00029-technology-im-cyberspace-1095×616

 

پاک بھارت دشمنی کی دیرینہ  نوعیت اور بار بار ہونے والے تنازعات سائبر اسپیس میں مسابقت بڑھانے کی نئی  راہیں کھولتے ہیں۔

اگرچہ موجودہ سائبر حملوں  کا پیمانہ  محدود ہے تاہم سائبر ہتھیار جوہری ہتھیاروں سے لیس حریفوں کے مابین کشیدگی میں ممکنہ طور پراضافہ کرسکتے ہیں۔مستقل  مذاکرات اور متعین اصولوں کی عدم موجودگی میں سائبر حملوں سے علاقائی استحکام کوخطرناک مضمرات  کا اندیشہ ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اپنے سائبر مراسم کے مستقبل پر توجہ دیں۔مستقبل میں،  بھارت اور پاکستان صرف جارحانہ صلاحیتوں میں اضافے کے ذریعے ہی ایک دوسرے کے لیٗے سدِّراہ   ہوسکتے ہیں یا وہ ڈیٹرنس  (روک تھام) اور استحکام کو تقویت دینے کے لئے اعتماد سازی کے اقدامات (سی بی ایمز) قائم کرسکتے ہیں۔

بھارت اور پاکستان دونوں تیزی سے ڈیجیٹلائزیشن کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس طرح کا رجحان دو دھاری تلوار کی مانند ہے۔ایک طرف یہ معاشی ترقی کو تحریک دیتا ہے، ایک ریاست اور اس کی عوام کے لئے نئی جہتیں اور امکانات کھولتا ہے۔ دوسری جانب یہ سائبر  خطرات کے سامنے ان کی کمزوریوں میں اضافہ کرتا ہے۔ خود کو سائبر خطرات سے ۔بچانے کے لئے، ریاستیں اپنی سائبر سیکورٹی کو مضبوط کرتی ہیں اور اپنی جارحانہ صلاحیتوں میں اضافہ کرتی ہیں۔

دو جوہری مخالفین پر مشتمل ایک علاقائی خطے میں سائبر اصولوں  کی عدم موجودگی کے نتیجے میں سائبر ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔

اپنے سائبر تعلقات کو واضح کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت دو راستے اختیار کر سکتے ہیں : اسلحہ سازی یا اعتماد سازی کے ذریعے ڈیٹرنس (روک تھام)۔ سائبر اسپیس میں اسلحے کی دوڑ سے پیدا ہونے والے خطرات کے پیشِ نظر  بھارت  اور پاکستان کے لئے سائبر سی بی ایم میں زیادہ  شدّ و مدّ سے حصہ لینا مفید ہوگا۔

سائبر ڈیٹرنس اور اعتماد سازی 

سائبر ڈیٹرنس کا مقصد سائبر اسپیس میں دشمن کے دھمکی آمیز اقدامات کو سزا کے خطرے، دفاع کے ذریعے انحراف، الجھاؤ اور عمومی معاشرتی اقدار کی خلاف ورزیوں (ٹیبوز)  کے ذریعے روکنا ہے۔دانشوروں  نے جوابی کارروائی کی دھمکی سے ڈیٹرنس  کو دشمن کو روکنے کا بہترین طریقہ قرار دیا ہے۔تاہم سائبر اسپیس میں  تخصیصات  کی جانچ پڑتال میں دشواریوں کے پیشِ نظرسائبر حملوں کا جواب دینا مشکل ہو جاتا ہے۔

انحراف کے ذریعے ڈیٹرنس سائبر ڈومین میں ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔اگر کسی ریاست کے پاس بہتر دفاعی صلاحیتیں ہوں اور وہ اپنے مخالف پر برتری رکھتی ہو تو دشمن کو جارحانہ اقدامات کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔ اگرچہ سائبر اسپیس میں ڈیٹرنس کا تصور جوہری حلقے  میں ڈیٹرنس کے مقابلے میں کم  پیچ و  خم رکھتا ہے، لیکن ڈیٹرنس کو تقویت دینے کے لئے سی بی ایم کی اہمیت کے بارے میں اسباق نہایت موزوں ہیں۔ جوہری ڈومین کے مقابلے میں سائبر اسپیس میں ڈیٹرنس کی کم  پیچیدہ  نوعیت نے اس بارے میں علمی بحث کا آغاز کیا ہے کہ آیا اس طرح کی ڈیٹرنس کامیاب  بھی ہوسکتی ہے۔مثلاََ سائبر ڈیٹرنس  جوہری ڈیٹرنس کے “تین سی” کو پورا نہیں کرسکتا :  کیپیبیلیٹی (صلاحیت) ، کریڈیبیلیٹی ( ساکھ) ، اور  کمیونیکیشن ( مواصلات) جس کے باعث جوہری ڈیٹرنس کے مقابلے میں سائبر ڈیٹرنس  مزید پیچیدہ بن جاتی ہے۔

سائبر  حملوں کے ضمن میں تخصیص ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔ کامیاب تخصیص  ڈیٹرنس کے لیے ایک اہم شرط ہے۔ جوہری  ڈومین میں، ریاستیں عام طور پر ہتھیاروں کی جانچ یا فوجی پریڈ کا اہتمام کرکے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتی ہیں، جو  کہ سائبر اسپیس میں ناممکن ہے۔ اسی طرح دشمن کو صلاحیتوں کی ترسیل کا  موہوم سا امکان بھی جنگ کی دھند کو گہرا کر دیتا ہے۔ریاستوں کے پاس اپنے مخالف کی  ظاہرکردہ سائبر صلاحیتوں کی درستی پر شک کرنے کی ہر وجہ موجود ہوگی۔

لہٰذا پاکستان اور بھارت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اسٹراٹیجک اثاثوں کے تحفظ کے لیے سائبر ڈومین میں مثبت تعمیری  انداز میں مشغول ہوں۔اس سے  مذاکرات  کو شروع کرنے میں بھی مدد ملے گی جو تعطل کا شکار ہے۔سائبر ڈیٹرنس  کی  پیش کردہ مشکلات کے سبب  مرحلہ وار سائبر سی بی ایم کا حصول دونوں ممالک کے لئے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ کچھ رپورٹوں کے مطابق ریاستوں کے  مابین باہمی اعتماد اور استحکام قائم کرنے کے لئے چار قسم کے اعتماد سازی کے اقدامات کیے جاسکتے ہیں:  تعاون، انتظامِ بحرانات، انضباط (حدود و  قیود ) اور رابطہ (میل ملاپ)۔

ریاستیں  تعاون کے ذریعے سائبر اسپیس میں پیش آنے والے  مسائل کو قائم شدہ بہترین کمیونٹی اصولوں کے مطابق سائبر واقعات کی مشترکہ بین الاقوامی تحقیقات اور سائبر اسپیس میں بین الاقوامی ماحولیاتی قانون کے تصورات کو لاگو کرکے مشترکہ طور پر حل کر سکتی ہیں۔سائبر اسپیس میں بحران سے نمٹنے کے  آپشنز  (اختیارات)  میں سائبر کرائسس رسپانس ٹیموں کی فعال صف بندی، دو طرفہ سائبر ہاٹ لائن اور کثیر الجہتی سائبر فیصلہ ساز وتخصیصاتی کونسلز شامل ہیں۔کسی تنازعے سے پہلے یا اس کے دوران،  سائبر ‘محفوظ پناہ گاہوں’ کے انتخاب کے لئے، ہدف کے انتخاب کو محدود کرکے اور  قانونی یا سیاسی غیر جانبداری کی حیثیت کو لاگو کرکے انضباط کا اطلاق کیا جاسکتا ہے۔رابطہ پر مرکوز اعتماد سازی ایک ایسی تنظیم کے قیام پر مبنی ہیں جو تکنیکی  ماہر اور  غیر وابستہ اداکاروں کو اہم سائبر اسپیس علاقوں کی حفاظت کے لئے اپنی مہارت کا استعمال کرنے کے قابل بنائے گی۔اس سلسلے میں کچھ ممکنہ اعتماد سازی کے اقدامات (سی بی ایمز ) کی نشاندہی ذیل میں کی گئی ہے۔

پالیسی تجاویز

مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل: کسی بحران کی صورت میں، دونوں فریق کسی قابل تصدیق ثبوت کی عدم موجودگی میں ایک دوسرے پر سائبر حملے کا الزام لگا سکتے ہیں۔

بھارت میں سائبر ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی اہمیت اور پاکستان کی حربی کشیدگی  میں اضافے کو ان رپورٹس میں دیکھا جا سکتا ہے جو  پلوامہ-بالاکوٹ بحران کے دوران مال ویئر اور فشنگ (جعل سازی کے) حملوں میں اضافہ دکھاتی ہیں۔سائبر حملے کے الزام  کی تخصیص کرنا ابھی تک ایک اہم عالمی چیلنج ہے۔اگر نئی دہلی اور اسلام آباد  نا دانستہ کشیدگی کو روکنے میں سنجیدہ ہیں تو دونوں اطراف کے ماہرین پر مشتمل ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے سے بحران کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ تاہم، دونوں فریق اپنے سائبر سیکیورٹی انفراسٹرکچر میں شفافیت فراہم کرنے سے محتاط رہیں گے۔اس طرح کے اقدامات پر ٹریک ون کی سطح پر بات چیت  آغازِ کار  میں ہی نا کام ہوسکتی ہے۔ پہلے قدم کے طور پر، بھارت اور پاکستان اپنے سابق عہدیداروں اور قابل اعتماد ماہرین کو ٹریک ٹو پر شامل ہونے کے لئے نامزد کرسکتے ہیں جنہیں واضح ہدایات دی گئی ہوں کہ وہ باہمی طور پر قابل عمل حل پیش کریں۔

سائبر ہاٹ لائن کا قیام: اسلام آباد اور نئی دہلی پہلے سے موجود ڈی جی ایم او ہاٹ لائن کے علاوہ ایک اور ہاٹ لائن قائم کرسکتے ہیں تاکہ سائبر سے متعلق کسی بھی فوری معاملے پر تبادلہ خیال کیا جاسکے۔ اسی طرح کا ایک قدم خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان ہاٹ لائن قائم کرنے کے لئے بھی لیا گیا تھا، لیکن تکنیکی یا سیاسی وجوہات کی بنا پر وہ دیرپا ثابت نہ ہو سکا۔اس  چتیل تاریخ کو دونوں فریقین کو زیر التواء مسائل کا سرگرمی سے جائزہ لینے سے نہیں روکنا چاہئے۔سائبر ہاٹ لائن کو باقاعدگی سے استعمال کیا جانا چاہئے اور اسے  دیگر دو ہاٹ لائنز کی طرح سائیڈ لائن نہیں کیا جانا چاہئے۔ یہ سائبر ہاٹ لائن پاکستان کے سیکریٹری داخلہ اور ان کے بھارتی ہم منصب کے درمیان قائم کی جا سکتی ہے۔

اہم انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچانے سے گریز: بھارت اور پاکستان کے مابین جنوری ۱۹۹۱ میں نافذ العمل  ہونے والا دو طرفہ غیر جوہری جارحیت کا معاہدہ  دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی جوہری تنصیبات پر حملے کرنے سے روکتا ہے۔ بدترین بحرانوں کے دوران بھی، دونوں ریاستیں ہر یکم جنوری کو اپنی تنصیبات کی فہرست کا تبادلہ باقائدگی سے کرتی رہیں ہیں۔ دونوں ممالک اقتصادی، توانائی، مالیاتی اور سیکیورٹی کے ساز و سامان  سے متعلق اہم  انفرا سٹرکچر کی نشاندہی کرسکتے ہیں اور ان پر حملہ نہ کرنے کا عہد کرسکتے ہیں۔

برصغیر میں امن کی تمنا کے لیے مشترکہ مفادات اور سیاسی عزم  درکارہے۔ تاہم  بھارت اور پاکستان کے درمیان موجودہ ماحول  اعتماد سازی، جسے ایک نہایت آسان ہدفف سمجھا جاتا ہے،  کے لئے سازگار نہیں لگتا ۔

“بھارت نے پاکستان کے ساتھ ٹھوس  سٹراٹیجک  مذاکرات روک دیئے ہیں اور  انضباط کا  دور دورا  قائم کرنے کی کوششوں کو مسترد کر دیا ہے۔پاکستان میں  ــــ “سی بی ایم  فٹیگ  (ماندگی)  کا احساس پایا جاتا ہے۔ مزید برآں، پاکستانی پالیسی ساز امریکہ اور بھارت کی بڑھتی ہوئی اسٹراٹیجک شراکت داری کو جنوبی ایشیا میں اسٹراٹیجک استحکام کو نقصان پہنچانے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بین الاقوامی ماحول بھی مایوس کن ہے۔ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے تمام  ترقی یافتہ ریاستیں دفاع کی آڑ میں اپنی سائبر جارحانہ صلاحیتوں کو بڑھا رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور دیگر جگہوں پر ہونے والی کوششیں بے نتیجہ رہی ہیں۔بھارت اور پاکستان سائبر سکیورٹی سی بی ایم  کو استوار کرنے میں قائدانہ کردار ادا کر سکتے ہیں تاکہ دنیا اس کی پیروی کرسکے۔اس صورت حال میں آگے بڑھنے کا ایک ممکنہ راستہ یہ ہے کہ اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان ہم آہنگی کے شعبوں کی نشاندہی کی جائے، رابطے کی راہیں کھولی جائیں، جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز اس ذمہ داری کا بوجھ بانٹیں۔سائبر سی بی ایم علاقائی استحکام کو یقینی بنانے میں مدد دے سکتے ہیں، جس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعاون اور اعتماد سازی کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Technology in Cyberspace via Public Domain Pictures

Image 2: India-Pakistan borderlands at night via Flickr

 

Share this:  

Related articles

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا Hindi & Urdu

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا

کواڈ کے نام سے معروف چار فریقی سیکیورٹی ڈائیلاگ کے…

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع  Hindi & Urdu

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع 


سرد جنگ کے دوران جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات…

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…