تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو جنوبی ایشیائی ریاستوں کو بامعنی علاقائی تعاون قائم کرنے میں دشواریوں کا سامنا رہا ہے۔ ۱۹۸۵ میں، جنوبی ایشیائی سرابراہان مملکت نے جنوبی ایشیائی تنظیم برائے علاقائی تعاون (سارک) تخلیق کی تھی، جو اس وقت سے ہی علاقائی تعاون میں تیزی لانے میں ناکامی کا شکار ہے، جبکہ ۲۰۱۴ سے اس کے سربراہی اجلاس بھی منعقد نہیں ہوئے ہیں۔ کثیرالشعبہ جاتی سائنٹیفک، ٹیکنالوجیکل معاشی تعاون برائے خلیج بنگال (بمسٹیک) نامی پیش رفت جو ۱۹۹۷ میں وجود میں آئی تھی، پاکستان کو منہیٰ رکھنے اور میانمار کی شمولیت کے باوجود بھی اپنا حرکیاتی مقام حاصل نہیں کر سکی ہے۔ یوں جنوبی ایشیاء بدستور دنیا کے سب سے کم انضمام شدہ خطوں میں سے ایک ہے۔
بجائے داخلی ممالک کے، خطے کے باہر موجود ممالک نے جنوبی ایشیائی ممالک کے ہمراہ دوطرفہ تعلقات قائم کرنے کے لیے اپنی کوششیں صرف کی ہیں۔ اب جبکہ چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے ذریعے علاقائی رابطوں کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہے، یہ مضمون گزشتہ ایک دہائی کے دوران میں تین معاشی راہداریوں، جن میں پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک)، چین میانمار اقتصادی راہداری (سی میک)، اور بنگلہ دیش چین انڈیا میانمار اقتصادی راہداری (بی سی آئی میک) شامل ہیں، ان کی تعمیر کے ذریعے جنوبی ایشیا میں ترقی کے حوالے سے چین کے نقطۂ نگاہ کا جائزہ لے گا۔
جنوبی ایشیا میں اقتصادی راہداریوں کی تعمیر کے پس پشت قوتیں
شی جن پنگ نے چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت ۲۰۱۲ میں سنبھالی تھی، اور چینی حکومت نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا اعلان ۲۰۱۳ میں کیا تھا۔ چین کی ترقی کے لیے نئی حکمت عملی دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کے طور پر اس کے کردار کے شایانِ شان ہے۔ “عالمی فیکٹری” کہلانے والا چین صنعت گری اور رسد کا ایک جامع نظام تعمیر کر چکا تھا اور یوں وہ ایشیا بھر میں زیادہ تر ریاستوں کے ہمراہ سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن گیا۔ معاشی اور تیکنیکی شعبوں میں چین کی افزوں صلاحیتوں کا مطلب یہ تھا کہ وہ بیرون ملک، خصوصاً اپنے پڑوس میں اور جنوبی ایشیا بھر میں تزویراتی اہمیت کے حامل مقامات پر تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے مواقع پیدا کر سکتا تھا۔ چین نے بی آر آئی کی وسیع تر چھتری تلے تین کلیدی ترقیاتی خطوط پر جنوبی ایشیائی ریاستوں کے ہمراہ دو طرفہ اور سہہ طرفہ تعلقات کو آگے بڑھانے پر توجہ مرکوز کی۔ اسی سلسلے کے تحت جہاں پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اور چین میانمار اقتصادی راہداری (سی میک) پر نمایاں پیش رفت ہو چکی ہے، وہیں بنگلہ دیش چین انڈیا میانمار اقتصادی راہداری کا نفاذ لڑکھڑاہٹ کا شکار ہو چکا ہے۔
چین امریکہ کی بڑھتی ہوئی کشیدگی، انڈوپیسفک خطے میں عظیم طاقتوں کے مقابلے کو واپس لانے کا سبب بنی ہے تو دوسری طرف چینی پالیسی ساز اور سلامتی حکمت سازوں نے نام نہاد “مشکلِ ملاکا” کا حل تلاش کیا ہے۔ چین کو خلیجِ فارس اور افریقہ کے ذریعے درآمد ہونے والے تیل اور قدرتی گیس کے ۶۰ فیصد سے زائد کو آبنائے ملاکا کے ذریعے منتقل کرنا پڑتا ہے۔ کسی بھی عسکری تنازعے کی صورت میں اس تنگ راستے کے سبب رسد کو لاحق خطرات کو، روس یوکرین جنگ کے عالمی اثرات نے چینی پالیسی سازوں کے سامنے مزید بڑھا کے پیش کیا ہے۔ سی پیک اور سی میک کے ذریعے انفرااسٹرکچر کی ترقی چین کو بحرِ ہند تک رسائی کے لیے متبادل راستے فراہم کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ میانمار اور پاکستان میں خواہ کوئی بھی عسکری قوت یا سیاسی جماعت اقتدار میں ہو، چین نے ان ممالک کی آزادی کے وقت سے ہی ان کے ہمراہ مضبوط تعلقات کو فروغ دیا ہے۔
چین، پاکستان اور میانمار کے درمیان مذاکرات میں بالترتیب تین اصول نمایاں رہے ہیں۔ معاہدہ کرنے والے کوئی سے بھی دو فریقوں کے لیے نفع بخش نتائج کا ادراک کرتے ہوئے اقتصادی راہداری کے تحت کسی بھی مجوزہ منصوبے میں وسیع تر مشاورت، مشترکہ شمولیت اور باہمی مفادات ہونے چاہیئیں۔ تاہم ان ریاستوں کی معاشی کمزوریوں، ڈھانچہ جاتی جدوجہد اور توانائی کی کمی نے ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ پیدا کی ہے۔ نقل و حرکت، توانائی، اور ذرعی ترقی کے شعبے میں چین کی سرمایہ کاریوں کا میانمار اور اسی طرح پاکستان کی جانب سے گرمجوشی کے ساتھ خیرمقدم کیا گیا ہے۔
جنوبی ایشیائی میں بی آر آئی کی تاریخ اور پیش رفت
پاک چین اقتصادی راہداری (سیپیک)
پڑوسیوں کے حوالے سے چینی سفارت کاری میں پاکستان کا خاص مقام ہے۔ ۲۰۱۵ میں چین اور پاکستان نے سدا بہار کی تزویراتی شراکت داری قائم کی تھی اور وہ ‘مشترکہ مستقبل کی حامل قریبی پاک چین کمیونٹی‘ کی تعمیر کے لیے اپنے عزم پر قائم ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا باضابطہ آغاز ۲۰۱۵ میں ہوا تھا، جس کا مقصد چین کے سنکیانگ کو پاکستان کی گوادر بندرگاہ سے منسلک کرنا تھا۔ سمندر اور خشکی پر مبنی یہ راستہ چین کو اپنی توانائی کی درآمدی ضروریات کے لیے ملاکہ سے گریز کا موقع دیتا ہے جبکہ پاکستان اپنی بجلی کی کمی کو پورا کرنے، انفرااسٹرکچر کی تعمیر اور نقل و حرکت کے نیٹ ورکس کو جدید ترین بنانے کا ہدف رکھتا ہے۔
چین سی پیک کا شاہراۂ ریشم کی تجدید کے طور پر حوالہ دے چکا ہے۔ ابتداً اس کی قدر کا تخمینہ ۴۶ بلین امریکی ڈالر لگایا تھا تاہم ۲۰۲۲ تک چین کی پاکستان میں سرمایہ کاریوں کی قدر بڑھ کر ۶۵ بلین امریکی ڈالر ہو چکی ہے۔ سی پیک کے منصوبے پاکستان کے نقل و حرکت کے نیٹ ورکس میں برق رفتاری کے ساتھ جدت لائے ہیں، توانائی کے متعدد منصوبے اور خصوصی معاشی زونز تخلیق کیے ہیں۔ توقع ہے کہ ۲۰۱۵ سے ۲۰۳۰ کے درمیان سی پیک ۲.۳ ملین نوکریاں تخلیق کرے گا اور پاکستان کی سالانہ معاشی ترقی میں ۲ سے ۲.۵ فیصد پوائنٹس کا اضافہ کرے گا۔ ۲۰۲۲ تک چین نے پاکستان کی برآمدات اور پیداوری صلاحیت میں اضافہ کیا ہے اور اس کی بجلی کی مقدار کا ایک چوتھائی فراہم کیا ہے۔ دونوں ممالک سی پیک منصوبوں پر مسلسل پیش رفت سے مطمئن دکھائی دیتے ہیں اور انہوں نے مشترکہ تعاون کی ایک کمیٹی تشکیل دی ہے اور وہ سی پیک کے اعلیٰ معیار کی ترقی کے لیے پرعزم ہیں۔ پاکستان اور چین نے سی پیک کا دائرہ کار افغانستان تک وسیع کرنے سمیت، افغانستان میں بھی ترقی کو فروغ دینے کے لیے تعاون پر اتفاق کیا ہے۔
تاہم متعدد مقامی سیاسی جماعتیں اور شورش پسند مسلح جتھوں نے بلوچستان میں سی پیک کے منصوبوں پر اعتراض اٹھائے ہیں اور حتیٰ کہ انہوں نے سی پیک منصوبوں سے وابستہ سہولیات اور چینی باشندوں پر حملے بھی کیے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور حکومت میں بکثرت تبدیلیوں نے بھی سی پیک منصوبوں کے نفاذ پر اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ عوامل سی پیک میں موجود صلاحیتوں سے مکمل فوائد کشید کرنے کے عمل کو مسلسل محدود کرتے ہیں۔
چین میانمار اقتصادی راہداری
۱۹۵۰ کی دہائی سے چین اور میانمار نے سرکاری دستاویزات میں اپنے تعلقات کو “پاک-فاء” (pauk-phaw) کے طور پر بیان کیا ہے، جو کہ برما کی زبان میں بہن بھائیوں کے لیے استعمال ہونے والا لفظ ہے۔ میانمار کی امن و ترقی کی کونسل کے سابق چیئرمین تھین شویی نے حال ہی میں بیان دیا تھا کہ یہ قریبی تعلق گزشتہ نسلوں کے رہنماؤں کی جانب سے ترتیب دیا گیا تھا اور اس کے بعد سے ہر نسل نے اسے فروغ دیا ہے اور اس کی جڑیں نہایت گہری ہیں۔ وسیع پیمانے پر پھیلے داخلی تنازعات میں گھرا ملک ہونے کے ناطے میانمار، بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر کے معاملے میں آسیان میں موجود اپنے شراکت داروں کے مقابلے میں کہیں پیچھے ہے۔ اس کا ٹرانسپورٹیشن کا خراب نظام، بجلی اور دیگر سہولیات کی کمی بیرون ملک سے سرمایہ کاری، معاشی پیداوار اور عوام کے طرز زندگی میں طویل عرصے سے آڑے آ رہی ہیں۔
چین نے میانمار کے ہمراہ اپنے دوستانہ تعلقات کو تزویراتی نقطۂ نگاہ سے دیکھا ہے اور اس نے چین میانمار جامع شراکت داری کو تشکیل دینے کے لیے اس کی عسکری و سویلین دونوں حکومتوں کے ہمراہ کام کیا ہے۔ چین میانمار اقتصادی راہداری (سی میک) چینی حکومت اور میانمار کی این ایل ڈی حکومت کی جانب سے ۲۰۱۷ میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت شروع کی گئی تھی۔ سی پیک کی طرح، سی میک نے بھی چین کو بحرِ ہند میں داخلے کا ایک راستہ فراہم کیا ہے۔
سی میک ہائی وے اور ریلوے ٹرانسپورٹیشن کو استعمال میں لاتے ہوئے صوبہ یونان کو میوز اینڈ منڈلے کے ذریعے ریاستِ رخائن کی بحری بندرگارہ پر واقع شہر چوکپائیو سے منسلک کرنے کی منصوبہ بندی کرتا ہے، جس کے لیے ۲۰۱۳ اور ۲۰۱۷ کے درمیان میں تعمیر ہونے والی گیس اور تیل کی پائپ لائنز کو استعمال میں لایا جائے گا۔ مزید برآں، اس پیش رفت کے ایک حصے کے طور پر چوکپائیو میں ایک اسپیشل اکنامک زون تعمیر کیے جائے گا۔ ریلوے، صوبۂ یونان میں روئیلی کے مقام پر چینی ریلوے نیٹ ورک سے منسلک کی جائے گی۔
سی میک راہداری کے ایک اہم حصے کے طور پر، دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں کے ساتھ ساتھ تین مرکزی اہمیت کے زونز کا قیام بھی متوقع ہے۔ یہ مرکزی زونز ڈیوٹی فری رعایتوں کے حامل کاروباری علاقوں، ہوٹلز، صنعت گری اور مالی خدمات کے حامل ہوں گے۔ یہ مرکزی زونز ریاستِ شان کے شمالی حصوں میوز اور چنشویہا میں جبکہ ریاست کاچن میں کن پٹ تی کے مقام پر ہوں گے۔
سی میک کا ایک اور ستون، چین میانمار تیل و گیس کی پائپ لائنز ہیں جنہوں نے بالترتیب ۲۰۱۳ اور ۲۰۱۷ میں کام کا آغاز کیا۔ دونوں متوازی پائپ لائنز میانمار کے جزیرہ میڈ آئی لینڈ کی بندرگاہ پر مغربی چوکپائیو سے شروع ہوتی ہیں اور پھر وسطی میانمار سے ہوتی ہوئی چین کے سرحدی شہر روئیلی جو کہ صوبۂ یونان میں واقع ہے، تک پہنچتی ہیں۔ چین میں توانائی کی فراہمی کا چوتھا تزویراتی راستہ ہونے کے ناطے، یہ دو پائپ لائنز اس کی توانائی کی فراہمی میں تنوع کے لیے حیات بخش قدر رکھتی ہیں۔ ان پائپ لائنز نے میانمار کی مقامی آبادیوں کے لیے آمدنی کے منافع بخش ذرائع اور روزگار کے مواقع بھی تخلیق کیے ہیں اور پائپ لائنز کے ساتھ ملحقہ علاقوں میں توانائی کی فراہمی کے دباؤ میں بھی کمی پیدا کی ہے۔ دونوں پائپ لائنز سے میانمار کو ۲۰۱۹ کے اختتام تک، ۵۲۰ ملین ڈالر کی براہِ راست آمدنی حاصل ہوئی تھی۔
جہاں تک سی میک منصوبوں کے نفاذ کا تعلق ہے، تو فوجی بغاوت نے ۲۰۲۱ میں این ایل ڈی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور اس کی قیادت کو جیل بھیج دیا تھا، جس سے پیشرفت میں تاخیر پیدا ہوئی۔ سی میک کے بڑے منصوبے جن کی منصوبہ بندی کی گئی اور خطے میں ان کا نفاذ کیا گیا، دراصل وہ قوم پرست مسلح جتھوں کے زیرِ انتظام ہیں، نہ کہ عسکری حکومت کے، یہی وجہ ہے کہ متعلقہ منصوبوں سے جڑی بے یقینی اور عدم تحفظ کی کیفیت بدستور قائم ہے۔ ایک آزادانہ اور غیر منصفانہ انتخابات کے ذریعے سویلین وفاقی حکومت کی بحالی کی کوششوں کے بارے میں بھی قبل از وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
بنگلہ دیش چین انڈیا میانمار اقتصادی راہداری (بیسیآئیمیک)
بنگلہ دیش چین انڈیا اور میانمار نے ۲۰۱۴ میں ایک ذیلی علاقائی ‘تعاون کے زون’ یا ‘ترقیاتی زون’ کی تخلیقی کے لیے بی سی آئی میک کا آغاز کیا تھا، جو چین کے جنوب مغرب میں چہار سو خشکی میں گھرے اور قدرے کم ترقی یافتہ علاقوں کو بھارت کے شمال مشرق میں ترقی یافتہ بنگلہ دیش اور میانمار سے منسلک کرے گا۔ بی سی آئی میک کے جھنڈے تلے مرکزی پیش رفت ایک ایسی راہداری ہے جو کلکتہ کو کنمنگ سے منسلک کرتی ہے اور میانمار میں منڈلے اور اس کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش میں ڈھاکہ اور چٹاگانگ سے گزرتی ہے۔ راہداری بذریعہ ٹرانسپورٹ انسلاک، تجارتی رابطے اور ثقافتی و مذہبی سیاحت میں سہولت کاری کے لیے ترتیب دی گئی ہے۔ چونکہ بی سی آئی میک سے متعلقہ علاقوں میں متعدد سیاحتی مقامات موجود ہیں، ایسے میں بی سی آئی میک ماحولیاتی اور مذہبی سیاحت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ امکان ہے کہ منصوبے سے وابستہ چاروں ممالک، رسد اور پیداواری سلسلوں کی تعمیر کے ذریعے مل جل کر ٹیرف اور علاوہ ٹیرف رکاوٹوں کو دور کرنے کے ذریعے اشیائے صرف اور خدمات کے لیے زیادہ وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی منڈی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
تاہم بھارتی حکومت بی آر آئی کو مسترد کر چکی ہے کیونکہ اسے وہ تزویراتی اہمیت کے حامل سرحدی علاقوں میں چینی طاقت کے ارتکاز کے طور پر دیکھتی ہے۔ سی پیک پاکستان کے زیرانتظام ایسے خطے سے گزرتا ہے، جس پر بھارت اپنی سرزمین ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اسی طرح بھارتی قومی سلامتی اسٹیبلشمنٹ یہ یقین رکھتی ہے کہ سی میک کے ذریعے سے بھارت کے شمال مشرق میں نسلی بنیادوں پر جاری شورشوں کے لیے اشیائے صرف اور انسانی نقل و حرکت آسان ہو جائے گی۔ بھارت کی شدید مزاحمت کو دیکھتے ہوئے چین، بنگلہ دیش اور میانمار ‘بنگلہ دیش چین میانمار اقتصادی راہداری’ کی تخلیق کے لیے اپنے کوششوں کا رخ موڑ چکے ہیں۔ یہ تینوں ہی حکومتیں بی سی آئی میک کی پہلے ہی حمایت کر چکی تھیں۔ چین بنگلہ دیش کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار اور ایک بڑا سرمایہ دار ہے۔ سی میک منصوبوں کے نفاذ کے بعد، یہ بی سی میک پر بخوبی دلالت کرے گا اور بنگلہ دیش چین تجارتی راستے کو مختصر کر دے گا۔
اقتصادی راہداریوں کی تعمیر سے حاصل شدہ اسباق
بی آر آئی کے لائحہ عمل کے تحت تعمیر ہونے والی اقتصادی راہداریوں کے فوائد و ناکامیوں کی بنیاد پر ہمیں تین اسباق حاصل ہوتے ہیں۔
اولاً یہ کہ کسی بھی اقتصادی تعاون پیش رفت کو سیاسی باہمی اعتماد اور تعاون کی ضمانت پر مبنی ہونا چاہیئے۔ بصورت دیگر اقتصادی تعاون پیش رفت پائیدار نہیں ہو سکتی۔ اس کی نمایاں ترین مثال بی سی آئی ایم اقتصادی راہداری ہے جو قبل از وقت خاتمے سے دوچار ہوئی۔
دوسرا سبق یہ ہے کہ کسی بھی اقتصادی تعاون کے نظم کو، اس میں شامل تمام فریقوں کے لیے موافق، باہمی طور پر مفید اور سب کے لیے فائدوں کا باعث ہونا چاہیئے۔ سی پیک اور سی میک پر نمایاں پیش رفت کے پس پشت محرک ایسے ہی باہمی فوائد اور ان کی موافقت پذیری ہے۔
تیسرا سبق یہ ہے کہ کسی بھی اقتصادی تعاون کے منصوبے کو ماحولیاتی مسائل پر مکمل طور پر سوچ و بچار کرنی چاہیئے اور مقامی آبادی کی تعلیم، صحت اور معیار زندگی کے لیے مالی تعاون کے ذریعے اس کی سماجی ذمہ داری اٹھانی چاہیئے۔ کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے، چین نے پاکستان میں کوئلے سے بننے والی توانائی کے بجائے اپنی توجہ کا رخ قابل تجدید توانائی کی جانب کیا ہے۔ اس کے تحت قائم ہونے والے کروٹ ہائیڈروپاور نے ماحول دوست توانائی کی فراہمی کے لیے اپنی تجارتی سرگرمیوں کا آغاز ۲۰۲۲ میں کر دیا ہے۔
چینی حکومت نے پائیدار، ماحول دوست اور اعلیٰ معیار کی ترقی کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے مقامی حکومتوں کے ساتھ مل کر سخت محنت کی ہے۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: President of the People’s Republic of China, Mr. Xi Jinping via Flickr
Image 2: The plan of OBOR via Wikimedia Commons