China & Pakistan.v2

چینی اور بھارتی سپاہ گزشتہ ایک ماہ سے اپنی متنازعہ سرحد پرایک بار پھر آمنے سامنے ہیں۔ ۶ جون کو ملٹری سربراہوں کے درمیان ملاقات کے بعد یہ تنازعہ اگرچہ طے پاتا دکھائی دیتا تھا تاہم سرحد پر جھڑپوں میں بیس بھارتی فوجیوں کے مارے جانے کے بعد معاملہ دوبارہ گرم ہوتا محسوس رہا ہے۔ ۱۹۷۵ کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب اس سرحد پر ہلاکتیں ہوئیں۔ مبہم معلومات کے بیچ، جنوبی ایشیائی مشاہدہ کاروں نے خطے میں چین کی بڑھتی جارحیت کے جواب میں نئی دہلی کی جانب سے متنازعہ علاقوں کے شمالی  حصوں میں سڑکوں کی تعمیر کے تنازعے کی اصل وجہ ہونے پر بحث کی ہے۔ بہت سے پاکستانی تجزیہ کار اور پالیسی سازوں نے چین کے ساتھ سرحد پر بھارت کی ”غیر قانونی تعمیرات“ کو بطور وجہ شناخت کیا ہے حتیٰ کہ بعض توقع کرتے ہیں کہ چین کی بھارت سے حالیہ جھڑپیں، بھارتی توسیع پسندانہ عزائم پر نگاہ رکھنے کا کردار ادا کر سکیں گی۔

سرحدی تنازعہ اگرچہ جاری ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ چین کے اہم تجارتی شراکت کے طور پر بھی بھارت کی حیثیت برقرار ہے۔ یہ ایسی شراکت داری ہے جسے گزشتہ دہائیوں میں سرحد پر ہونے والی گرماگرمی سےبچا کے رکھا گیا ہے۔ تاہم جیسے جیسے چین بھارت تعلقات میں اضافہ ہوا ہے، اسلام آباد بھی بھارت کیخلاف چین کے ہمراہ اپنی تاریخی تزویراتی شراکت داری پر اعتماد قائم رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ نیز اسے چین بھارت معاشی تعلقات کے حوالے سے اس امر کا بہت معمولی خدشہ ہے کہ یہ تعلقات کبھی چین کو بھارت کیخلاف پاکستان کی حمایت پر از سر نو غور کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔

چین بھارت سرحدی تنازعے پر پاکستان کی رائے

پاک چین دوستی کی بنیادیں ۱۹۶۲ میں اس وقت رکھی گئیں جب چین اور بھارت کے مابین جنگ کے بعد تعلقات میں رخنہ پیدا ہوا۔ اس وقت کے پاکستانی صدر ایوب خان کا یہ اندازہ بڑی حد تک درست ثابت ہوا کہ سرحد کی جنگ اگرچہ محدود اور عارضی ہوگی تاہم اس کے بعد طویل عرصے کیلئے ”سرد جنگ“ ہوگی۔ حال ہی میں پاکستانی تجزیہ کاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ نئی دہلی میں بیجنگ کیخلاف لڑائی کی صلاحیت اور تمنا کی کمی ہے اور اس کے بجائے وہ اسلام آباد پر روایتی برتری قائم رکھنا چاہتا ہے۔

غیر معمولی سرحدی تنازعے اگرچہ پاک چین تزویراتی بندھن کی بنیادوں کو تقویت بخشتے ہیں تاہم پاکستان کو یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ نئی دہلی، چین سے وابستہ خطرات کو جواز بناتے ہوئے جدید ترین غیر ملکی ہتھیاروں کے ذریعے اپنی سپاہ کو جدید خطوط پر استوار کرے گا۔ یہ صورتحال پاکستان اور بھارت میں عدم توازن کو جنم دے گی۔ مزید براں، چین کیخلاف طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے ضمن میں نئی دہلی کی بڑھتی تزویراتی اہمیت کے سبب امریکہ، بھارت کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی اور اس کے جارحانہ عسکری خیالات اور ”غلبے کے عزائم“ پر کم سے کم توجہ دیتا ہے۔

 چین بھارت عسکری تعلقات کے بارے میں پاکستانی رائے کو جاننے کا ایک اور ذریعہ پاک بھارت مسلح ٹکراؤ کی صورت میں چینی مداخلت کی نوعیت کا جائزہ لینا ہے۔ ۱۹۹۸ میں پاکستان کے جوہری تجربوں سے پہلے اوربعد کے دو تاریخی ادوار پاک بھارت عسکری محاذ آرائیوں میں چین کے کردار کو بیان کرتے ہیں۔ ۱۹۹۸ سے قبل بیجنگ اخلاقی و سفارتی سطح پر پاکستان کی حمایت کرتا رہا ہے اور حتیٰ کہ اس نے ۱۹۶۵ اور ۱۹۷۱ کی پاک بھارت جنگوں میں عسکری معاونت بھی کی ہے۔ ۱۹۶۵ میں چین نے لداخ اور سکم تبت پر بھارت کے ساتھ اپنی سرحد پر سپاہ کو متحرک کیا تھا؛ اور۱۹۹۰  میں چینی دفاعی وزیر کی قیادت میں ایک دس رکنی وفد نے اسلام آباد کا دورہ کیا اور جموں وکشمیر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر پاکستان کی عسکری حمایت کا اظہار کیا۔

تاہم ۱۹۹۸ میں پاکستان کے جوہری دھماکوں کے بعد چینی حمایت کی نوعیت تبدیل ہوگئی۔ اس کے بعد پیدا ہونے والے پاک بھارت بحران بشمول ۱۹۹۹ کی کارگل جنگ، ۲۰۰۱-۲۰۰۲ کا ٹوئن پیک بحران، ۲۰۰۸ کے ممبئی حملے اور ۲۰۱۹ کا بالاکوٹ بحران میں چینی کردار ایک مخصوص نقشے کے تحت دکھائی دیا۔ چین نے بحران کو ٹالنے اور دونوں فریقوں کے تحمل سے کام لینے پر زور دینے کے عمل میں امریکہ کے ہمراہ مشترکہ دلچسپی دکھائی۔ البتہ ۲۰۱۹ کے بالاکوٹ بحران کے دوران، چین اور امریکہ کے بطور ثالث کردار کے حوالے سے پاکستانی نقطہ نگاہ میں واضح تبدیلی کا اشارہ ملا۔ پاکستان نے واشنگٹن اور بیجنگ کے اشتعال انگیزی میں کمی  لانے میں کردار کو سراہا تاہم اشتعال انگیزی سے قبل امریکہ کے بھارت کی جانب واضح سفارتی جھکاؤ پر گہرے رنج کا اظہار کیا۔ یہ رویہ مستقبل میں بھی جاری رہ سکتا ہے کیونکہ قطع نگاہ اس کے کہ اوول آفس میں کس جماعت کا نمائندہ بیٹھتا ہے، بھارت مکمل امریکی حمایت کا سلسلہ جاری رہنے کا امکان ہے۔

چین بھارت معاشی تعلقات پر پاکستانی موقف

چین بھارت معاشی تعلقات، پاکستانی تزویراتی میزان میں موجود وہ عنصر ہے جو حتیٰ کہ پاک چین تعلقات کی بنیاد کو بھی تبدیل کرسکتا ہے۔ پاکستان اور چین کے مابین لازوال تعلقات میں اس گرمجوشی کی بنیادی وجہ بیجنگ کی جانب سے بنا تعطل ہتھیاروں کی منتقلی، داخلی دفاعی پیداوار نیز سول جوہری منصوبے میں معاونت اور کشمیر کے تنازعے پر سفارتی حمایت ہے۔ چائنہ پاکستان اکنامک کاریڈور کے ذریعے بھاری چینی سرمایہ کاری اس سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔ اگر چین بھارت معاشی تعلقات، اس تزویراتی بندھن کی ان کڑیوں میں سے کسی ایک میں بھی تبدیلی پیدا کرتے ہیں تو ایسے میں تعلقات متغیر ہوجائیں گے۔ یاد رہے کہ یہ ”نمایاں تبدیلی“ نہ تو ماضی میں کبھی رونما ہوئی ہے اور نہ ہی مستقبل میں اس کے رونما ہونے کا امکان ہے۔

۱۹۶۰ کے اوائل میں پاکستان کے ہمراہ تزویراتی تعلقات کے آغاز سے ہی چین نے کشمیر کے معاملے پر علی الاعلان بیانات یا اشاروں کی صورت میں پاکستان کی حمایت کی ہے۔ بیجنگ کی جانب سے کشمیر کے معاملے پر پالیسی میں مرکزی تبدیلی ۱۹۸۰ کے عشرے سے ۲۰۰۰ کے اوائل میں ہوئی۔ ڈینگ ژائوپنگ کی ۱۹۷۸ کی معاشی اصلاحات  اور ۱۹۸۸ میں بھارت چین تعلقات میں بہتری کے بعد کشمیر کے معاملے پر چین کے موقف میں تبدیلی آئی اور وہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل  کی قرارداد پر عمل درآمد کے موقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے دو طرفہ معاہدوں پر زور دینے لگا (جو کہ اس معاملے پر زیادہ غیر جانب دار موقف ہے)۔ تاہم ۲۰۰۰ کے اوائل میں جیسا کہ بھارت کی امریکہ کے ساتھ قربت میں اضافہ دکھائی دینے لگا، بیجنگ نے بھی اپنے غیر جانب دار موقف سے دوری اختیار کرنے کا اشارہ دیتے ہوئے ۲۰۱۰ میں جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک جرنیل کا ویزہ مسترد کردیا۔ چینی موقف تھا کہ وہ ایک متنازعہ علاقے کے نگران ہیں۔ بعد ازاں اگست ۲۰۱۹ سے بھارتی یکطرفہ اقدامات نے  متازعہ علاقوں میں چین کو اقدامات پر مجبور کردیا۔ چین کی بھارت سے موجودہ لڑائی کی ایک وجہ لداخ کے علاقے پر اس کا اپنا دعویٰ ہوسکتی ہے اور یوں اس تنازعے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا اس کے اپنے مفاد میں ہوسکتا ہے تاہم کسی حد تک اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ نئی دہلی کو خبردار کیا جائے کہ ”چین مخالف“ ریاستوں کے ساتھ تعاون  کے ذریعے چین کو اکسانے سے باز رہا جائے۔

 مزید براں، پاک بھارت تنازعے میں چینی مداخلت کی نوعیت خواہ کچھ بھی ہو، چین نے پاکستان کو ہتھیاروں کی غیر مسلسل فراہمی نیز مقامی دفاعی صنعت اور سول جوہری پروگرام میں معاونت کی ہے۔ پاک چین تزویراتی تعلقات میں عسکری تعلقات سب سے زیادہ کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ بیجنگ تاریخی لحاظ سے اسلام آباد کیلئے ہتھیاروں کا سب سے بڑا فراہم کار رہا ہے اور اسے یہ مقام حاصل کئے ایک دہائی سے زیادہ ہو رہا ہے۔ نئی دہلی کے واشنگٹن کے ہمراہ سول جوہری معاہدے اور نیوکلیئرسپلائیرز گروپ (این ایس جی) کی جانب سے ۲۰۰۸ میں ملنے والی چھوٹ کے سبب، اسلام آباد کیلئے چین پاکستان سول جوہری تعاون ”وقار میں توازن“ کی علامت ہے۔ اس چھوٹ نے بھارت کو غیر فوجی مقاصد کیلئے جوہری ٹیکنالوجی کی تجارت کے قابل بنایا ہے اور یہ وہ اعزاز ہے جس سے اسلام آباد محروم ہے۔ پاکستان، این پی ٹی کی فہرست سے باہر موجود ممالک خاص کر بھارت کی این ایس جی میں شمولیت کی چینی مخالفت کو بھی سراہتا ہے کیونکہ یہ این ایس جی رکنیت کے حوالے سے پاکستانی موقف سے مماثل ہے۔

 اسلام آباد کو چین بھارت اربوں ڈالر کی اس تجارت سے ماسوائے اس کے کوئی مسئلہ پیدا ہونے کا امکان نہیں کہ چین بھارت معاشی تعلقات، پاک چین تعلقات کی ان بنیادی اینٹوں میں سے کسی کو دھچکا پہنچانے کے قابل ہوجائیں۔ درحقیقت بعض سرکاری بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان امید کرتا ہے کہ بھارت کے ساتھ چین کے معاشی تعلقات کی اہمیت، بیجنگ کو یہ موقع دے سکتے ہیں کہ وہ  نئی دہلی کے اسلام آباد کیخلاف ”جارحانہ“ رویئے میں ایک ثالث کا کردار ادا کرے۔

تعلقات کی تکون کے مستقبل کا تزویراتی لائحہ عمل

جغرافیائی سیاست میں قومی ریاستوں کو ایک بار پھر مرکز نگاہ بنانے میں دائیں بازو والوں کی مقبولیت کی عالمی لہر اگر ایک عنصر ہے تو کرونا وبا اس کی دوسری اہم وجہ ہے۔ عالمی سطح پر مبینہ چین مخالف کوششوں کو رد کرنے کیلئے چین کی جارحانہ سفارتی وعسکری حکمت عملی نیز بھارت کی اپنے پڑوسیوں کے ساتھ زیادہ جارحانہ سفارتکاری، یکطرفہ سرحدی حد بندیاں اور از سر نو تازہ ہونے والے علاقائی تنازعات دراصل باہمی ریاستی تعلقات کے ضمن میں ابھرتی  قوم پرستی کے کردار کے چند نمونے ہیں۔  چین اور بھارت کی تازہ ترین سرحدی لڑائی کے  حل کے طور یہ امر خارج از امکان دکھائی دیتا ہے کہ بھارت چینی دباؤ کے سامنے ہار مان لے گا اور متنازعہ علاقوں میں قانونی و عسکری تعمیرات کو ختم کردے گا،  کم از کم ۲۰ فوجیوں کی ہلاکت کے بعد تو اس کا امکان بالکل نہیں۔

جس امر کا زیادہ امکان موجود ہے وہ یہ ہے کہ بھارت چینی سپاہ کی واپسی اور سٹیٹس کو کی بحالی سے کم کی کسی صورت پر سمجھوتہ نہیں کرے گا نیز چین اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹے گا تاوقتیکہ بھارت چین مخالف، لامتناعی اور عسکریت سے آلودہ حکمت عملی کو ترک کرنے پر رضامند نہیں ہوجاتا۔ تاہم چونکہ بھارت اور چین دونوں ہی اشتعال انگیزی میں کمی میں دلچسپی رکھتے محسوس ہوتے ہیں ایسے میں بھارت وسط سے طویل المدت حکمت عملی کے طور پر وہ حکمت عملی اپنا سکتا ہے جو چین کے حوالے سے فرانس کی ہے۔ اس پالیسی کے تحت انڈو پیسیفک میں قانون کی حکمرانی برقرار رکھنے کیلئے چین سے بطور اہم  شراکت دار روابط گہرے کیے جائیں اور جب چین اس کا احترام نہ کرے تو اس پر دباؤ ڈالا جائے۔ بھارت کی امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور فرانس کے ہمراہ تزویراتی شراکت داری نیز بعض اوقات کواڈ میں ہچکچاہٹ کے ساتھ شرکت اور اس کی جانب سے ووہان سپرٹ کی قبولیت اس سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔

جہاں تک ان پیش رفتوں اور تزویراتی تکون کے مستقبل کے بارے میں پاکستان کی سوچ کی بات ہے تو درحقیقت پاکستان کو لاحق یہ خطرہ کہ بھارت اس مقابلے اور چین سے خطرے کو عسکری صلاحیتوں میں اضافے کیلئے استعمال کرے گا، مزید واضح ہوگا۔ بہرحال پاکستان پراعتماد دکھائی دیتا ہے کہ بیجنگ اپنی تزویراتی اور عسکری صلاحیتوں کی سرمایہ کاری، سی پیک سے وفاداری، کشمیر کے تنازعے پر حمایت اور نئی دہلی کیخلاف جوہری پیش رفتوں میں حمایت جاری رکھے گا۔ چین بھی ان سرمایہ کاریوں کو بھارت کی جانب سے ممکنہ چین مخالف حکمت عملی اپنائے جانے کے امکان کیخلاف ایک ضمانت کے طور پر دیکھ سکتا ہے۔ فی الحال جیسے جیسے خطے میں مقابلے کی فضا گرم ہورہی ہے، ویسے ویسے تزویراتی تکون کا مستقبل تیزی کے ساتھ غیر متوازن ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Pakistan PMO via Twitter

Image 2: DIPTENDU DUTTA/AFP via Getty Images

Share this:  

Related articles

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع  Hindi & Urdu

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع 


سرد جنگ کے دوران جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات…

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…

جوابی کار روائی: کیا پاکستان فوجی حملوں کے رد عمل پر غور کر رہا ہے؟ Hindi & Urdu

جوابی کار روائی: کیا پاکستان فوجی حملوں کے رد عمل پر غور کر رہا ہے؟

ایران اور پاکستان کے درمیان حالیہ جیسے کو تیسا حملے …