری ریاستوں کے مابین تعلقات میں بہتری تاریخی ناچاقی کے خاتمے کیلئے ضروری ہے، خاص کر ایسے وقت میں کہ جب ان کے جارحانہ تعلقات معاشی طور پر ضم شدہ جنوبی ایشیا سے فائدہ اٹھانے میں رکاوٹ کا سبب ہیں اورعالمی دہشتگرد گروہ خطے کو غیر مستحکم بنانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ 

تناؤ کا پس منظر

اپنے گزشتہ دور میں مودی نے اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کو ۲۰۱۴ میں اپنی تقریب حلفبرداری میں مدعو کرنے اور ۲۰۱۵ کے کرسمس پر لاہور کے غیر طے شدہ دورہ کے ذریعے سے پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی تھی۔ تاہم جنوری ۲۰۱۶ میں پٹھان کوٹ پر حملے کے بعد ان کی انتظامیہ نے پاکستان سے طے شدہ مذاکرات کو اسلام آباد کی جانب سے ان جنگجوؤں کے خلاف ایکشن سے جوڑتے ہوئے منسوخ کردیا جو کہ نئی دہلی کے خیال میں اس حملے کے ذمہ دار تھے۔ دو طرفہ تعلقات کو ایک اور دھچکہ اس وقت پہنچا جب بھارت نے اڑی میں اپنے فوجی اڈے پر مزاحمت کاروں کی جانب سے حملے کے ردعمل میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں “سرجیکل سٹرائیک” کی۔

فروری ۲۰۱۹ میں تناؤ مزید بڑھ گیا جب بھارت نے پاکستانی حدود میں مبینہ دہشتگردی کے کیمپس جن کے بارے میں نئی دہلی کا دعویٰ تھا کہ وہ اسی ماہ پلوامہ میں بھارتی پیرا ملٹری قافلے پر ہونے والے حملے میں ملوث تھے، پر فضائی حملہ  کیا ۔ پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے بھارتی زیرانتظام کشمیر پر فضائی حملہ کیا جس کے بعد فضا میں لڑائی ہوئی جس میں ایک بھارتی فضائیہ کا پائلٹ ابھینندن ورتھامن پاکستان نے گرفتار کیا۔  کئی دنوں کی بے یقینی اور جارحیت کے بعد آخرکار تناؤ میں اس وقت کمی آگئی جب پاکستان نے جذبہ خیر سگالی کے طور پر ورتھامن بھارت کو واپس کردیا۔ 

پلوامہ کے بعد کی تلخی قبل ازیں رواں سال کے بھارتی لوک سبھا کے انتخابات میں مہم کے دوران بھی جھلکتی رہی۔ ماضی کی انتخابی مہمات کی طرح، یہ بھی  بلواسطہ اور بلاواسطہ پاکستان مخالف بیانیئے سے لیس تھی، حتیٰ کہ مودی اس حد تک چلے گئے کہ یہ اعلان کردیا کہ بھارت پاکستان کی جانب سے ایٹمی دھمکیوں سے مزید خوفزدہ نہیں اور یہ تجویز کرتے رہے کہ بھارتی جوہری ہتھیار محض نمائش کیلئے نہیں۔ 

تاہم انتخابات کے بعد روابط کے امکانات روشن دکھائی دیتے ہیں۔ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے مابین مئی میں شنگھائی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں غیر رسمی ملاقات ہوئی تھی۔ مزید براں، حال ہی میں بھارتی انتخابی نتائج کا اعلان ہونے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے مودی کو ٹیلیفون کیا اور مبارک باد دیتے ہوئے دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ مودی بھی آمادہ دکھائی دیئے اور انہوں نے غربت کیخلاف مشترکہ لڑائی اورتعاون کو فروغ دینے، دہشتگردی اور تشدد سے پاک فضا کو جنم دینے کی اپنی پرانی تجویز کو دہرایا۔ مزید براں، حال ہی میں بھارتی میڈیا نے سرکاری حکام کے حوالے سے خبر دی ہے کہ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے بھارت مخالف مزاحمت کاروں کیخلاف بامعنی کاروائی کی جارہی ہے ، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ شائد جلد مذاکرات کا در کھل جائے۔ 

دوراہا

بھارت- پاکستان تعلقات کیلئے آئندہ ۱۲ سے ۱۸ ماہ انتہائی اہمیت کے حامل ہوں گے کیونکہ جیسا کہ حالیہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے، کوئی بھی نئی بھارتی حکومت عموماً اپنے اقتدار کے ابتدائی چند ماہ کے دوران مسئلہ کشمیر جو کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان اختلافات کی بنیادی وجہ ہے،  سے نمٹنے کیلئے مثبت اشارہ دیتی ہے۔

 دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ جارحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے تین ممکنہ منظرناموں میں سے کوئی ایک  مستقبل میں دو طرفہ تعلقات کی نوعیت کو ترتیب دے سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ امکان موجود ہے کہ مودی کے دوسرے دور میں سٹیٹس کو برقرار رہے گا اور دونوں ممالک کے مابین سنجیدہ روابط قائم نہیں ہوں گے اور متشدد سرگرمیاں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) تک محدود رہیں گی۔ تاہم، یہ منظرنامہ ، ابتدا میں بیان کی گئی پیش قدمیوں جیسا کہ خان اور مودی کے مابین ٹیلی فون کال وغیرہ جو تعلقات میں نرمی کا اشارہ دے رہی ہیں، کے سبب ناممکن دکھائی دیتا ہے۔

دوئم یہ کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ مودی سرکار کی جانب سے پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش پر مبنی پالیسیوں کو جاری رکھنے کی صورت میں اس منظرنامے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔  دسمبر ۲۰۱۷ میں نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزرز کی سطح پر مذاکرات کے بعد سے بھارت اور پاکستان میں دو طرفہ یا کثیر طرفہ روابط نہ ہونا، پاکستان کو نوازا گیا پسنددیدہ ترین ریاست کا بھارتی اعزاز واپس لیا جانا، ۲۰۱۶ کے پاکستان میں ہونے والے سارک اجلاس کا بائیکاٹ  اور تعلقات کی سیاسی نوعیت کو کھیلوں کی سرگرمی سے جوڑنا  ماضی میں اس کی مثالیں رہی ہیں۔

تیسرا منظرنامہ یہ ہوسکتا ہے کہ دوطرفہ تعلقات خاص حد تک بہترہوسکتے ہیں۔ اسکی کئی ممکنہ اشکال بشمول پاکستان کی جانب سے بھارت مخالف باغی گروہوں کیخلاف کارروائی، پروکسی جنگ اور سرحد پارشورش کا خاتمہ، دونوں ممالک کی جانب سے افغانستان میں ایک دوسرے کے تزویراتی مفادات کا احترام اور بھارت کی چین-پاکستان اکانمک کاریڈور (سیپیک) میں شمولیت، ہوسکتی ہیں۔ اس منظرنامے کا امکان بڑی حد تک اس پر منحصر ہوگا کہ  بھارت اور پاکستان کی حکومت دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے میں کس قدر سنجیدہ ہیں۔ مزید براں تیسری قوت کا کردار جیسا کہ امریکہ اور چین بھی ان امکانات کو عملی جامہ پہنانے میں اہم کردار کریں گے۔

پاکستان کی جانب سے بھارت مخالف قوتوں کیخلاف کریک ڈاؤن جامع یا وسیع مذاکرات (کامپریہینسو ڈائلاگ) جو ۲۰۱۳ کے بعد سے معطل ہیں، کیلئے نقطہ آغاز اور ممکنہ طور پر امن کی جانب پیش رفت کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ ماضی کے کریک ڈاؤنز کے برعکس عمران خان حکومت نے کالعدم تنظیموں کیخلاف اہم اقدامات کئے ہیں۔ مقامی میڈیا میں شائع شدہ خبروں کے مطابق تین دہائیوں میں پہلی بار پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں مزاحمت کاروں کی تنظیموں کے دفاتر کو مبینہ طور پر بند کیا گیا ہے اور ان کے نمایاں رہنمائوں کو گرفتاراور ان کی جائیدادیں بشمول مساجد اور مدارس ضبط کی گئیں ہیں۔  ان اقدامات کے نتیجے میں ان تنظیموں میں سے کچھ کی قیادت زیرزمین چلے جانے پر مجبور ہوئی ہے، اور مبینہ طور پر جیش محمد نے اپنی تنظیم کے اراکین سے “ہجرت” اور “ایک نئی جدوجہد” کی تیاری کیلئے کہا ہے۔ یہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کالعدم تنظیموں کیخلاف اقدامات میں سنجیدہ ہے اور یہ بھارت کو مذاکرات کو ایک موقع دینے پر قائل کرسکتا ہے۔

درپیش چیلنجز

مودی اور خان دونوں کیلئے اس امر کو یقینی بنانا ایک چیلنج ہوگا کہ تعاون ان کے تزویراتی مفادات کی قیمت پر نہ ہو۔ مودی کیلئے اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ایک ایسی پاکستان پالیسی تشکیل دی جائے جو کہ اسلام آباد کے ساتھ مذاکرات میں مشغول ہونے کے ساتھ ساتھ انکے دائیں بازو کی حامل ہندوتوا اساس کو بھی مطمئن رکھے۔ اسی طرح خان کیلئے بنیادی چیلنج مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے پرانے موقف کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اندر کام کرنے والی بھارت مخالف قوتوں کیخلاف کریک ڈائون ہوگا۔ 

ایسے بہت سے راستے موجود ہیں جن کے ذریعے سے مودی اور خان اپنی اپنی عوام کے سامنے کمزور دکھائی دیئے بغیر دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو ایل او سی پراچانک حملوں سے گریز کرنا ہوگا۔ پاکستان نے دعویٰ کیا تھا کہ ۲۰۱۷ کے دوران بھارت نے ۱۱۴۰ مرتبہ سیزفائر کی خلاف ورزی کی جبکہ بھارت اسی برس کے دوران سیزفائر کی خلاف ورزی کے ۸۸۱ واقعات میں پاکستان کو ذمہ ٹھہرایا۔  ان واقعات کے نتیجے میں سرحد کے دونوں جانب فوجی اور شہری آبادی کا بھاری جانی نقصان ہوا ہے۔ لیکن، بھارتی پولیٹیکل سائینسدان، ہیپی مون جیکب کی مرتب کردہ تحقیق کے مطابق سیز فائر کی خلاف ورزیاں لازمی طور پر سیاسی یا دفاعی قوتوں کی ہدایت پرنہیں ہوتی ہیں- یہ اکثر مقامی “فوجی عناصر” جیسا کہ نئے بنکرز کی تعمیر یا کسی نئے افسر کی تعیناتی کے موقع پر ” فائرنگ کے ذریعے جانچ” وغیرہ کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ اس طرح، یہ واقعات تزویراتی ضروریات کو پورا نہیں کرتے اور بعض اوقات دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کا سبب بن جاتے ہیں۔ ان سے گریز کیلئے مقامی کمانڈرز کے مابین مسلسل ابلاغ اور ملاقات، تعاون پر مبنی پٹرولنگ اور اس جیسی ماہرین کی دیگر تجاویز کو اپنائے جانے سے ایل او سی پر صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔ ایل او سی کی صورتحال میں بہتری  تعلقات کی سیاسی نوعیت کو تبدیل کرنے کیلئے اعتماد سازی کا اہم اقدام ہوسکتی ہے۔

دوئم، بھارت اور پاکستان دونوں کی جانب سے کشمیر میں انسانی جانی تحفظ کی صورتحال میں بہتری مقامی آبادی کو کامیابی کے ساتھ یہ پیغام دے گی کہ دونوں فریق حقیقی معنوں میں ان کے خدشات دور کرنے کی نیت رکھتے ہیں۔  اس کے ہمراہ نئی دہلی کی جانب سے افواج کی تعداد میں کمی کی حامل سوچ کو اپنایا جاسکتا ہے، جس کے تحت بھارتی افواج کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے گریز اور بشمول حریت تمام فریقین سے روابط کئے جائیں۔ پاکستان بھی اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی جانب سے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں نشاندہی کی گئی شکایات جیسا کہ آزادی اظہار پر قدغن اور ناجائز گرفتاریوں کے معاملات پر توجہ دے۔

آخر میں، بھارت اور پاکستان کے مابین عالمی دہشتگرد گروہوں جیسا کہ داعش (آئی ایس) اوربرصغیر پاک و ہند میں القاعدہ ( اے کیو آئی ایس) اور پاکستان میں کام کرنے والے بھارت مخلف جنگجو گروہوں سے وابستہ افراد کی نقل و حرکت کے بارے میں انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ بیک وقت شفافیت اور دونوں ممالک کے مابین اعتماد کو بڑھا سکتا ہے۔ آخر میں بھارت اور پاکستان کی سیاسی قیادت کے درمیان غیر رسمی ملاقاتوں کی روایت قائم ہونی چاہئے جو کہ مستقبل میں منظم مذاکراتی عمل کی جانب لے جا سکیں۔

مندرجہ بالا منصوبوں کو حقیقی جامہ پہنانے میں اسلام آباد اور دہلی ممکنہ طور پر متعدد بڑی رکاوٹوں بشمول مسلح افواج کی جانب سے دباؤ خاص کر انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے کے حوالے سے لائحہ عمل میں دباؤ کا سامنا کرسکتے ہیں۔ دونوں ممالک میں ایک دوسرے کے حوالے سے پھیلے منفی تاثر کا مطلب یہ ہے کہ متعلقہ عوام کی جانب سے دباؤ بھی اہم ہوگا۔ 

تاہم، بھارت اور پاکستان کو یہ غور کرنا ہوگا کہ ایسے میں کہ جب داعش اور القائدہ جنوبی ایشیا میں پنجے گاڑ رہی ہیں، دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانا ان دونوں کے اپنے حق میں بہتر ہے۔ اگر پاک بھارت تعلقات بدستور خراب رہتے ہیں تو پورے خطے کی سیکیورٹی داؤ پر لگی رہے گی۔ مزید براں دونوں ممالک کے مابین نااتفاقی انکو اپنی معاشی صلاحیتوں سے مکمل فائدہ اٹھانے سے روک رہی ہے- دونوں میں اندازے کے مطابق ۳۷ بلین ڈالر مالیت کی دو طرفہ تجارت ممکن ہے۔ نتیجتاً مشترکہ معاشی مفادات جنوبی ایشیا میں جو کہ دنیا میں معاشی لحاظ سے سب سے کم انضمام شدہ علاقہ ہے، بین العلاقائی تجارت کو فروغ دینے کا سبب ہوں گے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Prime Minister’s Office, India via Twitter

Image 2: Government of Pakistan via Twitter

Share this:  

Related articles

پاکستان کے سلامتی (سے متعلقہ)مسائل سے چین کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ Hindi & Urdu

پاکستان کے سلامتی (سے متعلقہ)مسائل سے چین کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ

چین اور پاکستان کے درمیان طویل عرصے سے قریبی تعلقات…

पर्वतों से समुद्री तटों तक: गलवान के पश्चात् भारत-चीन प्रतिस्पर्धा Hindi & Urdu
جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ Hindi & Urdu

جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ

ریاستہائے متحدہ امریکہ ، 20 ویں صدی کے وسط سے…