Afghan Refugees
A woman and child at Roghani Refugee Camp in Chaman, a Pakistani border town. Children and young people make up a large percentage of the population at Roghani Refugee Camp

اگست ۲۰۲۱ میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد سے ملک بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کا شکار ہے۔ ملک کی سنگین صورتحال ۱۸۶،۶۸۰ افغان پناہ گزینوں اور پناہ کے خواہشمند افراد کو پڑوسی ممالک کی جانب دھکیل چکی ہے۔ نسل کشی اور ابتر معاشی صورتحال سے جان چھڑا کے بھاگنے  والے افغانوں کے لیے پاکستان بدستور ترجیحی منزل ہے۔ یو این ایچ سی آر کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۲۱ سے تاحال ۱۱۷،۵۵۰ افغان باشندے، جو کہ ملک چھوڑنے والی کل آبادی کا ۶۲ فیصد ہے، پاکستان آئے ہیں۔ حکومت پاکستان اس تعداد سے اختلاف رکھتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ انخلاء کے بعد سے ۲۵۰،۰۰۰ افغان پاکستان آ چکے ہیں۔ بعض اندازوں کے مطابق ۵ لاکھ غیر رجسٹرڈ پناہ گزینوں کے علاوہ تقریباً ۱۳ لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین پہلے سے ہی پاکستانی سرحدوں کے اندر رہائش پذیر ہیں۔ 

پناہ گزینوں کے لیے داخلی سطح پر قوانین  اور پناہ گزینوں کے انتظامات کے لیے واضح لائحہ عمل کی غیرموجودگی کے سبب  پناہ گزینوں کی یہ صورتحال پاکستان کے لیے  باعث آزمائش ہے۔ مزید براں افغانستان اور پاکستان کی سرحد حال ہی میں باڑ لگانے کے باوجود تجارت اور غیرقانونی پناہ گزینوں کی آمد و رفت کا مرکز ہے اور اس سے دونوں ملکوں میں دہشت گردی کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ قانونی اصلاحات کی کمی کا نتیجہ پناہ گزینوں اور غیرقانونی تارکین وطن افراد کو یکساں درجہ ملنے کی صورت میں ہوگا جو اپنے اندر سلامتی اور انسانی نوعیت کی آزمائشوں کا خطرہ رکھتا ہے۔ پاکستان کو امریکی تعاون کے ذریعے افغان باشندوں کے لیے ایک ایسی جامع پناہ گزین پالیسی ترتیب دینے پر غور کرنا چاہیے جو بین الاقوامی شرائط اور مقامی انتظامی لائحہ عمل دونوں پر پورا اترے۔

افغانستان سے پاکستان ہجرت پر مجبور کرنے والے عوامل

افغانستان میں  بدترین معیار زندگی، سنگین معاشی عدم تحفظ اور طالبان کا ظلم و تشدد آبادی کے بڑے حصے کو پڑوسی ممالک کی جانب دھکیلنے والے عوامل ہیں۔ ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ۲۰۲۰ سے ۲۰۲۲ کے دوران  اوسط آمدنی میں ۳۴ فیصد کمی آئی ہے جبکہ ۴۷ فیصد افغان آبادی کو شدید نوعیت کی غذائی قلت کا سامنا ہے۔  طالبان کی قیادت میں خواتین اور لڑکیوں کی حالت بھی انتہائی خطرناک ہے؛ موجودہ حکومت ان کے نقل و حرکت اور تعلیم کے حق پر پابندی عائد کر چکی ہے جس کا نتیجہ گھروں سے باہر کی زندگی، صحت کی سہولیات اور نوکری تک رسائی کے خاتمے کی صورت میں ہوا ہے۔ یونیما کے مطابق  ملک میں انسانی حقوق،  خصوصاً سابق امریکی اتحادیوں اور سابق افغان حکومتی حکام کے حقوق کی صورتحال بھی  انتہائی سنگین ہے۔

 پاکستان میں خیبر پختونخواہ کے علاقے میں سابق فاٹا کے علاقے کی جانب افغان پناہ گزینوں کے کھنچے چلے آنے کی بنیادی وجوہات جغرافیائی، لسانی اور سماجی و ثقافتی ہیں۔ اس علاقے میں پشتون آباد ہیں، اور یہ وہ گروہ ہے جو افغانستان سے بطور پناہ گزین آنے والے اور غیرقانونی تارکین وطن افراد کے ہمراہ لسانی اور ثقافتی تعلق رکھتا ہے۔ پاکستان افغان مصنوعات کی سب سے بڑی برآمدی منڈی بھی ہے جس میں ۲۰۰۳ سے ۲۰۲۰ کے دوران ہر سال مسلسل ۹.۱۷ فیصد کا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ باڑ سے عاری سرحد نیز دونوں ممالک کے درمیان  مصنوعات اور عوام کی آمد و رفت پر زیادہ اختیار نہ ہونے کے سبب غیر قانونی تجارت و نقل و حرکت کے راستے موجود تھے، جو نہ صرف  ترک وطن میں مزید اضافے میں سہولت کار ثابت ہوئے بلکہ دونوں ریاستوں میں دہشت گردی اور جرائم کی پشت پناہی کا سبب بھی بنے۔

 پناہ گزینوں کے انتظام کی پاکستانی پالیسی میں جھول

تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو بظاہر جہاں پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کو انسانی بنیادوں پر غیررسمی پناہ فراہم کی وہیں پناہ گزینوں کے حوالے سے اس کی باقاعدہ پالیسی سرحدوں کی سلامتی اور خارجہ پالیسی اہداف پر منحصر رہی ہے۔ امریکہ اور پاکستان کی مبنی بر تعاون مداخلت  اور نتیجتاً یو این ایچ سی آر اور یو ایس ایڈ کے ہمراہ  شراکت داری کے باجود بھی پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے انتظامات کے لیے قومی سطح پر ایسی کوئی قانون سازی نہیں کی گئی جو بین الاقوامی قوانین اور مقامی حکومتی ضروریات کو مد نظر رکھتی ہو۔

قومی سطح پر کسی پناہ گزین قانون کی غیرموجودگی میں پاکستان آنے والے پناہ گزینوں کی حیثیت کا تعین کرنے  اور ان کی وطن واپسی کے لیے یو این ایچ سی آر کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔ یو این ایچ سی آر ۱۹۵۱ کے ریفیوجی کنوینشن اور اس کے ۱۹۶۷ پروٹوکول کی روشنی میں کام کرتا ہے۔ یہ دونوں ہی پناہ گزینوں کے حوالے سے میزبان ملک پر بین الاقوامی قانونی ذمہ داری عائد کرتے ہیں،  زبردستی ملک بدری نہ کرنے کا پابند بناتے ہیں اور پناہ کے خواہشمند افراد کو ”پناہ گزین“ کا درجہ دیتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ  دونوں کنوینشنز  جو یو این ایچ سی آر کے آپریشنز کی قانونی حیثیت کا تعین کرتے ہیں،  پاکستان ان میں سے کسی ایک کا بھی دستخط کنندہ نہیں ہے۔

اس حقیقت کا نتیجہ پاکستان کی ریاستی پالیسی اور یو این ایچ سی آر کے اختیارات میں واضح عدم تعلق کی صورت میں جھلکتا ہے۔  ۲۰۲۱ میں افغانستان کے ہمراہ مشترکہ سرحد پر پاکستان کی جانب سے باڑ لگانے کے موقع پر یہ سب سے نمایاں دکھائی دیا۔ پاکستانی حکومت اور یو این ایچ سی آر میں بڑے اختلافات موجود ہیں ۔ یہ اختلافات نہ صرف طالبان کی آمد کے بعد سے آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد کے حوالے سے ہیں بلکہ یہ سرحد پر موجود باڑ اور آمد و رفت کے لیے مقررہ چیک پوائنٹس کی موجودگی کے بارے میں خیالات پر بھی ہیں۔ ایک طرف جہاں پاکستانی حکومت کا اصرار ہے کہ وہ مزید پناہ گزینوں کو نہیں رکھ سکتی وہیں یو این ایچ سی آر نے سرحدوں پر نگرانی کے عمل میں نرمی لانے کی درخواست کی ہے نیز اس نے پناہ گزینوں کی آمد سے نمٹنے کے لیے فنڈز میں اضافہ  بھی کیا ہے۔ پاکستانی حکومت اور ان متعدد شراکت دار تنظیموں کے مابین عدم تعلق کہ جن کے ساتھ اسے لازماً کام کرنا چاہیے، خطے کو انسانی، سلامتی اور انتظامی نوعیت کے خطرات سے دوچار کرتا ہے۔

 سرحدی سلامتی اور افغان پناہ گزینوں کو ضابطے کے تحت لانے میں درپیش چیلنجز

یو این ایچ سی آر کی تازہ ترین رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ۴.۶۸ فیصد افغان پناہ گزین اپنے لیے مقررہ کیمپوں سے باہر رہتے ہیں، ان میں ۳.۵۲ فیصد خیبرپختونخواہ اور  ۵.۲۴  فیصد بلوچستان میں رہتے ہیں۔ پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر نے  پناہ گزینوں کی مسلسل آمد کے باعث کے پی اور بلوچستان کے علاقوں میں دہشت گردی کے دوبارہ سر اٹھانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ مزید براں ۲۰۲۱ سے خطے کے سیاسی رہنماؤں نے متشدد گروہوں، ہتھیاروں، باغیوں اور بنیاد پرست نظریات کی سرحد پار سے آمد پر اپنے خدشات ظاہر کیے ہیں۔ افغان مہاجرین کے ہمراہ جغرافیائی اور لسانی قربت کا نتیجہ سماجی سطح پر ان کے باآسانی گھل مل جانے کی صورت میں نکلتا ہے جس کے بعد باقی کے پورے پاکستان میں ان کی رسائی آسان ہو جاتی ہے۔ گو کہ ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں جو افغان پناہ گزینوں کی نقل و حرکت اور بدامنی میں اضافے کے درمیان تعلق ثابت کرسکے  لیکن افغانستان سے  ہجرت کو ضابطے کے تحت لانے میں پاکستان کی نا اہلی دونوں ممالک کے درمیان عوام، سازوسامان اور نقدی کے آزادانہ پھیلاؤ اور متشدد نظریات کی سرحد پار سے ممکنہ آمد میں معاون  بنتی ہے۔

سابق فاٹا خطے میں سرحد پر کڑی پابندیاں عائد کرنے میں ایک اور دشواری پہلے سے ہی ناراض مقامی پشتون آبادی  کا ردعمل ہے۔ پشتونوں کے لیے وابستگی، قبائلی تعلقات اور سرحد پار رشتہ داریاں ان کی شناخت اور برادری کی اہم علامات ہیں۔ سابق فاٹا خطے میں عسکریت پسندی کے خلاف فوجی عمل دخل میں اضافے کےساتھ ساتھ  افغانستان میں مقیم ہم قبیلہ رشتے داروں کی ناگفتہ بہ حالت وہ عوامل ہیں کہ جس کے نتیجے میں مقامی پشتون سرحد پار اپنے رشتے داروں تک رسائی چاہتے ہیں۔ مزید براں  پشتون  اکثریتی علاقوں میں سرکاری دستاویزات میں اندراج کی کمی  سرحدوں پر کڑی نگرانی اور پناہ گزینوں کے لیے رسمی قوانین متعارف کروانے کی راہ میں پاکستان کے لیے ایک اور چیلنج ہے۔

حالیہ مہینوں میں  پاکستان نے اپنی پناہ گزینوں کی پالیسیوں میں دو کلیدی پیش رفت کی ہیں۔ پہلی پیش رفت کسی تیسرے ملک میں بسنے کے خواہش مند افغانوں کے لیے حکومت پاکستان کی نئی ویزہ پالیسی کی منظوری  ہے۔ بعد ازاں جون میں حکومت نے افغان تاجروں کو چیک پوائنٹس سے گزرنے میں سہولت فراہم کرنے کا  فیصلہ کیا۔ تاہم ٹیکس قوانین، تجارتی سہولیات اور  طویل المدتی دورانیے میں معاشی انضمام کی تاجروں کو پیشکش جیسے امور پر زیادہ تفصیلات آشکار نہیں کی گئی ہیں۔ نتیجتاً  سرحدی سلامتی اور باضابطہ ہجرت میں سہولت مہیا کرنے میں متعدد چیلنجز بدستور موجود ہیں جنہیں حکومت قانونی وضاحت کے ذریعے دور کرسکتی تھی۔

پناہ گزینوں کے انتظام اور سرحدی اختیارات پر پاک امریکہ تعاون

پاک افغانستان سرحد پر پناہ گزینوں کے انتظامات اور سلامتی سے جڑے خدشات ،پاک امریکہ تعلقات میں باہمی اتفاق کے اہم شعبے ہیں۔ پاکستان کو یو این ایچ سی آر سے موصول ہونے والی امداد میں امریکہ سب سے زیادہ عطیات مہیا کرتا ہے جو افغانستان سے اس کے انخلاء کے باوجود بھی خطے میں اس کی دلچسپی کا عکاس ہے۔  بین الاقوامی برادری، خاص کر امریکہ کی طالبان سے تعلقات میں کمی  افغانستان میں انسانی بحران کی ابتر ہوتی صورتحال کے لیے ذمہ دار ہے، اس کا نتیجہ پاکستان اور دیگر پڑوسی ملکوں کا رخ کرنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ کی صورت میں ہوا ہے۔ افغانستان کے منجمد اثاثوں کو جاری کرنے کے لیے امریکی حالیہ اقدامات افغان عوام کو آنے والے دشوار موسم سرما سے تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔

سابق فاٹا خطے میں یو ایس ایڈ کے آپریشن بھی سرحدی علاقے میں امریکی سرگرمیاں جاری رہنے کی ایک اور اہم نشانی ہے۔ خطے میں امریکہ کا ایک اہم ہدف تعلیم اور سماجی سطح پر اصلاحات کے ذریعے دہشت گردی کا مقابلہ اور ان اصلاحات کے نفاذ کے ذریعے سلامتی کے شعبے کی اہلیت میں اضافہ ہے۔ پاکستان کی پناہ گزین پالیسی کو معیاری بنانے کے لیے قانون سازی کے ضمن میں بھی پاکستان اور امریکہ  مل کے کام کر سکتے ہیں۔ خطے کے یو این ایچ سی آر پر انحصار میں کمی کے لیے اس کی باقاعدہ صلاحیتوں پر کام کے ساتھ ساتھ یہ دو طرفہ تعاون سابق فاٹا میں داخلی و اندرونی سلامتی کو یقینی بنانے کی سرکاری سطح پر اہلییت کو بھی بہتر بنا سکتا ہے۔  ایک جامع پناہ گزین پالیسی اور بے قاعدہ مہاجرت کو ضابطے کے تحت لانے کے لیے آمد و رفت کے لائحہ عمل کی تشکیل، پناہ گزینوں کے لیے ضروری امداد اور دستاویزی کاروائی کے شعبوں میں امریکہ، پاکستان کی مدد کر سکتا ہے؛  اور اس طرح آنے والے وقت میں  سرحد پر شورش کے خطرات میں کمی اور مجرمانہ سرگرمیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: United Nations Photo via Flickr

Image 2: EU Civil and Humanitarian Protection Aid via Flickr

 

Share this:  

Related articles