India_Missile_MOD-1095×616-1


زبان نہ صرف ذریعۂ ابلاغ کا  کام دیتی ہے بلکہ سامعین پر ایک اہم  سائکو لینگوسٹیک (زبان دانی سے متعلقہ نفسیاتی )اثر بھی ڈالتی ہے۔  الفاظ کا مخصوص انتخاب کسی بھی امر کی اہمیت کو زیادہ یا کم کرسکتا ہے  اور غیر محسوس انداز میں اس امر کے تناظر کی تشکیل کر سکتا ہے۔
جنوبی ایشیا کے اسٹریٹیجک اسلحے کی اسم بندی ایک انوکھی  صورتحال   پیش کرتی ہے۔
 زیادہ تر غیر جنوبی ایشیائی جوہری ریاستیں اپنے بیشتر اسلحہ جاتی نظامات (ویپن سسٹمز)  کو تکنیکی خصوصیات  کی بنیاد پر  حرفی ہندسی کوڈز  یا سرنامیہ کی صورت میں (جیسے کہ بی ۶۱ ، تھاڈ )  نام دیتی ہیں۔ تاہم  جنوبی ایشیا کے اسٹریٹیجک اسلحے کی اسم بندی خطے کی مذہبی، تاریخی اور ثقافتی سیاق و سباق سے وابستہ ہے۔ بھارت اور پاکستان کے اسلحے کو نام دینے کے رواجات   بیک وقت عوامی تصورات کو تشکیل دینے اور ان کے  ارتقائی اسٹریٹیجک موقف کی نشاندہی کرنے کا کام کرتے ہیں، جو علاقائی سلامتی کے محرکات کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔


جوہری اسلحے کی زبان دانی  کے ملک داری پر اثرات


جنوبی ایشیا میں مذہب اور ثقافت قومی شناخت کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان خطوط پر ہتھیاروں کے نام رکھنے سے سیاسی اور فوجی اشرافیہ کو ملک کی تزویراتی روش کا جواز، خصوصاََ کم خواندہ حصۂ آبادی سے حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اسلحہ جاتی  نظام کے ناموں کو جنوبی ایشیا کی تاریخی یادداشت اور مذہبی علامتوں سے جوڑنے سے  قوم پرستی کے جذبات کو تقویت ملتی ہے، جیسا کہ  دو قومی نظریے کو تقویت دینا، “مقدس جنگ” کے خطرناک تصور کو بھڑکانا اور فوجی تیاری کی اہمیت کو اجاگر کرنا۔ نام دینے کے یہ رواج مخالف کے خلاف تعصب کو فروغ دے سکتے ہیں اور دو طرفہ اعتماد کو کم کرسکتے ہیں۔


ہتھیاروں کے نام براہ راست اسلحے کی دوڑ کا باعث نہیں بنتے اور نہ ہی دو طرفہ تعلقات میں تناؤ پیدا کرتے ہیں۔ تاہم، تصورات کو تشکیل دینے میں ان کا کردار مجموعی طور پر  ماحول میں تقویت دیتا ہے جہاں اسٹریٹیجک متوازیت کو برقرار رکھنے کے لئے ہتھیاروں کی  مسلسل ترقی کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی جانب سے عوامی گفتگو میں ان ناموں کی تشہیر کے ساتھ ساتھ ریاست کے اپنے مفادات، خطے میں اسلحے کی دوڑ کی ذہنیت کو ہمیشگی دے سکتے ہیں۔ لہٰذا بھارت اور پاکستان کے جوہری اسلحے کے نام رکھنے کے رواجات سے جنوبی ایشیا کے ایک غیر مستحکم اور سیماب صفت خطہ  ہونے کے تصور کو تقویت ملتی ہے۔


 یہ کہا جا سکتا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کی اسم بندی کو  ایک طاقتور مزاحم  کے طور پر کام کرنا چاہئے، جو نفرت، غضب اور خوف کے جذبات کو مؤثر طریقے سے  ظاہر کر تا ہو۔تاہم اس طرح کے نام آہستہ آہستہ اجتماعی نفسیات کو متاثر کرتے ہیں، جس سے لا یعنی اور بے شعور ولولہ انگیزی  پیدا ہوتی ہے، جو بحرانات کے دوران کشیدگی میں اضافے کے لئے عوامی حمایت  اور  ریاستی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔


میزائلوں کے  نام رکھنے کے رواجات کے پس منظر  میں ثقافتی اور مذہبی علامتوں کا تجزیہ کرنے سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ میزائلوں کے  نام بھارت اور پاکستان کی داخلی سیاست اور ان کے جوہری محرکات کے لئے نفسیاتی اہمیت رکھتے ہیں۔ میزائل ناموں کے ارتقاء کا جائزہ لینے سے بھارت اور پاکستان کی جوہری حکمت عملی میں دانستہ  تبدیلیوں کا پتہ چل سکتا ہے۔


پاکستانی  اسلحے میں علامیت

 
پاکستان کے میزائل اسلحے میں موجود زیادہ تر نام تاریخی فتوحات کے قصّوں اور اسلامی حوالہ جات، دونوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جس سے پاکستان کے جارحانہ یا دفاعی رویے کو تشکیل دینے کے لئے ایک تزویراتی انتخاب کا پتہ چلتا ہے جس کے جواز  کی بنیاد اسلامی اور قومی ماخذ پر رکھی گئی ہے۔ 
پاکستان کے بہت سے ابتدائی میزائلوں  کے ناموں نے اپنی تاریخی اور مذہبی وابستگی کے ذریعے جارحیت کا عندیہ دیا۔ مثلاََ،  پاکستان کی میزائل سیریز کے لیے حتف (۱۹۹۲) کے نام کا انتخاب، جس کا معنی ـ’’ہلاکت‘‘ ہے اور اسے رسول اللّٰہ ﷺ کی تلوار کے نام پر رکھا گیا، یہ نام ایک سخت انتباہ کا کام دیتاہے، جو اس بات کا عندیہ ہے کہ پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی کسی بھی کوشش کا جواب  آہنی ہاتھوں سے دیا جائے گا۔
اسی طرح ، نام رعد (۲۰۰۷) ، جس کا عربی میں معنی “گرج” ہے، عذابِ الہٰی کے اسلامی تصور کی علامت ہے۔ الخالد ٹینک (۲۰۰۰ کی دہائی) کا نام ایک مسلمان کمانڈر خالد بن ولید کے نام پر رکھا گیا، جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ تمام عمر ناقابلِ شکست رہے،اس یقین کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان بھی ناقابلِ شکست رہے گا۔میزائل اور اسلحہ جاتی نظامات کے نام جن میں عربی زبان کی مذہبی علامیت موجود ہے،جیسے غضب (قہر/عذاب)(۱۹۶۳)، ضرب (وار کرنا) (۲۰۱۶) ، فاتح دوئم (فتح کرنے والا) (۲۰۲۴)، اور عنزہ  (نیزے سے حملہ) (۱۹۸۹)، پاکستان کے میزائل کے ارتقا کو بطور  جارحانہ حکمت عملی پیش کرنے کے شعوری فیصلے کو ظاہر کرتے ہیں۔


متعدد میزائلوں کے  نام پاکستان کی بھارت پر مرکوز جوہری حکمت عملی کی علامت ہیں، جو قومی فخر کے جذبے  کو ابھارتے ہیں اور ایسکیلیشن لیڈر (ماڈل) میں پاکستان  کے عزم و استقلال کی نشاندہی کرتے ہیں۔ غوری (۲۰۰۳)، غزنوی (۲۰۰۴)، ابدالی (۲۰۰۵) اور تیمور (۲۰۲۳) جیسے میزائلوں کے نام ان خاص حملہ آوروں کے نام پر رکھے گئے ہیں جنہوں نے قرون وسطٰی کے بھارت میں ہندو حکمرانوں کو شکست دی تھی۔ان ناموں کا تاریخی  اشارتی مفہوم ضرورت پڑنے پر جوہری اسلحے کو استعمال کرنے کی آمادگی  ظاہر کرتا ہے، جو پاکستان کے ’’نو-نو فرسٹ یوز‘‘ نظریے کے مطابق ہے، اور اس امر کا واضح پیغام دیتا ہے کہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کسی بھی کوشش کے نتائج  سنگین ہوں گے۔ ممکن ہے کہ پاکستان کی جانب سے اس طرزِ نظر  کو بھارت  سے لاحق خطرات  محسوس کرنے اورفیصلہ سازی میں فوجی حکومتوں کی وسیع  پیمانے پر شمولیت پر عدم تحفظ کی وجہ سے اپنایا گیا ہو۔


دریں اثنا، ٹیپو یا ابابیل (۲۰۱۷) جیسے میزائلوں کے  نام پاکستان کی اسٹریٹیجک سوچ میں تدریجی تبدیلی کے ساتھ زیادہ  دفاعی رویے کی طرف منتقلی کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔ 
ٹیپو کا نام ایک مسلمان ہیرو کے نام پر رکھا گیا،  جنہوں نے غیر ملکی حملہ آوروں کے خلاف اپنے وطن کا دفاع کیا تھا؛  ابابیل کا تعلق ایک قرآنی قصّے سے ہے جس میں چھوٹے پرندوں نے ہاتھیوں کی فوج سے خانہ کعبہ کی حفاظت کی تھی، اس نام سے بھارت جیسے بڑے دشمن کے خلاف اپنے چھوٹے سے علاقے کا دفاع کرنے کی پاکستان کی سوچ کو اجاگر کیا گیا ہے۔ 
نام رکھنے کے ان فیصلوں کو عوام کے تصورات کو تشکیل دینے کے بہت سے آلات میں سے ایک کے طور پر دیکھتے ہوئے، حالیہ ابابیل کا دفاعی رجحان اسٹریٹیجک تبدیلی کی زیادہ دفاعی رویے کی طرف منتقلی کی نشاندہی کرتا ہے —- یا کم از کم اس کی عکاسی کرتا ہے۔ کیا حالیہ ابابیل اس احساس کا عکاس ہے کہ ایک  دفاعی موقف، جو نیوکلیئر تھریش ہولڈ کو کم کرے، بھارت کی ’’کولڈ سٹارٹ‘‘ حکمت عملی  کے مزاحم کے طور پر زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتا ہے، یوں  پاکستان کی سرزمین کے اندر محدود روایتی کارروائی کی لاگت بڑھا سکتا ہے؟

بھارتی اسلحے میں علامیت

 
اسی طرح بھارت کے اسلحہ جاتی نظامات کے ناموں کی اشتقاقیات (ایٹے مولوجی) ہندو مذہبی اساطیر ، تاریخ، ثقافت اور تزویراتی نظریات کے امتزاج سے اخذ کی گئی ہے۔ تاریخی طور پر بھارت کے نام رکھنے کے انتخاب میں اکثر دفاعی موقف اور ’’نو فرسٹ یوز پالیسی‘‘  پر کاربند رہنے کی نشاندہی ہوتی تھی۔ مثلاََ  پرتھوی میزائل (۱۹۹۶) جس کا نام مہاراجہ پرتھوی راج کے نام پر رکھا گیا، جس نے مسلم حملہ آور شہاب الدین غوری کے خلاف اپنے وطن کا دفاع کیا تھا، اس نام نے علاقائی دفاع پر بھارت کے اسٹرییٹجک اصرارکو اجاگر کیا۔اسی طرح آکاش (۲۰۰۹) (آسمان) اور ساگریکا (۲۰۰۸) (سمندر کا نظارہ) جیسے ناموں نے جارحانہ حکمت عملی اپنانے کے بجائے ہر حرکت کا مشاہدہ کرنے اور دشمن کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت کا اظہار کیا۔


تاہم بھارتی میزائلوں کو دیے گئے حالیہ نام گزشتہ ناموں کے مقابلے میں زیادہ جارحانہ علامیت رکھتے ہیں جو ممکنہ طور پر بھارت کی اسٹریٹیجک سوچ میں تبدیلی کے غماز  ہیں۔ مثلاََ  اگنی پرائم (۲۰۲۱) کا نام ویدک آگ کے دیوتا اگنی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اگنی کا نام لے کر بھارت اپنی جوہری صلاحیتوں اور اپنے قدیم مذہبی ورثے کے درمیان تعلق قائم کرتا ہے اور اگنی نام کے ذریعے ان ہتھیاروں کی تباہ کن نوعیت پر زور دیتا ہے۔اسی طرح پرالے (۲۰۲۲) (سنسکرت میں “تباہی”) اور تریشول (۲۰۰۵) (بھگوان شیو سے وابستہ تین رخی نیزہ) مذہبی عناصر کی علامت ہیں جو سزا دینے کی بھارت کی صلاحیت اور خدائی جواز کی تقدیس کرتے ہیں۔ ایک اور مثال آسترا (۲۰۱۹) ہے، جس کا مطلب ہے “خدا کا بنایا گیا ایک ہتھیار جو پوری دنیا کو تباہ کرسکتا ہے‘‘۔بھارت کے بہت سے میزائلوں کے نام، جیسے اموگھا (۲۰۱۶)، پرنیش (۲۰۲۱)، پردھیومن (۲۰۱۶)، رودرم (۲۰۲۲) اور دھنش (۲۰۱۰)، ہندو اساطیر سے ماخوذ ہیں، جو بھارت کے جوہری اسلحے میں پنہاں مذہبی علامیت کو ظاہر کرتے ہیں۔


 
ہندو اور اسلامی مذہبی تاریخ سے نسبت  رکھنے والے نام توسیع پسندانہ  بیانات  کو فروغ دینے اور غزوہ ہند (بھارت کی جنگ) اور اکھنڈ بھارت (گریٹر انڈیا) جیسے تصورات کو مضبوط کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بھارت کی نئی افتتاح کی گئی  پارلیمنٹ کی عمارت میں اکھنڈ بھارت کو سرحد سے پاک برصغیر کے طور پر پیش کرنے پر جنوبی ایشیا میں بھارت کے اسٹریٹیجک مقاصد کے بارے میں قضیّہ اُٹھا کیونکہ اس میں بنگلہ دیش، نیپال اور پاکستان کی بین الاقوامی سرحدوں کو تسلیم نہیں کیا تھا۔


بھارت کی تزویراتی حیثیت کو  خدائی  بیانیے کے عین بعین معتبر بنانے کے لیے  مذہبی حوالہ جات کا استعمال بھارت کے جوہری نظریات سے انحراف اور فرسٹ یوز پالیسی کے لیے بڑھتی ہوئی عوامی حمایت سے مطابقت رکھتا ہے۔ بیلسٹک میزائل ڈیفنس (بی ایم ڈی) اور بحری صلاحیتوں میں بھارت کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری نے زیادہ جارحانہ انداز میں عوام کے اعتماد میں اضافہ کیا ہے۔ ۲۰۱۹ میں پلوامہ حملے کے بعد کی  فوجی کارروائیاں اس بات کی غماز ہیں کہ بھارت ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت کے طور پر خود کو منوانا  چاہتا ہے۔


لہٰذا بھارت کے نئے تیار کردہ میزائلوں کی نمائندگی کے لیے اس طرح کی زبان کا استعمال اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مخالفین کے خلاف مزاحمت کے لیے ہتھیاروں کے سیاسی استعمال سے ہٹ کر،تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ عوام کے درمیان،  توجہ دانستہ  ایک ایسے بیانیے کی طرف مبذول ہو گئی ہے جو جارحانہ استعمال (یا کاؤنٹر فورس ٹارگٹنگ) کو جائز قرار دیتا ہے۔ اگرچہ ناموں کے انتخاب میں بہت سے دیگر عوامل  بھی شامل ہوسکتے ہیں ، لیکن بھارت کی دفاعی نام رکھنے کے رواج سے زیادہ جارحانہ نام رکھنے کے رواج کی طرف منتقلی ہندو قوم پرستی کے لئے عوامی حمایت میں اضافے اور علاقائی طاقت کے طور پر بھارت کے عروج کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔


بھارت اور پاکستان کے میزائلوں کے  نام رکھنے کے رواجات کا ارتقاء اور اسلامی اور ہندو عقائد اور متون کے ساتھ ان کا گہرا تعلق قومی بیانیے کی ترقی میں کردار ادا کرنے کے لیے  زبان کی لطیف سیاسی طاقت کو ظاہر کرتا ہے ، جس نے اسلحہ جاتی نظامات کے جارحانہ استعمال کے واضح جواز کے لئے جنگوں کی تاریخ اور مذہبی وابستگیوں کو ابھارا ہے۔
 عوام کی رسائی میں ایک اہم اسلحہ جاتی نظام کا نام  لازمی طور پر منظوری کی متعدد پرتوں سے گزرتا ہے اور ملک کے تزویراتی ارادے کے علامتی اشارے کے طور پر کام کرتا ہے۔
میزائلوں کے نام رکھنے کے رواجات پر گہری توجہ دینے سے ہمیں یہ بصیرت حاصل ہوتی ہے کہ کس طرح بھارت اور پاکستان اپنے تزویراتی موقف کے بارے میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ایک بیانیہ تشکیل دیتے ہیں۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: India’s Agni V via India’s Ministry of Defense

Image 2: A mock missile, dubbed the Pakistan Islamic Atomic Bomb, is paraded through the streets of Karachi in 1999 via Aamir Qureshi

 

Share this:  

Related articles