Twenty Years into Nuclear South Asia: Where Do We Go from Here?

بھارت کا پاکستان کو ٹیکٹیکل ہتھیاروں کے استعمال میں پہل کی صلاحیت  پر جوہری ردِعمل سے روکنے کی  بحث آج بھی جاری ہے۔ نئی دہلی میں روائتی   تجزیہ کاروں  نے بہت بڑےجوابی ردِعمل کا  بھی اشارہ دیا ہے یعنی تزویراتی جوہری ہتھیاروں کا  دشمن کے شہروں اور صنعتی مراکز پر استعمال۔ تاہم کچھ ریٹائرڈ  بھارتی سویلین اور عسکری  افسران نے جوہری خطرے سے متعلق ایک   لچکدار  نقطہِ نظر بھی پیش کیا ہے جس میں   جوہری ہتھیاروں کا پاکستان کے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں  پر متناسب  استعمال ہے۔ اس بحث کی روشنی میں اس آرٹیکل میں  یہ کہا گیا ہے کہ بہت بڑی یا متناسب  جوابی کاروائی  اس بات کی متقاضی ہے کہ کشیدگی کے اضافے یا کنٹرول دونوں صورتوں پر غور کیا جائے کیونکہ ماضی میں بھارت ان دونوں  صورتوں  کو زیرِ غور نہیں لایا ہے۔

بھارتی جوہری جوابی ردِ عمل کا خطرہ  جسے ۲۰۰۳ کے ‘ ڈیکلیریٹری ڈاکٹرائن‘ میں بیان کیا گیا،  کو بہت سے مبصرین نے ایک زوردار  کاؤنٹر ویلیو جواب کے طور پر دیکھا ہے۔ تاہم ناقدین نے اسکی صلاحیت  کو پاکستان کے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں  کے دورانِ جنگ میں استعمال پر بہت سے سوالات اٹھائے ہیں۔ تنقید اس بات پر کی جاتی ہے کہ  اصل میں یہ خطرہ اس صورت میں انتہائی غیر متناسب ہے جب پاکستان اپنی سیکنڈ سٹرائک کیپبلٹی (دوسرے حملے کی صلاحیت) کو استعمال کرے گا اور نتیجتاً  بھارت کی طرف سے تزویراتی جوہری ہتھیاروں کا پاکستانی ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کے جواب میں استعمال کا امکان بہت کم ہے۔ حالیہ سالوں میں بھارت نے بیلسٹک میزائل ڈیفنس سسٹم کو  ترقی دینے کی کوشش کی ہے تاہم اسے استعمال میں نہیں لایا گیا ہے اور اس بات کا امکان بھی کم ہے کہ اسی سسٹم پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے بھارت  پاکستان کو سیکنڈ سٹرائک کیپبلٹی کی (خود سے) دعوت دے ڈالے یا اکسائے۔

اس ڈاکٹرائن  پر تنقید کے ردِ عمل میں ریٹائرڈ سینئر  بھارتی  نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر شیو شنکر مینن اور سابقہ کمانڈر انچیف آف  انڈیاز سٹریٹیجک  فورسز کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ)  بی-ایس-نگال نے حال ہی میں کہا ہے کہ ڈاکٹرائن بھارت کو  اپنا جواب متناسب انداز میں یا پاکستان کے شہری و عسکری اہداف کو ٹارگٹ بنانے سے نہیں روکتا۔

بلاشبہ جیسا کہا جا چکا ہےبھارت کے پاس پہلے سے ہی متناسب جوہری جوابی وار کی صلاحیت اور طریقہ ِ کار موجود ہے چونکہ یہ ایک باقاعدہ   جوا بی عمل اور بھارت کے موجودہ  آپریشنل یقینی جوابی حملے‘ کے ڈاکٹرائن سے متماثل ہے۔ مثال کے طور پراسکے پاس فشن ڈیوائسز (ایک جوہری آلہ) ہیں جو اس نے ۱۹۹۸ میں پاکستانی (جوہری) پیداوار کے مقابلے میں آزمائیں ۔ اسی دوران بھارت  کی ڈیلیوری کی صلاحیت ، چونکہ بھارت کےلئے یہ ضروری نہیں کہ وہ اسی میدان میں جواب دے جہاں پاکستان اپنے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کو استعمال کرتا ہے، اس لئے وہ اگنی سیریز کے درمیانی مار کے بیلسٹک میزائل اور براہموس سیریز کے کرُوز میزائلوں کو  ڈیلیوری کی صورت یا متبادل کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہ متناسب جوابی  وار  کےلئے کمانڈ اینڈ کنٹرول میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے ، بھارتی سکالر راجیش راج گوپالن  کا کہنا ہے کہ  بھارت  اپنے فضائی بمبار طیاروں کے ذریعے  چھوٹی ساخت کے جنگی  ہتھیار  گرا سکتا ہے جس سے  ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کے استعمال  کے نتیجے میں نا پسندیدہ  نتائج سے بچا جا سکتا ہے۔

متناسب جوابی وار ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کی ترقی اور تعیناتی   کا متقاضی نہیں ہے  اور انکا کنٹرول لوکل کمانڈروں کی اجازت سے مشروط ہے۔ یہ عمل  پاکستان نے شروع کیا تھا تاکہ کسی  کم شدت کے حملے کو ڈیٹر کیا جاسکے۔

نئی دہلی کے روائتی مبصرین  متناسب وار کو بھارت کے پاکستان کو درست   جوہری ردِ عمل نہیں سمجھتے کیونکہ انکا کہنا ہے کہ اس عمل سے جنوبی ایشیا میں جوہری جنگ چھڑ سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں  کہ پاکستان اس حکمت ِ عملی کو مستقبل کے فوائد (جیسا کہ بھارتی روائتی جارحانہ پن کا رک جانا) کے پیش ِ نظر قبول کر سکتا ہے۔ پاکستان کا ایسا اقرار داراصل کچھ اندازاوں  پر مبنی ہو گا جیسا کہ پاکستان یہ اندازہ لگائے گا کہ مسئلہ ایک مناسب حد سے آگے بڑھتے ہوئے  ٹیکٹیکل سطح تک نہیں جائے گا۔ پس اسی بدولت روائت پسندوں نے متناسب وار یا جواب کو رد کر دیا ہے چونکہ یہ پاکستان کو جوہری کشیدگی کو ہوا دینے پر اٰکسائے گا۔ مثال کے طور پر سابقہ وزیرِ خارجہ شیام سرن  نے کہا  “کوئی بھی جوہری مسئلہ اگر ایک دفعہ شروع ہو گیا تو یہ تیزی سے تزویراتی سطح تک پہنچ جائے گا ۔ پاکستان بھی محض اندازے لگانے میں  محتاط ہو جائے گا جیسا کہ وہ بعض دفعہ لگاتا ہے ، اور ( اسی تناظر میں اس نے) حال ہی میں  اپنے جوہری ہتھیاروں کو ترقی دی ہے اور انکی تعیناتی کی ہے”۔

تا ہم بھارتی روائت پسند اس بات کو مدِ نظر رکھنے میں ناکام رہے ہیں کہ بہت بڑاے حملے یا جواب کےلئے بھی داراصل  کشیدگی کو کنٹرول کرنے کے عنصر کو بھی سامنے رکھنا ہو گا چونکہ پاکستان بھارت کے بڑے حملے کے حساب سے اپنے تزویراتی جوہری ہتھیاروں کے ساتھ جواب دے گا۔ شائد اسی  نقطے کو سمجھتے ہوئے شنکر مینن  نے متنازعہ بیان دیا؛

“اگر پاکستان کو بھارت کے مخالف ٹیکٹیکل ہتھیار استعمال کر نے پڑتے ہیں، حتیٰ کہ جب بھارتی فورسز پاکستان میں بھی ہوں ، تو وہ لازمی طور پر بھارت کو فرسٹ سٹرائیک (حملے میں پہل) کی  دعوت دے رہا ہو گا یعنی بھارت اپنی ریڈ لائن عبور کرے گا۔ ایک بار جب پاکستان  دشمنی کو جوہری سطح پر لے جائے گا تو واپسی یا مصالحت کے راستے مخدوش ہو جائیں گے اور کشیدگی کو مزید ہوا ملے گی۔ جب بھارت خود ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار برُوئے کار لائے گا تو وہ پاکستان کو ایک بڑے جوہری حملہ کرنے  کےلئے موقع دینے کا رِسک تقریباً نہیں دے گا “۔

اگر جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے بعد معاملات واقعتاً کشیدہ تر ہو جاتے ہیں  تو پھر جیسے مینن نے کہا  جوہری تصادم سے کم کچھ نہ ہو گا  جو پاکستان کے تمام جوہری اثاثے ختم کر دے  گا –یہ نہ تو متناسب جواب ہو گا اور نہ ہی ایک بہت بڑا حملہ۔ جہاں پاکستان کے جوہری اثاثے ختم کرنے کی بھارتی صلاحیت پر بہت سے سوال اٹھتے ہیں ، وہیں بھارت کا پاکستان کے پاس کچھ قابلِ استعمال جوہری ہتھیار رہ جانے پر اکتفا کرنا بھی گھاٹا نہیں ہو گا۔

لیکن یہ تمام  باتیں اس خیال پر قائم ہیں کہ جوہری کشیدگی میں اضافہ قابو نہیں کیا جا سکے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک دفعہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے بعد کشیدگی کو کنٹرول کرنا  بہت سے چیلنجز کا با عث ہو گا۔ بہر حال جیسا پینسلوانیا یونیورسٹی کے  پروفیسر سٹیفن کمبالا  کا کہنا ہے کہ “ریاستوں پر ورلڈ آرڈر برقرار رکھنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تاہم امن کے حالات (جوہری) جنگ کے شروع ہونے پر قائم نہیں رہتے”۔ وہ مزید کہتے ہیں “ڈیٹرنس جنگ  کو محدود کرنے اور اس سے بچاؤ کےلئے استعمال کیا جا سکتا ہے”۔

متناسب جوابی وار کے ناقدین  کہہ سکتے ہیں کہ  کشیدگی کے بڑھنے پر غوروخوض داراصل پاکستان اور بھارت کے بیچ جوہری جنگ کا باعث بنے گا۔ تاہم جیسا میں پہلے لکھ چکا ہوں، ایک بہت بڑا کاؤنٹر ویلیو جوابی وار  یا اس جیسا خطرہ  بذاتِ خود بھی جنگ کے نہ ہونے کی گارنٹی نہیں دے سکتا۔اس کے بجائے ایسا کرنا “جنگ کو انتہائی بھیانک انجام کی طرف لے جائے گا”۔

ایک اہم عنصر  جو کشیدگی  کو کنٹرول کرنےاور بھارت کے جوہری وار کی صلاحیت  میں اہم ہو گا، وہ  یہ ہے کہ نئی دہلی ممکنہ طور پر کس طرح  کشیدگی کو اپنی مرضی  کے مطابق ڈھالتا ہے۔ بھارت اپنے جوابی وار کو پاکستان کے  اندازوں   کے مطابق کیسے استعمال کر سکتا ہے اور جس سے پاکستان بھارت پر اپنے جوابی حملےاور پہلے حملہ کرنے سے باز رہ سکتا ہے۔ نئی دہلی میں موجود پالیسی سازوں کو  اس بات پر پھر سے غور کرنا ہو گا کہ آیا بھارت کشیدگی کو اپنی مرضی سےیعنی ایک بہت بڑے حملے یا متناسب جوابی  وار میں کیسے ڈھال سکتا ہے  اور ان دونوں میں سے کونسا عمل زیادہ کارگر ہو گا۔

***

.Click here to read this article in English

Image 1: Public.Resource.Org via Flickr

Image 2: Andolu Agency via Getty

Share this:  

Related articles