Jama Masjid, Srinagar


ایسے وقت میں جبکہ کشمیر  میں اس دہائی کا ہولناک ترین سال اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا، کشمیر کی تاریخی جامع مسجد میں ۲۸دسمبر کو نوجوانوں کے ایک نقاب پوش گروہ نے نمودار ہو کر سیاہ جھنڈے لہرائے ۔۔۔جو کہ عراق اور شام کی ”اسلامی ریاست“ یا داعش سے منسوب کئے جاتے ہیں۔۔۔اور انہوں نے دولت الاسلام کی حمائت میں نعرے لگائے۔ کشمیر کی وسیع سیاسی بساط پر پھیلی سیاسی جماعتوں نے اس واقع کو جامع مسجد کی بےحرمتی سمجھتے ہوئے یک آواز ہو کر مذمت کی۔ محبوبہ مفتی، سابق وزیر اعلیٰ کشمیر نے حق خود ارادیت کے حامی کشمیری لیڈر میر واعظ عمر فاروق کو اپنے شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ”چند نوجوانوں کا داعش کا جھنڈے لے کر سرینگر کی جامع مسجد میں آنا کشمیر کے سب سے اہم مذہبی اور ثقافتی ادارے کی بےحرمتی ہے۔“ میر واعظ نے بعد میں کہا کہ محبوبہ مفتی کا اس موقع پر غصے کا اظہار ”ستم ظریفی“ ہے جبکہ یہی مسجد ان کی حکومت نے ۲۰۱۶ میں ۱۸ہفتے بند رکھی اور اسکے بعد بھی یہ مسجد کئی موقعوں پر بند رہی۔ لعن طعن کی اس شدت سے قطع نظر یہ بات بالکل واضح ہے کہ سیاسی تقسیم کے دونوں اطراف کی جماعتیں۔۔۔بھارت حامی اور خود ارادیت کی حامی جماعتیں۔۔۔اسلامی ریاست کے ان پھیلتے ہوئے تیزوتند نعروں کا دباؤ محسوس کر رہی ہیں۔ کوئی سائڈ بھی اس حدّت کو نظرانداز کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

مذہب نے کشمیر کی حالیہ تاریخ کے خدوخال بنانے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے اور جامع مسجد اس تاریخ کے ممتاز کرداروں میں ایک نمایاں کردار کے طور پر کھڑی نظر آتی ہے۔ ۱۹۳۰ کی دہائی میں اس وقت کی برسر اقتدار ہندو راشٹرا حکومت کے خاتمے کےلئے ایک منظم سیاسی تحریک اسی مسجد سے چلائی گئی تھی۔ ڈوگرہ ریاست، جو ۱۸۴۶ کے معاہدہِ امرتسر کے تحت وجود میں آئی جس میں انگریزوں نے کشمیر کی آزادی کے معاملات ”حاکم کی ذات، نہ کہ عوام کے ساتھ“ کی بنیاد پر طے کئے، نے ہندو مذہب کو اپنی حکمرانی کو جائز قرار دینے کےلئے استعمال کیا۔ ان حالات نے مسلمان رعایا کو اسلام کے جھنڈے تلے منظم کر دیا۔ اس دور کی مسلم قیادت نے ڈوگرہ راج کے اس امتیازی سلوک کو اسلام کےلئے ایک خطرہ سمجھا۔

 اس وقت سے جامع مسجد وادی کی سیاست کے مختلف اتار چڑھاؤ کی چشم دیدہ گواہ رہی ہے۔

 شیخ عبدالّلہ ، نیشنل کانگریس کے بانی اور کشمیر کی تاریخ کے سب سے زیادہ ممتاز سیاسی لیڈر، نے اسلامی استعاروں اور علامتوں کو عوام کی حمائت حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا اور ساتھ ساتھ سیکولر سیاست کے لئے پسندیدگی کا اظہار بھی کرتے رہے۔ اس کے آغاز ہی سے کشمیر میں بغاوت کو بھارتی مبصرین نے ایک مذہبی تحریک قرار دیا ہے جو کہ پاکستان کی پشت پناہی کے بل بوتے پر ایک اسلامی ریاست قائم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اسی دوران حق خود ارادیت کی حامی حریت کانفرنس اور اسکے مختلف حلقے، اور اسکے علاوہ حزب المجاہدین جیسے باغی گروپس ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ کشمیر میں مسلح جدوجہد بھارت کی ریاست کے خلاف سیاسی، نہ کہ مذہبی نوعیت کی ہے۔ تاہم ان کا یہ بیانیہ بھی ان کو اپنی مسلح جدوجہد کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے اسلام سے حوالہ جات حاصل کرنے سے روک نہیں سکا۔

نقاب پوش نوجوانوں کے داعش کی حمائت میں نعرے لگانے کے کچھ دن بعد ہی میر واعظ عمر فاروق نے ایک پبلک ریلی کی قیادت کی جو کہ ان کے بقول مسجد کی بے حرمتی کے خلاف تھی۔ اسکے علاوہ انہوں نے مسجد کو پاک کرنے کی ایک مہم کی سربراہی بھی کی۔ ریلی میں میر واعظ کے حامیوں نے ”اسلام زندہ باد“ کے نعرے بھی لگائے۔ وہ لوگ جنہوں نے کالا جھنڈا لہرا کر داعش کی حمائت میں نعرے لگائے اور وہ لوگ جو میر واعظ کی قیادت میں احتجاج میں شریک ہوئے، دونوں ہی مذہبِ اسلام کے دوام پر یقین رکھتے ہیں اور دونوں ہی اسے ایک دوسرے کے خلاف استعمال بھی کرتے ہیں۔ داعش کے حامی نوجوان حریت، علیحدگی پسند جماعتوں اور قائدین کا اتحاد، اور اسکے حامیوں کو طاغوتی نظام (اسلامی اصطلاحات میں ایک ایسا نظام جو الّلہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق قائم نہ ہوا ہو) پر یقین رکھنے والا سمجھتے ہیں۔ جبکہ حریت والے داعش کو کچھ اسلام مخالف ایجنسیوں کی پشت پناہی کی وجہ سے برسرِ پیکار سمجھتے ہیں۔

کون اسلام کے حقیقی وژن کی نمائندگی کر رہا ہے؟ اس مشکل سوال کا جواب دینا آسان نہیں کیونکہ دونوں اطراف یہ سمجھتی ہیں کہ وہ ہی اصل اسلام کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ البتہ سیاسی نقطہِ نظر سے دیکھا جائے تو حریت اپنی خود ارادیت کی تحریک ک چلانے کے لئے لوگوں کو بڑے پیمانے پر متحرک کرنے کے لئے اسلام کو استعمال کر رہی ہے جبکہ داعش اسلام کو ایک اسلامی ریاست قائم کرنے کے لئے اپنی  منزلِ مقصود سمجھتی ہے، اگرچہ ان کا طریقہِ کار بمشکل اسلامی ہے۔

کشمیر میں بھارت کے خلاف کی جانے والی مسلح جدوجہد، اور جس طریقے سے داعش اور اسکے ساتھی اسلامی ریاست قائم کرنا چاہ رہے ہیں، میں ایک بنیادی فرق ہے۔ کشمیر کے اندر اور کشمیر کے بارے میں ہونے والا تنازعہ، جس کو بین الاقوامی مبصرین داعش کے لئے ایک پرکشش موقع سمجھتے ہیں، پچھلے دس سالوں میں ۴۰۰۰انسانوں کی جان لے چکا ہے۔ تاریخی طور سے کشمیر میں بغاوت ”نچلی سطح سے انقلاب“ کا معاملہ رہا ہے جس میں مذہب عوام الناس کو بالکل نچلی سطح پر متحرک کرنے کے لئے استعمال کیا گیا جبکہ مقصد خالصتاً سیاسی نوعیت کا تھا۔ اس کے برعکس داعش کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ”انقلاب اوپر کی سطح سے“ کی سوچ رکھتی ہے، کیونکہ داعش اسلامی ریاست کی حاکمیت کو بغیر مقبول حمایت کے ہی قائم کرنا چاہتی ہے۔۔۔یا کم از کم عوام کی حمائت کو نمایاں کئے بغیر ہی۔ بہرحال، داعش پاکستان اورافغانستان میں خود کش حملے کروا کر جنوبی ایشیا میں اپنی موجودگی کا اعلان کر چکی ہے۔

داعش کا طریقہِ کار اس بات کینشاندہی کرتا ہے کہ عوام کے اندر موجود دشمنوں کے ساتھ وہی رویہ رکھا جانا چاہیئے جو باہر کے دشمنوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ عوام کے اندر موجود دشمن کی شناخت کرنا ایک ایسا پیچیدہ عمل ہے جسکے بارے میں کشمیری ذہن اجتماعی طور پر غالباً ابھی تک تیار نہیں۔ ماضی میں اجتماعی تشدد کے واقعات کی خود ارادیت کے حامی قائدین مذمت کرتے رہے ہیں۔ اسکے علاوہ ”دولت الاسلام“ کی حمائت میں نعرے بازی اور جھنڈوں کا لہرانا مجموعی طور پر شہری مراکز۔۔۔ بنیادی طور پر سرینگر ۔۔۔تک ہی محدود رہا ہے۔لیکن حالیہ دنوں میں ایسے واقعات دارلخلافہ کے جنوب میں بھی دیکھے گئے ہیں۔

اس وجہ سے داعش اور اس سے منسلک افراد اپنے تشدد کے طریقہِ کار کو کشمیر میں اپنانے میں اب تک ناکام رہے ہیں۔ داعش کے کالے جھنڈےسب سے پہلے ۲۰۱۲ میں نمودار ہوئے اور پچھلے چھے سالوں کے دوران باغی گروپ جنہوں نے داعش سے وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے، ریاست میں ۲۰سےزائدممبر اکٹھا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ دوسری طرف دیگر تنظیموں، جیسے حزب المجاہدین، لشکرِ طیبہ، اور جیشِ محمد، نے قابلِ ذکر حد تک اپنی ممبرشپ برقرار رکھی ہوئی ہے، غالباً اپنی اس لمبی تاریخ کے سبب جس میں وہ ہر اس چیز کو اپنا ہدف بناتے رہے جو بھارتی ریاست کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ تاہم حال ہی میں حزب المجاہدین نے بھارتی فوج کے سولین مخبروں کے خلاف تشدد کی کاروائیوں کو نشر کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایسی کاروائیوں کا ظاہر کرنا غالباً مختلف گروہوں کے درمیان بڑھتی مقابلہ بازی کی علامت ہو سکتی ہے۔

حکمتِ عملی کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو  کشمیر میں قابلِ ذکر نقصان پہنچانے میں داعش ابھی تک ناکام نظر آتی ہے۔ حملے کرنے کے لئے اسلحہ و بارود اور افراد کی کمی ان کی آگے بڑھنے کی صلاحیت میں رکاوٹ ہیں۔  اگرچہ دوسرے علاقوں میں جنگی کاروایئوں میں کامیابی حاصل کرنے کی وجہ سے داعش کو مقبولیت حاصل ہوئی ہے لیکن کشمیر میں ان کی موجودگی زیادہ تر صرف علامتی ہے۔ البتہ وادی میں مذہب اور بغاوت کے پیچیدہ تعلق  کی وجہ سے داعش ایک خطرہ بن سکتی ہے اگر طریقہِ کار اور منزلِ مقصود کی بحث کسی نتیجہ پر نہیں پہنچتی۔ اس مقام تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ حریت کانفرنس جو مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے اسکی کھل کر وضاحت کرے، نہ کہ اپنے آپ کو تحریک کے طریقہِ کار کے بارے میں بیان بازی تک ہی محدود رکھے۔ کالے جھنڈوں کے لہرانے کے بڑھتے ہوئےواقعات۔۔۔جیسے جامع مسجد میں ۲۸ دسمبر کا واقعہ۔۔۔داعش کی جانب بڑھتی ہوئی ہم آہنگی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اور اگر اس رجحان کو نظر انداز کیا گیا تو یہ واقعات محاوراتی چنگھاری بن کر حریت اور مسلح جدوجہد کے دوسرے دیرینہ نمائندوں  کو جلا کر راکھ کر سکتے ہیں۔

Click here to read this article in English.

Image 1: Wikimedia Commons

Image 2: Tauseef Mustafa via Getty Images

Share this:  

Related articles

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا Hindi & Urdu

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا

کواڈ کے نام سے معروف چار فریقی سیکیورٹی ڈائیلاگ کے…

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع  Hindi & Urdu

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع 


سرد جنگ کے دوران جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات…

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…