
اس مہینے کے آغاز میں رباعیہ (کواڈ) نے واشنگٹن میں وزرائے خارجہ کے اجلاس میں دہشت گردی کے مسئلے پر بے مثال موقف اختیار کیا۔ مشترکہ بیان نے ” سرحد پار دہشت گردی کے سمیت، دہشت گردی اور متشددانہ انتہا پسندی کی تمام اشکال و مظاہر سے متعلقہ اقدامات‘‘ کی مذمت کی اور تعاون برائے انسدادِ دہشت گردی پر توجہ مرکوز کرنے کے عہد کی تجدید کی، جو اس گروہ کے بنیادی ارکان میں سے ہے جس پر پچھلے چند سالوں میں زیادہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔ رواں سال کے اواخر میں ہونے والے کواڈ (چہ فریقی) رہنماؤں کے سربراہ اجلاس 2025 کے میزبان بھارت کے لیے یہ بیان دو پہلوؤں سے ایک سفارتی فتح تھا، پہلا یہ کہ نئی دہلی دوسرے اراکین کو قائل کرنے میں کامیاب رہا کہ وہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں پہلگام میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کریں۔ اور دوسرا، بیان میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر زور دیا گیا کہ وہ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے تحت اس حملے کے “مجرمین، منتظمین اور مالی اعانت کاروں” کے خلاف تعاون کریں، جو کہ مبینہ طور پر پاکستان کی طرف اشارہ ہے۔ تاہم دہشت گردی کو مشترکہ چیلنج کا نام دینے کا یہ علامتی اقدام محض آغاز ہے۔ اگر بھارت اور رباعیہ (کواڈ) ممالک دہشت گردی کے خلاف تعاون سے متعلق سنجیدہ ہیں تو رکن ریاستوں کو علاقے کےاس مسئلے پر اپنی معاملت داری کو مزید آگے بڑھانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔
پہلگام اور بھارت کے دہشت گردی سے متعلقہ خدشات کا تواتر
باوجود اس کے کہ نئی دہلی شراکت داروں کے ساتھ ایک وسیع ترحکمت عملی کے پیش نامہ (ایجنڈہ) پر بات چیت کر رہا ہے، پہلگام میں22 اپریل کا حملہ اور اس کے بعد کے بھارت-پاکستان کے حرکی بحران (کائنیٹک کرائسس) نے ایک بار پھر اس خطے میں دہشت گردی کے خطرات اور ان سے نمٹنے کی اہلیت (کی اہمیت) کو اجاگر کیا ہے۔
اگرچہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں دہشت گردی کے واقعات حالیہ سالوں میں کم ہوگئے ہیں، تاہم بھارتی ماہرین نے ایک اہم نکتہ اٹھایا ہے کہ مقامی دہشت گردی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور ان کے دعویٰ کے مطابق ایسے گروہوں کے حملوں کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے جن کی پشت پناہی پاکستان کر رہا ہو یا وہ اس سے وابستہ ہوں۔ پہلگام کا حملہ خاص طور پر ہولناک تھا کیونکہ اس میں شہریوں کو نشانہ بنایا گیا اور متاثرین کو جنس اور مذہب کی بنیاد پر علیحدہ کیا گیا۔ اگرچہ پاکستانی قیادت اپنے ملک کی اس حملے میں کسی بھی طرح ملوث ہونے کی سختی سے تردید کرتی ہے، مزاحمت محاذ (ٹی آر ایف) — جسے بھارت پاکستان میں قائم دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کی ایک نیابت (پراکسی) سمجھتا ہے — نے ذمہ داری قبول کر کے اسے نئی دہلی کے نقطہ نظر سے ایک سرحد پار کا مسئلہ اور اسے کئی سالوں میں ہونے والے پاکستان سے وابستہ حملوں کی کڑی کا حصہ بنا دیا ہے۔
اگر بھارت اور رباعیہ (کواڈ) ممالک دہشت گردی کے خلاف تعاون سے متعلق سنجیدہ ہیں تو رکن ریاستوں کو علاقے کےاس مسئلے پر اپنی معاملت داری کو مزید آگے بڑھانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔
چنانچہ 7 مئی کو بھارت نے پہلگام حملے کا جواب دیا، جسے اس نے “کنٹرول لائن کے پار اور پاکستان کے اندر گہرائی تک دہشت گردی کے انفرا اسٹرکچرکو ختم کرنے کے لیے ایک ہدفی مہم” کے طور پر بیان کیا، جس کا پاکستان کی جانب سے جواب دیا گیا تو یہ (مہم) ایک چار روزہ تنازع میں تبدیل ہوگئی۔ منڈلاتے ہوئے جوہری (خدشات) کے سائے میں یہ غیر اعلانیہ جنگ جو 7 سے 10 مئی کے درمیان بھارت اور پاکستان کے درمیان لڑی گئی، نئی دہلی کے نقطہ نظر سے محض پاکستان کی جوہری دھونس کا پول کھولنے کے لیے ہی نہیں تھی بلکہ دہشت گردی کاجواب دینے میں بھارتی حد بندی کو تبدیل کرنے کے لیے بھی تھی۔ اس نے فوجی مقاصد کے حصول کے لیے ڈرونز، میزائلز، فضائی دفاعی نظاموں (ائیر ڈیفنس سسٹمز) اور طیاروں کا استعمال کرتے ہوئے نو کونٹیکٹ وار ماڈل (اتصال کے بغیر جنگی ماڈل) پیش کیا ۔ لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اس بات پر زور دیا کہ آپریشن سندور بھارت کا نیا معمول (نیو نارمل) ہے اور (یہ کہ) بھارتی سوچ میں تزویراتی تبدیلی کا مظہر، دہشت گرد حملوں کے خلاف غیر متناسب جواب دینا مستقبل میں معمول بن جائے گا، جس کا خیال کواڈ (رباعیہ) کو رکھنا ہوگا۔
کواڈ اراکین کا ردِّ عمل
اگرچہ کواڈ (چہ فریقی اتحاد) نے انسدادِ دہشت گردی کی اہمیت پر اپنے متفقہ موقف کا اعلان کیا، تاہم ابتدا میں گروپ کی جانب سے پہلگام حملے کے بعد کسی مربوط جواب کی کمی محسوس کی گئی ۔ آسٹریلیا اور جاپان سمیت متعدد دیگر کواڈ اراکین ممالک نے اس حملے پر اپنے افسوس کا اظہار کیا، تاہم اس کے علاوہ کچھ زیادہ نہیں کیا۔ دو طرفی سطح پر امریکہ نے تنازعے کے دوران ملا جُلا رویہ اختیار کیا۔ اگرچہ واشنگٹن نے پلوامہ کے متاثرین کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا، تاہم امریکی قیادت نے ابتداعاً یہ بھی اشارہ دیا کہ وہ اس تنازع میں شامل ہونے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ تنازع کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ امریکی شمولیت بھی بڑھتی گئی،(جیسا کہ) صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ انہوں نے بھارت اور پاکستان کے مابین جنگ بندی کے لیے ثالثی کی ہے اور وہ تنازعۂ کشمیر کو حل کرنے میں مدد دینےکے لیے تیار ہیں۔اس کی وجہ سے بھارت میں بہت مایوسی پیدا ہوئی، کیونکہ نئی دہلی نے تسلسل سے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ کشمیر بھارت-پاکستان کا ایک دو طرفہ مسئلہ ہے اور اس کے لیے تیسرے فریق کے ثالثی کی ضرورت نہیں ہے۔صدر ٹرمپ کے بارہا کیے جانے والے دعوے کہ امریکہ نے بھارت کے ساتھ تجارت میں رکاوٹ کو فوجی کارروائیاں روکنے کے لیے مذاکراتی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا ہے، کو بھی نئی دہلی میں بھارتی مفادات اور مستقبل کے امریکی – بھارتی تعاون کے خلاف سمجھا گیا۔

تاہم جولائی کے سربراہی اجلاس میں کواڈ کے وزرائے خارجہ کا انسدادِ دہشت گردی کے لیےاپنے عزم کی تجدید کرنا اس معاملے پر گروپ کی ہم آہنگی کی طرف ایک بڑے قدم کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ چونکہ کواڈ کی اعلانیہ توجہ انسدادِ دہشت گردی پرہے، نئی دہلی کے لیےاس کے رہنما بھارتی دفاعی اور سفارتی صلاحیتوں کو تقویت دینے جیسی بھارتی کوششوں کے ضمن میں عملی طور پر زیادہ کام کر سکتے ہیں۔ لیکن عموماً دہشت گردی کو ایک گمبھیرعلاقائی اور عالمی مسئلہ (کے طور پر لیا جاتا) ہے جس کے وسیع اثرات ہیں، اس لیے (اس کے تدارک کے لیے) کثیر الجہتی نظام العمل کے تحت ایک مربوط ردِّ عمل کی ضرورت ہے۔ پہلگام کے تناظر میں کواڈ دہشت گردی کے خلاف ایک مضبوط تر موقف تیار کر سکتا ہے اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے نہ صرف انفرادی یا دو طرفہ ردِّ عمل بلکہ کثیر الجہتی اقدامات پر غور و غوض کے بعد شانہ بشانہ کام کر سکتا ہے۔
کواڈ کی انسدادِ دہشت گردی پر معاملت داری اور اگلے اقدامات
کواڈ کا منشور (مینڈیٹ) وسیع ہے جو ہند و الکاہل (انڈو-پیسیفک) میں بشمول اقدامات برائے انسدادِ دہشت گردی کے، کئی سیکیورٹی ترجیحات پر مرکوز ہے اور اس معاملے پر تعاون کی تاریخ رکھتا ہے، کیوں کہ یہ اس شراکت داری کے ستونوں میں سے ایک ہے۔ 2019 میں بھارت کی قومی تفتیشی ایجنسی نے پہلی کواڈ کاؤنٹر ٹیررازم ٹیبل ٹاپ ایکسرسائز کی تاکہ بہترین طریقوں پر معلومات کا تبادلہ کیا جا سکے اور رکن ممالک کے درمیان مزید بین الادارہ جاتی (انٹر ایجنسی) تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔ کچھ عرصہ قبل ہی 2023 میں کواڈ نے اپنے پہلے کاؤنٹر ٹیررازم ورکنگ گروپ (سی ٹی ڈبلیو جی) کا انعقاد کیا تاکہ دہشت گردی کے خطرات اور بہترین طریقوں پر گفتگو کی جاسکے اور یہ بھی کہ گروپ “معلومات کے تبادلے، نتائج کے انتظام اور تزویراتی پیغام رسانی کے ذریعے دہشت گردی کے واقعات کو کم کرنے کے لئے ایک ساتھ کام” کیسے کرسکتا ہے۔ ورکنگ گروپ اَن مینڈ سسٹمز اور کیمیائی، حیاتیاتی، تابکاری اور جوہری آلات نیز انٹرنیٹ سمیت دہشت گردی کی سرگرمیوں سے متعلق وسیع پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔کواڈ سی ٹی ڈبلیو جی نے “تکنیکی ورکشاپس کے ذریعے اور سی ٹی کا تجربہ رکھنے والے غیر کواڈ اراکین کے ساتھ منسلک ہو کر ” جیسے تعاون بڑھانے کے تخلیقی طریقوں پر اتفاق کیا۔ تاہم ایک مخصوص انسدادِ دہشت گردی کے نظام کے باوجود کواڈ نے ان منصوبوں پر بہت کم پیش رفت کی ہے۔
دہشت گردی کو ایک گمبھیر علاقائی اور عالمی مسئلہ (کے طور پر لیا جاتا) ہے جس کے وسیع اثرات ہیں، اس لیے (اس کے تدارک کے لیے) کثیر الجہتی نظام العمل کے تحت ایک مربوط ردِّ عمل کی ضرورت ہے۔
اب جبکہ بھارت اس سال کے آخر میں کواڈ سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گا، نئی دہلی ممکنہ طور پر انسدادِ دہشت گردی کے لیے سفارتی اور عملی سطح پر تعاون کو ایجنڈے میں شامل کرے گا، بالخصوص جبکہ وہ ہم خیال ممالک کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کواڈ ایک موجود نظام العمل (فریم ورک) ہے جہاں ابتدائی کوششیں پہلے ہی سے جاری ہیں اور نئی دہلی ممکنہ طور پر مضبوط بیانیے کے ذریعے رکن ممالک سے عہد لینے کے لیے انسدادِ دہشت گردی کے پہلو سے فائدہ اٹھا سکتی ہےاورساتھ ہی انسداد دہشت گردی کی مشقیں جاری رکھ سکتی ہے۔ پہلگام کے بعد گو کہ بھارت کا حرکی سدِّ راہ (کائنیٹک ڈیٹیرنس) کا سزا کاری ردِّ عمل کم سے درمیانی مدت کے لیے مؤثر ہوسکتا ہے تاہم تنازع کے موجودہ خدشات اور مستقبل میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے امکانات ابھی بھی زیادہ ہیں۔سو، روک تھام کو مزید مؤثر اور اثر انگیز بنانے کے لیے (بھارت) پاکستان کے خلاف بین الاقوامی دباؤ کو متحرک کرنے کی کوشش بھی کر سکتا ہے تاکہ اسے دہشت گردی کی جڑوں سے نمٹنے پر مجبور کیا جا سکے۔ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا حال ہی میں ایس سی او کے مشترکہ بیان پر دستخط کرنے سے انکار بھارت کے کثیرالجہتی سطح پر انسداد دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔
تاہم چاہے کوئی کواڈ رکن حملے کا شکار ہو یا نہ ہو، کواڈ سی ٹی ڈبلیو جی کو یہ مشقیں جاری رکھنی چاہئیں اور تعاون کے اس ستون کو مضبوط بنانے کے لیے انٹیلی جنس شیئرنگ، معلومات کے تبادلے اور تربیت میں سرمایہ کاری کرنی چاہیئے۔ دہشت گردی ایک علاقائی مسئلہ ہے جس کا سامنا بہت سے ہند و الکاہل (انڈو-پیسیفک) شراکت داروں کو ہے اور یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر چین تزویراتی اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے عالمی سیکیورٹی اقدام جیسے مشکوک وسائل اور طریقوں کا استعمال کر رہا ہے۔ علاقائی اور عالمی مفاد کے طور پر انسدادِ دہشت گردی تعاون میں سرمایہ کاری کرنے سے کواڈ کو خطے میں امن اور استحکام کے قیام کے لیے ایک سہولت کار کے طور پر فائدہ ملے گا۔
This article is a translation. Click here to read the article in English.
***
Image 1: U.S. Embassy in India
Image 2: Secretary Marco Rubio via X