جنوری ۲۰۲۱ میں پاکستان نے اپنی پہلی قومی سلامتی پالیسی (این ایس پی) جاری کی جس میں اس کی توجہ کا مرکز جغرافیائی سیاسیات سے ہٹ کے جغرافیائی معیشت رہا ۔ صنعت کاری نیز جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ، افریقہ اور یوریشیا کے ہمراہ روابط میں اس کی ازسرنو دلچسپی کی وجہ، ماضی میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مصروفیت کے سبب ان اہداف کو ترجیح دینے میں ناکامی ہے۔ اسپیشل اکنامک زونز اور اسپیشل ٹیکنالوجی زونز میں سرمایہ کاری کی شکل میں صنعت کاری پر بڑھتی توجہ تزویراتی حیثیت میں تبدیلی اور عظیم قوتوں کے مابین مقابلے سے اس کے دور ہٹنے کی امید دلاتی ہے۔ این ایس پی اگرچہ کھلے بندوں عظیم قوتوں کے مابین مقابلے پر بحث نہیں کرتی ہے، تاہم یہ اس مفروضے کے اوپر ترتیب دی گئی ہے کہ پاکستان مقابلے اور تنازعے کی کسی بھی صورتحال میں امریکہ یا چین میں سے کسی ایک کو نہیں چنے گا۔
عظیم قوتوں کے مابین مقابلے کو نظر انداز کرنے کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستان چوٹی کی ٹیکنالوجی کارپوریشنز بشمول امریکہ اور چین میں موجود ٹیکنالوجی کارپوریشنز کے لیے ایک منڈی کی شکل اختیار کرے۔ تاہم موجودہ وفاقی حکومت کی غیر واضح پالیسیاں، غیریقینی صورتحال کا شکار عالمی معاشی منظرنامہ اور ایک پائیدار معاشی لائحہ عمل متعارف کرنے میں ہچکچاہٹ اس ہدف کو پانے کی پاکستان کی کوششوں کو پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔
ٹیکنالوجی اور اسٹارٹ اپ کے شعبوں میں نئے سنگ میل
پی ٹی آئی کی گزشتہ حکومت نے عمران خان اور عبدالرزاق داؤد کی قیادت میں پاکستان کو عالمی سپلائی چین کا حصہ بنانے کی کوشش کی تھی۔ اس سلسلے میں دو محاذوں پر اہم پیش رفت ہوئی تھی: الیکٹرانک مصنوعات خاص کر سیل فونز کی مقامی سطح پر تیاری و پیداوار، اور کامیاب اسٹارٹ اپس، آئی ٹی برآمدات میں بڑھوتری اور فری لانسنگ سروسز میں تیزی سے اضافہ۔
پاکستان جو تاریخی اعتبار سے برآمدات کی نسبت زیادہ درآمدات کرتا رہا ہے، اس نے جنوری تا نومبر ۲۰۲۱ کے درمیان ۱۲.۲۲ ملین ہینڈ سیٹس تیار کیے جبکہ فقط ۹.۹۵ ملین درآمد کیے گئے۔ ان صنعت کاروں میں زیادہ تر چین کے ہینڈ سیٹ بنانے والے صنعت کار جیسا کہ آئی ٹیل، وی جی او ٹیل، انفنکس اور ویوو شامل ہیں۔ ۲۰۲۰ کے مقابلے میں ۲۰۲۱ کے دوران اس صنعت کی بڑھوتری میں ۱۲۲ فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا۔ مزید براں، جنوبی کوریا میں ٹیکنالوجی کا بڑا نام سام سنگ نے کراچی میں ٹی وی کا پیداواری یونٹ لگایا اور ایک پاکستانی آٹوموبائل صنعت کار لکی موٹرز کارپوریشن کے ہمراہ سام سنگ ہینڈ سیٹس کی تیاری کے لیے ایک مشترکہ کاروبار کا آغاز کیا۔ چین کے ایک اور اسمارٹ فون کے تیار کنندہ ژیاؤمی نے اپنے شراکت دار ایئرلنک کمیونیکیشنز کے ہمراہ پاکستان میں سیل فون کی پیداوار شروع کی ہے۔ ژیاؤمی ہینڈ سیٹس کی پاکستان سے باہر برآمد کے لیے ۵۰۰ ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتا ہے۔
پاکستان میں اسٹارٹ اپس نے ۲۰۲۰ میں کمائے گئے ۴.۶۶ ملین ڈالر کے مقابلے میں ۲۰۲۱ کے دوران غیرمعمولی طور پر ۸۷.۳۶۵ ملین ڈالرز کمائے اور فری لانسرز کی خدمات کے عوض ۳۶۰ ملین ڈالرز ملک میں آئے۔ پاکستان کی آئی ٹی برآمدات بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ رواں مالی سال کے دوران امکان ہے کہ آئی ٹی برآمدات ۶۶ فیصد نمو کے ساتھ ۵.۳ بلین ڈالر ہوجائیں گی، ۲۰۲۰ تا ۲۰۲۱ کے دوران یہ مقدار ۱.۲ بلین ڈالر تھی۔ پاکستان کی ڈیجیٹل قابلیت کی حامل آبادی جس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۲۰۲۱ کے دوران ای کامرس کے شعبے میں ۶ بلین ڈالر ریونیو کا ذریعہ بنی۔ یہ اشاریے جس میں آٹومیکرز کی پھیلتی پھولتی منڈی بھی شامل ہے، یہ اشارہ دیتے ہیں کہ پاکستان چین، جنوبی کوریا، برطانیہ، فرانس، جاپان اور امریکہ کے کاروباری حلقوں کو دیگر کی ہم پلہ کشش کی حامل منڈی فراہم کرنے کی حیثیت اختیار کر سکتا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران کے حالیہ امریکہ مخالف بیانیے کے باوجود بھی پاکستان جغرافیائی سیاسیات پر توجہ دینے اور بڑھتی ہوئی صنعت و برآمدات کے سبب امریکہ کے ہمراہ اپنے تجارتی حجم میں اضافہ کر رہا ہے۔ ۶.۶ بلین ڈالرز کی دوطرفہ تجارت کے ہمراہ امریکہ پاکستان کا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ امریکہ نے ۲۰۱۸ سے ۲۰۲۰ کے دوران پاکستان میں انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی، تھرمل اور دوبارہ قابل استعمال توانائی اور شعبہ صحت میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کو ۵.۱ بلین ڈالر تک بڑھانے میں بھی دلچسپی ظاہر کی تھی۔ پاکستان چین کے ہمراہ اپنے تعلقات کے باوجود امریکہ کے ساتھ معاشی تعلقات میں وسعت کے ذریعے خود کو کسی ایک جغرافیائی سیاسی “کیمپ” کا حصہ بننے سے بچانا چاہتا ہے۔
مختلف ممالک کی طرف سے تجارت اور سرمایہ کاری میں حالیہ اضافہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس سرمایہ کاری کو ٹیکنالوجی سے متعلقہ شعبوں میں تعاون میں تبدیل کرنے کے امکانات ہیں۔ باالخصوص اسپیشل اکنامک زونز میں یہ امکانات زیادہ ہیں۔ اس تعاون میں ایس ای زیز اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت قائم ہونے والے ٹیکنالوجی پارکس شامل ہوں گے۔ چین کی اسپیشل ٹیکنالوجی زون اتھارٹی اور چونگ گوان چھن بیلٹ اینڈ روڈ انڈسٹریل پروموشن ایسوسی ایشن (زبرا) بھی ابھرتی ہوئی ان ٹیکنالوجیز کو کاروباری شکل میں فروغ دینے کے لیے تعاون کر رہی ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی زونز اگرچہ چین کے تعاون سے قائم کیے جا رہے ہیں لیکن غیر چینی سرمایہ کاروں کے خیرمقدم میں پاکستان کی ہچکچاہٹ مسابقتی فضا قائم ہونے میں رکاوٹ بنے گی۔ ایس ای زیز اور ایس ٹی زیز کے دروازے دیگر ممالک کے لیے کھولنے سے ہمہ گیریت کی فضا قائم ہو گی اور چینی غلبے سے تحفظ ملے گا۔ تاہم سب سے پہلے پاکستان کو سرمایہ کاری کی راہ میں درپیش دشواریوں پر قابو پانا ہو گا اور ایک کاروبار دوست ماحول تخلیق کرنا ہوگا۔
امریکہ اور چین کے درمیان متوازن کردار
صدر ٹرمپ کی زیر قیادت امریکہ نے سافٹ ویئر، ہارڈ ویئر اور کلاؤڈ بیسڈ سروسز پر چینی انحصار کم کرتے ہوئے ٹیکنالوجی کے میدان میں چین سے علیحدگی کا آغاز کیا تھا۔ صدر بائیڈن کی زیر نگرانی بھی یہ پالیسی جاری رہنے کا امکان ہے۔ ایسے میں چھوٹی ریاستیں چین اور امریکہ کے درمیان متوازن کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ مصنوعات کنندہ کے میدان میں پیدا ہونے والے خلا کو بھی پر کر سکتی ہیں۔ پاکستان جس کے چین کے ساتھ معاشی تعلقات میں اضافہ ہو رہا ہے، امریکہ کے ساتھ درآمدات کے مقابلے میں برآمدات کی مقدار بارہا بڑھتی رہی ہے نیز یہ دونوں ممالک کے ہمراہ تزویراتی تعاون کی بھی ایک تاریخ رکھتا ہے، ایسے میں پاکستان بھی عظیم قوتوں کے مقابلے میں خود کو محفوظ رکھنے کے لیے ٹیکنالوجی اور معاشی تعاون کی شکل میں ایسا ہی ملتا جلتا کردار ادا کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ اس کے علاوہ جیسا کہ این ایس پی میں بھی روشنی ڈالی گئی ہے، پاکستان بین الاقوامی سطح پر اثرانداز ہونے کے لیے اپنی جغرافیائی سیاسی حیثیت کو استعمال کرنے کی دہائیوں پرانی پالیسی سے بھی اب پیچھے ہٹ رہا ہے۔
اس فیصلہ سازی کے پس پشت پاکستان کے پاس دیگر محرکات بھی ہیں: کم معیار کی ٹیکنالوجی صارفین کی دسترس میں ہوتی ہے نیز عالمی شراکت داروں کی طویل قطار کی موجودگی کے سبب ٹیکنالوجی کی منتقلی و پیداواری یونٹس کے قیام کا امکان بھی ایک محرک ہے۔ مصنوعات سازی اور اسٹارٹ اپس کی ہیئت میں تبدیلی پاکستان کو یہ موقع دیتی ہے کہ وہ یورپ اور ایشیائی کاروباروں میں جاری شراکت داریوں کا دائرہ کار پھیلاتے ہوئے اسے چین اور امریکہ دونوں تک بڑھائے۔
برآمدات میں اضافہ کرنے والے شعبہ جات پاکستانی کاروبار کے لیے روشن مستقبل کی نوید سناتے ہیں۔ ٹیکسٹائل، ادویات، آلات جراحی اور کھیلوں کی صنعت جیسے روایتی شعبے برآمدات میں اضافے اور تیار مصنوعات کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے جدت اختیار کر سکتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران طلب میں کمی کی وجہ سے حالیہ جاری مہنگائی اور افراط زر سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو سیل فونز اور سپلائی چین کے عناصر پیدا کرنے کے لیے امریکی اور چینی کاروباروں کے ہمراہ تعاون کرنا چاہیئے۔ مزید براں زراعت، ادویات، طبی خدمات اور چپ ڈیزائننگ میں ٹیکنالوجی اور تیار مصنوعات کے میدان میں امریکی سرمایہ سے پاکستان کو اپنی سپلائی چین میں وسعت لانے میں مدد ملے گی اور یوں تعاون کے لیے یہ ممکنہ شعبے ہو سکتے ہیں۔
عسکری شعبے میں پاکستان نے امریکہ اور چین دونوں سے ہتھیار حاصل کیے ہیں۔ ہتھیاروں کے حصول کے لیے پاک چین دفاعی تعاون کے باوجود بھی ہتھیاروں کے لوازمات اور دیگر حساس معلومات تک رسائی پر پاکستان اور امریکہ کے درمیان موجود اتفاق رائے یہ تجویز کرتا ہے کہ پاکستان کاروباری شعبے میں بھی ملتے جلتے طریقہ کار کو اپنا سکتا ہے۔
مستقبل میں کون سے چیلنجز درپیش ہیں؟
قبل اس کے کہ پاکستان امریکہ یا حتیٰ کہ چین کے ہمراہ بھی معاشی تعاون کو بڑھائے، اسے متعدد رکاوٹوں کو پار کرنا ہے۔ داخلی اور عالمی معاشی چیلنجز تین عوامل کی وجہ سے ملک کی موجودہ راہ عمل میں رکاوٹ ثابت ہوں گے۔ وہ عوامل یہ ہیں۔ عالمی سطح پر نقد کی طلب میں اضافہ اور رسد میں کمی، حکومت پاکستان کی غیر یقینی معاشی پالیسی اور فاریکس خسارے کی وجہ سے برآمدکنندگان کی پرزوں کی خریداری کے لیے رقوم جاری کرنے میں بنکوں کی ہچکچاہٹ۔
ہارون شریف جیسے کاروبار دوست ماحول تخلیق کرنے کے داعی اس حق میں ہیں کہ پاکستان کا انٹرنیشنل فنانشل سنٹر ایک مشترکہ قانونی فریم ورک تشکیل دے، ٹیکس دوست ماحول تخلیق کرے اور غیرملکی کاروبار کے لیے خصوصی اور محفوظ عدالتی نظام تشکیل دے۔ پاکستان نے جہاں پاکستان کسٹمز میں “سنگل ونڈو” آپریشن متعارف کروایا ہے، وہیں پاکستان ریگولیٹری ماڈرنائزیشن انیشی ایٹو کے تحت ایک کاروبار دوست ماحول کی تشکیل کے لیے اصلاحات کا نفاذ ابھی باقی ہے۔ مزید براں، امریکی کاروبار کے ہمراہ یکساں مسابقتی شرائط اپنا کے پاکستان کاروبار کے لیے سازگار ماحول تخلیق کر سکتا ہے اور اس کے لیے اسے دانشورانہ ملکیت کی چوری، تنازعوں کے حل کے لیے ناقص لائحہ عمل اور ڈیٹا کے تحفظ سے جڑے مسائل جو کہ ایف ڈی آئی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، انہیں بھی دور کرنا ہوگا۔
اس طرح کی رکاوٹوں کو عبور کرنے کے لیے پاکستان کے پالیسی سازوں کو دلیل کی بنیاد پر اور طویل المدتی اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔ ایک سرمایہ دار دوست ماحول تخلیق کرنے کے لیے سیاسی قیادت کو معاشی اصلاحات کو اپنے سیاسی ایجنڈے سے علیحدہ رکھنا ہوگا۔ اس کے لیے بعد میں آنے والی حکومتوں حتیٰ کہ ۲۰۲۳ کے انتخابات کے نتیجے میں آنے والی حکومت کی جانب سے بھی عزم کی ضرورت ہو گی۔ جب تک تیز رفتاری کے ساتھ اصلاحات متعارف نہیں کروائی جائیں گی، تب تک سرمایہ دار پھونک پھونک کے قدم رکھیں گے اور عظیم قوتوں کی سیاست کا حصہ بننے سے بچاؤ کی پالیسی ایک سنجیدہ نوعیت کا پالیسی ہدف ہونے کے بجائے ابہام کا شکار معاملہ رہے گا۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Arif Ali/AFP via Getty Images
Image 2: Parker Song-Pool via Getty Images