ایس اے وی کی گفتگو اس جاری سلسلے کا حصہ ہیں جس میں ایس اے وی جنوبی ایشیائی سلامتی کے رجحانات اور ممکنہ نقاط تصریف کو سمجھنے کیلئے مفکرین اور ماہرین سے بات چیت کرتا ہے۔
سینیئر پاکستانی صحافی ، جنگی نامہ نگار، سلامتی کے تجزیہ کار اور اسامہ بن لادن اور افغان طالبان رہنما ملا عمر کے انٹرویو کے سبب مشہور رحیم اللہ یوسفزئینے ایس اے وی کی مدیران ایملی ٹالو اور رجا یونس سے گفتگو میں طالبان اور امریکہ کے مابین جاری مذاکرات کے باعث افغانستان میں امن کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا۔ جناب یوسفزئی دی نیوز انٹرنیشنل کے پشاور بیورو کے موجودہ مدیر اور پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں بی بی سی پشتو اور اردو سروسز کے نامہ نگار ہیں۔
طالبان– افغان مفاہمت کے بارے میں
آپ نے ایشیئن افیئرز کے لئے حالیہ مضمون میں نشاندہی کی کہ بذات خود امن عمل کے مقابلے میں ” افغان حکومت اور طالبان کو ایک دوسرے سے بات چیت اور مصالحت کیلئے تیار کرنا زیادہ بڑا چیلنج ہوگا” ۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ مفاہمت ممکن ہوگی اور کن شرائط پر ہوگی؟
طالبان، افغان حکومت کو قانونی حیثیت نہیں دینا چاہتے کیونکہ انکو یقین ہے کہ یہ اختیارات سے عاری ہے۔ ان کے خیال میں یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چلے گی۔ یہ انکا یقین ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ انتظار کررہے ہیں جیسا کہ انہوں نے ماضی میں انتظار کیا ہے۔ قومی سلامتی کے مشیر حمداللہ محب کی جانب سے بھیجی گئیٹوئیٹسکے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو دیکھنا خاصا دلچسپ ہوگا کیونکہ وہ بنیادی طور پر صدر اشرف غنی کی جانب سے بولتے ہیں۔ ان کے الفاظ صدر کے غصے اور مایوسی کا عکاس ہیں۔ یہ واضح ہے کہ اب وہ زلمے خلیل زاد کو نشانہ بنا رہے ہیں جو کہ خاصا عجیب ہے کیونکہ خلیل زاد طالبان سے مذاکرات کے ہر دور سے پہلے اور بعد میں کابل جاتے اور افغان حکومت کو اعتماد میں لیتے تھے۔ خلیل زاد افغان حکومت کو مذاکرات کے بارے میں باخبر رکھ رہے تھے۔ جہاں تک ہم جانتے ہیں، وہ ہر ملاقات میں طالبان پر بھی زور دے رہے تھے کہ وہ افغان حکومت سے بات چیت کریں۔
یوں، اگرچہ افغان حکومت کی قطر مذاکرات میں نمائندگی نہیں ہورہی تھی، خلیل زاد ایک طرح سے ان کی جانب سے بول رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ میں قدرے حیران ہوں کہ افغان حکومت ان پر غیر ضروری طور پر برہم ہے ۔ غالباً افغان حکومت امریکی حکومت کو تنہا کررہی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اس سب سے خوش نہیں ہوگی۔ بہر صورت خلیل زاد امریکی حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں اور اس پیشرفت کے ذریعے افغان حکومت بھی طالبان پر دبائو ڈال رہی ہے، بنیادی طور پر یہ کہہ رہی ہے کہ ” ہم سے بات چیت کرو، خلیل زاد ہماری نمائندگی نہیں کرتے ہیں”۔ تاہم، میں یہ نہیں کہوں گا کہ یہ امریکہ اور افغان حکومت کے مابین رخنے کا سبب ہوگا لیکن مستقبل میں دونوں کے مابین شدید عدم اعتماد ہوگا۔ مزید براں مجھے یقین ہے کہ خلیل زاد کابل جائیں گے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اب وہاں انکا خیر مقدم کیا جائے گا۔
امن مذاکرات میں طالبان کی حیثیت کے بارے میں
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ عبوری حکومت میں طالبان کس قسم کا کردار چاہتے ہیں؟ یہ کس قسم کا کردار قبول کرنے کیلئے تیار ہوں گے؟
اگرچہ ممکنہ طور پر ایسی عبوری حکومت ہوگی جو اس تنازعے میں شامل تمام فریقوں کی جانب سے مجوزہ ہوگی، (تاہم) طالبان نے ابھی تک عبوری حکومت کے معاملے پر گفتگو نہیں کی ہے۔ غالباً طالبان کچھ افراد کا نام لیں گے اور انکو شامل کیا جائے گا۔ اگر اتفاق ہوا تو افغان حکومت کے اپنے نامزدگان ہوں گے اور شائد امریکہ اور حزب اختلاب کے بھی نامزدگان ہوں گے۔ یہ ایک قابل قبول نگران حکومت ہوگی جوکہ اصلاحات لائے گی، امن معاہدے کا نفاذ کرے گی اور ممکنہ طور پر انتخابات منعقد کرے گی۔
یہ (سب) ہے جو کہ ہوسکتا ہے، لیکن میرے خیال میں یہ تمام پہلو تفصیل میں زیر بحث نہیں لائے گئے ہیں۔ اور اگر کوئی معاہدہ ہوچکا ہے تو میں یہ رائے نہیں رکھتا کہ طالبان عبوری حکومت میں شامل ہوں گے۔ میرے خیال میں وہ باہر رہیں گے لیکن عبوری حکومت میں شامل ہونے والے افراد کے انتخاب میں انکا کردار ہوگا۔ میرے خیال میں طالبان موجودہ افغان حکومت کے ساتھ اقتدار میں شراکت نہیں کریں گے۔ وہ حکومت سے باہر رہیں گے خواہ وہ عبوری ہو یا معمول کی۔ انہوں نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ آیا وہ انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں یا افغانستان میں جس قسم کی جمہوریت ہے اسے قبول کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے شبہہ ہے کہ وہ اس مرحلے پر وہ اختیارات کے کسی انتظام کا حصہ بنیں گے۔
طالبان اختیارات میں شراکت داری کے نظام کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کے بجائے حکومت سے باہر کیوں رہیں گے؟
طالبان افغان حکومت یا حکمرانوں کے موجودہ گروہ کوواقعی تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ وہ ان کے ساتھ اقتدار میں شراکت داری نہیں چاہتے ہیں- ان لوگوں کے ساتھ جن کے ساتھ وہ لڑتے رہے ہیں اور جنہیں وہ کٹھ پتلی کہتے ہیں۔ میرے خیال میں وہ اس اصول پر کاربند رہیں گے۔ تاہم، اگر وہ انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اور حکومت بنانے یا اتحادی حکومت بنانے کے قابل ہوتے ہیں، تو وہ ایک مختلف چیز ہوگی کیونکہ وہ افغانستان کی عوام کی رائے کی عکاس ہوگی۔ پھرشائد انہیں یہ قبول کرنا پڑے، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اس مرحلے پروہ حکمرانوں کے موجودہ گروہ کے ساتھ اقتدار میں شراکت کریں گے۔
کیا آپ کو یہ امکان دکھائی دیتا ہے کہ طالبان اقتدار میں شراکت کے انتظام پر راضی ہوجائیں اور پھر بذریعہ طاقت ملک کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کریں ؟
غالباً طالبان امید کررہے ہیں کہ غیر ملکی افواج کی واپسی کے بعد افغانستان کی اگرچہ کمزور حکومت، گر جائے گی۔ وہ شائد اس کا ذکر نہ کریں، اس بارے میں کوئی بیان جاری نہ کریں لیکن وہ امید کرتے ہیں کہ جس دن غیر ملکی افواج چلی گئیں، افغان حکومت کمزور ہوجائے گی۔ امریکیوں کو بھی امید ہے کہ طالبان ان مذاکرات کے ذریعے اپنے تمام مطالبات تسلیم نہیں کروا سکیں گے، اور نتیجے میں طالبان کی صفوں میں بھی انحراف اور تقسیم پیدا ہوگی۔ درحقیقت شائد یہی ہے جس کی وہ امید کررہے ہیں۔ یہ وہ خفیہ ، غیر مذکورہ خواہشات ہیں جو شائد دونوں فریقوں کے دلوں میں ہیں، لیکن ظاہری سطح پر، وہ کہتے ہیں کہ ہم کاروبار چاہتے ہیں، ہم امن چاہتے ہیں۔
امریکی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ کوئی عسکری حل یا عسکری فتح نہیں ہونے جارہی ۔ طالبان کھلے عام اس کا اظہار نہیں کررہے، لیکن نجی طور پر وہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ کوئی فوجی حل نہیں ہوگا۔ ان کے مذاکرات کی وجہ یہی ہے کہ طالبان اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ وہ فیصلہ کن عسکری فتح حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ اگر آپ مذاکرات پر رضامند ہیں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ کچھ لو اور دو کیلئے تیار ہیں۔ یہ دونوں جانب ہوچکا ہے- وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ کوئی عسکری فتح نہیں ہوگی، اسی لئے وہ مذاکرات کر رہے ہیں اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پرجو بھی ممکن ہو حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ طالبان ایک اکائی تنظیم ہے، یا پھران میں تقسیم ہے جو کہ ظاہر ہوسکتی ہے؟
جہاں تک میں جانتا ہوں ،کیونکہ میں طالبان کو ۱۹۹۴-۹۵ میں جب یہ ظاہر ہوئے تب سے مشاہدہ کررہا ہوں، میرے خیال میں شائد معمولی بکھراؤ ہو لیکن یہ بڑے پیمانے پر نہیں ہوگا۔ کچھ مختلف طرح کی آوازیں اٹھ سکتی ہیں، غالباً لوگوں کی معمولی تعداد علیحدہ ہوجائے، غالباً وہ داعش( اسلامی ریاست-صوبہ خراسان) میں شامل ہوجائیں، یا پھر شائد وہ صرف علیحدہ ہوجائیں۔ یہ ممکن ہے۔ تاہم، میں نہیں سمجھتا کہ گروہ کا بڑا حصہ تقسیم ہوگا۔ طالبان درجہ وارطریقے سے کام کرتے ہیں جس میں سالار اعظم ہوتا ہے اور ہر کوئی اس کی اطاعت کرتا ہے، اور میرے خیال یہ انکو جوڑے رکھے گا۔ مزید براں، اگر وہ ۲۰۰۱میں اقتدار کھونے کے بعد سے اب تک نہیں بکھرے ہیں اور تمام تر دبائو کے باوجود ۱۸ سال گزار لئے ہیں، میں ان سے امید کرتا ہوں کہ مستقبل میں بھی جڑے رہیں گے اور متحد رہیں گے۔
پاکستان اور طالبان کے بارے میں
پاکستان کیلئے مذاکارت کا قابل قبول نتیجہ کیا ہوگا؟
ہم سب جانتے ہیں کہ آغاز سے ہی پاکستان کے طالبان سے روابط ہیں۔ یہ روابط بہت گہرے تھے، اور یہ روابط طالبان کے اقتدار کھونے کے بعد بھی نہیں ٹوٹے۔ لہذا، پاکستان طالبان سے تعلق ختم نہیں کرے گا، باوجود اس کے کہ آج کل بعض اوقات ہم سنتے ہیں کہ پاکستان طالبان سے خوش نہیں ہے کیونکہ طالبان نے افغان حکومت سے مذاکرات میں طالبان کی شرکت کی پاکستانی تجویز کو قبول نہیں کیا تھا۔ پاکستان اس پر بھی یقین رکھتا ہے کہ طالبان کو سیزفائر کیلئے رضامند ہونا چاہئے۔ پاکستان طالبان پر دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ یہ دو مطالبات تسلیم کریں، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ہے، اس لئے طالبان خود مختار رہنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ پاکستان کے بجائے قطر میں یہ مذاکرات کرنے پر خوش ہیں کیونکہ وہ قطریوں پر زیادہ بھروسہ کرسکتے ہیں، خاص کر ۲۰۱۰ میں وہاں ان کے مخصوص کمیشن آفس کے قیام کے وقت سے اور قطری ان کیلئے بے حد فیاض رہے ہیں۔ اب پاکستان یہ چاہتا ہے کہ اسے باخبر رکھا جائے کہ ان مذاکرات میں کیا ہورہا ہے، اورجو بھی معاہدہ ہو وہ افغانستان میں پاکستانی مفادات کو پورا کرے۔
پاکستان کو یقین ہے کہ اگر کل حکومت طالبان کی ہوئی تو یہ امن نہیں لاسکے گی۔ بہت سے افغان اور بہت سے گروہ طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے اورایک مستقل لڑائی رہے گی جس کی وجہ سے بہت سے افغان بے گھر ہوں گے اور وہ پاکستان آئیں گے۔ ہمارے پاس پہلے ہی ۲۵ لاکھ افغان پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ پاکستان کو یقین ہے کہ اگر افغان طالبان افغانستان میں اقتدار حاصل کرلیتے ہیں اور وہ طاقت استعمال کرتے ہیں، تو اس سے پاکستانی طالبان کو بھی ہمت ملے گی اور شائد وہ بھی پاکستان میں یہی کرنے کی کوشش کریں۔ پاکستان اپنے ملک میں طالبان کا نظام یا ان کی اسلامی تشریح کا نفاذ نہیں چاہتا ہے۔ اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ ہم افغانستان میں طالبان کا نظام نہیں لاسکتے ہیں۔ ہم جن عسکری حکام سے بات چیت کرتے ہیں، ان سے اس قسم کے خیالات سنتے رہتے ہیں۔ وہ طالبان اور باقیوں کے بیچ اختیارات میں شراکت کے منصوبے کی حمایت کرسکتے ہیں، لیکن خالصتاً طالبان کی اجارہ داری والی افغان حکومت نہیں چاہتے ہیں۔
ناپائیدار امن کے بارے میں
کیا افغانستان میں کسی قسم کا استحکام ممکن ہے؟ یا پھر خواہ کچھ بھی ہو امن ناپائیدار رہے گا؟
چونکہ یہ تنازعہ گزشتہ چار دہائیوں سے جاری ہے، اس لئے آپ مثبت توقعات وابستہ نہیں کرسکتے کہ افغانستان آخر کار موڑ مڑے گا اور امن، سکون اور استحکام آجائے گا۔ اسی لئے میرے خیال میں ہمیں اپنی امیدیں لگائے رکھنا ہوں گی۔ تاہم، میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ گزشتہ ۱۸برس میں امن کیلئے اس قدر سنجیدہ اور اجتماعی کوششیں کبھی نہیں ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار ماضی کے مقابلے میں زیادہ توقعات اور امیدیں ہیں۔ میرے خیال میں اس بارے میں امریکی بہت سنجیدہ ہیں اور طالبان بھی سنجیدہ ہیں۔ افغان حکومت کے علاوہ، یہی دو تنازعے کے دو مرکزی فریق ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ طالبان اپنا موقف واضح کرچکے ہیں- وہ یہ ثابت کرچکے ہیں کہ وہ ایک ایسی قوت ہیں جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، اور یہ کہ ان کے بغیر افغانستان میں امن ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ دیگر فریقوں سے مذاکرات کریں۔ میرے خیال میں انہیں یقین ہے کہ وہ اپنا موقف واضح کرچکے ہیں اور وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ بیرونی قوتوں کے خلاف ان کی جدوجہد آخر کار انہیں کسی قسم کی فتح دلوائے گی۔ وہ اپنے حامیوں کو گزشتہ ۱۸ برس سے یہ بتارہے ہیں کہ ہم غیر ملکی قوتوں سے لڑ رہے ہیں اور اگر وہ امریکہ پر ملک چھوڑنے کیلئے دبائو ڈال پاتے ہیں، تو وہ اسے اپنی فتح قرار دیں گے۔ میرے خیال میں اگر انہوں نے ایسا کرلیا، دیگر معاملات شائد ان کیلئے ثانوی ہوجائیں گے۔ سب سے اہم چیز جو وہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ انہوں نے غیر ملکی قوتوں کیخلاف ایک جائز جنگ لڑی اور انہیں پہلے عسکری ذرائع سے اور پھر امن معاہدے کے ذریعے ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ افغانستان کو آخر کار جمہوریت کی کسی قسم کو قبول کرنا پڑے گا۔طالبان کو بھی غالبا ایک مسلح عسکری گروہ سے سیاسی جماعت میں تبدیل ہونا پڑے۔ اگر وہ رضامند ہوتے ہیں، اگر وہ تبدیل ہوتے ہیں اور انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو انہیں طاقت کے بجائے پرامن اور جمہوری طریقے سے اقتدار میں آنے کا موقع ملے گا۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Gage Skidmore via Flickr
Image 2: Yuri Kadobnov via Getty