Eu7jGwmVkAACeLr

فروری ۲۰۲۱ میں عمران خان نے بطور وزیراعظم پاکستان سری لنکا کا پہلا دورہ کیا۔ کولمبو کا یہ دو روزہ دورہ جس دوران عمران خان اور سری لنکا کے وزیراعظم مہندا راجاپکسے نے مختلف تزویراتی شعبوں میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا، جنوبی ایشیائی خطے میں وسیع تر سیاسی، سلامتی اور معاشی شراکت داری کے لیےاسلام آباد کی سری لنکا کے ہمراہ مل کے کام کرنے کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔

تاریخی اعتبار سے پاکستان اور سری لنکا کے مابین اختلافات سے پاک اور نسبتاً مستحکم تعلقات رہے ہیں۔ دونوں کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو جہاں ابتدائی طور پر ثقافتی وابستگیوں اور کثیرالفریقی فورمز پر سفارتی تعاون نے تقویت پہنچائی، وہیں اکیسویں صدی میں داخلے کے بعد ان کی معاشی اور دفاعی شراکت داری نے تعلقات کو مزید بڑھاوا دیا۔ مستقبل میں پاکستان اور سری لنکا اپنی تزویراتی شراکت داری کو وسعت دینے اور جنوبی ایشیا میں اپنی مشترکہ سیاسی طاقت میں اضافے کیلئے زیادہ وسیع تر پیمانے پر روابط قائم کرسکتے ہیں۔ تاہم یہ تعلقات سری لنکا کی اپنے زیادہ بڑے اور تاریخی اعتبار سے زیادہ اہم پڑوسی بھارت کے ہمراہ سیاسی ومعاشی تعلقات کو متوازن رکھنے میں قابلیت اور پاکستان کی سری لنکا کے ہمراہ دفاعی اور معاشی تعاون کے عزم پر ڈٹے رہنے پر منحصر ہوں گے۔

ثقافتی روابط اور سفارتی تعاون

پاکستان سری لنکا کے تعلقات کی جڑیں مشترکہ ثقافتی بندھن اور سفارتی تعاون میں پیوست ہیں۔ چونکہ پنجاب، پاکستان کا شہر ٹیکسلا بدھ مت کے ورثے سے متعلقہ قدیم نوادرات اور تعمیراتی شاہکار کا مرکز ہے، لہذا بدھ اکثریتی آبادی کا حامل سری لنکا گوتم بدھ کی سالگرہ کے موقع پر گوتم بدھ کے مقدس فنپارے مستعار لے کے ”گندھارا آرٹ آف پاکستان“ کے نام سے باقاعدگی سے نمائش منعقد کرتا ہے۔ خاص کر مسلم اکثریتی ملک پاکستان جو کہ دنیا کے دیگر خطوں میں مسلمانوں پر تشدد کیخلاف تنقید کرتا ہے، لنکن جزیرے پر مسلمانوں کے انسانی حقوق کی پامالی کے متعدد ادوار پر اس کے حکام روایتی طور پر خاموش رہے ہیں۔ اپنے تزویراتی شراکت داروں کے حوالے سے متنازعہ مسائل کے ضمن میں دانشمندی سے فیصلے پر مبنی اسلام آباد کی پالیسی کو دیکھا جائے تو یہ روش قطعاً غیر معمولی نہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ عمران خان کے حالیہ دورے کے فوری بعد ان  کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے کولمبو نے کووڈ ۱۹ سے متاثر ہونے والے مسلمان میتوں کو لازماً  نظرآتش کرنے کی پابندی ہٹا دی جو کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ سری لنکن حکومت پاکستانی وزیراعظم اور عالمی تنقید کو اہمیت دیتی ہے۔

تاریخی اعتبار سے پاکستان اور سری لنکا بین الاقوامی فورمز پر بھی ایک دوسرے سے تعاون کرتے رہے ہیں۔ دونوں ممالک غیروابستہ ممالک کی تحریک (نیم) کے ممبر بھی رہے ہیں، پاکستان ۱۹۷۹ میں اس کا ممبر بنا تھا۔ ۱۹۷۴ میں بھارت کے جوہری تجربوں کے بعد جنوبی ایشیائی چھوٹی ریاستوں میں شامل سری لنکا نے جنوبی ایشیا کو ہتھیاروں سے پاک بنانے کی اقوام متحدہ کی قرارداد کی حمایت بھی کی تھی۔ مزید براں سری لنکا کی ۲۵ سالہ خانہ جنگی کے دوران پاکستان کرکٹ بورڈ نے اپنی کرکٹ ٹیم بھیج کے سری لنکن کرکٹ کی مدد بھی کی تھی۔ اسی طرح ۲۰۰۹ میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے باوجود لنکن کرکٹ بورڈ نے بھی ۲۰۱۷ کے بعد اپنی ٹیم کو پاکستان بھیجنا جاری رکھا۔

سب سے آخر میں یہ کہ پاکستان سری لنکا کے تامل باغی گروہوں کیخلاف سری لنکن حکومت کے عسکری آپریشنز کیخلاف تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کونسل کی قرارداد کیخلاف مسلسل ووٹ ڈالتا رہا ہے۔  یہ سری لنکا کے  لیے پاکستان کی سفارتی حمایت کا سب سے نمایاں پہلو قرار دیا جاسکتا ہے اور غالباً پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر کے مسئلے پر کولمبو کی غیرجانبدار حیثیت کی وجہ بھی۔

دفاع اور سلامتی تعلقات

پاکستان اگرچہ انڈوپیسیفک حکمت عملی یا چھوٹی جنوبی ایشیائی ریاستوں کے ہمراہ تزویراتی تعلقات کو فروغ دینے کیلئے دیگر پیش رفتوں  میں شامل نہیں تاہم جنوبی ایشیا کی علاقائی سلامتی سے جڑے متعدد مسائل پر پاکستان اور سری لنکا کا مشترکہ سفارتی موقف دونوں ممالک کے بیچ دوطرفہ دفاعی تعلقات کو فروغ دینے کا باعث بنا ہے۔

سری لنکا اور پاکستان مختصر ترین جنوبی ایشیائی ریاستیں ہونے کے سبب بھارت کے حوالے سے مختلف نوع کے علاقائی سلامتی خدشات رکھتے ہیں۔ سری لنکا کے شمالی خطے اور بھارت کے جنوبی خطے میں تامل آبادی کی اکثریت ہے جس کے پیش نظر آزادی کے بعد کولمبو کو بھارت کی جانب سے حملے اور اس کے شمالی علاقے اپنے جنوبی تامل آبادی کے حامل علاقے میں ضم کرنے کا خوف تھا۔ نئی دہلی برسہابرس تک سری لنکن تامل آبادی کو سیاسی اور معاشی حقوق دینے کیلئے کولمبو پر زور ڈالتا رہا ہے۔ ۱۹۵۰ کی دہائی میں ہندوستان کے خوف نے ہی ابتدائی طور پر سری لنکا کو برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ شراکت پر مجبور اور اسی کے ساتھ ساتھ پڑوسی ریاستوں کے ہمراہ باہمی دفاع اور عدم جارحیت کے معاہدے کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ پاکستان اور سری لنکا کے دفاعی تعلقات کا ادراک ۱۹۷۱ میں مشرقی پاکستان کے بحران کے دوران ہوا جب بھارت نے مغربی پاکستان کے اوپر اپنی فضائی حدود کے استعمال پر پابندی لگا دی اور ایسے میں سری لنکا میدان میں آیا اور پاکستانی سویلین اور عسکری ہوائی جہازوں کو ٹھہرنے اور اترنے کے حقوق دیے۔ مزید براں شورش اور دہشتگردی کے مقابلے کیلیے تعاون  نے بھی پاکستان اور سری لنکا کے مابین دوطرفہ دفاعی تعلقات کو مضبوط کیا ہے کیونکہ دونوں ممالک کو اپنی اپنی سرزمین پر انسداد دہشت گردی کے آپریشنز کا تجربہ حاصل ہے۔ دیگر ممالک کے علاوہ پاکستان نے بھی لبریشن آف ٹائیگرز آف تامل ایلام (ایل ٹی ٹی ای) کو شکست دینے کے لیے سری لنکا کو عسکری سازوسامان اور عسکری تربیت فراہم کی۔ یہ علیحدگی پسند گروہ سری لنکا کی تامل آبادی کے لیے علیحدہ ریاست کے قیام کیلئے کوشاں ہے۔ چار دہائیوں بعد جب خود پاکستان کی سرزمین دہشتگردی پر مبنی کارروائیوں کی  لپیٹ میں تھی ، تب اس نے مبینہ طور پر انسداد شورش آپریشنز کے لیے اپنی سپاہ کی تربیت کے لیے سری لنکا کی مدد مانگی۔

داخلی محاذ پر عسکریت کیخلاف پاکستان سری لنکا کی لڑائی نے  دو طرفہ دفاعی تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے راہ ہموار کی۔  پاکستان نے ۲۰۱۶ میں کولمبو کو آٹھ جے ایف ۱۷ لڑاکا طیارے فراہم کرنے کے لیے سری لنکا کے ہمراہ دفاعی معاہدے پر دستخط کیے۔ پاکستان اور سری لنکن افواج اور بحری دستے پورٹ کالز، عسکری و بحری تربیت و مشق نیز دفاعی تربیتی منصوبوں اور اجلاسوں کے ذریعے باقاعدگی سے رابطے میں رہی ہیں۔ حال ہی میں کولمبو کے اعلیٰ سطحی دورے میں پاکستان کے وزیراعظم نے دفاعی اور سلامتی شراکت داری کو مزید وسعت دینے کے لیے سری لنکا کو ۵۰ ملین ڈالر ادھار کی پیشکش بھی کی تھی۔

بہرصورت، سری لنکا نے بالعموم کوشش کی ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان فوجی تنازعوں میں الجھنے یا بھارت اور چین  یا چین اور امریکہ کے درمیان تزویراتی مقابلوں میں کسی ایک فریق کی طرفداری  سے احتراز برتے۔  رواں برس کے اوائل میں سری لنکن حکومت کی جانب سے عمران خان کی سری لنکن پارلیمنٹ سے طے شدہ تقریر کی منسوخی اس جانب اشارہ ہوسکتا ہے کہ کولمبو غیرجانبداری چاہتا اور اپنے زیادہ طاقتور پڑوسی اور کلیدی معاشی شراکت دار بھارت کو اشتعال دلانے سے گریز چاہتا ہے۔

دوطرفہ معاشی تعلقات کو فروغ

پاکستان سری لنکا تعلقات کا ایک اور اہم پہلو ان کے درمیان دوطرفہ تجارتی تعلق ہے۔ پاکستان نے چین، ملائیشیا اور سری لنکا کے ہمراہ فری ٹریڈ ایگریمنٹ (ایف ٹی اے) کر رکھا ہے اور محض سری لنکا کے ساتھ ہی اسے تجارتی سرپلس حاصل ہوتا ہے۔ تاہم ۲۰۰۵  کے ایف ٹی اے کے باوجود اسلام آباد اور کولمبو دوطرفہ تجارت کو وسیع تر پیمانے پر بڑھانے میں ناکام ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ۲۰۰۴ میں ۱۸۰ ملین ڈالر کی دوطرفہ تجارت تھی جس میں ۲۰۱۸ تک معمولی اضافہ ہوا اور وہ ۴۶۰ ملین ڈالر تک پہنچی۔ بعض رپورٹس کے مطابق تجارت پر نقصان دہ پابندیاں ہٹانے سے یہ تجارت ۲.۷ بلین ڈالر تک جاسکتی ہے۔ فروری ۲۰۲۱ میں دونوں جانب کے تجارتی سیکریٹریز نے  دوطرفہ تجارت کی راہ میں حائل تکنیکی رکاوٹیں دور کرنے اور ایف ٹی اے کے موثرنفاذ کے لیے مشترکہ ورکنگ گروپس( جے ڈبلیو جیز) کی بحالی پر اتفاق کیا تھا۔

اس دوطرفہ تجارت کی اگرچہ مالی حیثیت معمولی دکھائی دیتی ہے تاہم ایف ٹی اے اور جے ڈبلیو جیز کی سفارتی اہمیت معاشی تعلقات کو مضبوط تر بنانے کی دیرینہ خواہش اوراہلیت کی جانب اشارہ دیتی ہے۔ عمران خان کی سری لنکن وزیراعظم سے حالیہ بات چیت نے تجارت، سیاحت اور سرمایہ کاری کو وسعت دینے کی اس مشترکہ خواہش کو مزید جلا بخشی ہے۔

پاکستانی حکام نے سری لنکا کو پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں حصہ لینے کا مشورہ دیا ہے تاکہ وہ پاکستان میں واقع ٹرانزٹ راستوں کے ذریعے وسط ایشیاء تک اپنی علاقائی معاشی روابط میں بہتری لاسکے۔ تاہم مستقبل قریب میں یہ خارج از امکان ہے کیونکہ پاکستان کو  وسط ایشیائی ممالک سے زمینی تجارت کے لیے  سڑکوں اور ریلوے کا ایک موثر نظام بنانا ابھی  باقی ہے۔  اس کے برعکس کولمبو کو سی پیک کے تحت اسپیشل اکنامک زونز میں سرمایہ کاری کی پیشکش کرنا زیادہ بہتر ہوسکتا ہے۔

حاصل کلام

دفاع اور انسداد دہشتگردی میں تعاون نیز فری ٹریڈ معاہدہ پاکستان اور سری لنکا کے مابین تعلقات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بھارت کے ہمراہ انتہائی گہرے اور وسیع تر سیاسی و معاشی تعلقات کے باوجود بھی کولمبو کی جانب سے اسلام آباد کے  ہمراہ سلامتی شراکت داری کو وسعت دینا دراصل سری لنکا کی جنوبی ایشیائی حریفوں کے  ساتھ مذاکرات کی  صلاحیت کا شاندار مظہر ہے۔ حال ہی میں اعلیٰ ترین سطح کے حامل دورے نے یہ ظاہر کیا ہے کہ حکومتوں کے حکومتی سطح پر رابطے سیاسی، سلامتی، معاشی اور سیاحتی میدانوں میں حائل رکاوٹوں کو دور کرسکتے ہیں۔ دوطرفہ تعلقات کو وسعت دینے کیلئے دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ طے شدہ معاہدوں کے موثر نفاذ کو یقینی بنائیں، عوام کے عوام سے اور کاروبار روابط کو فروغ دیں، ثقافتی اور تعلیمی وفود کے باقاعدگی سے تبادلے کریں اور غیرملکی سرمایہ کے لیے دوستانہ ماحول اور پالیسیاں تیار کریں۔ البتہ اسلام آباد کی جانب سے چھوٹی جنوبی ایشیائی ریاستوں کی جانب بھرپور توجہ کی حامل پالیسیوں کی کمی اور پاکستان و بھارت سے اپنے تعلقات کو متوازن بنانے میں سری لنکا کو درپیش مشکلات کے سبب تعلقات کے ان پہلوؤں پر پیش رفت جمود کا شکار رہ سکتی ہے ۔

***

.Click here to read this article in English

Image 1: Government of Pakistan via Twitter

Image 2: Government of Pakistan via Twitter

Share this:  

Related articles

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…

جوابی کار روائی: کیا پاکستان فوجی حملوں کے رد عمل پر غور کر رہا ہے؟ Hindi & Urdu

جوابی کار روائی: کیا پاکستان فوجی حملوں کے رد عمل پر غور کر رہا ہے؟

ایران اور پاکستان کے درمیان حالیہ جیسے کو تیسا حملے …

پاکستان کا بعد از انتخابات ماحول: ماہرین کا ردعمل Hindi & Urdu

پاکستان کا بعد از انتخابات ماحول: ماہرین کا ردعمل

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والے…