رواں ماہ پاکستان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے ایک دہائی تک سالانہ ایک بلین ڈالر خرچ کرے گا۔ یہ فنڈنگ اور قانونی اصلاحات۔۔ جس میں خطے کیلئے باقاعدہ پولیس فورس کی تعینات اورعدالتی نظام شامل ہیں۔۔ قریباً دو دہائیوں سے جنگ کی سختیاں جھیلنے والی مقامی آبادی کا اعتماد جیتنے میں مفید ثابت ہوںگے۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے تاہم وعدہ کی گئی اصلاحات پر عمل پیرا ہونے کے بجائے خطے کے لئے جابرانہ روش اپنائی ہے، جس کی وجہ سے ماضی کے اتحادی برہم اور خطے میں سست روی کا شکار تبدیلیوں پر تنقید کررہے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں استحکام کیلئے ضروری ہوگا کہ گزشتہ ایک صدی سے ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے برعکس ایسی پالیسیاں ترتیب دی جائیں جن کے سبب پاکستان کے مستقبل میں مقامی آبادی بھی شراکت دار بن سکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خان کی حکومت اصلاحات کے عملی نفاذ کو یقینی بنائے، بصورت دیگر یہ قبائلی علاقوں کی وفاداری کھو دینے کے خطرے سے دوچار ہوگی اورعدم تحفظ کی مزید افزائش ہوگی۔
دہشت گردی کیخلاف جنگ کی ان دیکھی قیمت
ماضی کا وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ یا فاٹا قریبا پچاس لاکھ نفوس کا مسکن ہے جن میں سے تقریباً تمام ہی نسل کے اعتبار سے پشتون ہیں۔ انہیں ۲۰۰۱ میں اس وقت سے جنگ جھیلنا پڑی جب پڑوسی ملک افغانستان پر امریکی یلغار کے نتیجے میں ہزاروں طالبان اور القاعدہ جنگجو فاٹا میں داخل ہوئے اور قیادت کے خلا نے انہیں حکومت پاکستان کے خلاف ایک دہائی سے زیادہ تک برسرپیکار رہنے والی ایک مختصر سی جہادی ریاست چلانےکا موقع فراہم کردیا۔
اس وقت، آئین پاکستان ملکی عدلیہ اور پارلیمان کو ان علاقوں میں کسی قسم کے اختیار کے استعمال سے واضح طور پر روکتا تھا اورمقامی آبادی ۱۹۰۱ کے فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن یا ایف سی آر کے تحت زندگی گزارتے تھے۔
اس قانون کے تحت مقامی آبادی کے افراد سے انفرادی حیثیت کے بجائے پورے قبیلے کے طور پر سلوک کیا جاتا تھا نیز مرکزی حکومت جو اولاً برطانوی نوآبادیاتی حکام اور ۱۹۴۷ کے بعد ریاست پاکستان تھی، وہاں انفراسٹرکچر کی تعمیر کی ذمہ دار نہ تھی۔ زمین کی ملکیت پر ہونے والے معمولی تنازعوں سے لے کر قتل تک تمام قسم کے جھگڑوں کو کیسے سلجھانا ہے، یہ فیصلہ قبائلی عمائدین کرتے تھے۔ فاٹا میں بمشکل ہی کوئی سکول، ہسپتال، سڑک یا کسی قسم کی کوئی خدمت کی سہولت دستیاب تھی اور قانون کی رو سے حکومت محض اسی صورت میں دخل انداز ہوسکتی تھی جب کوئی قبائلی فرد ریاست کے خلاف کسی جرم کا مرتکب ہو۔ ایسی صورت میں ریاست اجتماعی سزا سنا سکتی تھی: جیسا کہ قبائلیوں کو یرغمال بنانا، گھروں کو یا پورے گاؤں کو مسمار کرنا یا قبیلے کو علاقہ بدر کرنا۔ اگر آپ فاٹا میں ریاست کے ہاتھوں نشانہ بنتے تو آپ کو کسی باقاعدہ عدالت میں جانے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔
سویلین حکومت کی عدم موجودگی۔۔۔ آزاد میڈیا، عدلیہ اور پولیس کی غیر موجودگی۔۔۔ میں پاکستان کی ملٹری اور انٹیلی جنس سروسز یہ دعویٰ کرسکتی تھیں کہ وہ ۲۰۰۱ سے فاٹا میں طالبان اور القاعدہ کیخلاف کام کررہے ہیں، اور ان کے اس بیانیئے کی قانونی پڑتال کیلئے کوئی باقاعدہ طریقہ کار موجود نہیں تھا۔ خطے میں تقریباً دو لاکھ کے قریب فوجی تعینات تھے، تاہم دنیا کے مطلوب ترین جہادی رہنما ایک عشرے سے زائد کے عرصے تک بڑی حد تک بنا کسی روک ٹوک کے مصروف عمل رہے۔ ایسے میں واشنگٹن نے ڈرون حملوں کو اپنایا؛ فضا سے مزاحمت کاروں کو نشانہ بنانے میں میں ہزاروں کی تعداد میں وہ شہری آبادی بھی نشانہ بنی جس کے پاس شکایت درج کروانے کیلئے کوئی عدالت بھی نہ تھی۔
دہشت گردی کیخلاف جنگ کی قیمت مقامی آبادی نے ادا کی۔ ایک طرف تو مجاہدین قبائلیئوں کو قتل کرتے، جس میں ایک ہزار سے زائد قبائلی زعما شامل تھے، جبکہ دوسری جانب انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں ناکامی پر اسلام آباد بھی انہی قبیلوں کو ذمہ دار ٹھہراتا رہا اور ایف سی آر کے تحت قانونی سمجھی جانے والی اجتماعی سزاؤں کے تحت لاکھوں نفوس کو علاقہ بدر یا پورے کے پورے قصبوں کو مسمار کرتا رہا۔
۲۰۱۸ تک مقامی آبادی پران اثرات کو اسلام آباد میں زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی تاہم اس برس چیزیں تبدیل ہوتی دکھائی دینے لگیں۔ اس برس، بالآخر پاکستان نے فاٹا کو اس کے پڑوسی صوبے خیبر پختونخواہ میں مکمل طور پر ضم کرنے اور مقامی آبادی کو مکمل حقوق فراہم کرنے کیلئے آئین میں ترمیم کی۔ یہ ترمیم اگرچہ عمران خان کے منصب سنبھالنے سے قبل ہوئی تاہم بہت سے پشتون اس کا سہرا عمران خان کے سر باندھتے ہیں، جو بذات خود بھی پشتون ہیں، اور ملک کے ان چند قومی رہنمائوں میں شامل ہیں جو جنگ کی پیچیدگیوں کو اور اس کے فاٹا پر اثرات کو سمجھتے دکھائی دیتے ہیں۔
اصلاحات کا وعدہ جو ایفاء نہ کیا گیا
کاغذوں کی حد تک یہ بہت بڑی پیش رفتیں تھیں، اور خان اور ان کی حکومت نے ریاست کا دائرہ کار فاٹا تک وسیع کرنے کیلئے متعدد اقدامات اٹھائے۔ پاکستان کا قانون، جس میں قتل کو غیر قانونی قرار دینے سے لے کر پریس کو آزادی دینے تک ہر قسم کا قانون موجود ہے، اب تکنیکی طور پر فاٹا میں نافذ ہے۔ مثال کے طور پر تقریباً تیس ہزار کے قریب قبائلی ملیشیا صوبائی پولیس فورس میں شامل کی جاچکی ہے۔ فاٹا میں ہسپتال اور صحت کی سہولیات اب صوبائی حکام کے زیر نگرانی ہیں، اسی طرح سکول اور بنیادی سہولیات جیسا کہ بجلی، پانی اور قدرتی گیس بھی۔ حکومت پاکستان نے سینکڑوں کلو میٹر نئی سڑکوں کا جال بچھانے اور جنگ میں تباہ ہونے والے ہزاروں گھروں کو تعمیر کرنے کیلئے سرمائے کی فراہمی کا وعدہ کیا ہے۔ مزید براں، ۲۰۱۹ میں، فاٹا نے پہلی بار صوبائی اسمبلی کیلئے ۲۱ نمائندوں کو چنا جو پشاور میں انکے بطور نمائندہ قانون سازی کریں گے۔
تاہم، معمولی پیش رفت اور سرمایہ کاری کے سبب یہ سب کھوکھلے دعوے محسوس ہوتے ہیں اور فاٹا میں عملی طور پر قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی۔ وہاں اب بھی پاکستان کی فوج ہی فیصلہ سازی کرتی ہے اور ایسے متحرک ہے کہ گویا اب بھی ویسے ہی قانون نافذ ہیں جو کہ ۲۰۱۸ سے پہلے نافذ تھے۔
یہ مئی ۲۰۱۹ میں اس وقت اور بھی عیاں ہوا جب فاٹا سے تعلق رکھنے والے قانون ساز اسمبلی کے دو ارکان نے شمالی وزیرستان میں اپنے حلقے میں معمول کے ایسے احتجاجی جلسے کی قیادت کی جس کا مقصد مقامی آبادی کی جانب سے فوج کیخلاف گاؤں سے ناروا سلوک کے الزام کی تحقیق کرنا تھا۔ ان افراد کو ایک فوجی ناکے پر روکا گیا، جہاں سپاہیوں نے مبینہ طور پر ان پر گولیاں چلا دیں جس کے نتیجے میں درجنوں مظاہرین مارے گئے۔ قانون ساز محسن داوڑ اور علی وزیر کو گرفتار کرلیا گیا اور ان کیخلاف ریاست کیخلاف اعلان جنگ کا الزام عائد کیا گیا۔ ۲۰۱۸ کی آئینی ترمیم سے قبل، پرانے نظام کے تحت اس کا مطلب یہ ہوتا کہ ان کے پاس کسی بھی عدالت میں اپیل کا کوئی حق نہیں ہوتا لیکن اس بار انہوں نے پاکستانی عدالتوں میں کیس دائر کئے۔ ان افراد کو رہا ہونے میں مہینوں لگے لیکن اس مئی شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں ہونے والے اس مبینہ قتل عام کی تحقیقات ابھی تک نہیں ہوئی ہیں۔
اس کے بعد سے، جیسا کہ داوڑ، وزیر اور دیگر کی جانب سے ٹھیک ہی نشاندہی کی گئی کہ اسلام آباد کی جانب سے فاٹا میں سالانہ ایک بلین ڈالر خرچ کرنے کے دعویٰ کا ٹھوس شکل میں دکھائی دینا ابھی باقی ہے۔ ۲۰۱۹ میں اسلام آباد نے فاٹا کیلئے ۵۴۰ ملین ڈالر کا وعدہ کیا تھا تاہم اس کی دس فیصد سے بھی کم رقم مقامی منصوبوں پر خرچ کی گئی۔ فاٹا میں اب اگرچہ اجتماعی سزا کا تصورغیر قانونی ہونا چاہئے، پاکستانی ملٹری کو اب بھی مقامی آبادی کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنے کی کھلی چھٹی حاصل ہے جیسا کہ اسے ۲۰۱۸ کی ترمیم سے قبل حاصل تھی۔
داوڑ اور وزیر تنہا نہیں ہیں: آج افغان سرحد کے ساتھ رہائش پذیر پشتون اقلیت میں نچلی سطح سے شروع ہونے والی تحریک کی صورت میں کئی رہنما موجود ہیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ یا پی ٹی ایم ملکی دفاعی اداروں کی جانب سے لسانی اقلیتوں بالخصوص فاٹا سے روا رکھے جانے والے سلوک کو یکسر تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔
تحریک کے کارکنان فاٹا کے اندر اور باہر بڑے پیمانے پر احتجاجی جلسے کرچکے ہیں اور انہیں افغانستان کے رہنمائوں تک سے بھرپور حمایت حاصل ہے جس کی وجہ سے ممکنہ پشتون علیحدگی پسندی کے خدشات کے پیش نظر یہ تحریک خان اور انکی حکمران جماعت کی حمایت کھو چکی ہے۔ بجائے اس کے کہ خان اصلاحات اور فنڈنگ کے عمل کو آگے بڑھاتے جس کی وہ عرصے سے حمایت کرتے آئے ہیں، آج حکمران جماعت اپنا زیادہ تر وقت داوڑ، وزیر اور دیگر پی ٹی ایم رہنمائوں کو غیر ملکی ایجنٹ ثابت کرنے میں گزارتی ہے، جو کہ پاکستانی سیاست میں لگایا جانے والے ایسا الزام ہے جس سے پیچھا چھڑانا ناممکن ہے۔ داوڑ، پی ٹی ایم کے دیگر رہنمائوں کے ہمراہ اس ہفتے ایک بار پھر پاکستان میں گرفتار کئے گئے ہیں۔
اس سیاسی کھینچا تانی اور بغاوت کے الزامات کے کہیں بیچ، قبائلی علاقے میں جنگ کی سختیوں سے ملنے والا ایک سبق پوشیدہ ہے : آپ دہشتگردی کو اس وقت تک جڑ سے نہیں اکھاڑ پھینک سکتے جب تک آپ مقامی آبادی کو بنیادی انسانی حقوق نہ فراہم کردیں اور انہیں ایک پاکستانی قوم کے تصور میں حصے دار نہ بنا لیں۔ جب پاکستان کو فاٹا سے مجاہدین کی جڑ کاٹ ڈالنے کا موقع ملا تو انکے پاس قبائلیوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے ماسوائے اجتماعی سزا کے تصور کے، پیش کرنے کو اورکچھ نہیں تھا۔ اگرچہ بعض پشتونوں کو ملٹری اوربیوروکریسی میں جگہ دی جاچکی ہے تاہم یہ اطمینان بخش حد سے بہت کم ہے۔ اگر مقامی آبادی کے پاس ۲۰۰۱ میں ریاست کا نظام چلانے کیلئے باقاعدہ انتظامات ہوتے تو شائد طالبان جیسے گروہوں کو قبائلی معاشرے میں وہ افراد نہ ملتے جو ان کی حمایت کیلئے تیار تھے اور جنہوں نے یکسر قانون کی غیر موجودگی کے مقابلے میں انتہا پسند عدل کوترجیح دی۔
حاصل بحث
۲۰۱۸ میں پاکستان نے فاٹا میں رہنے والے لاکھوں نفوس کو بنیادی حقوق فراہم کرنے کے ذریعے سے انتہائی اہم اولین قدم اٹھایا تھا تاہم اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ اپنی منزل سے بھٹک رہا ہے۔ اب جبکہ قانونی دائرہ کار طے پاچکا ہے، قبائلی علاقوں کو سکولوں، ہسپتال،سڑکوں، تھانوں، جیلوں، عدالتوں اور ان تمام بنیادی خدمات کیلئے بھاری پیمانے پر فنڈز کی ضرورت ہے جو کوئی بھی ریاست فراہم کرتی ہے۔ عمران خان اور ان کی جماعت فاٹا کی مقامی آبادی میں بے حد مقبول تھی، وہ انہیں اپنے جیسا ہی ایک ایسا شخص سمجھتے تھے جو قبائلی علاقوں میں ہونے والے سانحہ کو سمجھتا تھا۔ تاہم اقتدار میں آنے کے بعد سے وہ انہیں بڑی حد تک تنہا چھوڑ چکے ہیں۔ دانشمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ اس خطے کی آوازوں کو ایک بار پھر سنا جائے اور فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کی ضرورت کو سمجھا جائے تاکہ یہ دوبارہ کبھی بھی عالمی جہاد کیلئے ایک محفوظ ٹھکانہ نہ بن سکے۔
***
.Click here to read this article in English
Image 1: FATA Committee via Flickr
Image 2: AFP via Getty Images