پاکستان زائد از یک مقامی بحران کے نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ ملک کو سیاسی افراتفری، ماحولیاتی تباہی، پھیلتی ہوئی دہشت گردی اور بڑھتے ہوئے معاشی بحران کا سامنا ہے۔
معاشی محاذ پر ملک کو کمر توڑ افراطِ زر، روپے کی قدر میں کمی اور خطرناک حد تک کم ذخائرِ زرمبادلہ کا سامنا ہے۔موڈیز انویسٹر سروس نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں ڈیفالٹ کا ڈھنڈورا پیٹا ہے۔ پاکستان کی معاشی بدحالی نے بحران کی وجوہات کے بارے میں ایک کشیدہ بحث کو جنم دیا ہے ، اور ساتھ ہی یہ بھی کہ آیا بیرونی شراکت دار ایک بار پھر پیسوں کی تنگی کے شکار پاکستان کو اس بحران سے باہر نکال سکتے ہیں یا نہیں ۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ پاکستان اپنے بگڑتےہوئے معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، امریکہ اور چین کے درمیان طاقت کا زبردست مقابلہ اسلام آباد کی بدلتی ہوئی سنگین معاشی صورت حال کو جغرافیائی و سیاسی نہج دیتا ہے۔ اگرچہ امریکہ اور چین کے مابین مسابقت پاکستان کے لئے ایک پیچیدہ چیلنج رہا ہے ، تاہم حالیہ معاشی بحران کا جغرافیائی وسیاسی استعمال اسلام آباد پر اثر انداز ہونے کی ان کی مسابقتی کوششوں کو بڑھاتا ہے۔جب بیجنگ اور واشنگٹن اس بحران کے لیے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں تو پاکستان اپنے آپ کو ان کے جغرافیائی سیاسی مسابقت کے شکنجے میں دیکھتا ہے، جس سے بگڑتے ہوئے معاشی بحران کو مزید نقصان پہنچتا ہے۔
پاکستان: امریکہ چین کی مسابقت کی زد میں
پاکستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے باوجود واشنگٹن اسلام آباد میں بیجنگ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے چوکنّاہے۔اگرچہ پاکستانی اشرافیہ اور عوام چین کے بڑے کردار اور سرمایہ کاری کے بارے میں بظاہر پرامید نظر آتے ہیں، لیکن مغربی خدشات پاکستان کو چین اور امریکہ کے درمیان متوازن طرزِنظر اپنانےکے لیے ٹہوکا دیتے ہیں۔
اسلام آباد کے دورے کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے قونصلر چولٹ ڈیرک نے پاکستان پر چین کے قرضوں اور ان کے دوطرفہ تعلقات کو لاحق ـ “خطرات ” پر واشنگٹن کی تشویش کا اظہار کیا۔جواباََ چین کی وزارت خارجہ نے امریکہ پر ڈھکا چھپا طنز کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کی معاشی مشکلات کے پیچھے ‘مغربی غلبے والے مالیاتی ساہوکاروں’ اور ‘ایک مخصوص ترقی یافتہ ملک‘ کی مالیاتی پالیسیاں ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستان امریکہ اور چین کے مابین سفارتی تنازعے کی زد میں آیا ہے۔
گزشتہ سال امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے تباہ کن سیلاب کے پیش نظر پاکستان کے لیے چینی قرضوں کی ادائیگی کی تنظیمِ نو کا مطالبہ کیا تھا۔چین کی وزارت خارجہ نے واشنگٹن کو پاک چین تعاون پر ‘غیر ضروری تنقید’ کے خلاف متنبہ کرتے ہوئے امریکہ پر زور دیا کہ وہ پاکستانی عوام کے لیے کچھ ‘حقیقی اور فائدہ مند’ کام کرے۔اس سے قبل امریکہ نے پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کا پیسہ چینی قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال نہ کرے، جس کا بڑا سبب واشنگٹن کی جانب سے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پر تنقید ہے۔
چین نے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیڈ لاک کے دوران پاکستان کو اضافی قرضے دینے کا اعلان کیا ہے۔تاہم اسلام آباد میں جاری غیر یقینی سیاسی صورتحال کے دوران بیجنگ کی جانب سے قرضوں کی تنظیمِ نو پر غور کرنے کا امکان نہیں ہے۔اس سوال پر کہ کیا چین پاکستان پر جون میں واجب الادا ۷ ارب ڈالرکا قرضہ رول اوور (ادائیگی میں تاخیر) کرنے دے گا، جواباََ چینی وزارت خارجہ نے دونوں ‘آئرن برادرز’ کے درمیان ‘ کُل موسمی تزویراتی اور تعاون پر مبنی’ شراکت داری کے فرسودہ جملوں کو دہرایا، اور قرضوں کی واپسی میں تاخیر کے بارے میں تفصیلات ‘قابل چینی حکام’ پر چھوڑ دی گئیں۔درحقیقت چین پہلے ہی سی پیک کے تحت قائم مختار پاور پلانٹس (آئی پی پیز) کو ۱.۵ بلین ڈالر کی واجب الادا ادائیگی میں تاخیر پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکا ہے۔
پاکستان کے معاشی بحران میں چین کا عامل
چین سی پیک بطوراپنے فلیگ شپ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) منصوبے، کے ذریعے کئی بلین فراہم کرکے پاکستان کا اہم اقتصادی شراکت دار رہا ہے۔اسلام آباد میں جہاں سی پیک کو معاشی ‘گیم چینجر’ کے طور پر پہچاناجاتا ہے، وہیں واشنگٹن نے اس منصوبے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے پاکستان کے لیے ناقابل برداشت قرضے کا بوجھ چھوڑا ہے۔اس وقت جیسے جیسے پاکستان کا معاشی بحران شدت اختیار کر رہا ہے، ناقدین، خصوصاََ مغربی دارالحکومتوں میں موجود ناقدین، پاکستان کے چینی قرضوں کو موردِ الزام ٹھہرارہے ہیں۔آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے ۱۰۰ بلین ڈالر کے مجموعی بیرونی قرضوں کا ۳۰ فیصد بیجنگ کا قرضہ ہے۔
اگرچہ پاکستان کا معاشی بحران براہ راست چین کا کام نہیں ہے، تاہم غیر ملکی زرمبادلہ پیدا کیے بغیر، چینی منصوبوں کے ارد گرد بڑھتے ہوئے قرضوں نے ملک کی معاشی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ سی پیک کے آغاز کے تقریباََ ایک دہائی بعد بھی، پاکستان کو شدید معاشی بحران کا سامنا ہے۔پاکستان کی معاشی بدحالی کے پیچھے چین کا عامل ایک حقیقت ہے یا نہیں، اس حوالے سے داخلی سطح پر ایک بحث چھڑ گئی ہے۔ملیحہ لودھی، جو دو بار امریکہ میں پاکستان کی سفیر رہ چکی ہیں، کا کہنا ہے کہ ملک کے بہت سے مسائل ان کے اپنے پیدا کردہ ہیں، کیونکہ مراعات یافتہ اشرافیہ نے عوامی مفاد کو نظر انداز کیا اور ملک کو تباہی کے دہانے پر دھکیل دیا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بحران کے لئے چین یا آئی ایم ایف کو موردِ الزام ٹھہرانے کے خیال کو مسترد کردیا اور داخلی ڈھانچہ جاتی اصلاحات کا مطالبہ کیا۔
پاکستان کے اقتصادی بحران میں امریکی چینی مسابقت بطور خارجی عاملیت
جیسے جیسے امریکہ اور چین کے درمیان مسابقت میں اضافہ ہو رہا ہے، بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات پاکستان کی داخلی سیاست میں ایک بڑامسئلہ بن گئے ہیں۔گزشتہ چند برسوں کے دوران سی پیک پر پیش رفت سست روی کا شکار رہی ہے جبکہ امریکہ کے ساتھ تعلقات ،جو عمران خان کی سابقہ حکومت میں سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے، کثیر الوقوع دو طرفہ تعاملیت کے باعث ان میں تیزی آئی ہے۔گزشتہ سال جون میں، جیسا کہ موجودہ معاشی بحران میں بھی ہوا ہے، چین کی جانب سے اضافی مالی امداد فراہم کرنے سے انکار کے بعد پاکستان نے آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج کے لیے واشنگٹن کی مدد طلب کی تھی۔
اگرچہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو عام طور پر افغانستان میں سیکیورٹی کنورجنس (سلامتی کے لیے ایکا) کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے ، لیکن واشنگٹن اب بھی پاکستان کا بنیادی تجارتی شراکت دار ہے۔مارچ ۲۰۲۲ میں دونوں ممالک نے دوطرفہ اقتصادی تعاون کو وسعت دینے کے لئے تجارت اور سرمایہ کاری فریم ورک معاہدے (ٹی آئی ایف اے) کا دوبارہ آغاز کیا۔
حالیہ برسوں میں چین کے پاکستان میں سب سے زیادہ فعال سرمایہ کار بننے کے باوجود، امریکہ ۲.۱ بلین ڈالر کے تجارتی سرپلس (برآمدات کا درآمدات سے زیادہ ہونا) کے ساتھ پاکستان کا سب سے بڑا برآمدی مقام ہے۔ تاہم چینی سرمایہ کاری پر تنقید کے باوجود، واشنگٹن پاکستان میں نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنے یا چینی انفرا اسٹرکچر کی ترقی کا متبادل پیش کرنے میں پیچھے رہ گیا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں شراکت داری پر پاکستان کو اُٹھانے والے ۱۵۰ بلین ڈالر سے زیادہ کے ناسازگار اخراجات کا ذکر ،پاکستان کی معیشت پر واشنگٹن کے کردار کے بارے میں بحث پر غالب ہے۔انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے براہ راست مالی اخراجات کے علاوہ، اس نے غیر سازگار کاروباری ماحول پیدا کرکے اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کو روک کر پاکستان میں معاشی سرگرمیوں کو سست کردیا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بطور فرنٹ لائن ریاست ،پاکستان کے کردار کی وجہ سے سی پیک کے تحت اہم اقتصادی منصوبوں کو دشمن گروہوں کی جانب سے شدید سیکیورٹی خطرات لاحق ہیں۔
چین کو پاکستان کا سب سے زیادہ مفید اقتصادی شراکت دار اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔اگرچہ چین مشکل وقت میں پاکستان کو مالی قرضے دے رہا ہے، لیکن جب قرضوں کی تنظیمِ نو یا بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کی بات آتی ہے تو اس کی حمایت “سدا بہار ” دوست کے طور پر کم ہی رہی ہے، بالخصوص جبکہ یہ تجارتی خسارہ ان آزاد تجارتی معاہدوں (ایف ٹی اے) کا نتیجہ ہے جو پاکستانی برآمدات کی قدر میں اضافے کی نسبت چین کو زیادہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔اپنی “سدا بہار” دوستی کے باوجود ، چین نے پاکستان کو برکس سمٹ سے خارج کرنے کے ہندوستانی اقدام کی مخالفت نہیں کی ، جس میں دیگر ابھرتی ہوئی معیشتیں شامل تھیں۔
مستقبل پر نظر
اگرچہ پاکستان کا معاشی بحران بنیادی طور پر اقتصادی ڈھانچہ جاتی اصلاحات کو نافذ کرنے میں اس کی داخلی نااہلی کی وجہ سے ہے ، لیکن اس بوجھ میں چین اور امریکہ کابھی حصہ ہے۔ اگرچہ چین کو بڑے پیمانے پر تجارتی عدم توازن اور بڑھتے ہوئے قرضوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے، لیکن افغانستان میں امریکہ کے زیرِ قیادت دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عدم استحکام نے پاکستان کی معیشت کو تباہ کردیا ہے۔ اسلام آباد میں جاری معاشی، سلامتی، ماحولیاتی اور سیاسی بحرانوں کے پیدا کردہ عدم استحکام کے اثرات سے نمٹنے میں مدد دینے میں بیجنگ اور واشنگٹن کا مشترکہ مفاد ہے۔
پاکستان کے معاشی بحران پر چین اور امریکہ کے درمیان جغرافیائی سیاسی تنازعہ ترقی پذیر ممالک سے ایک دوسرے کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لئے ان کی مسابقت کے باعث ہے۔اگرچہ سی پیک پر پیش رفت سست روی کا شکار ہے، لیکن امریکہ کے ساتھ تاریخی طور پر محض لین دین کے تعلقات کے برعکس طویل عرصے پر محیط چین اور پاکستان کے تعلقات کی تغیّر پذیری پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
اب جبکہ پاکستان بدترین معاشی بحران سے نبرد آزما ہے، اسلام آباد کے لیے ضروری ہے کہ وہ ناقابل برداشت معاشی یا سیکیورٹی خطرات پیدا کیے بغیر امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی مسابقت سے قدم پھونک پھونک کر گزرے۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Asim Hafeez/Bloomberg via Getty Images
Image 2: Arif Ali/AFP via Getty Images