بھارت کا اینٹی سیٹیلائٹ تجربہ : خلائی بمقابلہ جوہری دو نوعیتی
آرکہ بسواس
وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے بھارت کے حالیہ اینٹی سیٹیلائٹ تجربہ کا اعلان نہ صرف ملک کی اندرونی سیاست کو متاثر کرتا ہے، جس میں قومی اسمبلی کے آنے والےانتخابات شامل ہیں، بلکہ اس تجربہ نے دانشوروں کے درمیان ایک دلچسپ بحث کو بھی جنم دیا ہے۔ ایک طرف خلائی ماہرین کی توجہ اس جانب مرکوز ہے کہ یہ تجربہ کس طرح بھارتی خلائی اثانوں کو نشانہ بنانے سے مخالفین کو روکنے کی بھارتی صلاحیت کی نشاندہی کرتا ہے۔دوسری طرف جوہری تجزیہ نگار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یہ تجربہ بھارت کے بیلسٹک میزائیل ڈیفنس کی صلاحیت کو فروغ دینے میں مدد گار ثابت ہو گا۔ بلاشبہ، ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن کی جانب سے تیار کردہ زمینی بیلسٹک میزائل انٹر سیپٹر جو کہ بھارت کے بی۔ ایم۔ڈی پروگرام کا حصہ ہے، نچلے مدار میں موجود ایک بھارتی سیٹیلائٹ کو نشانہ بنانے میں استعمال ہوا۔ اگرچہ یہ تجربہ بھارت کی خلائی ڈیڑنس اور بی۔ایم۔ڈی صلاحیت دونوں پر اثرات مرتب کرتا ہے۔ لیکن بھارت کی بی۔ایم -ڈی کی صلاحیت کو بڑھانے کا حوالہ، جس سے بھارتی حکومت نے قطعی طور پر گریز کیا ہے، ایک بہت ہی غیر مستحکم صورتحال پیش کرتا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اس تجربے کا اعلان ہندی زبان میں قوم سے خطاب کے دوران کیا،اس خطاب میں ان کا تمام تر زور اس بات پر تھا کہ کس طرح یہ تجربہ بھارت کے خلائی اثاثے،جو کہ ملک کی ترقیاتی اور دفاعی ضروریات کیلئے نہایت اہم ہیں، کی حفاظت کو یقینی بناتا ہے۔ حکومت نے زور دیا ہے کہ یہ تجربہ ان تمام مخالفین کو ڈرانے کیلئے ہے جو کہ کسی لڑائی میں بھارت کے خلائی اثاثوں پر حملہ کرنے کے خواہاں ہوں گے۔ یہ عنصر وزیر ِ خزانہ ارون جیٹلی کے اظہار رائے میں بھی نمایاں تھا،جس کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ ہماری جوہری صلاحیت کی طرح یہ بھی ایک دفاعی صلاحیت ہے۔
اگرچہ مودی سرکار نے یہ واضح کیا ہے کہ یہ تجربہ کسی خاص ملک کے خلاف نہیں ہے،لیکن واضح طور پر چین ہی وہ ملک ہے جس کے خلاف بنیادی طور پر یہ تیاری کی کیونکہ چین نے ۲۰۰۷ میں اینٹی سیٹیلائٹ صلاحیت کا مظاہرہ کیا تھا۔
جیسا کہ بھارت کے خلائی تجزیہ نگار راجیشوری راجگو پالن نے واضح کیا کہ چین کے اینٹی سیٹیلائٹ تجربہ نے بھارت کی آنکھیں کھول دیں،چین کے اس اقدام کے بعد بھارت کے ڈی آر ڈی او اور خلائی تحقیقاتی ادارے نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت کے خلائی اثاثوں کو محفوظ کیا جا نا چاہیے۔
جبکہ بھارتی حکومت اور خلائی ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یہ تجربہ بھارت کی خلائی ڈیٹرنس کو قائم کرتا ہے، جوہری حکمت عملی کے ماہرین نے دلیل پیش کی ہے کہ یہ تجربہ بھارت کی بلیسٹک مزائل ڈیفینس کی ترقی کی طرف جاری کوششوں کو بڑھاوا دیتا ہے۔ یہ دلیل اس بات کو بھی نقویت دیتی ہے کہ بھارت،بالخصوص پاکستان کے خلاف انسدادی قوت کے حصول کی کوششیں کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر میسا چوسٹس انسیٹٹوٹ آف ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگا ر وپن نارنگ نے ٹویٹ کی کہ “آج کا اینٹی سیٹیلائٹ تجربہ بھارت کی استدادی قوت کے حصول کی کوششوں کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہے جس کے بارے میں میں نے اور کرسٹوفرکلیری نے لکھا ہے-اس کا ایک پہلو جوہری ہتھیاروں کو نشانہ بناتا ہے جبکہ دوسرا اس کی باقیات کا سراغ لگاتا ہے۔لہذا نشانہ کا کامل ہونا ضروری نہیں۔ آج کاتجربہ بلیسٹک مزائل ڈیفینس کے حوالے سے تھا۔ جیٹلی کی تقریر میں دئیے گئے ایٹمی حوالے کو بھی نارِنگ نے اپنی دلیل کو ثابت کرنے کیلئے استعمال کیا اور کہا کہ بھارت پاکستان کے دوسرے حملے کی صلاحیت کو ختم کرنے کیلئے نقصان کو محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ان دلائل کے باوجود یہ دو نکات اس تجربے کے بارے میں مختلف توجیحات پیش کرتے ہیں۔اس تجربہ کو چین کے ۲۰۰۷ کے تجربہ کے نتیجہءصریح کے طور پر دیکھنا زیادہ ذمہ دارانہ توجیح ہے۔جس کے مطابق بھارت اپنے خلائی اثاثوں کو چین کے اینٹی سیٹیلائٹ کے خطرے سے ممکنہ جوابی حملہ کی دھمکہ کے ذریعے محفوظ رکھتا ہے،خواہ یہ دھمکی جتنی بھی غیر معتبر یا ناقابل ِ بھروسہ ہو۔ دوسری طرف بعض ماہرین نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ بلیسٹک مزائل ڈیفینس کی صلاحیت کو بڑھا کر بھارت کی جانب سے پہلے حملے میں پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کا خاتمہ کرنے کی حکمت عملی ایک بہت ہی غیر مستحکم تصویر پیش کرتی ہے۔یہ نکتہ اس تجربے کو پاک بھارت باہمی مقابلے سے منسلک کر دیتا ہے۔تا ہم ان دونوں نکات کے پیچھے بھارت کے بیرونی خطرات اور ان سے نبردآزما ہونے کی بھارتی کوششیں کارنر ما ہیں۔
لیکن بھارتی وزیرِ اعظم مودی نے اپنے مختصر خطاب کے دورن ہندی کا ایک لفظ تین مرتبہ استعمال کیا جس کا ترجمہ ” فخر” ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ دنیا میں صرف تین ممالک ایسے ہیں جنہوں نے اس صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔اس تجربہ کے نتیجے میں بھارت ،امریکہ،روس،اور چین کی صف میں شامل ہو گیا ہے انہوں نے اس کامیابی پر بھارتی سائنسدانوں کی بھی تعریف کی۔ مودی کی تقریر سے قومی سلامتی کو انتخابی ایجنڈا میں ترجیح دینے کی حکومتی کوشش عیاں ہے۔” فخر” کے عنصر پر زور دینے سے بیرونی خطرات کو اس تجربہ کی بنیادی وجہ قرار دینے کہ دلیل کمزور پڑھ جاتی ہے- مودی کے خطاب کے مطابق ملکی وقار اس تجربہ کی بنیادی وجہ تھی۔ اگرچہ یہ تجربہ الیکشن کے نتائج کو مودی کے حق میں کرنے پر جزوی طور پر ہی اثر انداز ہو گا، لیکن یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح ملکی فخر اور وقار بھارت کی حکمت عملی پر اثر انداز ہونے والے طویل مدتی عناصر ہیں،خواہ یہ جوہری یا خلائی دائرہ کار ہو۔
***
بھارت کا اینٹی سیٹلائٹ تجربہ: ایک اندھا اقدا
سفیان اللہ اور ارتضی ٰ امام
فروری میں پاک بھارت تعلقات ایک بد ترین نہج پر پہنچ گئے جب دنیا نے دیکھا کہ یہ دونوں قومیں ۱۹۷۲ء کے بعد پہلی بار ایک فضائی جنگ میں مشغول ہوئیں۔اگرچہ صورتحال میں اب کچھ بہتری آئی ہے،تا ہم کشیدگی نے ابھی تک خطے کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ ۲۷ مارچ کی صبح کو اس صورتحال میں ایک نئی پیچیدگی کا اضافہ ہواجب بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا کہ بھارتی سائنسدانوں نے زمین کے نچلے مدار میں واقع ایک مصنوعی سیارے کو تباہ کر کے ملک کی اینٹی سٹیلائٹ صلاحیت کا مظاہر کیا ہے ۔ بھارت کی اس صلاحیت کا مظاہرہ نہ صرف تکنیکی اور دفاعی لحاظ سے اہم ہے بلکہ اس میں فخر اور امتیاز کا عنصر بھی شامل ہے، جیسا کہ اس کا ذکر بھارتی وزیرِ اعظم مودی نے اپنی تقریر میں کیا۔ اس حوالے سے اس تجربہ کے پیچھے کارفرما سیاسی خواہشات کی تو کسی حد تک سمجھ آتی ہے، لیکن اس کی حقیقت پسندانہ حکمت عملی اور فوجی استدلال کافی غیر واضح ہیں۔ اگرچہ بھارت کیلئے چین کے ساتھ تکنیکی برابری اور پاکستان کے مقابل تکنیکی فوقیت حاصل کرنا نہایت اہمیت کا حامل ہے،تا ہم اینٹی سیٹلائیٹ کی صلاحیت سے خطے کے استحکام پر دور رس نتایج بر آمد ہوں گے۔ جب ہم اینٹی سیٹلائیٹ کے بطور محافظ کردار پر توجہ مرکوز کرتے ہیں تو ہمیں اس طرح کے ہتھیاروں کی موجودگی کی وجہ سے ایک بحران کے اضافے کا خطرہ نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
اگرچہ کہ یہ امن کے دنوں میں امن کی یقین دہانی کا دعویٰ کرتا ہے، اینٹی سیٹلائٹ بنیادی طور پر ایک جارحانہ ہتھیار ہے، جو کہ ایک ریاست کو اپنے مخالف کے کسی بھی کمانڈ،کنٹرول،انٹیلی جنس،معلومات،نگرانی اور تشخیص کی صلاحیتوں کو خراب اور غیر مو ٗثر کر سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں کسی بھی بحران کو ہوا دے سکتا ہے۔ دشمن کے جوابی حملہ کی صلاحیت کو یقینی طور پر ختم کرنے کی صلاحیت رکھنے کی بنا پر اینٹی سیٹلائیٹ کو ایک انسدادی قوت کا حامل ہتھیار کہا جا سکتا ہے۔خاص طور پر جوہری دائرہ کار میں۔بحرانی کیفیت میں کسی بھی سیٹلائیٹ کو نشانہ بنانا،خواہ وہ فوجی ہو یا سول، یقینی طور پر جوہری انتباہ کو بڑھالے گا اور کسی ایسے ردِعمل کی طرف لے جا سکتا ہے جو کہ شائد تناسب کے قوانین کی پابندی سے آزاد ہو۔
دیگر تمام فوجی صلاحیتوں کی طرح اینٹی سیٹلائٹ کے کردار اور اہمیت کو علیحدہ طور پر ماپا نہیں جا سکتا۔ بھارت جیسے ممالک کیلئے جو کہ خلا میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، خلائی اثانوں نے بے شمار مواقع کھول دیتے ہیں،جیسا کہ مضبوط کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم، سمت شناسی اور مواصلاتی نظام۔ بھارت کا اینٹی سیٹلائٹ تجربہ جوہری ہتھیاروں کو پرواز کے دوران روکنے اور تباہ کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرتا ہے، جس سے اس کے کشیر درجہی اور کشیر جہتی بلیسٹک میزائل ڈیفنس پروگرام کو بھی تقویت ملتی ہے۔ علاوہ ازیں، یہ صلاحیت اس بات کو بھی تقویت فراہم کرتی ہے کہ بھارت انسادی قوت کی ہدف بندی کی حکمت عملی کی طرف بڑھ رہا ہے۔یہ پہلو اس موقع پر ظاہر ہو رہا ہے جب دفاعی تجربہ نگار پہلے ہی بھارت کی ”نو فرسٹ یوز” پالیسی کی سنجیدگی سے جانچ پڑتال کر رہے ہیں۔یہ پہلو پاکستان کے سیکورٹی کے خدشات میں مزید اضافہ کر رہا ہے کیونکہ بھارت کی بڑھتی ہوئی انسادی فورسز کی صلاحیت اس کی ”نو فرسٹ یوز“ پالیسی کی ساکھ کو متاثر کرتی ہے،اور اس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا میں اسلحہ کی دوڑشروع ہو سکتی ہے۔
تاہم بھارتی اینٹی سیٹلائٹ صلاحیت اس کے مخالفین کو ممکنہ انٹیلی جنس اور اس کے ابتدائی انتباہ کی صلاحیتوں سے مکمل طور پر محروم کرنے کیلئے طاقتور آلہ نہیں بن سکتا ۔ایسا کرنا ایک انتہائی مشکل کام ہے خاص طور پر سے جب دیگر ممالک صرف خلائی اثاثوں پر انحصار نہیں کر رہے بلکہ انہیں ہوائی اور زمینی نظام کی بھی مدد حاصل ہے۔ اس کا مظاہرہ گزشتہ ماہ دیکھا گیا جب پاکستانی بحریہ کے ایک جاسوسی جہاز نے مبینہ طور پر بھارتی آبدوز کا سراغ لگا لیا۔
دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی اینٹی سٹیلائٹ صلاحیتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ممالک قطعی طور پر سیٹلائٹ پر انحصار نہیں کریں گے بلکہ وہ اپنی خامیوں کو دور کرنے کیلئے فضائی اور زمینی نظام قائم کرنے پر زیادہ توجہ دیں گے۔ چین-بھارت اسٹر یجٹک مساوات میں جہاں دونوں ممالک اپنی خلائی صلاحیتوں کو تیزی سے بڑھا رہے ہیں، اس کے اثرات کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔ ایک بار ائنٹی سیٹلائٹ کا آغاز ہو جانے کے بعد پرواز کی مدت جوابی کاروائی کیلئے زیادہ وقت فراہم کرتی ہے۔جس کے نتیجے میں دشمن کی جوابی کاروائی صرف اسی دائرہ کا ر تک محدود نہیں رہے گی، بلکہ وہ اس بگڑتی ہوئی صورتحال میں دیگر ذرائع کا بھی استعمال کر سکتا ہے جو کہ صورتحال کو مذید خرابی کی طرف لے جائے گا۔ جیسا کہ کرٹ گو ٹفرائیڈ اور رچرڈ-این-لیباؤ نے تین دہائیوں قبل اس حوالے سے دلائل پیش کیے کہ اگر دو دشمن ممالک کے درمیان سیٹلائیٹ پر انحصار اور اینٹی سیٹلائیٹ صلاحیتوں میں غیر ہم آہنگی بڑھتی جائے تو اس کے نتیجے میں باہمی تسدید کی امید کمزور پڑ جائے گی۔
اس کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ بھارت کی طرف سے اس موقع پر یہ تجربہ فائدہ کے بجائے مزید نقصان کا موجب بنے گا۔حکمران حماعت کو بھی اس حوالے سے مخالف جماعتوں اور سوشل میڈیا کی تنقید کا سامنا ہے، جن کے مطابق یہ تجربہ درحقیقت ایک سیاسی کرتب ہے۔ خلائی ملبہ کے مسلۂ کی وجہ اس مریکہ کو بھی اس صورتحال پر بیان جاری کرنا پڑا،تاہم یہ بات اہم ہے کہ اس بیان میں حقیقی تنقید نہ ہونے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ بلاواسطہ طور پر بھارتی عزائم کی حمایت کر رہا ہے۔ خلائی عزائم رکھنے والی تمام ریاستوں اور تجارتی اداروں کیلئے خلائی ملبہ ایک اہم مسلۂ ہے اور یہ تمام متعلقین کے مفاد میں ہے کہ وہ بیرونی خلا کو ایک عالمی آثاثہ کے طور پر محفوظ اور پر امن رکھیں
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Indian Air Force via Twitter
Image 2: Prakash Singh/AFP via Getty Images