
میزائل حملے، ڈرونز کی دراندازی، اور شدید فضائی جھڑپوں پر مشتمل چار روزہ جنگ کے بعد بھارت اور پاکستان نے 10 مئی کو ایک جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ دونوں قوموں نے اس کے بعد فتح کا اعلان کیا اور ایک دوسرے کے ساتھ معاملت کے نئے طرزِ عمل کا جشن منایا۔ گو کہ یہ (منظر نامہ) دنیا کے لیے شناسا لگتا ہے، تاہم ایک جھڑپ کے مکمل جنگ میں تبدیل ہونے کا خطرہ 1999 میں کارگل کے بعد سے اس قدر نہیں بڑھا جب دونوں ممالک (اس وقت ہی) جوہری ہتھیاروں سے لیس ہوئے تھے۔
بحران سے دونوں جانبین کی پس قدمی کے بعد بھارت کے نقطۂ نظر سے جنگ بندی مشروط ہے کیونکہ اس کے رہنما آپریشن سندور کے جاری رہنے کا دھڑلے سے دعویٰ کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ صورت حال پریشان کُن ہے، تاہم یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہم یہاں کیونکر پہنچے اور بھارت کے لیے اپنی پاکستان پالیسی میں تبدیلی لانا کیونکر مشکل ہو سکتا ہے۔
بھارت کا “نئے معمول” کے حصول کا بنیادی سبب
سال 2008 کے ممبئی دہشت گردانہ حملوں کے بعد بھارت میں یہ احساس بڑھتا جا رہاہے کہ اخلاقی اختیار اور سفارتی احتجاج پاکستان کے نظرِ ثانی کے رجحان کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ بین الاقوامی برادری کی پاکستانی سرزمین سے جنم لینے والی دہشت گردی کے خلاف عدم دلچسپی یا دانستہ خاموشی پر مایوسی اور پاکستانی فوج کی بھارت کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد گروپوں کی حمایت کو تبدیل کرنے میں نارضا مندی کے باعث نئی دہلی نے اس بار اپنے فوجی اقدامات کی حدِ آغاز (تھریش ہولڈ) کو دوبارہ متعین کیا ہے۔چنانچہ 22 اپریل کے پہلگام حملے کے جواب میں نئی دہلی نے پاکستان اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں دہشت گرد انفرا اسٹرکچر کو نشانہ بناتے ہوئے نو مقامات پر پریسیژن سٹرائیکس کیں ، جنہیں اس نے “موزوں، بڑھاو نہ دینے والی ، متناسب اور ذمہ دار” کارروائی قرار دیا دہائیوں تک تزویراتی ضبط (اسٹریٹیجک ریسٹرینٹ) کی پالیسی پر قائم رہنے کے بعد پاکستان کی ثانوی روایتی (سب کنونشنل) نیابتی جنگ (پروکسی وار) کے خلاف دقت سےایک سفارتی کیس تیار کرنے میں بھارت کی مایوسی نے ایک ادّعائی نظریاتی تبدیلی کی راہ ہموار کی ہے جس کی گونج اس فوجی تصادم کے بعد بھی سنائی دے گی۔
تادیبی عسکری کارروائیوں کے ناقدین نے اکثر ان بھارتی اقدامات کی پاکستان کو اس ثانوی روایتی نیابتی جنگ سے مکمل طور پر روکنے کی عدم صلاحیت کو اُجاگر کیا ہے۔حالیہ بحران کے دوران بھی کچھ لوگوں نے یہ دلیل دی کہ حرکی کارروائی (کائنیٹک ایکشن) صرف عارضی طور پر ہی پاکستانی فوج کی نازک حالت کو اندرونِ ملک مستحکم کر سکتی ہے۔ضبط کی وکالت کرتے ہوئےانہوں نے تجویز دی کہ بھارت پاکستان میں سیاسی تبدیلی پرآہستہ آہستہ اثر انداز ہو۔تاہم بھارت کی پاکستان میں داخلی تبدیلیوں پر اثر انداز ہونےکی صلاحیت بنیادی طور پر محدود ہے۔ اگر صرف ضبط کے سبب پاکستانی فوج کی گرفت کو کمزور کر نا یا پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور فوج کے بے جوڑ تعاون سے “ہائبرڈ ریجیم” (مخلوط نظامِ حکومت) تشکیل دینے کو ختم کر سکتا، تو بھارت یہ بہت پہلے کر چکا ہوتا۔علاوہ ازیں ماضی میں بھارت کی جانب سے —جزوی طور پر اپنی حیثیت کو مضبوط کرنے کے لیے—پاکستان کی سِولین (غیر فوجی) قیادت کے ساتھ مؤثر معاملت کی کوششوں کا اکثر اُلٹا نتیجہ ظاہر ہوا، جیسا کہ کارگل جنگ (1999)، ممبئی حملے (2008)، اور پٹھان کوٹ حملے (2016) کے واقعات میں دیکھا گیا ۔ بھارت میں بہت سے افراد ان واقعات کو پاکستانی فوج کی تخریب کاری سے منسوب کرتے ہیں، جس کا مقصد بھارت کے حوالے سے ملک کی کسی بڑی پالیسی تبدیلی کو روکنا ہے۔
دہائیوں تک تزویراتی ضبط کی پالیسی پر قائم رہنے کے بعد پاکستان کی ثانوی روایتی نیابتی جنگ کے خلاف دقت سے ایک سفارتی کیس تیار کرنے میں بھارت کی مایوسی نے ایک ادّعائی نظریاتی تبدیلی کی راہ ہموار کی ہے جس کی گونج اس فوجی تصادم کے بعد بھی سنائی دے گی۔
گو کہ پاکستان کے لیے 2019 میں تعلقات تنزلی کا شکار ہوئے، جب بھارت نے پلوامہ میں 40 بھارتی فوجیوں کے قتل کے جواب میں سرحد پار فضائی حملے کیے، جس کے بعد بھارتی زیر انتظام کشمیر کی خود مختاری اور ریاستی حیثیت کو ختم کیا گیا۔ تاہم یہ جارحانہ بھارتی طرز عمل بھارت میں نظریاتی تبدیلی کے باعث کم جبکہ پاکستانی سِولین رہنماؤں (پرویز مشرف سے لے کر نواز شریف تک) کی عدم صلاحیت یا حالیہ برسوں میں متنازعہ دو طرفہ مسائل کو حل کرنے کے لیے خطرے مول لینے سے تأمل اور جزوی طور پر ملکی فوج کے دباؤ کے باعث زیادہ ہے۔گو کہ بھارتی قیادت نے ہمیشہ ایک جارحانہ نقطہ نظر کی وکالت کی ہے، حقیقتاً اس کی حالیہ “مضبوط” اور محافظت کی حکمت عملی سے پہلے پاکستان کے خلاف ایک مرتکز سفارتی کوشش کی گئی تھی۔
مستقبل کے بحرانات کے لیے ماضی کے اسباق
ماضی میں 2013 کی مہلک جھڑپوں اور جنگ بندی کی خلاف ورزیوں میں اضافے کے باوجود، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 2014 میں اپنی تقریبِ حلف برداری کے لیے اپنے پاکستانی ہم منصب کو مدعو کیا۔مؤثر معاملت کا نتیجہ 2015 میں ایک مشترکہ بیان پر ہوا جہاں دونوں حکومتوں نے “تمام باقی ماندہ معاملات” پر بات چیت کرنے کا عہد کیا۔ یہ سہرا پاکستان کے سر جاتا ہے کہ اس نے 2008 کے ممبئی حملے کے مقدمات کی تیز رفتار کارروائی کرنے پر اتفاق کیا، جبکہ بھارت نے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ دوطرفہ رکاوٹوں اور اُبھرتے ہوئے اختلافات کے باوجود مودی نے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کی پاکستان میں سارک سربراہ اجلاس میں شرکت کی دعوت قبول کی اور پیرس میں ایک دوستانہ ملاقات نے بنکاک میں قومی سلامتی کے مشیروں کی سطح کی ملاقات کے لیے راستہ ہموار کیا۔خفیہ اقدام کے تحت بھارت کے وزیر خارجہ پاکستان کے دورے پر ’’آگے بڑھنے‘‘ کا پیغام لے کر گئے،جس سے جامع دوطرفہ گفت و شنید بحال ہوئی۔بھارت کی امن سے وابستگی اس وقت مزید اجاگر ہوئی جب مودی نے دسمبر 2015 کے آخر میں شریف خاندان کی گھریلو تقریب میں شرکت کے لیے لاہور کا غیرمتوقع دورہ کیا، ایک ایسا اقدام جس پر بھارتی اپوزیشن نے شدید تنقید کی۔تاہم اس جرات مندانہ مفاہمت کے اقدام کےایک ہفتے بعد پٹھان کوٹ میں بھارتی فضائیہ کا اڈہ دہشت گرد حملے کا نشانہ بنا۔

اس وقت عوامی جذبات کی نفی کرتے ہوئے بھارتی قیادت نے پاکستان کی طرف سے حملے کی مشترکہ تفتیش کی پیشکش قبول کی، نتیجتاً انہیں بھاری سیاسی قیمت چکانی پڑی۔ایک حریف انٹلیجنس ایجنسی کو اپنے فوجی اڈے کا دورہ کرنے دینا جواباً اس الزام کے ساتھ کہ یہ ایک جعلی آپریشن ترتیب دیا گیا تھا، ایک وجہ ہے کہ بھارت اب مشترکہ یا غیر جانبدار تحقیقات کی پیشکشوں کو جلدی سے مسترد کر دیتا ہے۔ واقعۂ پٹھان کوٹ کے بعدپاکستان کی جانب سے کسی بھی ایسی باہمگی حاصل نہ ہونے کے باعث بھارت نے ستمبر 2016 میں اڑی حملے کا بدلہ لینے کے لیے طاقت استعمال کرنے پر غور کیا، جس کے نتیجے میں بھارتی فوج کی جانب سے سرحد پار چھاپہ مارا گیا۔ان “سرجیکل سٹرائیکس” نےنئی مثال قائم کی ہو گی، لیکن یہ پاکستانی فوج کی مختلف سیاسی دھڑوں کے ساتھ طویل کشیدگی ہے جس نے گزرتےوقت کے ساتھ صورتحال کو مزید بگاڑا ہے۔
سال 2016 کے بعد سے بھارت-پاکستان کے متواتر بحرانات ، جہاں حملوں کے بعد دو طرفہ مذاکرات کی کوششیں کی جاتی ہیں لیکن پھر پاکستان کی فوج ملک کی سولین قیادت کو ہٹا دیتی ہے، جو نئی دہلی کی دقت کو مزید بڑھا دیتی ہے۔نواز شریف جیسے رہنما جنہیں بھارت میں حقیقی طور پر امن کی جانب مائل سمجھا جاتا ہے،جب اہم دوطرفہ امن کوششیں زور پکڑ رہی ہوتی ہیں، اکثر ان کو ہٹا دیا جاتا ہے ۔بھارت کے لیے پاکستان کی فوج کی آمادگی اور سولین رہنماؤں کی از سرِ نو آغاز کی صلاحیت ہر لائی گئی اقتدار کی تبدیلی کے ساتھ کم ہوتی جاتی ہے۔علاوہ ازیں پاکستانی سیاستدانوں نے اس امر کو یقینی بنایا ہے کہ گفت و شنید مراعات سے مشروط ہو، یہاں تک کہ جنرل قمر جاوید باجوہ جیسے غیر مخالف فوجی سربراہوں کے لیے بھی بھارت کے ساتھ بامعنی معاملت کی عوامی قیمت برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
سال 2021 کا جنگ بندی معاہدہ ممکنہ طور پر دونوں جانبین میں (حالات کو) معمول پر لانے کو ترجیح دینے والے حلقوں کی موجودگی کو ظاہر کرتا ہے۔اور اگر اسلام آباد (مصالحت کے) راستے پر رہتا تو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے انتخابات اور ریاستی حیثیت کی ناگزیر بحالی معاملت کے دوبارہ آغاز کا موقع بن سکتی تھی۔تاہم نئے پاکستان آرمی چیف اور اب فیلڈ مارشل عاصم منیر کی تقرری کے بعد ہونے والی تدریجی کمزوری نے بھارت کو مشروط مذاکرات کے حوالے سے محتاط کر دیا ہے جبکہ مراعات تو دُور کی بات ہیں۔
راہ بدلنے سے راہ چھوڑنے تک
گو کہ پاکستان “بھارتی جارحیت” کا مقابلہ کرنے پر فخر کرتا ہے، اُسے یہ تسلیم کر نا پڑے گاکہ بھارتی طاقت کو کچھ نقصان پہنچانے کے باوجود—جیسا کہ ابتدائی مراحل میں ممکنہ بھارتی فضائی نقصانات—بھارت کا “طاقت کے استعمال‘‘ کی دوبارہ دریافت اور بڑھتی ہوئی فوجی برتری کے لئے کوششیں آئندہ بحران میں نئی دہلی کی روایتی فوجی برتری کو ممکنہ طور پرمتحرک کر سکتی ہیں۔اس امر کا انکار مشکل ہے کہ بھارت کے بڑے شہروں میں ابتدائی حملے، بشمول پاکستان کے دل کے—جو 1971 کی جنگ کے بعد سے محفوظ تھے—مہلک اور عین مطابق تھے۔علاوہ ازیں بھارت کے پاکستانی فضائی اڈوں پر حملوں کی زبردست نوعیت اور فضائی دفاعات کو غیر مؤثر بنانے کی آسانی کو پاکستانی فوجی منصوبہ سازوں نے خوشگوار عوامی جذبات کے باوجود نوٹ کیا ہوگا۔
روایتی پابندیوں سے آزاد ہونا کبھی بھی آسان نہیں رہا، مگربھارت کاعزم اب صرف پاکستان کی جوہری دھونس کے مقابلے سے بڑھ کر ہے۔یہ ایک ایسی کوشش کاعکاس ہے کہ پاکستان نے جو برنک مین شپ (دہانہ گیری) کی حکمتِ عملی کو کامِل کر لیا ہے، اس کی تقلید کی جائے۔ تاہم بھارت اس بہکاوے میں آنےکا امکان نہیں رکھتا کہ پاکستان کے سیکیورٹی ادارے اس واقعے کے بعد اچانک اپنی راہ بدل لیں گے۔تاریخی طور پرپاکستانی فوج اکثر نہ صرف بھارت کے لیے بلکہ اپنے لیے بھی بھاری قیمت چُکانے کے باوجود اپنی حکمت عملی کو نرم کرنے یا اپنے انتہا پسندانہ اہداف کو چھوڑنے سے انکاری رہی ہے۔ گوکہ پاکستان کی فوج کو اس بحران کے بعد داخلی طور پر عارضاً سکون ملنے کا احساس ہے، یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے اقتصادی اور سیاسی مسائل اس قدر ساختی نوعیت کے ہیں کہ (مشکل ہے کہ) وہ درمیانی تا طویل مدت میں ختم ہو سکیں۔
روایتی پابندیوں سے آزاد ہونا کبھی بھی آسان نہیں رہا، مگربھارت کاعزم اب صرف پاکستان کی جوہری دھونس کے مقابلے سے بڑھ کر ہے۔ یہ ایک ایسی کوشش کاعکاس ہے کہ پاکستان نےجو برنک مین شپ (دہانہ گیری) کی حکمتِ عملی کو کامِل کر لیا ہے، اس کی تقلید کی جائے۔
بھارت کے مستقبل کے اختیارات
ہر حملے کو “جنگ کا عمل” تصور کرنے کے عوامی بیانات کی پیروی کرنا بذاتِ خود مشکلات پیش کرتا ہے، تاہم ان اقدامات کے پیشِ نظر خدشات کے باوجود، نئی دہلی پاکستان کو بھاری زد پہنچانے پر، خواہ (وہ) سفارتی یا کسی اور نوعیت کی ہو ، مُصر ہے۔
تاہم امریکہ کے کردار سے متعلق بھارت میں کچھ تشویش ہے۔ ابتدا میں واشنگٹن نے بھارت کے اپنے دفاع کے حق کو تسلیم کیا، نائب صدر جے ڈی وینس نے یہ بھی اشارہ دیا کہ اگر بھارتی جواب متناسب ہو تو یہ جائز ہے۔پھر بھی بہت سے بھارتیوں کا ماننا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کی عوامی توضیح نے پاکستان کے خلاف بھارت کے کلیدی مقامات جیسے نور خان اور سرگودھا فضائی اڈوں پر کیے گئے حملوں کے ذریعے حاصل کردہ فوجی فوائد کو کمزور کر دیا۔ یہ مانا جا رہا ہے کہ ان (حملوں)نے امریکی سکریٹری خارجہ مارکو روبیو کو پاکستان آرمی چیف کو براہ راست فون کرنے پر مجبور کیا۔ گوکہ بھارتی حکام تسلیم کرتے ہیں کہ ٹرمپ کے جنگ بندی سے متعلق زیادہ تر بیانات بنیادی طور پر ان کی ‘امن کے علمبردار’ کی حیثیت کو مستحکم کرنے کے سبب ہیں اور یہ کہ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکشیں محض غیر رسمی تبصرے ہیں، جیسا کہ 2019 میں تھا، عوام میں اسے پسندیدگی کی سند نہیں ملی۔
تاہم ’ری ہائفینیشن’ (از سرِ نو اتصال) کے خوف کے بجائے بھارت اب ممکنہ طور پر اپنی شراکت داریوں اور بڑھتی ہوئی عالمی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو بین الاقوامی مالی اور دیگر قسم کی امداد پر مزید نگرانی کے لئے دباؤ ڈالنے کی کوشش کر سکتا ہے۔سندھ طاس معاہدے کی عارضی معطلی بھی برقرار رہنے کا امکان ہے کیونکہ بھارت پانی کے بارے میں گفت و شنید کو دہشت گردی سے جوڑنے اور پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی پچھلی کوششوں سے آگے بڑھنے پر اٹل ہے۔
پھر بھی بیجنگ سے پیدا ہونے والی عالمی ہلچل اور خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے—اور اس کی پڑوس میں یورش—امریکہ جیسے شراکت داروں کو پاکستان کو قابو کرنے میں مدد کرنے پر مجبور کرنا شاید دوبارہ ثانوی حیثیت اختیار کر جائے گا۔حالانکہ جیسے جیسے مطلع صاف ہو گا، بھارتی ادارے یہ سوچ بچار کر سکتے ہیں کہ جبکہ چین-پاکستان محور مضبوطی کی راہ پر ہے اور وہ (بھارت) ایک بڑی طاقت بننے کے سفر میں ہے، کیا نئی دہلی پاکستان کے چیلنج کو پس پشت ڈالنے کی استطاعت رکھتا ہے۔