۱۵ ستمبر ۲۰۲۰ کو متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے وزیرخارجہ شیخ عبداللہ بن زید اور بحرین کے وزیرخارجہ خالد بن احمد الخلیفہ نے وائٹ ہاؤس میں اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کیلئے علیحدہ علیحدہ دو طرفہ معاہدوں پر دستخط کئے۔ معاہدہ ابراہم کے نام سے موسوم یہ تاریخی اقرارنامہ سفارت خانے کھولنے، سیاحت اور براہ راست پروازوں کے اجراء، توانائی پر تعاون اور انٹیلی جنس کے تبادلے پر زور دیتا ہے۔ اسرائیل بحرین معاہدہ بنیادی طور پر اعلانیہ نوعیت کا ہے تاہم اسرائیل اور یو اے ای معاہدہ ان اقدامات کے حوالے سے زیادہ مفصل ہے جو دونوں ممالک تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے اٹھائیں گے۔ یہ دونوں معاہدے سعودی عرب ایران دشمنی پر اثرانداز ہوں گے جو کہ پہلے ہی جنوبی ایشیا تک پھیل چکی ہے جہاں دونوں ممالک کے دوست ملک پاکستان کو دونوں حریفوں کے بیچ میں نازک توازن قائم رکھنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان کو اپنے ایک اور اتحادی یو اے ای کی جانب سے بھی بہرآخر اسرائیل کے ہمراہ تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے دباؤ کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ایسے وقت میں کہ جب یہ نئے معاہدے خلیج کی تشکیل نو کررہے ہیں، پاکستان کیلئے فوری تشویش کا سبب ان معاہدوں کے سعودی عرب سے اسکے دوطرفہ تعلقات پر اثرات ہیں نیز یہ کہ یہ اس کے معاشی اور جغرافیائی تزویراتی مفادات پر کس طرح اثرانداز ہوتا ہے۔ خاص کر ایسے میں کہ جب یہ تعلقات زوال کی شاہراہ پر محوسفر دکھائی دیتے ہیں۔
تازہ ترین سفارتی تنازعہ
پاکستان اور سعودی عرب کے بیچ گہرے معاشی اور سیاسی تعلقات ہیں۔ پاکستان اگرچہ جنوبی ایشیا میں خود کو مسلمانوں کا رہنما تصور کرتا ہے تاہم یہ سعودی عرب کی قیادت کا بھی واضح طور پر احترام کرتا ہے اور سعودی عرب کو علی الاعلان مسلم دنیا کا راہنما اور دونوں مقدس شہروں مکہ اور مدینہ کا نگران تسلیم کرتا ہے۔ اس کے جواب میں سعودی عرب نے پاکستان کے مدرسوں کے جال جو کہ بڑی حد تک وہابیت کے پیروکار ہیں، ان کی مالی معاونت کی ہے۔ معاشی لحاظ سے سعودی عرب تقریباً ہمیشہ پاکستان کی مالی مدد کیلئے سامنے آیا ہے اور پاکستان نے تقریباً کبھی بھی قرضے واپس نہیں کئے ہیں۔ مثال کے طور پر، ۲۰۱۸ میں سعودی عرب نے پاکستان کو اس کے بیلنس آف پے منٹ کے مسائل سے نمٹنے کیلئے ۶ بلین ڈالر کے امدادی منصوبے کی منظوری دی تھی جس میں سے ۳ بلین ڈالر فوری طور پر ادا کئے گئے تھے۔ پاکستان سعودی تیل پر بھی بڑے پیمانے پر انحصار کرتا ہے۔ اس کے جواب میں، پاکستان اپنے مزدور سلطنت کو برآمد کرتا ہے۔ سعودی عرب میں بیس لاکھ سے زائد پاکستانی کام کرتے ہیں اور یوں پاکستانی سعودی عرب میں دوسری بڑی تارکین وطن کمیونٹی ہیں۔ سعودی عرب اور یو اے ای سے آنے والا زرمبادلہ پاکستان کی معیشت میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔
البتہ، سیاسی معاملات پر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہم آہنگی کی کمی رہی ہے۔ تازہ ترین تنازعہ ۲۰۱۹ کے اواخر میں، پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ریاض کے دباؤ پر کوالالمپور اجلاس میں شرکت سے انکار کے بعد شروع ہوا۔ ملائیشیا نے اسلاموفوبیا اور مسلم دنیا میں غربت کے مسئلے پر بحث کیلئے اجلاس کا اہتمام کیا تھا۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں یہ اجلاس سعودی سربراہی کے تحت کام کرنے والی اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی حریف اور ایک نئی تنظیم کے لئے ممکنہ نکتہ آغاز ثابت ہوسکتا ہے۔ ملائیشین حکام نے اس الزام کی تردید کی تاہم ملائیشیا نے نہ تو سعودی عرب اور نہ ہی اوآئی سی اور خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے دیگر رکن ممالک کو مدعو کیا۔ اس کے برعکس ملائیشیا نے ایران، ترکی، قطر اور پاکستان کو دعوت دی تھی۔ پاکستان کی غیرحاضری حیرت ناک تھی کیونکہ خان نے نہ صرف اجلاس کیلئے اپنی حمایت ظاہرکی تھی بلکہ اس میں شرکت کے اپنے ارادے کا اعلان بھی کیا تھا۔ تاہم اجلاس سے محض ایک ہفتے قبل سعودی عرب کے دورے کے بعد خان نے اپنا ارادہ تبدیل کردیا ہے، اگرچہ بعد میں انہوں نے اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کیا۔
گزشتہ ماہ تعلقات مزید زوال کا شکار ہوگئے۔ ۵ اگست ۲۰۲۰ کو بھارت کی جانب سے کشمیر کی خودمختاری کے خاتمے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے بلیک آئوٹ کو ایک برس مکمل ہونے پر پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے مطالبہ کیا کہ سعودی حکام کشمیر کی صورتحال پر روشنی ڈالنے کیلئے اوآئی سی کا اجلاس طلب کریں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگرسعودی عرب ایسا نہیں کر سکتا یا وہ ایسا کرنا نہیں چاہتا تو پاکستان کو علاقائی حمایت کیلئے کسی اور جانب رخ کرنا پڑے گا۔ سعودی عرب نے اس کا فوری اور سخت ردعمل دیا۔ اس نے فوری طور پر ۱ بلین ڈالر قرضے کی واپسی کا مطالبہ کردیا جو کہ ۲۰۱۸ کے ۳ بلین ڈالر قرضے کا حصہ تھا، نیز اس نے ۳.۲ بلین ڈالر مالیت کے ادھار تیل کی سہولت جسکی مدت مئی ۲۰۲۰ میں ختم ہوچکی تھی، اسکا دوبارہ اجراء بھی نہیں کیا۔
ریاض کی اسلام آباد سے برہمی کی وضاحت
سعودی عرب کی پاکستان سے ناراضگی کی جڑیں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے دو فیصلوں میں موجود ہیں۔ ان میں اولین، ۲۰۱۵ میں سعودی قیادت میں یمن جانے والی اتحادی افواج کے حصے کے طور پر پاکستانی دستوں کو بھیجنے سے انکار تھا۔ دوسری وجہ پاکستان کے ایران سے مثبت اور مضبوط تر ہوتے تعلقات ہیں۔
یمن میں سعودی قیادت میں جاری جنگ عالمی انسانی بحران بن چکا ہے۔ ۳.۶۵ ملین یمنی باشندے بے گھر ہوچکے ہیں جبکہ ہزاروں بچے بھوک کے ہاتھوں جان کی بازی ہارچکے ہیں۔ محض پانچ برس قبل، مارچ ۲۰۱۵ میں سعودی عرب نے یمن میں حوثی باغی، جنہیں ایران کی پشت پناہی حاصل ہے، ان کیخلاف جارحیت کا آغاز کیا تھا۔ جہاں یو اے ای اور دیگر خلیجی ریاستوں نے سعودی اتحاد میں شمولیت اختیار کی وہیں پاکستان نے غیرجانبدار رہنے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ سعودی نے یہ بیان دیا تھا کہ اسے اتحاد کیلئے پاکستانی سپاہ کی ضرورت نہیں ہے تاہم سلطنت بمع یو اے ای پاکستان کے انکار پر برہم تھے۔ حتیٰ کہ سعودی عرب اور یواے ای دونوں نے پاکستان کیلئے منفی معاشی اور سیاسی نتائج کا حوالہ دیا تھا۔ تاہم پاکستان اپنے موقف پر ڈٹا رہا اور بیان دیا کہ وہ اپنی پارلیمنٹ کے ساتھ مخلص رہے گا جس نے سعودی اتحاد میں شمولیت کیلئے پاکستانی فوجیوں کو بھیجنے کیخلاف ووٹ دیا ہے۔ جنگ کو چھڑے ہوئے چھ برس ہوچکے ہیں اور اسکی شدت میں کمی کے کوئی آثار ظاہر نہیں ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ ۲۰۱۹ میں یو اے ای بھی یمن سے اپنی فوجوں کی واپسی کا اعلان کرچکا ہے۔ پاکستان نے اگرچہ ۲۰۱۸ میں ۱۰۰۰ فوجی سعودی عرب بھیجے تھے جس کی وجہ سے خود اس کے اپنے سویلین اور عسکری اداروں کے مابین تناؤ پیدا ہوا تھا تاہم سعودی عرب پاکستان کی ایسے وقت میں نافرمانی کو نہیں بھولا جب اسکے خیال میں سلطنت کو اس کی ضرورت تھی۔
پاکستان اور ایران کے مابین بڑھتی ہوئی دوستی ریاض کی اسلام آباد سے مایوسی کی ایک اور وجہ ہے۔ گو پاکستان کبھی بھی غیر معمولی حد تک ایران کے قریب نہیں رہا تاہم سعودی ایران رقابت اور اس کے نتیجے میں جاری پراکسی لڑائی مشرق وسطیٰ کی کیفیت کو بیان کرتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں، اس رقابت نے پاکستان اور بھارت دونوں کو اس نکتے کی جانب دھکیل دیا ہے کہ وہ بیک وقت خود کو مشرق وسطیٰ میں ایک اور لڑائی کا مہرہ بننے سے بچانے کے ساتھ ساتھ ایران اور سعودی عرب کے ہمراہ اپنے اپنے تزویراتی دوطرفہ تعلقات کو متوازن بنائیں۔ پاک بھارت تعلقات اگرچہ سعودی ایران رقابت کے گرد نہیں گھومتے تاہم اس رقابت نے جنوبی ایشیائی پڑوسیوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ کیا ہے۔ پاکستان کی طرح، بھارت کے تارکین وطن مزدوروں کی بھی کثیر تعداد خلیج میں کام کرتی ہے اور ان معیشتوں کو چلانے میں مدد دیتی ہے۔ بدلے میں اس تارکین وطن کمیونٹی کے ذریعے وصول ہونے والا زرمبادلہ بھارتی معیشت کی مدد کرتا ہے۔ سب سے اہم امر یہ ہے کہ بھارت خلیجی ممالک کیلئے اہم تجارتی شراکت دار کے طور پر ابھر رہا ہے ، بھارت کے کشمیر میں لاک ڈائون کیخلاف سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کی جانب سے کوئی بیان جاری نہ کئے جانے کی کلیدی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے۔ درحقیقت، لاک ڈائون کے محض چند ہفتے بعد ہی یواے ای نے امارات سے دوطرفہ تعلقات بہتر بنانے میں بھارتی کوششوں کے اعتراف میں وزیراعظم نریندر مودی کو ملک کے اعلیٰ ترین سول اعزاز سے نوازا تھا۔ پاکستان یقیناً اس ابھرتی ہوئی سرگرمی کا خواہاں نہیں ہے۔
تاہم پاکستان کا ایران سے تعلق محض سعودی عرب کے بھارت سے بڑھتے تعلقات کا ردعمل نہیں ہے۔ پاکستان اور ایران مشترکہ سرحد رکھتے ہیں، اور پاکستان سے بڑی تعداد میں اہل تشیع افراد ایران میں مقامات مقدسہ کی زیارت کیلئے اکثر جاتے ہیں۔ پاکستان ۲۰۱۲ سے ایرانی بجلی پر بھی انحصار کرتا ہے۔ سعودی عرب کے برعکس ایران نے کشمیر کے معاملے پر بھارت پر تنقید کی ہے۔ افغانستان میں امریکی جنگ کے خاتمے پر بھی ایران پاکستان کے حامی کے طور پر ابھر کے سامنے آیا ہے کیونکہ دونوں ممالک ایک مستحکم افغانستان چاہتے ہیں اور ایسے کابل کو ترجیح دیتے ہیں جو تہران اور اسلام آباد دونوں کو مثبت نگاہ سے دیکھے۔ سب سے آخر میں یہ کہ پاکستان کے اگرچہ امریکہ سے پیچیدہ نوعیت کے تعلقات ہیں تاہم یہ ایران امریکہ تعلقات سے نمایاں بہتر ہیں۔ یہ اس حد تک بہتر ہیں کہ ایران اپنے اور امریکہ کے بیچ ثالثی کیلئے اسکی جانب دیکھ چکا ہے اور حتیٰ کہ اسکے اور سعودی عرب کے مابین ثالثی کیلئے بھی۔
ان دو عناصر کے علاوہ ایک غیر نمایاں عنصر بھی ریاض میں برہمی پیدا کر رہا ہے اور وہ ہے پاکستان کی بھٹکتی نگاہیں۔ مثال کے طور پر، سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کیلئے اپنی تیل کی درآمدات میں اضافے کے ساتھ ساتھ پاکستان ملک بھر میں بجلی کی پیداوار کیلئے قطر سے مائع قدرتی گیس اور چینی کوئلے کے کارخانے درآمد کرنے پر بھی غور کر رہا ہے جو کہ ریاض میں تشویش کی وجہ ہے۔ حال ہی میں، جب سعودی عرب نے پاکستان سے اپنے ۱ بلین ڈالر قرضے کی واپسی کا مطالبہ کیا تو چین اسکے متبادل قرضے کے ساتھ میدان میں اترا۔ سعودی عرب کے چین کے ساتھ اگرچہ مخاصمت پر مبنی تعلقات نہیں ہیں تاہم معاشی امداد اور مذہبی اثرورسوخ کے باوجود بھی پاکستان کو اپنا مہرہ بنانے میں سعودی عرب کی ناکامی سلطنت کیلئے مایوس کن رہی ہے۔
اہم تبادلوں پر توجہ مرکوز کرنا
کشمیر کے معاملے پر قابل ذکر کردار ادا نہ کرنے پر سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بنانے کے کچھ روز بعد وزیرخارجہ قریشی کا موقف تبدیل ہوگیا اور انہوں نے بیان دیا کہ اوآئی سی نے کشمیر کے معاملے پر پاکستان کی حمایت میں متعدد قراردادیں منظور کی ہیں۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ نے بھی تناؤ ختم کرنے کیلئے سلطنت کا دورہ کیا۔
سو سعودی عرب پاکستان دو طرفہ تعلقات کس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں؟ یہ خراب تر ہو سکتے ہیں، جو کہ پاکستان کیلئے تباہ کن ہوسکتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ پاکستان اپنا موقف تبدیل کرسکتا ہے اور اپنی مایوسی کے اظہار سے گریز کرسکتا ہے جو کہ سعودی عرب کو تعلقات میں غالب کردار سونپ سکتا ہے۔ لہذا ضرورت درمیانہ راستہ اپنانے کی ہے جس میں خارجہ پالیسی کیلئے قابل عمل ترجیحات طے کرنے کے ساتھ ساتھ تعلقات کے حوالے سے متوازن اور باریک بینی پر مبنی سوچ کا اپنایا جانا شامل ہے۔ مثال کے طور پر خان نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان اس وقت تک اسرائیل سے تعلقات معمول پر نہیں لاسکتا جب تک فلسطینیوں کو ان کے حقوق نہیں مل جاتے۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی زمینوں پر قبضے اور فلسطینیوں کی پامالی اور انکو، انکے حقوق سے محروم رکھنے کا سلسلہ جاری رہنے کیخلاف آواز بلند کرنا خان کا درست فیصلہ ہے۔
تاہم پاکستان کی خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ کو خود سے یہ سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ : یہ فلسطینیوں کو محض بیانی حمایت فراہم کرنے کے علاوہ اور کیا کرسکتی ہے؟ ایک مضبوط معیشت کے بغیر پاکستان اس اہم طاقت سے محروم ہے جو کہ کسی بھی بامعنی یا تعمیراتی طور سے فلسطینیوں کی تکالیف میں کمی لاسکے۔ لہذا پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کامیابی اس کی معاشی بڑھوتری اور پیش رفت سے جڑی ہے۔ ایک مضبوط معیشت جو براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو اپنی جانب راغب کرتی ہے نیز مستحکم کرنسی آخرکار پاکستان کو اس قابل بنا دے گی کہ وہ جی سی سی اور اوآئی سی نیز وسیع تر مسلم دنیا میں مصروف عمل دیگر علاقائی تنظیموں کے ہمراہ مضبوط تعلقات قائم کرسکے۔ زیادہ اہم امر یہ ہے کہ یہ بالآخر پاکستان کو سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک سے وہ آزادی دلوا سکے گی جس کے وہ خواب دیکھتا ہے اور جو پاکستان سے تعلقات کو ترجیح کے اعتبار سے دوسرے درجے پر رکھتے ہیں۔
مسلم دنیا تبدیل ہورہی ہے اور یہاں اتحاد نئے اور ان چھوئے خطوں کی جانب سرک رہے ہیں۔ مثال کے طور پر سعودی عرب اور پاکستان ایک دوسرے سے فاصلے پر آگئے ہیں جبکہ چین نے پاکستان کی جانب مزید پیش قدمی کی ہے۔ یہی وہ وقت ہے کہ جب پاکستان کو تزویراتی اور عملی طور پر اپنے اہداف کے بارے میں سوچنا چاہئے جس میں ایک مستحکم معیشت کا قیام اور جمہوری اداروں کی مضبوطی بھی شامل ہونی چاہئے تاکہ اسکی خارجہ پالیسی میں مزید لچک پیدا کی جاسکے۔
***
.Click here to read this article in English
Image 1: Pakistan PMO via Twitter