۲۵ جولائی کو انتخابات میں کامیابی کے بعد تقریر میں وزیراعظم عمران خان نے بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری، تجارتی راستے کھولنے اور کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کو حل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی جواباً عمران کو مبارکباد دی اور کہا کہ وہ “پاکستان کے ساتھ تعلقات کے نئے دور میں داخل ہونا چاہتے ہیں”۔ پاکستان کے نئے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اپنی پہلی پریس کانفرنس میں بھارت کے ساتھ تعلقات کا ذکر کیا اور کہا کہ پرانے مسائل راتوں رات تو حل نہیں ہو سکتے، اس لئے بات چیت کا عمل دوبارہ شرع کرنے کی ضرورت ہے۔
اگرچہ عمران خان نے ابھی تک بھارت کے ساتھ معاملات سدھارنے کا کوئی خاکہ پیش نہیں کیا ہے تاہم حالات نارمل کرنے کی خواہش عمران کی پختگی ظاہر کرتی ہے۔ اس طرح کا کوئی بھی قدم پاکستان کی معاشی بحالی کےلئے ضروری ہے ـــجو کہ خان کی ترجیحات میں سے ایک ہے ـــ کیونکہ بھارت کے ساتھ خوشگوار تعلقات پاکستان کےلئے کثیر فوائد کا باعث ہوں گے۔
معاشی ربط سازی کیوں ضروری ہے؟
قوم سے بحثیتِ وزیراعظم پہلے خطاب میں خان نے ملک کو درپیش معاشی مسائل اور ادائیگیوں کے عدم توازن کو بیان کیا۔ پاکستان کا بیرونی قرضہ ۲۲۹ بلین امریکی ڈالر تک پہنچ چکا ہے اورخان کے مطابق زیادہ قرضہ گزشتہ دس سالوں میں لیا گیا ہے۔ پاکستان نے سود میں توازن لانے کےلئے مزیدقرضے لینا جاری رکھا جس سے قرضوں میں اور اضافہ ہوا۔ ملک کی بیرونی قرضوں پر زیادہ انحصار سے یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ بیرونی قرضہ ۵.۲۱ بلین ڈالر (جی ڈی پی کا ۱.۷ فیصد) سے بڑھ کر ۲۰۲۳ میں ۴۵ بلین (جی ڈی پی کا ۹ فیصد) ڈالر تک جا پہنچے گا۔ اگر اس معاملے کو نہ سدھارا گیا تو ملک مہنگائی کے طوفان میں گھرِ جائے گا۔ ملکی کرنسی کی تیزی سے گرتی ساکھ کے لئے نئی حکومت کو چین کے علاوہ دیگر ذرائع سے بھی بیرونی سرمایہ کاری کی تلاش کرنی ہو گی تاکہ معیشت کا دھارا درست کیا جاسکے۔ اس طرح کے معاشی چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کےلئے پاکستان کو ہمسایوں کے ساتھ بہتر تعلقات کی ضرورت ہے۔
ترقی کرتے بھارت سے سبق ؛
گلوبلائزیش کے اُبھرنے پر بھارت نے ۱۹۹۰ کی دہائی میں اس وقت کے وزیرِ خزانہ منموہن سنگھ (جو بعد میں ۲۰۱۴-۲۰۰۴ وزیراعظم بھی رہے) کی سربراہی میں بھارتی معیشت کواصلاحات کر کے دنیا میں متعارف کرایا۔ معاشی یکسوئی اور موثر سفارتی کوششوں سے بھارت نے دیگر ملکوں سے روابط بہتر کئے اور دنیا میں اپنا مقام بنا ڈالا۔ آج بھارت جاپان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے “پرچیزنگ پاور پیرٹی“ میں دنیا کی تیسری بڑی معاشی طاقت بن گیا ہے۔ اس طرح بھارت ایک بڑی طاقت بننے کی خواہش بھی کر رہا ہے اور اپنے وجود کو معاشی و عسکری طاقت سے منوانا چاہتا ہے۔ تاہم پاکستان ان بھارتی اقدامات کو خطرناک سمجھتا ہے۔ بھارت کے ساتھ سول نیوکلئیر معاہدہ کر کے امریکہ نے بھارت کو خاطر خواہ جوہری فوائد بہم پہنچائے حالانکہ بھارت نیوکلیئر نان پرولیفریشن ٹریٹی (جوہری عدم پھیلاؤ) اور نیوکلئیر سپلائر گروپ کادستخط کنندہ نہیں ہے۔ ۲۰۰۸ میں امریکہ کے ساتھ اس معاہدے نے بھارت کو عالمی جوہری تجارت میں شامل کر دیا اور اس نے انڈو-پیسیفک خطے میں باہمی تزویراتی مفادات میں دونوں ملکوں کو ہم خیال بنا دیا۔
یہ مثال پاکستان کےلئے ایک سبق ہے کہ وہ اپنی استعدادِ کار کو بڑھائے اور بھارت کو ایک طرف رکھتے ہوئے کہ وہ کیا کرتا ہے اور کیا نہیں کرتا، دیگر ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرے۔ بھارت-امریکہ شراکت داری کو پاک-بھارت مذاکرات شروع کرنے میں رکاوٹ نہیں سمجھنا چاہئیے کیونکہ دونوں ملکوں کے بیچ امن پاکستان کی معاشی ترقی کا باعث بنے گا۔
امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا حل؛
عشروں پرانی کشیدگی، اعتماد کا فقدان، علاقائی مسائل اور سرحد کے آر پار دہشت گردی جیسے معاملات مستقبل میں پاک-بھارت دو طرفہ تعلقات کےلئے چیلنجز ہیں۔ بات چیت نہ ہونے کی صورت میں نان سٹیٹ ایکٹرز فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ سرحد پر ایک اور جھڑپ جوہری تصادم کی راہ ہموار کر سکتی ہے اور ایسی فضاء آئندہ بھی قائم رہ سکتی ہے اگر عمران امن کے دنوں میں مذاکرات شروع نہیں کرپاتے۔ مزید برآں کھلے عام روابط اور معلومات کی فراہمی دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں آسانی پیدا کرے گی۔
دونوں ملکوں کے بیچ کشمیر کا تنازعہ آج بھی موجود ہے جس میں کشمیری مسلسل پِس رہے ہیں۔ پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات شروع کر کے کشمیریوں کی اشک شوئی کر سکتا ہے۔ عمران خان کو یہ مذاکرات شروع کرنے کی کوئی پیشگی شرط نہیں رکھنی چاہئیے۔ دیگر معاملات میں تعاون اور اعتماد کے نتیجے میں ملنے والی کامیابی کشمیر تنازعہ کےلئے بھی کارگر ثابت ہو گی۔
بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کےلئے میدان ہموار کرنا؛
بظاہر لگتا ہے پاکستانی عوام نے عمران سے تبدیلی کےلئے خاصی امیدیں وابستہ کی ہیں۔ عمران کو بھارت کے ساتھ مسائل کے حل کےلئے نہ صرف عوامی بلکہ سکیورٹی اداروں کی حمائت بھی حاصل کرنا ہو گی۔ بھارت کے اندر عمران اپنے کرکٹ کیرئیر کو بروئے کار لاتے ہوئے بھارتیوں کو امن کی طرف راغب کر سکتے ہیں۔
وزیراعظم مودی اور عمران دونوں میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ ایک نئی مثال قائم کرتے ہوئے دونوں ملکوں کی عوام کےلئے امن ، سماجی و معاشی ترقی اور خوشحالی کی راہیں کھول سکیں۔یہ امر اب اور بھی اہم ہو گیا ہے کیونکہ صورتحال ایسی ہے جہاں امریکہ اب جنوبی ایشیا میں کشیدگی کم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا کیونکہ اس کی تزویراتی ترجیحات بدل گئی ہیں۔ کم تر عالمی مداخلت کے ساتھ نئی دہلی اور اسلام آباد کو باہمی مسائل خود حل کرنے چاہئیں ، نفرت انگیز تقاریر اور جنگی جنون سے اجتناب کرنا چاہئیے اور ایسا نظام وضع کرنا چاہئیے جس میں بھارت کے ساتھ تعلقات کو ازسرِ نو ترتیب دیتے ہوئے ڈیٹرنس بھی برقرار رہ سکے۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Giridhar Appaji Nag via Flickr Images
Image 2: Arif Ali via Getty Images